Sunday, December 23, 2012

ہم حالِ دل سنائیں گے ۔ سنیے

 
السلام علیکم
 
میرے ُمعّزز بھائیوں اورپیاری بہنوں :۔ یہ تحریر میں نے پچھلے سال اپنے دوسرے بلاگ میں پوسٹ کی تھی۔ سوچا یہاں بھی کردوں۔۔ لیجئےحاضرخدمت ہے   

آج کل کچھ فرصت میں ہوں دل چاہا کہ کچھ آپ سب سے باتیں کرکے اپنا جی ٹھنڈا کروں یعنی پھر سے آپ کے کان کترنے لگو یا دماغ کھانے کچھ بھی کہہ لیے مگر کچھ اپنے قیمتی لمحہ آپ مجھے بہن کا حق سمجھ کر عنایت کرہی دیے توبڑی مہربانی
تو جناب اس ویک اینڈ پر میری ایک بہت پرانی ملاقاتی میرے گھر آئی میں نے ان کی اوران سے تعلق رکھنے والے سب ہی کی خیریت پوچھی اور سلام کہنے کہتی رہی جب میں نے انکی پڑوس میں رہنے والی نند کو سلام کہا تو کہنے لگی ہاں(کچھ کھیچتے ہوئے) یاد رہا تو کہہ دونگی میں نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا ایسے کیوں کہہ رہی ہو؟ تو کہنے لگی اب کیا بتاو چند دن پہلے میرے گھر آئی تھی کہنے لگی بچوں کو اسکول میں چھٹیاں ہیں ہم بحرین گھومنے جارہے ہیں اس ہی لیے میں ابھی تمہیں کرسمس اور نئے سال کی مبارک باد دینے آئی ہوں مجھے بہت غصہ آیا میں نے بھی اسے کہہ دیا کے نہ ہم کرسمس مناتے ہیں اور نہ نیا سال بس یہ بات پر بہت لےدے ہوئی ۔۔۔
 
  

 بعض دوست ایسے ہوتے ہیں جن کو جو چاہے کہا سناجاتا ہے جیسے پانی میں لکڑی مارنے سے پانی کچھ ہی دیر میں ایک ہوجاتا ہے انکا حال بھی ویسے ہی ہوتا ہے اور ایسے دوست کو خوب چھیڑنے میں مزہ بھی آتا ہےمیں شہد کے چھتّا ہلانے کے ارادے سے کہا اس میں غلط کیا ہے جہاں تک مجھے معلوم ہے عیسٰی علیہ السلام پر اللہ نے سلامتی بھیجی ہے عسٰی علیہ السلام پر ہمارابھی ایمان ہے وہ اللہ کے پیغبر ہیں اور ان کی تعریف بیان کی گئی ہے اور نئے سال کے بارے میں کہا کہ میاں کو تنخواہ اسی حساب سے ملتی ہے گھر کا خرچہ بھی وہی تاریخ کے ساتھ لکھتی اور کرتی ہو بچوں کے اسکول کے ہر نوٹ بک پر وہی تاریخ لکھی ہوتی ہے جو میل کرتی ہو اس میں بھی وہ ہی عسوی حساب ہی لکھی رہتی ہے۔ اور پھر وہ محترمہ تمہاری نند اور پڑوسن بھی ہیں کیا تمہیں یاد نہیں پڑوس کا حق بہت ہی زیادہ ہے یہاں تودو، دو حق بنتے تھے۔پھر ہمارے درمیان بہت بحث کے بعد اس نے کہا کہ سچ میں مجھے ایسے نہیں کرنا چاہیے تھا ان شاء اللہ آتے ہی میں خود ہی اس کے پاس جاونگی تو میں نے اس سے پھر کہا کہ تم بہن سے بات کرلو مگر ہمارا سال تو پہلی محرم سے شروع ہوتا ہے ۔ میری اس بات سے یہ مت سمجھ لینا کہ اس نئے سال کو لے کر جوجشن منائے جاتے ہیں فحاشی وعریانی اور بے بیہودگی سے بھری محافل وپروگرام کا انعقاد کرتے اور اس میں شریک ہوتے ہیں اور اس کو ٹی وی پردیکھنا میں اچھا سمجھتی ہوں نہ سمجھو یہ سب کوتو میں بھی پسند نہیں کرتی ہاں دوسروں کو خوش کرنے صرف کہنے تک ہی کہنا اور اپنا محاسبہ کرنے ٹھیک ہے ۔ ہمیں عسوی کے ساتھ اپنے بچوں کو قمری مہینوں کے نام بھی یاد کروانے ان کے سامنے اپنے روز مرہ کے معمولات کو قمری حساب سے ترتیب دینےچاہیےجیسے چھٹیاں ،شادی ،کسی کے آنے یا جانے کا دن یاد رکھنا وغیرہ ہمارا اسلام بہت سادہ مذہب ہےاور سادگی کو پسند کرتا ہےخرافات ،لغویات،اور بے جا حرکتوں کے لئے اسلامی معاشرہ میں کوئی کنجائش نہیں ہے اسلام ہمیں اللہ کی فرمابرداری اور خلقِ خدا کی خدمت سیکھاتا ہے۔ ہمارے دو عیدیں ہیں وہ ہی امیر غریب مل کر خوشی خوشی گزار لے تو بس ہے ان میں ہی نہ جانے کتنے لوگوں کو نئے کپڑے نہیں بنتے ہونگے کتنوں کے گھر چولہے نہیں جلتے ہوگئے۔
 
 
 مجھے اچھے سے یاد ہے جب میں بارہ سال کی تھی میرے بھائی صاحب کا انتقال ہوگیا تھا وہ ہی ہمارے گھر کے واحد کمانے والے تھے بابا کا وظیفہ بہت تھوڑا تھا اب ٹیچرز کو بہت ملتا ہے جب ایسا نہیں تھا ہم پر ایک ساتھ دو مصیبت آئی ایک بھائی کا غم دوسرے معاشی بد حالی بابا پرامی کے ساتھ ہم دو بہنوں اور ایک بھائی کی بھی ذمہ داری تھی۔ اس ہی زمانے میں بقرعید کی عید آئی مہینے کا آخر تھا گھر میں تین دن سےکچھ نہیں تھا عصر کا وقت ہوگیا کوئی نہیں آئے اس پر امی کچھ بے چین ہوکر کہنے لگی پہلے نماز کے ساتھ ہی لوگوں کا آنا شروع ہوجاتا تھا اب ہمارے حالات کے ساتھ رشتہ دار بھی بدل گئے بابا تو اس وقت بھی زبان سے شکر ادء کرتے ،کہے اچھا ہوا ہم مہمان کی خاطر ٹھیک سے نہیں کرسکتے تھےشاید عید کی مبارک باد اس غم کے بعد دینے کترا رہے ہونگے ۔۔ امی ِادھر اُدھر سے کچھ پیسےڈھونڈ ڈھانڈ کرجمع کرکے  دودھ ،چائے کی پتی خرید رکھی تھی مہمانوں کی چائے کے لئے پھر عصر کے بعد سب ایک کے بعد ایک آنے اور گوشت دینے لگے امی کچھ ضیافت نہ کرنے پر معافیوں کے ساتھ چائے عطر دیتی پھر ہم نے اس رات صرف نمک ڈال کر گوشت ُابال کر کھایا تھا الحمدللہ آج اللہ نے وہ دن نہیں رکھے مگر آج بھی جب بھی کوئی غریب کو دیکھتی ہوں مجھے وہ اِبتلا کا دور یاد آجاتا ہے۔
 
 
اگر اللہ ہمیں بہت دیں توہمیں چاہیے کہ ہم بیکار کاموں میں خرچا کرنے کے بجائے کسی کی ضرورت پوری کردے ان کی دنیا اور ہماری آخرت کا سامان ہوجائے گا۔وقت ہماری دسترس میں نہیں ہے . بے وجود ہونے والی تیزگام زندگی مٹھی میں پکڑے جانے والی نہیں برف کی طرح گھل رہی ہے پگھل کر گھٹنے لگی ہے ہمیں اس پر اختیار ہی نہیں اور نہ قدرت ہے محدود وقت کےلئے ہی سہی بس ہم زندہ رہنے تک اختیار ہے اسی کو غنیمت جانے ہم ان لمحوں کو زندگی کا حاصل بنالے جو ہمیں میسر ہے اپنی صلاحیت اور محنت سےاپنی زندگی بامقصد بنالے نیکی اور خیر کی طلب کرے شر سے پناہ مانگےخامیوں سے پاک تو کوئی بشرنہیں ہے مگر اچھے سے اچھے بنے کی کوشش کرےسچی سیدھی رہ کو اپنائیں دوسروں کو خوشی دینے کی سعی کرے اپنے سے دکھ اور نقصان نہ پہچائے کسی کو،حق دار کو انکے حق دینے میں کبھی کوتاہی نہ کرے فرائص کا خاص خیال رکھے ۔اپنے لئےنفع بخش اور دوسروں کےلئے راحت بخش یہ شروع ہونے والا سال بنائے ۔ اللہ ہم کوعمل کی توفیق عطا کرے اور اللہ پاک جو سال گزار گیا اس میں ہونے والے ہم سب کی غلطیوں خطاوں کو تو معاف فرما دے ۔ ہم مسلمان ہیں ہر موقعہ پر تیرے ہی بارگاہ پر حاضر ہوکر فریاد کرتے ہیں تو قبول فرما جو ہمارے حق میں بہتر ہےاے مالک حقیقی ۔۔۔

ان دعاوں کے ساتھ اجازات دیجئے گا بہت شکریہ میرے اس حال ِدل سنے کےلئے ۔اگر کوئی بات غلط لگی تو ضرور بتایے میں تو بس اپنے دل میں آنی والی باتیں آپ سب کو اپنا سمجھ کر کہہ لیتی ہوں۔۔۔۔۔۔۔
 
 

کرسمس پردرویش بھائی کا یہ بلاگ بھی آپ ضرور پڑھیے گا بہت معلوماتی ہے ۔

Saturday, December 15, 2012

عورت کی خاص ملکيت

 
 
السلام علیکم
 
 
میری پیاری بہنوں اور عزیز بھائیوں :۔ آج میں آپ سب سے ایک سوال کرنا چاہتی ہوں اور چاھتی ہوں کہ مجھے آپ ضرور بہ ضرور جواب دیجئے گا چاھے وہ میرے مخالف ہی کیوں نہ رہے مجھے آپ کی رائے پا کر بہت خوشی ہوگی پیشگی شکریہ ۔۔۔۔
 
 
ویسے تو رونا کئی وجہ سے آتا ہے  کہتے ہیں جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو وہ شیطان کے چھونے  سے رونے لگتا ہےتو کوئی دنیا میں آنے سے روتا ہے کہتے ہیں اور ڈاکٹرز کچھ اور رونے کی وجہہ بتاتے ہیں ۔ بچے بھوک ہو یا درد ہر صورت میں  رو کر ماں کو مدد کے لئے بلالیتے ہیں ۔کچھ بڑے ہوتے ہیں تو اپنی من مرضی کے کھانے کھلونے وغیرہ رو کر حاصل کرلیتے ہیں ۔ دیکھا جائے تو حضرتِ انسان پیدائش سے مرنے تک کئی کئی بار کئی کئی  وجہہ سے روتے رہتا ہے  رونا بھی کئی قسم کا ہوتا ہے اور کئی  وجہوں سے آتا ہے جیسے غریب و مجبور اور بے بس کا رونا واجبی ہوتا ہے  بہتوں پر یہ بے اثر ہوتا ہے مگر ابھی کچھ اللہ کے بندوں ہیں جن کے دل ابھی بھی ان سے پگھلتے ہیں ۔ رونا کسی نعمت کے ملنے کے بعد کھونے پر بھی آتا ہے اور کسی کے جدا ہونے پر بھی رونا بے اختیار آجاتاہے اور کبھی عزت ناموز پر انگلی اٹھانے ، مالی نقصان اور کسی چیز کی محرومی پر بھی رونا آنے لگتا ہے۔اپنے اور اپنے پیاروں کی دکھ بیماری  دیکھی نہیں جاتی  اور پھر رونے  لگ جاتے ہیں ۔ کبھی دھوکا کھا کر انسان روتا ہے توکبھی کسی کی دل آزاری رولادیتی ہے اور کبھی دل کا لگانا رونے کی وجہ بنتا ہے تو کبھی کسی کا دل لگتا ہوا دیکھنا  رونے کا باعث ہوتا ہے ۔اب میں کتنے رونوں کا رونا رو سکتی ہوں حسرت ، خود غرضی ، بے حسی ، حرص و ہوس  ، دنگا و فساد اور تباہی و بربادی ، مالک و قومیت ، نسب ورنگ ،  مذہیب ،خاندان کی لڑئیاں  اور بھی کئی باتیں ہیں جو ہمیں  کسی نہ کسی بات پر آزرُدہ خاطر اور رونے مجبور کرتے ہیں میں آج اس رونے کی بات نہیں  کرنا چاھتی کیونکہ  ہمارے بزرگ فرماتے ہیں کہ اللہ کوبھول کر ہنسنا بھی جُرم ہے اور ان کو بھول کر رونا بھی جرم ہے مجھےحضرت عثمان رضی اللہ   کا قول بھی یاد آرہا ہے ۔ جنت کےاندرروناعجیب ہےاوردنیاکےاندرہنسناعجیب ترہے۔اور ۔حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں صبرمیں کوئی مصیبت نہیں اوررونےمیں کچھ فائدہ نہیں۔اس لئے بزرگ اللہ کے خوف سے روتے ہیں  ۔ تلاوتِ قران کبھی رونے کی وجہہ ہوتی ہے تو کبھی حضور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی محبت اس کا سبب ہوتی ہے۔ خیر میں اپنی بات کی طرف آتی ہوں
 
 
 تو عزیزوں میرا  ان سب طرح کے  رونے  بیان کرنے کا کوئی اردہ  نہیں تھا بس بات سے بات دماغ میں آتی گئی اور میں ایویں لکھتے گئی آج  میری تحریر کا ایک ہی  مقصد تھا کہ میں اس رونے کا ذکر کروں جس  سے شاید آپ سب ہی کبھی نہ کبھی  اس رونے کا سامنا کر ہی چکے ہوگے اس رونے کو عورت کی خاص ملکيت  بھی کہا جاتا ۔   جس کے آگے تیس مارخاں ،راجہ پرجا سب ہی بنا تھکے کے ہار جاتے ہیں اور اس رونے نے تو ہمیشہ سب کو ہارا دیا  ہمیشہ  فتح کا چھنڈا لہرلیا  کبھی اس کا وار خالی نہیں جاتا ۔شکاری خود شکار ہوجاتا ہے اس کے آگے ہتیار والے بھی کند ہوجاتے ہیں۔ جی جی آپ ٹھیک سمجھے میں عورت کے ان قیمتی آنسو کی بات کررہی ہوں۔جو بہت انمول ہوتے ہیں      
 
 
سچ ہی تو کہتے ہیں رونا عورت کا ہتیار ہوتا ہے اور یہ طاقت بھی اور کمزوری بھی سمجھا جاتا ہے ۔ میں نے خود دیکھا ہے اسے ایسے ایسے مشکل وقت میں استمعال کرکے بڑے بڑے مسائل اپنے حق میں کروالئے گئے ہیں۔
 
 
  میں بھی ایک عورت ہی ہوں مگر افسوس مجھے رونا نہیں آتا جس کی وجہہ سے میں ایک نارمل عورت نہیں کہلائی جاسکتی  ۔ میرے بچے اپنی بیوی میں اس بات کو نہ پا کر مجھے ایک محبت کرنے والی ماں کے ساتھ دنیا کی سب سے الگ ماں سمجھتے ہیں اور اپنی بیوی سے اس بات کی امید کرتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ وہ بھی ایسی کیوں نہیں ہے ۔ میاں کو ہمیشہ اس بات کا احساس رہا، جب بھی زیادتی ہوگی یہ کچھ نہ کہےگی یہ ضبط کرلے گی ۔ اپنے ، پرائیوں کی زیادتی پر چپ رہنے پر کڑھتے ہیں پوچھتے ہیں تم کیوں لوگوں سے ڈرتی ہو کیا تم دوسروں کا کھاتی ہو جو ان کی بات پر یوں خاموش ہو جاتی ہو تمہیں بیوقوف بناتے ہیں ۔ حق بات کہنے کی ہمت کرو وغیرہ وغیرہ۔ اور کبھی تو مجھے سخت دلی تو کبھی بزدل کے طعنہ بھی ملتے ہیں ۔ ایسا نہیں کہ مجھے  رونا نہیں آتا ،آتا ہے مگر اکیلے میں کسی کی موجودگی میں ایک آنسو بھی نکلنا محال ہے میرے لئے میں اس محروم  پر کبھی خود حیران ہو جاتی ہوں ۔ میں ایک ایسی عورت ہوں جس کا اپنا  قیمتی ہتیاراس کے پاس نہیں۔ میں خود کو کمزور عورت سمجھتی ہوں مگر میرے پاس کمزوی کی سب سے خاص نشانی نہیں ۔ میرے پاس عورت کی وہ مخصوص  ملکیت نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس لئے شاید دوسرے سب مجھے سچ میں یوقوف سمجھتے ہیں ۔ مجھ سے بڑی آواز نکال کر خوش ہو جاتے ہیں رو دھو کر الٹے سیدھے شکایتں لگا کر سوچ لیتے ہیں کہ اس میں ہمت نہیں مقابلہ کی یہ تو نمبر ون دبکو ہے یہ کیا کرلے گی تھوڑا کہہ کر چپ ہو جایئگی۔۔مگر سچ بولوں تو مجھے یہ سب سہتے وقت بہت برداشت کرنا پڑتا ہے بہت صبر اور ہمت کی ضرورت ہوتی ہے آنسو پینا آسان بات نہیں ۔ اس کے لئے خون کے آنسو دل کو بہانا پڑتا ہے ۔ اپنے لئے تو کوئی بھی لڑتا ہے یہاں تک کہ ایک جانور بھی ۔ مگر ایثار کا جذنہ بہت کم میں ہوتا ہے یہ سامنے والے کے دل پر خاموش وار کرتا ہے ۔ بے حس سے بے حس کوبادیر ہی سہی اپنے کئے کا احساس دیلاتا ہے ۔ دشمن کو بھی دوست بناتا ہے ۔۔آپ کو سب سے ممتاز بناتا ہے  ۔کیا یہ سب میری خام خیالی ہے کیا حقیقت میں میری خوش فہمی ہے۔ کیا سچ میں مجھے بیوقوف سمجھا جاتا ہے ؟ میرا آج  آپ سے یہ ہی سوال ہے امید کے مرحمت فرمائنگے۔۔۔۔۔۔۔۔
 
 

Monday, December 10, 2012

مولانا محمد علی جوہر

   
 
السلام علیکم
 
مولانا محمد علی جوہر کی آج دس ڈسمبر کو 134ویں یوم پیدائش ہے اس موقعہ پرآپ کے ساتھ کچھ باتیں انکے بارے  ہم ملکریاد کریں  اور ان کے درجات کی بلندی کی دعا کریں ۔
 
 
یہ مضمون ویکیپیڈیا سے لیا گیا



مولانا محمد علی جوہر
 

پیدائش: 1878ء

انتقال: 1931ء

ہندوستانی مسلمانوں کے عظیم رہنما۔ جوہر تخلص۔ ریاست رام پور میں پیدا ہوئے۔ دو سال کے تھے کہ والد کا انتقال ہوگیا۔ والدہ مذہبی خصوصیات کا مرقع تھیں، اس لیے بچپن ہی سے تعلیمات اسلامی سے گہرا شغف تھا۔ ابتدائی تعلیم رام پور اور بریلی میں پائی۔ اعلی تعلیم کے لیے علی گڑھ چلے گئے۔ بی اے کا امتحان اس شاندار کامیابی سے پاس کیا کہ آلہ آباد یونیورسٹی میں اول آئے۔ آئی سی ایس کی تکمیل آکسفورڈ یونیورسٹی میں کی۔ واپسی پر رام پور اور بڑودہ کی ریاستوں میں ملازمت کی مگر جلد ہی ملازمت سے دل بھر گیا۔ اور کلکتے جا کر انگریزی اخبار کامریڈ جاری کیا۔ مولانا کی لاجواب انشاء پردازی اور ذہانت طبع کی بدولت نہ صرف ہندوستان بلکہ بیرون ہند بھی کامریڈ بڑے شوق سے پڑھا جاتا جاتا تھا۔

انگریزی زبان پر عبور کے علاوہ مولانا کی اردو دانی بھی مسلم تھی۔ انھوں نے ایک اردو روزنامہ ہمدرد بھی جاری کیا جو بے باکی اور بے خوفی کے ساتھ اظہار خیال کا کامیاب نمونہ تھا۔ جدوجہد آزادی میں سرگرم حصہ لینے کے جرم میں مولانا کی زندگی کا کافی حصہ قید و بند میں بسر ہوا۔ تحریک عدم تعاون کی پاداش میں کئی سال جیل میں رہے۔ 1919ء کی تحریک خلافت کے بانی آپ ہی تھے۔ ترک موالات کی تحریک میں گاندھی جی کے برابر شریک تھے۔ جامعہ ملیہ دہلی آپ ہی کی کوششوں سے قائم ہوا۔ آپ جنوری 1931ء میں گول میز کانفرنس میں شرکت کی غرض سے انگلستان گئے۔ یہاں آپ نے آزادیء وطن کا مطالبہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر تم انگریز میرے ملک کو آزاد نہ کرو گے تو میں واپس نہیں جاؤں گا اور تمہیں میری قبر بھی یہیں بنانا ہوگی۔ اس کے کچھ عرصہ بعد آپ نے لندن میں انتقال فرمایا۔ تدفین کی غرض سے نعش بیت المقدس لے جائی گئی۔ مولانا کو اردو شعر و ادب سے بھی دلی شغف تھا۔ بے شمار غزلیں اور نظمیں لکھیں جو مجاہدانہ رنگ سے بھرپور ہیں۔ مثلاً


دورِ حیات آئے گا قاتل، قضا کے بعد
ہے ابتدا ہماری تری انتہا کے بع
د
 
 
جینا وہ کیا کہ دل میں نہ ہو تیری آرزو
باقی ہے موت ہی دلِ بے مدّعا کے بعد
 
 
تجھ سے مقابلے کی کسے تاب ہے ولے
میرا لہو بھی خوب ہے تیری حنا کے  بعد

 

لذّت ہنوز مائدہٴ عشق میں نہیں
آتا ہے لطفِ جرمِ تمنّا، سزا کے بعد
 

قتلِ حُسین اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
 


 
ایک بار اردو پوائنٹ پر ادبی لطیفوں میں مولانا جوہر کی خوش مزاجی کا ایک واقعہ پڑھی تھی وہ بھی یہاں نقل کرتی ہوں ۔۔۔
 
 
 مولانا محمد علی جوہر رام پور کے رہنے والے تھے۔ایک دفعہ سیتا پور گئے تو کھانے کے بعد میزبانوں نے پوچھا کہ آپ میٹھا تو نہیں کھائیں گے؟کیونکہ مولانا شوگر کے مریض تھے۔
مولانا بولے: بھئی کیوں نہیں لوں گا؟ میرے سسرال کا کھانا ہے کیسے انکار کروں؟
یہ سن کر سب لوگ حیران ہوئے اور پوچھا کہ سیتا پور میں آپ کے سسرال کیسے ہوئے ؟
تو مولانا بولے: سیدھی سی بات ہے کہ میں رام پور کا رہنے والا ہوں۔ظاہر ہے سیتا پور میرا سسرال ہوا۔
 
 
آپ کے بارے میں مزید معلومات اردو مجلس میں بھی پڑھی جاسکتی ہیں اس کا لنک یہ ہے ،http://www.urduvb.com/forum/showthread.php?t=8748
 
 
 

Saturday, December 08, 2012

حضرت علی کے اقوالِ زریں دوسرا حصہ

 
 

السلام علیکم
 

حصرت علی مرتضی رضی اللہ عنہ کے ارشادات ،اقوال ،نصیحت ،وعظ ،عمل کمالات ،علم , معرفت ،ایمان ،تقویٰ ، توکل ، قنا عت ، صبر و شکر ، بندگی ،اطاعت ،سخاوت ،عبادت ،   عجز و انکساری ، حکمت ،دانائی ، ایثار و قربانی ایک عام انسان کی سوچ سے بالا تر ہے  پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے  "میں علم کا شہر ہوں ،اور علی اس کا دروازہ ہے ۔


آج میں نے تصوف میگزین پڑھا تو یہ حضرت علی کے اقوال پڑھے ہیں تو پھر ایک بار  آپ لوگوں کے ساتھ شیئر کرنے طبعیت آمادہ  و بے چین ہوئی ۔ اس امید کے ساتھ یہ اقوال شیئر کررہی ہوں کہ  شاید ہم  میں سے کوئی ان اقوال کی روشنی سے فیض یاب ہوسکے ، اللہ ہمیں عمل کرنے میں اپنی خاص مدد فرمائے ۔۔۔


 حضرت علی مر تضٰی رضی اللہ عنہ کے اقوال ملاحظہ فرمائے

پریشانی خاموش رہنے سے کم ،صبر کرنے سے ختم اور شکر کرنے سے خوشی میں بدل جاتی ہے۔

 جو تمہیں غم کی شدت میں یاد آئے تو سمجھ لو کہ وہ تم سے محبت کرتا ہے۔

کبھی کسی کے سامنے صفائی پیش نہ کرو،کیوں کہ جسے تم پر یقین ہے ، اسے ضرورت نہیں اور جسے تم پر یقین نہیں وہ مانے گا نہیں۔

ہمیشہ سچ بولو کہ تمہیں قسم کھانے کی ضرورت نہ پڑے ۔

انسانوں کے دل وحشی ہیں جو انہیں موہ لے ، اسی پر جھک جاتے ہیں۔

جب عقل پختہ ہوجاتی ہے ،باتیں کم ہوجاتی ہیں۔

جو بات کوئی کہے تو اس کے لئے ُبرا خیال اس وقت تک نہ کرو، جب تک اس کا کوئی اچھا مطلب نکل سکے۔

دنیا کی مثال سانپ کی سی ہے کہ چھونے میں نرم اور پیٹ میں خطرناک زہر۔۔

کسی کے خلوص اور پیار کو اس کی بے وقوفی مت سمجھو ، ورنہ کسی دن تم خلوص اور پیار تلاش کروگےاور لوگ تمہیں بے وقوف سمجھیں گے ۔

جو بھی برسر اقتدار آتا ہے ، وہ اپنے آپ کو دوسروں پر ترجیح دیتا ہے۔

بھوکے شریف اور پیٹ بھرے کمینے سے بچو ۔


لوگوں کو دعا کے لئے کہنے سے زیادہ بہتر ہے ایسا عمل کرو کہ لوگوں کے دل سے آپ کے لئے دعا نکلے۔

مومن کا سب سے اچھا عمل یہ ہے کہ وہ دوسروں کی غلطیوں کو نظر انداز کردے ۔

سب سے بڑاعیب یہ ہے کہ وہ دوسروں کی غلطیوں کو نظر انداز کردے ۔

سب سے بڑا عیب یہ ہے کہ تم کسی پر وہ عیب لگا ؤ جو تم میں خود ہے۔

جو ذرا سی بات  پر دوست نہ رہے ، وہ دوست تھا ہی نہیں ۔

جس کو ایسے دوست کی تلاش ہو ، جس میں کوئی خامی نہ ہو ، اسے کبھی بھی دوست نہیں ملتا ۔

انصاف یہ نہیں کہ بد گمانی پر فیصلہ کردیا جائے ۔

حکمت مومن کی کھوئی ہوئی چیز ہے ، حکمت خواہ منافق سے ملے لے لو ۔

کسی کی مدد کرتے وقت اس کے چہرے کی جانب مت دیکھو ، ہوسکتا ہے اس کی شرمندہ آنکھیں تمہارے دل میں غرور کا بیج بودیں ۔

صبر کی توفیق مصیبت کے برابر ملتی ہے ،اور جس نے اپنی مصیبت کے وقت ران پر ہاتھ مارا ، اس کا کیادھرا اکارت گیا ۔

موت کو ہمیشہ یاد رکھو ، مگر موت کی آرزو کبھی نہ کرو ۔

قناعت وہ دولت ہے جو ختم نہیں ہوسکتی  ۔



۔



Saturday, December 01, 2012

پل دو پل کا ساتھ

 









السلام علیکم


پیاری بہنوں اور محترم بھائیوں:۔ آئیے آج آپ میرے اور میری تخیلات کی دنیا میں پل دو پل ساتھ گزار کر بتلائیں کہ آپ کو میری باتیں کیسی لگی۔۔۔

یہ چند ہی دنوں پہلے کی بات ہے ۔ بدھ کے روز رات بھر بارش ہوتی رہی جمعرات کی صبح بھی بوندا باندی کا سلسلہ قائم تھا ۔ ہمیں دواخانہ منتھلی چیک اَپ کے لئے جانا تھا۔ میں سمجھ رہی تھی کہ اس بارش کی وجہہ سے لوگ کم ہی آئے ہونگے مگر وہاں جانے کے بعد پتہ چلا کہ میں غلط سوچ رہی تھی دواخانے کے قریب ہمیں پارک گنگ نہ مل سکی ۔ وہاں پہلے سے بہت ساری گاڑیاں موجود تھی میرے صاحب نےمجھے دواخانے کے داخلی دروازے پر چھوڑنا چاہا تو میں ساتھ ہی رہنے کہا تووہ بنا اترنے مجبور کئے آگے چلنے لگے کیونکہ عقب کی گاڑی نے سمجھانے کی مہلت ہی نہ دی تھی ۔ موڑ کے آخری سرے پر گاڑی پارک کرکے ہم زمین پر بارش کے پانی کے مد نظر احتیاط سے چلنے لگے ۔ میاں فٹ پاتھ کی طرف جانے لگے تو ان کی تقلید میں میں بھی چلنے لگی ۔ کچھ دور جانے کے بعد دو تین گاڑیاں فٹ پاٹھ پر چڑھا کر پارک کی گئی تھی جس کی وجہہ سے ہمیں سڑک سے ہوکر گزارنا پڑا ۔ سڑک پر پانی تھا اور گاڑیاں قریب سے آہستہ آہستہ گزار رہی تھی پھر ایک تویوٹا گاڑی بڑی تیزی سے گزری جس کو دیکھتے ہی میں فٹ پاتھ کی طرف اچھل کر ایک قدم بڑھا دی اور ساتھ ہی ساتھ اتنی ہی تیزی سے مجھ پر کراہیت اور غصّہ کی کیفیت طاری ہونے لگی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انہوں یہ سمجھتا کیا ہے گاڑی میں بیٹھا ہے تو ،ارے پرسوں ہی میں نے شاید عرب نیوز میں پڑھا تھا کہ ٹویو ٹا کے سب سے اعلٰی عہدے دارسی ای او بھی ایک عام انسان کی طرح سب ورکز کے ساتھ بیٹھکر کھاتے ہیں اور ایک یہ بھی انسان ہےصرف ایک ٹو یو ٹا گاڑی کا مالک ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بد تمیز۔ میں دل ہی دل بڑبڑانے لگی ۔


میرا موڈ خراب ہو چکا تھا میں خاموش ہی تھی مگر ذہن بہت کچھ سوچ رہا تھا ۔ہمیشہ کی طرح ہم ڈاکٹر کے پاس گئے اور وہ بھی ہمیشہ کی طرح میرے صاحب سے سلام کے بعد سیاسی باتیں شروع کردیں پھر اس نے کچھ وقت کے بعد ہاتھ سے اشارہ کر کے کہا کہ میرا وطن بہت نیچے کی طرف جارہا ہے ۔ او کے ، تمہارا کیا حال ہے ۔ اس کے چہرے پر تفکر، افسوس دیکھکر مجھے بہت اچھا لگا ۔ اس لئے نہیں کہ وہ فکر مند ہے بلکہ اس لئے کہ وہ اپنوں اور اپنے وطن کے لئے فکرمند تھے ۔۔ یہ بھی ایک انسان ہے جو اپنے وطن سے اتنی دور رہکر اس کے لئے اتنا سوچتا ہے اللہ اس کی پریشانی دفع کرے ۔

 
کچھ دیر بعد میں ای سی جی روم کے باہر میاں کا انتظار کررہی تھی کہ دیکھا ایک گیارہ سال کا لڑکا نو سال کے لڑکے کے ساتھ آکر نرس کو آواز لگا رہا تھا وہ شاید اس کا چھوٹا بھائی تھا کیونکہ دونوں کے چہرے بہت ملتے جلتے تھے ۔ ان کے ساتھ کوئی بڑے دور دور تک نظر نہیں آرہے تھے ۔ اس لڑکے نے اپنے چھوٹے بھائی کو کرسی کی طرف اشارہ کر کے بیٹھنے کہا اور خود انتظار میں ادھر اُدھر ٹہلنے لگا ۔ نرس کے آنے پر بات کرنے کے بعد بھائی کا سر سہلانے لگا اور دونوں ای سی جی روم میں چلے گئے ۔ میں نےزور سے پلک چھپک کر محسوس کرنا چاہا کہ یہ فلم نہیں حقیقت ہے ۔۔


وہیں بیٹھے بیٹھے میں نے اپنے قریب بیٹھے لوگوں پر نظر دوڑائی تو میرے بازو دو موٹی موٹی سعودی عورتیں تھی جس کو میں نے بیٹھتے وقت سلام کیا تو انہوں نے سلام کا جواب تو نہیں دیا مگر اپنی گفتگو کو منقطع کرکے میری طرف ایک نظر دیکھ کر پھر سے محو گفتگو ہوگئی تھی ۔ میرے سامنے کی سیٹ پر ایک ہندو خاتون اپنی دو لڑکیوں کے ساتھ تھی باتیں کرنے کے انداز سے مدراس کی لگ رہی تھی اسی کے بازو ایک موٹی خاتو ن اور ایک دبلی خاتون تھی جو شاید ماں بیٹی لگ رہی تھی چونکہ تھوڑی دیر پہلے دبلی برقعہ پوش نے دوسری خاتون کے پرس سے فون نکل کر لینے پر اس نے ہاتھ سے واپس لے لیا تھا۔ اب میں سامنے کنڑ پر لگی لائن کا جائزہ لینے لگی اتنے میں کیا دیکھتی ہوں کہ لائن میں کھڑی ایک محترمہ سے ایک دوسری محترمہ نے نہ جانے کہاں سے ایک دم آکر بہت ہی گرم جوشی سے ملنے لگی دیکھنے میں وہ مصری لگ رہی تھی کیوں کہ ان کے چہرے کھلے تھی اوروہ عربی میں باتیں کرہی تھی پہلے تو وہ ایک دوسرے کے گال سے گال ملایا پھر ہاتھ ملائے اورکچھ دیر باتیں کرنے کے بعد ادھرِاُدھر ہوگئی۔ وہ ساری گفتگو کے دوران ایکسا ہاتھ تھامے رہے ان کے چہروں پر خوشی اور اپنائیت کے احساس نے تو دیکھنے والوں کے اندر بھی شادابی بھر دی ت....


اب میرے سامنے والی مدراسی فیملی نے بے چین ہو کر اپنے بازو والی خاتون سےانگریزی میں فون مانگنے لگی تھی ۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتی میرے بازو بیٹھی خاتون نے اسے اشارے اور زبان سے ایک ساتھ دینے سے منا کردیا ۔ مجھے لگا اب وہ مدراسن یہاں موجود خواتین سے نا امید ہوکر دور کھڑی نرس سے فون کی التجا کے انداز میں سوال کیا مگر ان نرسوں نے بھی اس سے بہانہ بنا دیا ،مجھے یہ اچھا نہیں لگا اور میں نے اسے اپنا فون نکال کر دے دیا ۔ ابھی فون لگا ہی تھا کہ اس کا ہسبنڈ ہنستے سامنے آموجود ہوا اور اس نے بجائے شکریہ کہنے کے یو انڈین سوال کردیا میرے سر کی جنبش کے ساتھ ہی ہاتھ ہلا کر چلی گئی ۔ ابھی وہ گئی ہی تھی کہ اس کے پیچھےا یک سعودی میاں بیوی ہاتھ تھامے چلے آرہے تھے جس کے سامنے ان ہی کا ایک تین چار سال کا لڑکا چھوٹے سے اپنے گلے کے مفلر سے کھیلتے چلتے ہوئے آرہا تھا ۔ اس نے ایسے اندازِ بے نیازی سے مفلر کے ایک سرے کو چھٹکے سے کندھے پر ڈالا اور میرے سامنے سے گزارنے لگا۔ اُسے ایسا کرتے دیکھ کر مجھے لگا جیسے میں نے بھی اُسے دیکھنے سے اپنے سارے غم اور ٖغصہ اور شکوئے شکایات پست پشت ڈالکر اس ننھنے شہزادے کی طرح ہر بات سے بے نیاز ہوگئی ہوں ۔

 
یہ پل دو پل کا تعلق بھی عجب ہے یہ پل دو پل کی ملاقات بھی ہمیں کیسا اچھا اور برا احساس دے جاتے ہیں ہم مختصر سے ساتھ میں بھی دوسروں پر اپنا تاثر چھوڑ جاتے ہیں ۔ سامنے والا ہمارے رہن سہن ، طور طریقہ اور رویہ ہی کی وجہہ سے ہمارے بارے میں رائے قائم کرلیتے ہیں ۔ ہمارا ایک اچھا عمل بھی کبھی ہم کودوسروں کی نظر میں بے نظیر اور نفس بنا دیتا ہے اس لئے ہمیں چاہیے کہ خود میں اچھی باتیں پیدا کرنے کی کوشش کریں اس طرح ہم مثالی بنکر نظر نوازبن جائے تو کیا ہی بات ہے ۔

 
اس لئے بزرگوں کا فرمان ہے کہ مومن کی شان یہ ہے کہ وہ بین الخوف الرجاء یعنی عذاب الٰہی کے خوف سے ہر وقت کانپتا رہتا ہے ۔ کہ زندگی کے کسی بھی لمحے معصیت کا ارتکاب نہ کر بیٹھے جس سے جہنم میں نہ جانا پڑے ۔ باوجود یہ کہ اسے اللہ کے بارے میں حسن ظن ہوتا ہے کہ وہ رحمٰن و رحیم اسے گناہوں سے بچنے کی تو فیق بھی دے گا ۔ اچھے انسان ایسا کوئی کام نہیں کرتے جس کی وجہہ سے خود کو اور دوسروں کو تکلیف اٹھانی پڑے ۔


ہمیں چاہیے کہ جو کچھ کریں اللہ سے ڈرتے ہوئے کریں کیونکہ ہم اپنے اپنے اعمال کے ساتھ اللہ کے حضور پیش کئے جائنگے جس نے ذرّہ برابر نیکی یا برائی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا ۔ لوگوں کے اعمال کے مطابق ہی فیصلہ فرمائے گا۔


اللہ پاک ہم کوہمیشہ نیک کاموں کی توفیق عطا کرے۔

....میرے بلاگ پر آنے کی تہہ دل سے شکر گزار ہوں
 
 
.

Sunday, October 21, 2012

حضرت علی کے اقوالِ زریں

 
 
السلام علیکم
 
 
آج میں آپ سے حضرت علیؓ کے زرین اقوال شیئر کرنا چاھتی ہوں امید کہ پسند فرمائیں گے۔
 
 
انسان زبان کے پردے میں چھپا ہے۔

ادب بہترین کمال ہے،اور خیرات افضل ترین عبادت ہے ۔

جو چیز اپنے لئے پسند کرو وہ دوسروں کے لئے بھی پسند کرو ۔

بھوکے شریف اور پیٹ بھرے کمینہ سے بچو ۔

گناہ پرندامت گناہ کو مٹا دیتی ہے ۔  نیکی پر غرور نیکی کو تباہ کردیتا ہے ۔

سب سے بہترین لقمہ وہ ہے جو اپنی محنت سے حاصل کیا جائے ۔

جو پاک دامن پر تہمت لگاتا ہے اُسے سلام مت کرو
۔
موت کو ہمیشہ یاد رکھو مگر موت کی آرزو کبھی نہ کرو۔


اگر توکل سیکھنا ہے تو پرندوں سے سیکھو کہ جب شام کو واپس گھر جاتےہیں تو ان کی چونچ میں کل کے لئے کوئی دانہ نہیں ہوتا ہیں ۔
 

سب سے بڑا گناہ وہ ہے جو کرنے والے کی نظر میں چھوٹا۔
 
 
اس شخض کو کبھی موت نہیں آتی جو علم کو زندگی بخشتا ہے ۔
 
 
دو طرح سے چیزیں دیکھنے میں چھوٹی نظر آتی ہیں ایک دور سے دوسرا غرور سے۔
 
کسی کو اس کی ذات اور لباس کی وجہہ سے حقیر نہ سمجھنا کیونکہ تم کو دینے والا اور اس کو دینے والا ایک ہی ہے اللہ ۔ وہ یہ اُسے عطا اور آپ سے لے بھی سکتا ہے ۔
 

دوست کو دولت کی نگاہ سے مت دیکھو ، وفا کرنے والے دوست اکثر غریب ہوتے ہیں ۔
 

پریشانی حالات سے نہیں خیالات سے پیدا ہوتی ہے ۔
 

بہترین آنکھ وہ ہے جو حقیقت کا سامنا کرے ۔
 
 
دنیا میں سب سے مشکل کام اپنی اصلاح کرنا اور آسان کام دوسروں پر تنقید کرنا ہے ۔
 
 
نفرت دل کا پاگل پن ہے ۔

انسان زندگی سے مایوس  ہوتو کامیابی بھی ناکامی نظر آتی ہے ۔
 
 
اگر کوئی تم کو صرف اپنی ضرورت کے وقت یاد کرتا ہے تو پریشان مت ہونا بلکہ فخر کرنا کے اُس کو اندھیروں میں روشنی کی ضرورت ہے اور وہ تم ہو ۔
 
 
 
 

Saturday, October 13, 2012

ہمیشہ مسکرائے

السلام علیکم

معزز بھائیوں اور پیاری بہنوں :

امید کہ آپ لوگ میری اس تحریرسے متفق اور مستفید ہوگے۔


ہمیشہ مسکرائے



انسان کا موڈ خراب اور خوشگوار ہونا ایک فطری امر ہے۔ خود کو اور دوسروں کو پرسکون اور نارمل رکھنے کے لئے مسکراہٹ کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیں اور دیکھیں کہ آپ کا اور دوسروں کا مزاج کس طرح بہتر ہوتا ہے۔

گھر ہو یا دفتر،کالج ہو یا سڑک، میلہ ہو یا کوئی تقریب ہر جگہ آپ اپنی مسکراہٹ سے ایک خوش کن یاد گار لمحہ بنا سکیں گے۔
شوہر ہو یا بیوی، دوست ہو یا بھائی، اپنے ہو یا اجنبی، بچے ہو یا بڑے اگر ہم مسکرا کر ایک نظر دیکھیں تو وہ ایک نظر کا اثر بہت دیرپا رہے گا۔

اگر کوئی آپ کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے یا تحفہ دے تو اسے جواب میں مسکراہٹ کے ساتھ شکریہ کہیں تو سامنے والے کو دلی مسرت ہو گی۔

آپ اپنے دشمن سے بھی مسکرا کر بات کریں تو وہ آپ کے لئے مثبت سوچنے لگیں گے۔

اگر آپ خوشگوار زندگی کے متمنی ہیں تو ہمیں چاہیئے کہ خوشگوار زندگی کے لئے آپس میں خوشگوار تعلقات رکھیں تو یہ جب ہی ممکن ہے جب ہم ہنستے بولتے اور ہلکے پھلکے انداز میں مسکرا کر آپس میں گفتگو کرتے ہوئے زندگی گزاریں۔

ہمارے دین کے رہبر محمد صلی اللہ علیہ و سلم بھی ہمیں سمجھاتے ہیں کہ اپنے بھائی کے لئے مسکرانا بھی صدقہ ہے۔
مسکرانے کے بہت فائدہ ہیں آپ مسکرائیے خود آپ کو پتہ چل جائے گا۔

اسی لئے پہلے زمانے میں تفریح کے لئے اور موڈ کو ٹھیک رکھنے ہر فلم میں کامیڈین ایکٹر ہوا کرتا تھا اور سرکس میں بھی پہلے جوکر کو بہت اہمیت ہوا کرتی تھی۔

ہنسنے مسکرانے سے ہماری شخصیت اور خوشگوار رویوں کا دوسروں پر خوشگوار اثر پڑتا ہے آپ کے لئے ان کے دل میں مثبت خیال پیدا ہونے کے زیادہ امکان ہونگے۔
دوسروں کی چھوڑیئے ہمیں خود اپنی صحت ہی کی خاطر رویوں میں تبدیلی لانی چایئے مسکرانا ایک بہترین دوا ہے۔ اس پر جتنا عمل کر سکتے ہیں کریں ایسے باتیں سوچیں جو آپ کے بگڑے موڈ کو ٹھیک کر دیں۔

جرمن ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ مسکرانا یا ہنسنا جسم اور روح دونوں کے لئے نہایت ضروری ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ انسان کی جسمانی اور ذہنی کیفیت کا اندازہ اس کے چہرے پر پائے جانے والے تاثر سے ہوتا ہے۔ اس لئے جرمن کے Deister weser clinicماہر نفسیات اور ڈاریکٹر ڈیٹر بوٹس ایک نہایت آسان تجربہ کا مشورہ دیتے ہیں۔ آپ آئینے کے سامنے کھڑ ے ہوں اور بھرپور طریقے سے مسکرائیں بلکہ منہ کھول کر بنسیں یہاں تک کہ دانت نظر آئیں۔ چند لمحوں کے اندر آپ محسوس کریں گے کہ آپ کا موڈ اچھا ہوگیا ہے آپ کی طبیعت پر خوشگوار اثر ات مرتب ہوئے ہیں۔

جب آپ دوسروں اور اپنی خوشی کے لئے مسکراہٹ کو اپنی پہچان بنا لیں تو سب آپ کی مسکراہٹ کو اپنی جان سمجھنے لگے گے انہیں آپ کی مسکراہٹ ہی زندگی کا سرمایہ لگے گی۔ اور وہ آپ کی شان میں قصیدے پڑھتے نہیں تھکیں گے۔

آپ سب کےمیرے بلاگ پر تشریف لانے کا دلی شکریہ

Tuesday, October 02, 2012

دو اکٹوبر





السلام علیکم
میرے عزیز بھائیوں اور بہنوں:۔
آج دو اکٹوبر کے دن مجھے ہمیشہ اپنے اسکول کے دورکی یاد آنے لگتی ہے کیونکہ ہندوستان کے دو بڑے نیتا نے اس دن جنم لیا جس کی خوشی میں ہمیں پڑھنے پڑھانے سے چھٹی ہوتی ،خوب سارے پروگرام کا انعقاد ہوا کرتا ۔ سب ہی خوب انجوئے کیا کرتے۔

اب سوچتی ہوں کہ وہ دن بھی کتنے عجب تھے یوں دھوم مستی کرنے کی جگہ ہمیں ان کے اصول اور وطن کی محبت اور قوم کی خدمت کا جذبہ پیدا کرنا چاھیے ان کی سچائی اور پیغام کو سمجھنا خود عمل کرنا اور پھیلانا چاہئے ۔ اور یہ ہی بات ہمارے ذہین نشین کرنے ہنستے ہنساتے دماغ میں محفوظ کی جاتی تھی ۔ آج غور سے دیکھتی ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ آج ان آزادی کے متوالوں کا صرف نام ہی زندہ رہ گیا ہے ان کے اصول اور کار نامہ تو کہی کھو گئے ہیں اب پہلے جیسی ٹیچرز بھی نہیں رہے ۔ آج اسکول کو چھٹی دے دی جاتی ہے تاکہ بچے گھر ٹی وی
دیکھے یا کمپوٹر پر کیم کھیلے یا پھر خواب ِ خر گوش کے مزہ لے آج پہلے کی طرح سبق کوسبق کی طرح نہیں پڑھیا جاتا بس ایک مصمون کی طرح پڑھا دیا جاتا ہے پھر نمبر مل جاتے ہیں اور ترقی ہوتے جاتی ہے پھر بہت ساری کمائی کی رہ کھول جاتی ہے خیر چھوڑیئے ان تلخ باتوں کو چلیں میں ان کو محو کرنے اپنے یادوں میں سے ایک اسکول کے دور کا ایک واقعہ شیئر کرتی ہوں ہمارے اسکول میں میوزک سیکھانے کے لئے ٹیچر تھیں ، میں نے کبھی ریگولر کلاس تو نہیں لی تھی ان سے مگر وہ ہی ڈرامہ اور پروگرام کرنے میں سب کی مدد کیا کرتی تھی ۔ ہمارے سکول میں تین میڈیم تھے تلگو،انگلش اور اردو ۔ روز ایک میڈم کے بچے اپنی زبان میں حمد یا بھجن اسمبلی میں قومی ترانہ سے پہلے گاتےتو ان کی ذمہ داری بھی میوزک ٹیچر ہی کی ہوتی مجھے یاد ہے میری بڑی بہن نائتھ میں تھی اور میں ابھی ہائی سکول میں پاؤں رکھے ہی تھے۔میری بہن اکثر اسمبلی میں پہلے سے حمد پڑھتی ر ہی تھی ۔ میرے بڑے اسکول میں آنے کے بعد ایک دن انہوں نے میری موجودگی کومحسوس کیا اور ٹیچر کی صلاح سے دونوں ملکر ہمارے دادا کی حمد پڑھنے کی ٹھانی ۔ میں نے لاکھ منا کیا پر وہ نہ مانی ان کو مجھ پر مجھ سے بھی زیادہ یقین تھا کیونکہ ہمارے گھر میں اکثر بابا حمد اور نعت کی محفل رکھتے اور ہم سب کو اس میں شامل رہنا ضروری بھی رہتا ۔ بابا دھن اور اتار چھڑاو سے واقف کرواتےاور اس طرح ہم تھوڑا بہت ترنم سے پڑھنے کے لایق ہوگئے تھے۔ اس بات سے آپا کو یقین تھا کے ہم اچھا پرفورم کریگےاور ٹیچر نے اسٹاف روم میں ہمیں سنا تو انہیں لگا کےجیسے پکا پکایا ہوا پھل مل گیا ہو ۔ دوسرے ہی دن ہم کو پڑھنے کا موقعہ مل گیا ۔ وہسے میں نے چھوٹی رہنے مسجد کے سالانہ جلسے میں کئی بار پڑھا بھی تھا مگراسکول آنے کے بعد یہ میرا پہلا موقعہ تھا اتنے زیادہ لوگوں کے سامنے گانے کا ۔ ہم دونوں اسمبلی میں اپنی اپنی کلاس کی لائن سے نکل کر سیڑیوں کو عبور کر کے اوپر آئیے اورحمدترنم میں پڑھنے لگے ابھی دو اشعار ہی پڑھے تھے کے میری آواز حلق میں گھٹنے لگی اور سارے ٹیچرز جھانک جھانک کر دیکھنے لگے میری تو اور حالت بری ہونے لگی۔ ۔ ۔ ۔ چند دنوں کے بعد میں بھی ڈرامہ میں حصہ لینے والی تھی جس میں میری سہیلی باپو جی یعنی گاندھی جی اور میں لال بہادر شاستری بنے والی تھی جس میں چند مکالمہ کے بعد جوش سےسلیٹ مار کر ہمیں نعرہ لگانا تھا اس کے بعد ہماری ٹیچر اتنی خوف زدہ ہوئی کے یہ ایٹم سرے سے نکلنا چاہتی تھی مگر میری بہن کے تین ڈراموں کی دست برداری سےڈر کر صرف ہم کو اسٹیچ پر کھڑا کرکے فل آواز میں گانا لگا دیا ۔“آج ہے دو اکٹوبر کا دن آج کا دن ہے بڑا مہان آج کے دن دو پھول کھلے تھے جس سے مہکا ہندوستان”کیونکہ دوسرے اسکول کے بچے اور ٹیچرز آئے ہوئے تھےاس لئے ریسک نہیں لیا جاسکتا تھا پھر اس کے بعد میراخوف بھی نکل گیا
ہم بہنیں بعد میں تو جب بھی کوئی اسمبلی میں پڑھنے نہ ہو تو ٹیچر ہمیں بلالیا کرتی یہاں تک کہ تلگو میڈم کی گانے والی لڑکیاں نہ آیے تو بھی ان کی جگہ ہم  بھی گالیا کرتے تھے ۔
 

میرے بلاگ پر آنے اور عجب طرح کی باتیں برداشت کرنے کا بے حد شکریہ ۔۔آپ سب ہی بہت خوش رہیں



۔

Tuesday, September 25, 2012

سب سے مشکل کام

السلام علیکم


آج مطالعہ کے دوران یہ نظم مجھے اچھی لگی تو سوچا کے آپ سب سے بھی شیئر کر لوں شاید آپ کو بھی اچھی لگے سادے سے انداز میں لکھی گئی یہ نظم

سب سے مشکل کام


خوف خود شناسی سے

اپنے آپ کو ہر شخص

اس طرح بچاتا ہے

جس طرح کوئی روگی

اپنے جسم کے ناسور

شرم سے چھپاتا ہے

میرا سب سے مشکل کام

اپنی ذات کی تہہ تک

اک شگاف کرنا ہے

اور جو ملے اس کا

اعتراف کرنا ہے


مصطفٰی شہاب


بہت شکریہ یہاں تشریف لانے کے لئے

Saturday, September 15, 2012

رنگ بدلتی دنیا




میرے عزیز بھائیوں و پیاری بہنوں

آج کل میں حیرانگی سے اس رنگ بدلتے دنیا و حالات کی تیز گامی دیکھ کر پریشان ہوں کہ کیسے اور کیوں کر اتنی جلدی ماحول میں تبدیلی آرہی ہے ایک طوفانِ ِ بد تمیزی و بد تہذیبی ہے جو ہر سمت سے نئی نسل کے فرد کو گھیر رہی ہے ۔ شاید اس میں ہمارا بھی قصور ہے کہ ہم اپنے بچوں کو بے جا لاڈو پیار اور ڈھیل دے رہے ہیں اور دینی علم کی کمی،عریاں فلم، ،نیٹ کا غلط استمعال ، مخلوط تعلیمی نظام ، میڈیا جس پر چھچھوری باتیں ،خاکہ ،ڈرامہ ،اشتہارات اور نیوز دیکھائی جاتی ہیں ۔ اگر اپنے تجربہ ، معلومات ، بڑے پن یا اپنائیت سے کوئی بات کہی جائے توسامنے سے فوراً انکار میں جواب آئے گا ۔ اگر سمجھانے کی مزید کوشش کی جائے توپھر بھی اپنی بات پر اڑیل بنے رہنگے اور اپنی بات چاھے غلط ہو تلے رہنے کو فخر سمجھے گے ۔ دوسروں کی بات ماننا تو دور کی بات سنا بھی پسند نہیں کیا جاتا ہے اکثر ۔۔۔۔۔

کل ہی کا ایک واقعہ میں شیئر کررہی ہوں اس سے آپ کو باخوبی اندازہ ہوجائے گا کہ کیسے ہماری قوم نشیب کے راستہ کی طرف رواں ہیں ۔۔ ایک صاحب کی بیوی کو کوئی پوشیدہ مرض لا حق ہوا۔ انہیں وہ بتانے کے لئے دواخانہ پہچی تو وہاں میل ڈاکٹر تھا جو دو گھنٹہ کے انتظار کے بعد آنے والا تھا ساتھ جانے والے جو تھے انہوں نے دوسرے دواخانے چلنے کہا جہاں لیڈی ڈاکٹر بھی موجود تھی اور انتظار کی زحمت بھی نہ اٹھانی پڑتی، تو مریضہ صاحبہ نے ناراضگی کا چہرہ بنایا اور بہت کہنے پر پس و پیش کرنے لگی یہ دیکھ کر مریضہ کے میاں نے بیوئی کا ساتھ دیا اور کہنے لگے۔مرد اور عورت ڈاکٹر میں کوئی فرق نہیں ہوتا انکی نظر میں پیشنٹ پیشنٹ ہوتا ہے۔ یہ سب سن کر میں تو حیران ہوگئی کہ کل کی ہونے والی ماں ،ماں بنے سے پہلے ایسی ہو تو ، ان کی زیر تربیت اولاد کا کیا ہوگا۔ وہ کیا تعلیم دے گی آنے والے نسل کو جب کہ پہلا مکتب ماں کے گود کو کہا جاتا ہے ۔ آج کی عورت اتنی بے حیا کیسے ہوگئی کیونکر ہو گئی اوروہ مرد کی غیرت کہاں چلی گئی آخر ۔ کیا خوب اکبر الہ آبادی نے ایسے ہی لوگوں کے لئے اپنا اظہار خیال کیا ہے ۔


بے پردہ کل جو آئیں نظر چند بیبیاں
اکبر زمیں میں غیرت قومی سے گڑگیا


پوچھا جو ان سے آپ کا پردہ وہ کیا ہوا
بولیں کہ جاکے عقل پہ مردوں کے پڑگیا



اللہ تعالیٰ سب سے زیادہ غیور ہے۔اور وہ شرم و حیا کا حکم ہمیں دیتا ہے ۔

جس کو آج کی عورتیں قید کہتی ہیں کاش انہیں معلوم ہوجائے کہ وہ حصار ہے جو ان کے لئے بہہہت ضروری ہے ۔ میرے بابا کہتے تھے "باندی بن کر بی بی بن جا "۔۔۔۔

شاید آپ میں سے چند لوگ میری باتوں کو سچ سمجھ رہے ہیں اور کچھ تو دقیانوسی بھی سوچ رہے ہوں مگر پلیز کل اور آج کے معاشی، معاشرتی حالات مد مقابل رکھکر دیکھ کر غور کرکے مجھے بتائے گا کہ کتنی ہماری قوم نشیب کی رہ پر گامزان ہے اوراس کی وجہہ کیا ہے؟

میری بلاگ پر آنے اور بے ترتیب باتیں پڑھنے کا شکریہ ۔اللہ پاک آپکو خوش رکھے۔۔۔



۔

Tuesday, September 04, 2012

رشتہء محبت





السلام علیکم


میرے عزیز بھائیوں و پیاری بہنوں


بہت دنوں سے بلاگ پر لکھنا ہی نہیں ہورہا تھا وجہہ تھی
عید کی چھٹیوں کے ساتھ اور دس دن چھٹیوں کا اضافہ کرکے بیٹے بہو اور پوتا پوتی ہمارے گھر آئے ہوئے تھے۔ وہ لوگ کیا آئے ایسا لگا جیسےگھر میں نورآگیا ہو، زندگی آگئی ہو ۔ ہر وقت گھر میں خوب گہما گہمی رہتی ۔ رات میں میرے میاں کو دیر تک جاگنا بالکل بھی پسند نہیں اورنہ اب ہم میاں بیوی سے زیادہ دیر بیدار رہا جاتا ہے عادت جو ہوگئی ہے۔ مگر پھر بھی بچوں کے آنے سے سب کو ملکر بیٹھے دیکھ کر ایک دو بجے تک ہم بھی بیٹھے رہ جاتے بہت منا کرنے پر بھی 
سب بچے تو فجر پڑھکر ہی سو رہے ہوتے۔



وقت بھلاکس کے لئے رکا ہے اور کیوں رکے گا ۔ اس کا کام تو چلتےہی رہنا ہے ۔اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے بچوں کے جانے کے دن بھی آگئے ۔ پھرہمیں لگنے لگا وہ کیا گئے اپنے ساتھ زندگی کے سارے رنگ و رونق بھی ساتھ لے گئے ۔ لمحہ بھر میں سب اداس اداس سے بجھے بجھے سے ہوگئے ۔ بچوں کے جاتے ہی میں نے بھی اپنے دل کو قابو میں رکھنے گھر میں موجود دوسرے بچوں سے ِادھر ُادھر کی باتیں نکال کر بہت دیر تک کرتی رہی مگرکب تک رات بہت ہوگئی تھی میاں بھی میری بے چینی کو محسوس کئے اوراکیلے ہی سونے چلے گئے تھے۔ میرا توغالب گمان تھا کہ وہ آفس کے خیال سے ہمیشہ کی طرح سو ہی گئی ہونگے ۔ بہت دیر بعد کمرے میں آئی تو یہ دیکھ کر حیران تھی کہ وہ اتنی رات کے باوجود جاگ رہے تھے ۔اندر داخل ہوتے ہی میری نگاہ ان پر پڑی اور انہیں دیکھ کرمیرے ذہن میں ایک گانے کا مصرع اچانک گونجنے لگا۔’’میں یہاں ٹکڑوں میں جئی رہا ہوں تو بھی ٹکڑوں میں جئی رہی ہے‘‘ میری سوالیہ نظر دیکھ کر میاں جی پیچھے ٹیک لگا کر کہنے لگے ۔ صبح آفس جانا ہے اور نیند ہے کہ آ نہیں رہی پھر مسکرا کر خیالوں میں گم کہنے لگے ۔ بی بی تمہیں یاد ہے کیسے میں شرٹ اتارنے پرزارا مجھے چہی چہی بوائے کہتی تھی ،اور ضیاء بابا ہمارے بیچ بیٹھکر کتنی پیاری پیاری باتیں کرتا اور کیسے اپنے باوا کی غیر موجود گی میں ہم سےکھلونوں کی فرمائش کرتا اور شاکر کے آتے ہی گھبرا جاتا اوراس کے پوچھنے پر بھی ہم بھی کیسے انجان ہوجاتے ۔ پھر سانس لے کر کہنے لگے ،دیکھا جب آپ کے بیٹے کیا کہہ رہے تھے ہمارے ساتھ آپ لوگ ایسے نہیں تھے ۔ پوتے پربہت مہربان ہیں ۔ مگروہ خراب ہوجائیے گا نا بابا۔ ہاہاہا کیا خراب ہوگا ؟ ہم بھی تو اس کے اپنے ہی ہیں نا وہ نہیں سمجھے گا ابھی ! پھر میں بھی کہنے لگی ہاں ہاں سب یاد ہےمجھے بھی۔ ہمارے اپنے ہی ہیں وہ اس کے کہنے سے کیا ہوگا ۔۔ پھر میں بھی میاں کے ساتھ خودبخود خیالوں کی دھارا میں بہنے لگی اوریوں گویا ہوئی۔ کیسے زارا گڑیا بار بار چپ،چپ کی چائے کھلونوں کی پیالیوں میں مجھے پلایا کرتی اور وہ ضیاء بابا جب بھی میں پیار سے قریب آنے کہوں تو پاس آنے کے بعد کچھ ہی دیر بعد کہے گا دادی میں آپ کے فون پرہائی گیلکسی کہوں اور پھر گیلکسی کو علاالدین کے جن کی طرح حکم پر حکم دینے لگتا ۔ ماں باپ سوتے رہتے اور دونوں بہن بھائی آکر آپ کے ہاتھوں ناشتہ خوشی خوشی کرلیتے ۔ایسا تو آپ نے اپنے بچوں کو بھی نہیں کھلایا تھا۔ میاں کہنے لگے سچ کہتے ہیں اصل سے سود پیارا ہوتا ہے ۔ نہیں جی مجھے سود کہنا اچھا نہیں لگتا اسے تو اولاد میں برکت کہنا چاہیے پہلے ایک بیٹا تھا پھر بہو آئی اس نے ہمیں پوتا اور پوتی کی شکل میں نعمت دی ہے ماشاءاللہ ۔۔یہ سب اللہ کا کرم ہے اس کی دی ہوئی برکت ہے آج ہم ہیں کل نہیں رہے گے ہماری جگہ ہماری اولاد رہے گی یہ ہی سلسلہ جاری رہے گا یہ ہی دنیا ہے ایسے ہی دنیا قائم رہتی ہے ۔ جب تک ہم رہنگے یہ اولاد اور ان کی اولاد کے لئے دل میں محبت بھی رہے گی ۔ اللہ پاک ہی نے ہمارے دل میں محبت ڈالی ہے پھر ہم کیوں اس کو نکالنے ادھر ادھر خود کو محو کریں۔ دیکھے ان کو یاد کرنے سے ہی دل کو کچھ تسلی ہوئی ہے ان کی یاد ہی ہمارے دردِدل کی دوا بنی ہے ۔ یہیں ہمارے دلوں میں قید ہیں پھر دوری 

کیسی ۔اللہ کی نعمت ہے تو پھر نعمت سے دکھ کیسا ۔



ہر محبت میں اللہ کی محبت پوشیدہ ہے ۔اگر وہ محبت نہ دیتا تو نہ یہ رشتوں کا
 احترام ہوتا نہ یوں ایک دوسرے کے دل کا سکون بنتے نہ آنکھوں کی ٹھنڈک ۔ یہ رشتہ انسانیت ہی قائم نہ ہوتی۔ وہ ہی دلوں کا پھیرنے والا ہے وہ ہی ہم پر محبت کی نگاہ کرے تو ہم محبت کے سزاوار ہوتے ہیں ۔ پھر کیوں نہ ہم اللہ کی دی ہوئی محبت اس کی خوشی کے لئے ہی کریں ۔وہ ہی اس محبت کا اصلی حقدار ہے ۔ جب تک جس کا ساتھ رکھا، الحمدللہ کہہ لیا اور جب کسی سے جدا ہوئے تو بھی مرضی مولا سوچ لیا۔اصل محبت تو اللہ ہی کی ہے اور اس کی محبت کے لئے اسکی مخلوق سے محبت کرنی چاہیے اسی خیال نے دل کو بہت سکون دیا ۔ ہر خیال سے افضل اللہ کا خیال ہر ذکر سے بہتر اللہ کا ذکر اسی سے دل کو قوت، 
راحت اور سکون بھی ملتا ہے ۔۔۔۔



ہر شئے کو تیری جلوہ گیری سے ثبات ہے

تیرا یہ سوز و ساز سراپا حیات ہے



اللہ تعالٰی سے دعا ہے اے اللہ ہمارے دلوں میں کسی کے لئے بھی محبت ہو یا نفرت صرف تیری راضا کے لئے ہو۔ تو ہم سے دونوں جہاں میں راضی رہے۔۔

آپ سے اظہار ِحال کرکے بہت دل کو سکون ملا ۔

میری عجیب باتیں پڑھنے اور بلاگ پر تشریف لانے کا بے حد شکریہ ۔اللہ تعالٰی آپ سب کو شاد و آباد رکھے ۔۔۔۔۔


۔

Sunday, August 19, 2012

عید بہہہہت بہت مبارک ہو


السلام علیکم

میرے عزیز بھائیوں و پیاری بہنوں

میری طرف سےعید کی پر خلوص مبارک باد پیش ہے ۔

میں خود نہیں جانتی تھی کہ میں اپنی مصروفیت میں سے کسی نہ کسی طرح وقت نکل کر یہاں بلاگ پر آ سکوں گی مگر وہ سچ ہی کہتے ہیں جہاں چاہ ہوتی ہے وہاں رہ  ہوتی ہے میں یہ مبارک باد دینے سے پہلے سوچ رہی تھی کہ یہ رشتہ بھی کتنا عجب ہےجو انجانےان دیکھے اور شاید کئی حضرات کے تو نام بھی اصلی نہیں جانتی ہونگی مگر پھر بھی وہ  دل سے بہت قریب ہیں  جو میری دعاؤں میں شامل ہیں ۔ جنہیں نہ دیکھ کر بھی پہچانتی ہوں  نہ جان کر بھی  اپنا مانتی ہوں ۔جن کے بغیر عید ،عید نہیں لگتی  ۔۔۔ پھر جو اتنا عزیز ہو جس کی اتنی قدر کرتی ہوں تو بنا ان تک مبارک باد پہچائے میں کیسے رہ سکتی ہوں اور خود عید منا سکتی ہوں بھلا
میری اور میری فیملی کی جانب سے آپ سب کو دلی عید مبارک ہو ۔اللہ زندگی کا ہر دن آپ سب کا عید  کی طرح خوشگوار بنے رہے ہمیشہ ۔  سارے عالم کے مسلمانوں کو نیک ہدایت دے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے بتائے ہوئے راستہ پر چلنے کی توفیق دے۔اللہ پاک کےرحم وکرم کی برسات سارا سال ہوتی رہے ۔ ہر مصیبت و الم سے بچاکرایمان،عزت،راحت اور شان و شوکت سے رکھے ۔






میرے بلاگ پر آنے کا بے حد شکریہ

Tuesday, August 07, 2012

رزق کی فریاد


السلام علیکم

میری پیاری بہنوں ومعزز بھائیوں

امید کے آپ سب رمضان کے خیر وبرکت سے مالامال ہورہے ہونگے اس دعاوں کی محتاج بہن کو بھی اپنی دعاوں میں شامل رکھیے گا ۔ کچھ خود پر گزرے واقعات سے متاثر ہوکر ایک مضمون لکھا ہے امید کہ آپ لوگ بھی میرے خیال سے متفق ہوگے۔


رمضان کا مہینہ برکتوں ،رحمتوں کا مہینہ ہے۔ الحمد للہ اس میں خوب رزق میں کشادگی اور فراخی ہوتی ہے ہر گھر میں کئی کئی ڈش بنتی ہیں بازار میں بھی کھانے پینے کی اشیاء خوب فروخت ہوتی ہیں۔ عزیز و احباب سے ملاقات کی جاتی ہیں۔دعوتیں ہوتی ہیں اور اکثر دعوتوں میں یہ دیکھ کر سخت الجھن ہوتی ہےکہ محفل و تقریب میں جتنا پکایا جاتا ہے اتنا کھایا نہیں جاتا اور مہمان پلیٹ میں بھر بھر کر ڈال لیا کرتے ہیں اور نتیجہ کھا نہیں سکتے اور باقی بچا کر چھوڑ دیتے ہیں پھر وہ ضائع کردیا جاتا ہے جب کہ ہمارے پیارےنبی محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں کیا اچھا جینے کا طریقہ سکھایا ہے۔


بیان کیا ابن عباسؓ نے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم میں کوئی کھائے تو ہاتھ نہ پونچھے جب تک انگلیوں کو چاٹ نہ لے یا کسی دوسرے کو چٹا نہ دے ۔
(صحیح بخاری)

امام احمد، ترمذی اور ابن ماجہ نے نبیشۃ الخیر الہذلی سے روایت کی کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے کسی پیالہ میں کھایا پھر اس کو چاٹا تو وہ پیالہ اس کیلئے استغفار کرے گا۔


دیکھیے ہم رکابیوں میں کھانا بچا چھوڑ کر اللہ رسول کی نافرمانی کے موجب بن رہے ہیں اور پھرہم اپنا کتنا بڑا نقصان کررہے ہیں ۔ اس کے برخلاف اگر ہم ایسا نہ کرے تو اللہ رسول کے اطاعت گذار بنے رہےگے یہاں تک کے استمعال کیا ہوا وہ برتن تک ہمارے لئے استغفار کرے گا اور ہمیں خیرو برکت بھی حاصل ہوگی۔
ذیل کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف ایک نوالہ گرنے پر ہمیں حکم دیا جارہا ہے نا قدری نہ کرنے کا توسوچوں تب کتنا زیادہ گناہ ہوگا جب اتنا سارے رزق کو ضائع کردیا جاتاہوگا ۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم جب کھانا تناول فرمالیتے تو تینوں انگلیوں کو چاٹ لیا کرتے اور فرمایا کہ جب تم میں سے کسی کا نوالہ گر جائے تو اُسے صاف کرکے کھالینا چاہیے اور اُسے شیطان کے لئے نہ چھوڑے اور ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ پیالے کو صاف کر دیا کریں کیونکہ تم میں سے کوئی نہیں جانتا کہ اس کے لئے کھانے کے کون سے حصّے میں برکت رکھی گئی
(سنن ابوداؤد)


ایک نوالہ تک گرجائے تو اٹھا کر کھانے کا حکم ہے تو پھر اکثر دعوتوں میں اتنا اتنا کھانا پھیکا جاتا ہے جو بہت ہی غلط ہوتا ہے ۔انسان کو اللہ نے آزمائش و امتحان کے لئے پیدا فرمایا ہے۔یہ دنیا تو فانی ہے اصلی دنیا تو آخرت ہے ہم کو چاہیے کہ خیر کو اختیار کرکےشر سے اجتناب برتے اور آزمائش میں پورے اترنے کی کوشش کرے اللہ پاک سورہ آل عمران(200) میں فرماتا ہے واتقوا اللہ لعکم تفلحون یعنی جب تقوی آئے گا (گناہوں سے بچنا)تب علم کا نور آئے گا۔آج کل شادی ولیمہ و دیگر تقاریب ہی نہیں روزمرہ گھروں میں بھی رزق کی بے حرمتی ہوا کرتی ہے ہمیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ

حضرت عا ئشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ فرما تی ہیں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں تشریف لائے اور ایک روٹی کا ٹکڑا زمین پر پڑا ہو ادیکھا آپ نے اس کو اٹھا یا ، صاف کیا اور کھالیا ۔حضور مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کو فرمایا اچھی چیز کا احترام کیا کرو ، روٹی جب کسی سے بھا گتی ہے تو لو ٹ کر نہیں آتی ۔ ( اچھی چیز سے یہ بھی مرا د ہے کہ اللہ کی دی ہو ئی دوسر ی اشیا ءکی بھی قدر کیا کرو ) ۔اگر بچ جائے تو کوئی غریب ہی کو دے دیا جائے ایک غریب کی اعانت ہوگی ضائع ہونے سے بچ جائے گا آپ کو دعا بھی ملے گی نیکی بھی ۔

غفلت و تکبر سے جو اللہ کےرزق جیسے نعمت کی ناقدری کرتے ہیں جو گناہ میں شامل ہے
گناہ کی وجہہ سے اللہ کی امداد بندہوجاتی ہےکیونکہ اللہ تعالٰی فرماتا ہے ﴿یایہاالذین آمنوا إن تنصروا اللہ ینصرکم﴾․ اے ایمان والو! اگرتم اللہ کی مددیعنی اطاعت کروگے تواللہ تمہاری مددکرے گا۔ (سورہٴ محمد:7)


یہ ہی وجہہ ہے کے دنیا میں بہت سارے ممالک میں لوگ بھوکے مررہے ہیں اناج کو ترس رہے ہیں دانہ دانہ کے محتاج ہوگئے ہیں جب بھی ایسے نیوز پڑھے جاتے ہیں تو دلی تکلیف ہوتی ہے مگر پھربھی اگلا گرا تو پیچھلا ہوشیار نہیں ہوتا۔

اقوام متحدہ کے خوراک کے ادارے ایف اے او کا کہنا ہے کہ دنیا میں ایک ارب سے زیادہ افراد بھوک میں مبتلا ہیں تو دوسری طرف اقوام متحدہ ہی کی جانب سے کرائی جانے والی ایک تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ دنیا میں ہر سال تیار کی جانی والی ایک تہائی خوراک ضائع ہوجاتی ہے۔ ہر سال ضائع ہونے والی خوراک کا وزن تقریباً ایک ارب ٹن ہوتا ہے۔یورپ اور شمالی امریکہ میں اوسطاً ایک شخض سالانہ ایک سو کلو گرام قابل استمعال خوراک ضائع کردیتا ہے۔


جب اللہ پاک آپ کو نعمتیں عطا کی ہیں تو اسے ضائع نہ کرے اس کا صحیح استمعال کرے حقدار و غریب محتاج کو دے وہ آپ کے آخرت میں کام آئے گا۔کسی بھی چیز کو ضائع کرنے سے پہلے آپ اس کے بارے میں سوچے کہ جو رزق ہم کو ملا ہے وہ آپ تک پہچتے پہچتے کتنے لوگوں کی محنت ،وقت ذرئعہ اور مرحلوں سے ہوتے ہوئے آپ تک آیا ہے۔ یاد رکھیں جو زرق کا صحیح استمعال کرنا اور اس کو ضائع جانے سے بچانا بھی رزق کا شکر ادا کرنا ہے اور جو لوگ شکر نہیں کرتے ان سے نعمت سلب کرلی جاتی ہے اور واپس نہیں دی جاتی ۔واقعی اللہ تعالٰی کسی قوم کی حالت میں تغیر نہیں کرتا جب تک وہ لوگ خود ہی اپنی حالت نہیں بدل دیتے۔


بعض اللہ کے بندے غریبوں کو اس وقت دیتے ہیں جب وہ خراب ہونے لگے توتب انہیں خیال آتا ہے کہ غریب کو دے دینا چاہئے۔ہمیں چاہیے کہ دوسروں کے لئے بھی ویسا ہی پسند کرے جو خود کے لئے ہو۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا تم ہرگز نیکی میں کمال حاصل نہ کرسکو گے جب تک اپنی پسندیدہ چیز سے کچھ خرچ نہ کرو۔ اور جو چیزخرچ کرو گے سو اللہ کو معلوم ہے۔(سورہ آل عمرا92)۔


۔بچوں کو والدین بچپن سے تھوڑا تھوڑا کھانالینے کی ترغیب دینا اور بچا کر چھوڑنے سے روکنا چاہیے۔ اگر دعوتوں میں زیادہ بچ جائے تو غربا میں تقسیم فوراً کردینا چاہیے تاکہ اچھی حالات میں انہیں ملے ۔
ہمیں چاہیے کہ اللہ کی اطاعت اور پیارے حبیب کی سنت پر قائم رہنے کی کوشش کرنی چاہیے پھران شا ءاللہ ٓاہستہ آہستہ ہم میں تغیر آجائے گا اور ہمیں اللہ پاک سچا شکر گزار بنا دے گا، ان شاء اللہ۔


اللہ پاک! رزق کے ضائع کرنے اور کفرانِ نعمت سے ہمیں بچائےاسراف اور کنجوسی سے بچا کر درمیانی راستہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

بلاگ پر تشریف لانے کا دلی شکریہ

Sunday, July 22, 2012

سیدالا ستغفار

Saturday, July 21, 2012

رمضان مبارک ہو

السلام علیکم
میری جانب سے
تمام دینی بہنو ں اور بھائیوں
کی خدمت عالی میں اس مبارک ماہ
رمضان الکریم کی مبارک باد پیش ہےٓ
اللہ تعالٰی ہمیں اس کی رحمتیں ، برکتیں اور نعمتوں
کے حصول کی توفیق و قوت اپنے کرمِ خاص سے عطا فرمائے ۔


.....................................................................................................................................



[

Wednesday, July 11, 2012

ایک سوچ



السلام علیکم

میرے معزیز بھائیوں اور پیاری بہنوں:ـ

آپ سب نے بھی مشاہدہ کیا ہی ہوگا کسی کے اس دنیا سے گزارنے کے بعد ،بہت تکلیف ہوتی ہے جب کوئی اپنا اس دنیا سے چلے جاتا ہے ۔ ہر ایک کی زندگی میں کبھی نہ کبھی  ایسا وقت ضرور آتا ہے اور بہت شدید دردکا احساس ہوتا ہے کسی اپنے کے جانے پر  لگتا ہے ہم کیوں زندہ ہیں، ہم کیوں نہیں مر گئے اب کیسے رہنگے کیوں کر ان کے بنا جیئے گے ۔ ایسے وقت اللہ کے بہت قریب خود کو محسوس کرتے ہیں دل میں اللہ کا ڈر اور اس کی مدد کی محتاجی محسوس کرتے ہیں  مگر صبر آہی جاتا ہے اللہ کے کرم سے ۔اللہ جانے والوں کو بلند سے بلند مقام دے

 جانے والوں کے بارے میں تو اللہ کی مرضی سوچ کر دل کو اطمینان دینے کی کوشش کریے گے مگر جو ان کے بہت قریبی ہوتے ہیں ان کا دکھ دیکھا نہیں جاتا ۔پھر اللہ ہی کی مدد تھام لیتی ہے انہیں کچھ عرصہ کے بعد ہم خود حالات سے سمجھوتا کرتے دیکھ کر دنگ رہتے ہیں کہ کیسے ہمت ملی کیسے اتنے دن گزار لے ہونگے سوچ کر ۔ مرحوم کے لئے دعا  مغفرت مانگتے نہیں تھکتے  بھلے ہی کبھی زندگی میں پانی تک پلانے کی  توفیق تک نہ ہوئی  ہو ۔ ہم زندہ رہنے تک خوش کیوں نہیں رکھتےاور انکے مرنے کے بعد ان کی خواہشوں کی تکمیل کے لئے کوشا کیوں ہوجاتے ہیں ۔  وہ یہ چاہتے تھے ،ان کی مرضی ایسی تھی، ہم اب ان کی خوشی کے لئے یہ کررہے ہیں وغیرہ وغیرہ یہ سب دیکھ کر ہمیشہ میں اپنے آپ سے سوال کرنے لگتی ہوں  کہ کوئی مر جانے کے بعد  ایسے خیال کیوں رکھتے ہیں؟ زندگی میں پرواہ کیوں نہیں کرتے ؟ پھر یہ سوچ کر تسلی ملتی ہے کہ شاید  مقدر کی تکمیل کے لئے اللہ پاک ہمارے دماغ میں اسباب کو پیدا کردیتا ہے یا کچھ اوربات ہوتی ہے یہ ہی دنیا ہے ایسے ہی دنیا کے کاروبار چل رہا ہے یہ سب کچھ خدائے بزروگوار ہی کے ہاتھ ہے وہ ہی درد دیتا ہے پھر وہ ہی دوا بھی دیتا ہے ۔
 جانے والے تو چلے جاتے ہیں دنیا چلتے ہی رہتی ہے

ایک دن ہمیں بھی ایسے ہی جانا ہے پھرسب کچھ ایسے ہی ہوگا ۔  پہلے چند دن خوب رویا جائے گا پھر یاد کرکے آہیں بھری جائے گی اور پھر کبھی کبھی خاص موقعہ یا بات پر یاد کیا جائے گا اور آخر میں بھولی بسری کہانی بن جائنگے ۔اب ہمارے سوچنے کا وقت یہ ہی ہے۔ہم اسے یا وہ ہمیں چھوڑنا ہی ہے پھر ہمیں بھی اس بے وفا  دنیا کے لئےکیا سوچنا اس دنیا اور اس میں بسنے والوں کی فکر کیوں کرنا۔۔۔۔۔۔۔ بس ہمیں اللہ کی رضا اور ان کے احکام پر زیادہ سے زیادہ نظریں جما کر شب وزور  گزارنا چاہیےاللہ کے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کو مشعل راہ بناکر ہمیں اس پر عمل کرنا چاہیے پھرہم خود دیکھے گے ۔ ۔ہم اللہ کی پیدائش کے مقصد یعنی اس کی عبادت کرکے آخرت سنوارے گے ہی نہیں بالکہ  دنیا میں سب کے حقوق بھی بہت اچھے سے ادا کرکے عزیزوں رشتہ داروں کے دل میں بھی سدا زندہ ہونگے اس طرح ہمیں دنیا اور آخرت کی بھلائی ملے گی اور کامیاب زندگی گزار کر کامیاب آخرت کے سفر پر رواں ہو جائیگے۔ان شاءاللہ ۔ اللہ پاک ہدایت دے ہمیں

آپ ہی گویا مسافر ،آپ ہی منزل ہوں میں

__________________

Wednesday, July 04, 2012

پسندیدہ پھل ۔۔۔ آم



السلام علیکم

میرے معزیز بھائیوں اور پیاری بہنوں
آج ہمارے ایک نیٹ کے  فارس بھائی نے آم کے بارے میں بتاتے ہوئے لکھنے کے بعد ہم سے پوچھا ہے کہ 
آپ کو امبا کا ذائقہ کیسا لگتا ہے؟

ان کے اس سوال نےہمیں
 یادوں میں پہچادیا ہے ۔آم کو لے کر بہت سی یادیں ایسی ہیں  دماغ میں کہ کیا بتاوں
 یہاں بھی آم آتے ہیں کھاتے ہیں مگر اپنے وطن کا مزہ کہاں بچپن میں چھاڑوں پر پتھر مارنا پھر نشانہ لگنے پر خوشی اور پھر اس کو لوٹنے میں کامیاب ہونے کی بھی الگ خوشی اگر گرا تو دیے اور لے کوئی اور گیا تو پھر سے مارنے کی کوشش سے مسلسل ہمت نہ ہارنے کی سیکھ ملتی اور دوسروں پرمہربانی کا بھی ایک الگ لطف ہوا کرتا تھا۔


بابا کے پلنگ کے نیچے گھانس میں لپٹے آم پھیلے ہوتے جو پیلے ہوتے ہی موقعہ دیکھ کر ہم ہاتھ صاف کرجاتے اور دوسرے دن بابا جب کہتےکہ میں نے کل ہی توآٹھ دس آم پکنے کے قریب دیکھے تھے وہ کہاں ہیں اور ہمیں سے دیکھنے کہتے تو پھر ہم تین چار آم کے نکلنے کے بعد ڈرتے ڈرتے کہتے کہ بس اتنے ہی ہیں اور بھی ہونے کا بابا کو یقین ہوتا اور ڈھونڈنے کہتے تو ہم نادم سے ہوکر نہیں ہے وہ وہ دو تین، بار کہتے تو بابا سمجھ جاتے اور ہنسی دبا کر تیور بدل کر کہتے ارے بیٹے چین سے رس نکل کردودھ ملکر آم رس بناتے اور کھاتے نا اور پھر چپ ہوجاتے۔بابا کو کیا پتہ آم دیکھتے ہی کھاجانے کو دل ہمارا کتنا بے چین ہوتا تھا اب جاکر میں بھی بابا ہی کی طرح سوچتی ہوں مگر میرے بچے بےچاروں کو فریج میں پڑے آم اتنا مغلوب کیوں نہیں کرتے یہ بات میری سمجھ سے باہر ہے۔۔


جب اردو لکھنا سیکھی تو الف سے آم ہی تو لکھا تھا میں نے سب سے پہلے اور دیکھو تو آم میں الف اور میم کامن ہے امی کے نام کی طرح اور ہمیں دونوں ہی بہت پیارے لگتے ہیں۔  یہ آم کوچھوٹے سے بڑے تک سب ہی بڑے آرام و اطمینان سے کھاسکتے ہیں اسے غالب کا میوہ کہو یا اکبر کا پسندیدہ یا پھر بابر بادشاہ کا یہ میووں میں بادشاہ ہوتا ہے اور جو نہ کھائے وہ ہوتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔کیونکہ کہتے ہیں گدھا آم نہیں کھاتا۔۔۔
یہ میں نہیں کہتی یہ تو چیچا غالب کا خیال ہے جو کہیں میں نے پڑھا تھا آپ بھی پڑھکر اطمینان کرلیجئے اور بتایے گا کہ کیا یہ سچ ہے ۔۔۔


کہتے ہیں ایک بار مرزا غالب گلی میں بیٹھے آم کھارہے تھے انکے ساتھ ایک ایسے دوست بھی بیٹھے تھے جن کو آموں سے ذرہ برابر بھی ر‏غبت نہیں تھی اتنے میں ایک گدھا آیا ، مرزا غالب نے آم کے چھلکے اس کے سامنے رکھ ديئے مگر اس گدھے نے صرف ان کو سونگھا اور آگئے بڑھ گیا ، مزرا غالب کے دوست نے طنزیہ کہا ، دیکھ لو گدھا بھی ایسی چیزوں کو نہیں کھاتا
مرزا غالب نے ہاتھ میں پکڑے آم کو مزے سے چوتے ہوئے بڑی اطمینان سے جواب دیا
گدھا آم نہیں کھا تا۔





کیا کسی نے ہاتھ سے گھما گھما کرہاتھ کے آلہ میں بنانے والی آئسکریم کھائی اور بنائی ہے؟
ہر سال ہمارےبابا کے پاس بنائی جاتی تھی بڑا مزہ آتا تھا سارے بہنوں بھائیوں کے ساتھ ملکر گھر پرآئسکریم بنائی جاتی ، تیز گرما کا موسم، چھٹیوں کے دن اور سب کی گھر پرموجودگی ۔جب بھی بنانے کا پروگرم بنتا ہر کوئی آئسکریم بنانے میں مصروف ہوتا۔  کوئی برف لانے بھاگ رہا ہے تو کوئی کسٹرڈ تیار کررہی ہیں کوئی پانی میں آم ڈالتا ہے تو کوئی رس نکال رہا ہے کوئی سال بھر سے پڑے آلہ کی صفائی کرتاہے۔ تو کوئی نمک بڑے سے کٹورے میں بھرکر تیار رکھتاآلہ میں ڈالنے اورکوئی  آئسکریم بنے کے بعدڈالنے کے لئے چھوٹی چھوٹی کٹوریوں کو دھو کر ٹرے میں جما کر رکھ رہے ہیں اورامی ہر ایک کو الگ الگ کاموں کی ہدایت دیتی آگے کا آگےکام یاد دیلاتے رہتی ۔اور  بابا کا کام  ہوتاکہ جیب ہلکی کرتے رہنا اور سب کو دیکھ دیکھ کر خوش ہوتے رہنا۔پھر گھمانے کے وقت سب باری باری مقابلہ سے گھماتے کون کتنی دیر پھیراتے رہا دیکھا جاتا ۔ افف ہاتھ دکھ جاتا مگر پھر بھی چکّردیتے رہتے ۔ جب میری باری آتی گھر بھر میں چھوٹی ہونے سے کچھ دیر میں ہی  کوئی بھائی ہاتھ زبردستی پکڑلیتے ہمارے تردُّد  پر ہمارے جیتنے کا اعلان کردیتے تب جاکر ہم ہاتھ ہٹاتے۔۔۔۔۔۔۔ سب کچھ آج جب بھی گرما میں آئسکریم کے نام سے ایسے یاد آتا ہے جیسے کل کی بات ہو۔ کوئی لوٹا دے میرے بیتے ہوئے دن۔۔۔۔۔۔۔
اب تو ہمارے یہاں تیار آئسکریم ہی آتی ہے گھرمیں ایک دو بار نند نے اور پھر بیٹی نےفریج کی بنائی وہ آئسکریم ایسی تھی کہ محنت تو خوب کی ان لوگوں نے زبان سے تو تعریف ہی نکلی محنت کی وجہہ سے مگر دل نے کھانے کے بعد کہا" دل کے بہلانے کوغالب یہ خیال اچھا ہے ۔۔۔


غالب کے خیال سے مجھے  ایک اورشاعر یاد آگئے آم کا ذکر ہو اورحضرت اکبر آلہ آبادی یاد نہ آئے یہ کیسے ہوسکتا ہے ۔ ہم تو ہر سال آم کو دیکھ کر بچپن میں یاد کی گئی نظم پڑھے بنا میں رہ ہی نہیں سکتی ۔ کہتے ہیں منشی نثار حسین ایڈیٹر(
 گلدستہ )کو اکبر آلہ آبادی نے فرمائش کی طور پر یہ نظم لکھ بھیجی تھی جو نصاب میں تھی۔۔
   


نامہ نہ کوئی یار کا پیغام بھیجئے
اس فصل میں جو بھیجئے بس آم بھیجئے
معلوم ہی ہے آپ کو بندے کا ایڈریس
سیدھے الٰہ آباد مرے نام بھیجئے
ایسا نہ ہو کہ آپ یہ لکھیں جواب میں
تعمیل ہوگی! پہلے مگر دام بھیجئے




حضرت اکبر آلہ آبادی نہ صرف تحفہ میں آم کو منگوانا  پسند کرتے تھے بالکہ لگتا ہے اتنا ہی  تحفہ میں بھجانا بھی پسند کرتے تھے۔  کہتے ہیں ایک بار
اکبر الٰہ آبادی نے علامہ اقبال کے لیے الٰہ آباد سے لنگڑے آموں کا پارسل بھیجا۔ علامہ اقبال نے پارسل کی رسید پر دستخط کرتے ہوئے یہ شعر  لکھ  بھیجا تھا انہیں



اثر یہ تیرے اعجازِ مسیحائی کا ہے اکبر
الٰہ آباد سے چلا لنگڑا، لاہور تک آیا



کسی نے  حضرت اکبر الہ آبادی سے دریافت کیا !
دارالعلوم دیوبند اور ندوۃ العلماء لکھنؤ میں کیا فرق ہے؟
فرمایا!
دیوبند ہے شریعت کا فرزند ارجمند
اور ندوہ ہے فقط زبان ہو شمند

ہمیں تو اس گرما کی شدت و حدد کے باوجود اس موسم کا آم ہی کی وجہہ سے انتظار رہتا ہے اورپھر اس آم جیسی نعمت سے خوب لطف اندوز ہوا جاتا ہےاورکہتے ہیں اس  کے فوائد بھی بہت زیادہ ہے بہت سارے فوائد میں ہمیں بس مطلب کا ایک ہی فائدہ یاد رہ گیا وہ یہ کہ اس کے کھانے سےبہت خون بنتا ہے جس کی وجہہ سے چہرہ صاف اور نکھرا نکھرا نظر آتا ہے ۔آم کی وجہہ سے لبوں پر بے اختیار اللہ کا شکر آ جاتا ہے ایک طرح سے یہ کھانے سے اللہ کے شکر گزار بن جاتے ہیں ۔۔
ٹھیک کہا نا میں نے اور میں بھی آپ سب کی شکر گزار ہوں بلاگ پر آنے اور تحریر پڑھنے کے لئے۔۔جیتےرہیے خوش رہیے۔۔۔