Thursday, February 28, 2013

۔ شہنشاہ رباعیات ۔ ( حصّہ اول)۔






امجد حیدرآبادی

السلام علیکم 

نام سید احمد حسین امجد تخلض16فروری 1886 کو حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئے ۔ ان کےوالد صوفی سید رحیم علی بڑےنیک اور خدا رسیدہ بزرگ تھے ۔ پالنے میں ہی سایہ پدری سے محروم ہوگئے۔ امجد نے ابتدائی تعلیم جامعہ نظامیہ میں حاصل کی اور پنجاب یونیورسٹی سے منشی فاضل کا امتحان کامیاب کیا۔ان کی ماں نے نامساعد حالات میں ان کی پرورش کی اورشخصی دلچسپی سے انہیں تعلیم دلائی۔ جس طرح بی اماں نے مولانامحمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی کو خلافت تحریک پر جان دینے کو کہا ۔اسی طرح امجد کی ماں صوفیہ صاحبہ نے انہیں کہا بیٹا "اگر جینا ہو تو کچھ ہو کر جیو"ورنہ بہتر یہی ہے کہ مرجاو۔ ہر کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے اسی طرح یہ بات امجد پر صادق آتی ہے کہ ان کی کامیابی میں ان کی ماں کا بہت بڑا ہاتھ تھا۔ 

 منشی فاضل کا امتحان کامیاب ہونے کے بعد کچھ دنوں امجد نے بنگلور میں ملازمت کی پھر حیدرآباد آکر دارالعلوم کی اسکول میں مدرس ہوئےبعد ازاں دفتر صدرمحاسبی میں ملازم ہوئے اور ترقی کرتے ہوئے مددگار صدر محاسب کے عہدے سے وظیفہ حسن خدمت پر سبکدوش ہوئے ۔شاعری کی ابتداءدیوان ناسخ کے مطالعہ کے دوران ہوئی کئ اساتذہ کو اصلاح کے لئے کلام دکھایا ۔1907 میں اپنے دوست مولوی ظفریاب خان کی فرمائش پر اپنا اولین مجموعہ"رباعیات "امجد شمسی پریس آگرہ سے شائع کروایا۔ جو اردو ،فارسی کلام پر مشتمل ہے اس مجموے میں جملہ 125رباعیاں ہیں ۔اس دیوان کی اشاعت سے 3یا4سال قبل جبکہ ان کی عمر سترہ اٹھارہ سال کی تھی شیخ میراں صٓحب کی دختر محبوب النساء سے ان کی شادی ہوئی جن سے ایک بیٹی اعظم النساء پیدا ہوئیں1908میں موسیٰ ندی کی طغیانی کا حادثہ پیش آیا ۔جس میں آپ کی والدہ صوفیہ صاحبہ،بیوی محبوب النساء اور بیٹی اعظم النساءسیلاب کی نذر ہوگئے۔ لیکن امجد معجزاتی طور پر بچ گئے ۔ اس طغیانی کا آپ کے دل پر نہایت گہرا اثر ہوا۔اور ایک عرصہ دراز تک مجرد زندگی گزارتے رہے ۔آپ کے خاندان کے ساتھ رباعیات امجد کا نسخہ بھی سیلاب کی نذر ہوگیا،صرف ایک نسخہ ادارہ ادبیات اردو پنچہ گٹہ کے کتب خانے میں موجود ہے۔
               

امجد حیدرآبادی ایک صوفی منشی انسان تھے۔
ان کی شاعری وجدانی کیفیت کی حامل تھی۔امجد کے کلام کی عظمت اور اس کی وقعت اور ادبی حثیت کا اندازہ ہم ان اکابرین ودنشواران ادب کے خیالات سے لگا سکتے ہیں۔



علامہ سلیمان ندوی لکھتے ہیں:"حکیم الشعراء(سعدی دکن)اورسعدی شیرازی کا مقابلہ کرتے ہوئےکیا"کہنے کو تویہ سعدی کی گلستان کا ترجمہ ہے مگر حقیقت میں امجد کی تصنیف ہے اس میں امجد نے سعدی کے خزانہ پر اس طرح قبضہ کیاکہ وہ قابض ہوگیا"۔


ڈاکٹر سر محمد اقبال نے کہا:ہررباعی قابل داد ہے ان رباعیات کو پڑھنے سے روحانی مسرت حاصل ہوتی ہے"۔


مولوی عبدالماجد دریابادی نے لکھا:"رباعیات امجد زندگی کے اعلٰی ترین رخ کی تفسیر ہے اور بہ لحاظِ ادب خیال کا بہترین نمونہ ہے"۔


مولوی وحیدالدین سلیم کا کہنا ہے :"امجد صاحب قدرتی شاعر ہیں"۔


مولوی علی حیدرنظم طباطبائی نے لکھا:"امجد کی داد دینا سخن شناسی کا مقتضا ہے"۔


پروفیسر عبدالواسع کہتے ہیں:"ان کی ہر سباعی مضامین کا ایک دفتر ہے اور ہر مصرعہ دلکشی کا ایک بہاگوہر"۔


پروفیسر مناظر احسن گیلانی نے لکھا:"حضرت امجد ہندوستان کے ان شعراء میں ہیں جن کو زمانہ صدیوں کے بعد پیدا کرتا ہے"۔



رودِموسی کی طغیانی کے چھ سال بعد امجد کا عقد ثانی سیدنادرالدین کی بیٹی جمال النساء سے ہوا۔ وہ اردو کے علاوہ عربی و فارسی کا بھی اعلی ذوق رکھتی تھیں۔امجد نے ان کا نام جمال سلٰمی رکھا۔آپ کی روحانی ترقی میں جمال سلٰمی نے تحریک کا کام کیا۔ جمال سلٰمی کا بھی انتقال بہت جلد ہوا تو امجد نے"جمال امجد"کے نام سے ایک کتاب لکھی جس کے ابتدائی حصے میں اپنی زندگی کے سوانح بھی تحریر کی۔ ۔ رودِموسٰی کی طغیانی میں امجد کا کلام رباعیات امجد بھی بہہ گیا۔اس کے بعد تقریباً20سال کا عرصہ لگ گیااوراس وقت دوبارہ رباعیات امجد اول کے نام سے نئی رباعیات شائع کیں اور حصہ اول کی اشاعت کے دس سال بعد"رباعیات امجد"حصہ دوم شائع ہوا۔ وفات سے پانچ چھ سال قبل رباعیات حسن بلال کے عنوان سے محمد اکبرالدین صدیق نے 1962 میں حیدرآباد سے شائع کیا۔ امجد کی دیگر نثری اور منظوم تصانیف میں اردو فارسی رباعیات کثرت سے موجود ہیں ۔۔مسلم الاخلاق کے نام سے"اخلاق جلالی" کے لامعہ سوم کا اردو ترجمہ کیا "گلستانِ سعدی"کا گلستانِ امجد کے نام سے ترجمہ کیا۔ جمال امجد،حکایاتِ امجد،پیامِ امجد،ایوب کی کہانی،میاں بیوی کی کہانی،حج امجدآپ کے نثری کارنامے ہیں۔ منظوم تخلیقات میں رباعیات کے علاوہ ریاض امجدحصہ اول اور دوم خرقہءامجد، نذرامجد وغیرہ آپ کی یادگار ہیں۔آپکے فن اور شخصیت پر

بھی کئ کتابیں شائع ہوئیں اور ہورہی ہیں۔
ان کی کوئی اولاد نہیں رہی
دوسرے حصہ میں کلام ملاحظہ فرمائے گا۔۔۔۔

بہت شکریہ بلاگ پر آنے کے لئے

۔

۔ شہنشاہ رباعیات امجد ۔(حصّہ دوم)۔






امجد حید رآ با د ی



امجد حیدرآبادی بے بدل رباعی گو شاعر تھے،ان کے کلام میں کیفیت اور اثرموجود ہے۔ امجد نے اردو شاعری کی مختلف اضناف میں طبع آزمائی کی لیکن رباعیات میں ان کاکوئی ہمسر ہے نہ کوئی ثانی ۔اس فن میں وہ "امام الفن"کادرجہ رکھتےہیں اور انھیں اگررباعیات کا شہنشاہ کیا جائے تو بےجا نہ ہوگاکیوں کہ ان کی اکثروپیشتر رباعیات کا ماخذ قرآن اور حدیث ہے ان کی رباعیات میں عرفان وشق، فلسفہ اور اخلاق نظرآتے ہیں ملاحظہ کیجئے۔
واجب ہی کو ہے دوام باقی فانی
قیوم کو ہے قیام باقی فانی 
کہنے کو زمین وآسمان سب کچھ ہے

باقی ہے اسی کا نام ،باقی فانی


انسان کی زندگی کی دو سانسیں ہیں
ہر جان کی زندگی کی دو سانسیں ہیں
یہ کلمہ طیبہ کے دو جزو ہیں نہیں
ایمان کی زندگی کی دو سانسیں ہیں



لے لے کے خدا کا نام چلاتے ہیں
پھر بھی اثر دعا نہیں پاتے ہیں
کھاتے ہیں حرام لقمہ پڑھتے ہیں نماز
کرتے نہیں پرہیز دوا کھاتے ہیں

ہر چیز مسبب سبب سے مانگو
منت سے لجاجت سے ادب سے مانگو
کیوں غیر کے آگے ہاتھ پھلاتے ہو
گر بندے ہو رب کے تو رب سے مانگو


ہم باقی سب ہے فانی اللہ اللہ
ہے کون ہمارا ثانی اللہ اللہ
رحمت سے ہماری نا امیدی توبہ
اللہ سے یہ بد گمانی اللہ اللہ



نہ اب دور شباب باقی ہے
نہ اب دور شراب باقی ہے
ہو چکیں ختم لذتیں امجد
اب لذتوں کا عذاب باقی ہے


جب اپنی خطاؤں پر میں شرماتا ہوں
ایک خاص سرور قلب میں پاتا ہوں
توبہ کرتا ہوں جب گناہ سے امجد
پہلے سے زیادہ پاک ہو جاتا ہوں

امجد نے رودِموسی کی قیامت خیز تباہی و بر بادی پر "قیامت صغریٰ کے عنوان سےنظم لکھی اس کا کچھ حصہ ملاحظہ کیجئے




وہ رات کا سناٹا وہ گھنگھور گھٹائیں
بارش کی لگاتار جھڑی سرد ہوائیں



گرتا وہ مکانوں کا وہ چیخوں کی صدائیں
وہ مانگناہر اک کا رورو کے دعائیں



پانی کا وہ زور اور دریا کی روانی
پتھر کا کلیجہ ہو جسے دیکھ کے پاتی



اس طغیانی میں ان کی ماں ،بیوی اور بیٹی بہہ گئے تو انھوں نے کہا




مادر کہیں میں کہیں بادیدہء پرنم
بیوی کہیں اور بیٹی کہیں توڑتی تھی دم


عالم میں "نظرآتا تھا"تاریکی کا عالم
کیوں رات نہ ہو ڈوب گیا نیراعظم
سب آنکھوں کےسب نہاں ہوگئے پیارے
وہ غم تھا کہ دن کو نظر آنے لگے تارے




موسیٰ ندی کی طغیانی کے وقت امجد حیدرآبادی کے بچنےکا واقعہ میرے بابا کچھ ایسا سناتے تھے کہ جب اپنے گھر والوں کو مرتے اپنی آنکھوں سےوہ خود دیکھے اورخودکی موت کا یقین ہو گیا تھا تو ان کی جیب میں ان کے پاس کچھ پیسے تھے اس کا خیال آتے ہی انہوں نے سوچا کے آخری وقت میں یہ دنیا کا سامان کیوں رکھوں سوچ کر
نکل کر زور سے پھیکا اور وہ اس کی زور سے دورنکل آیے اور بچ گئے




ان کے احساسات وجذبات سے بھری ایک نظم پیش ہے ملاحظہ کریں




سن کتھا میری اچھی سہیلی
رات میں سورہی تھی اکیلی




آئی خوشبو مجھے عطر کی سی
چھوگئی سانس مجھ کو کسی کی


چھاگئی مجھ پہ بدلی کرم کی
بند آنکھوں میں بجلی سی چمکی

محو دیدہ رخ یار ہوں میں
خواب میں ہوں کہ بیدار ہوں میں
غم گدے میں میرے عید ہوگی
اب تو اٹھوں پہر دید ہوگی


میں تو اس وجد میں جھومتی تھی
اپنی قسمت کا منہ چومتی تھی




نا گہاں ایک ذرا آنکھ جھپکی
کڑکڑاکر گری غم کی بجلی

ہائے تقدیر نے رنگ بدلا
پھر یہ دیکھا کہ اس کو نہ دیکھا


اس نے جلوہ دکھایا ہی کیوں تھا
جانے والا پھر آیا ہی کیوں تھا؟


اب وہ ہم ہیں نہ وہ ہم نشیں ہے
ہائے سب ہوکے پھر کچھ نہیں ہے


اور کچھ بند اور حاضرخدمت ہیں۔
خالی ہے مکاں، مکیں پیدا کردے
دل میں میرے دل نشیں پیدا کردے
اے مردہ دلوں کو زندہ کرنے والے
شکی دل میں یقیں پیدا کردے


اس سینے میں کائنات رکھ لی میں نے
کیا ذکر صفات ذات رکھ لی میں نے
ظالم سہی جاہل سہی، نادان سہی
سب کچھ سہی تیری بات رکھ لی میں نے

حالِ دلِ دردناک معلوم نہیں
کیفیتِ روحِ پاک معلوم نہیں
جھوٹی ہے تمام علم کی لاف زنی
خاکی انسان کو خاک معلوم نہیں


نہ اب دور شباب باقی ہے
نہ اب دور شراب باقی ہے
ہو چکیں ختم لذتیں امجد
اب لذتوں کا عذاب باقی ہے

ہر آن چلا جاتا ہے ہنسنا رونا
ممکن ہی نہیں ہے ایک کروٹ سونا
معجون سُرور و دردمندی ہوں میں
مجموعہء پستی و بلندی ہوں میں


ہر گام پہ چکرا کے گرا جاتا ہوں
نقش کف پا بن کے مٹا جاتا ہوں
تو بھی تو سنبھال اے مرے دینے والے!
میں بار امانت میں دبا جاتا ہوں


غم میں ترے زندگی بسر کرتا ہوں
زندہ ہوں، مگر تیرے لئے مرتا ہوں
تیری ہی طرف ہر اک قدم اُٹھتا ہے
ہر سانس کے ساتھ تیرا دم بھرتا ہوں


ڈاکٹر۔ ق۔ سلیم کے مضمون سے کچھ لیا گیا ہے اور باقی میرا منتخب کیا ہوا ہے ۔

   بہت شکریہ بلاگ پر آنے کے لئے


۔۔

Saturday, February 23, 2013

حضرت سیدنا شیخ عبدالقادرجیلانی قدس سرہٌ


 
 
 
 
السلام علیکم
 
 
آج آپ سب کے لئے ایک بہت ہی پرانے رسالہ سے منتخب کلام لائی ہوں امید کہ آپ سب پسند فرمائےگئے۔ اور بہت مشکور ہوں آپ سب کی یہاں تشریف لانے کے لئے ۔ اللہ آپ سب کوخوش رکھے ۔ لیجئے پیش ہے۔
 
 
حضرت سیدنا شیخ عبدالقادرجیلانی قدس سرہٌ
 
کا
 
فارسی کلام
 
 
ائے بلبلِ شوریدہ دیوانہ توئی یاما
جو یائے رخِ خوبِ جانانہ توئی یاما
 
 
تو عاشقِ گلزاری، من عاشقِ دیدارم
در دردِ فراقِ او مردانہ توئی یاما
 
 
محی بہ گلستاں شد با بلبلِ نالاں گفت
کائے بلبلِ نالندہ جانا نہ توئی یاما
 
 
 
 
 
ترجمہ۔ اے بلبل ِشوریدہ سر بتا کہ تو دیوانہ ہے یا ہم دیوانے ہیں ، جاناں کے پیارے رخ کا تلاش کرنے والا یا سرگرداں اکیلا تو ہے یا ہم ہیں ۔تو باغ کا عاشق ہے اور میں (اللہ کے)دیدار کا طلب گار ہوں ۔توبتلا کہ تو اسکی جدائی کے درد میں مردانہ وار ہے یا ماندولت؟محی گلستان کو پہونچا اور بلبلِ نالاں سے کہا !اے(نالش)شکایت کرنے والے بلبل تو بتا کہ تو عاشق جاناں ہے یا ہم
 
 
(ترجمہ حافظ عبدالرزاق صدیقی آرزو)
ماخوذ از رسالہ القدیر ۱۳۷۴ھ

Monday, February 18, 2013

حال احوال

 
 
 


السلام علیکم
 
میرے عزیز بھائیوں اور پیاری بہنوں
 
 
ایک لمبی چھٹی کے بعد پھر ایک بار آپ سب سے ملنے کی تمنا بلاگ پر کھیچ لائی ہے ۔ آپ لوگ  تو شاید مجھے بھول بھال گئے مگر میں اپنے مصروفیت میں بھی آپ سب کو بھولا نہیں سکی جیسے ہی کچھ وقت ملتا بلاگرز کی تحریروں کا جائزہ لینے لگتی تو کبھی فیس بک کے دوستوں کی  پوسٹ پر نگاہیں دوڑانے لگتی مگر پھر کوئی بیچ میں حائل ہو کر یاد کروا ہی دیتا کہ یہ سب تو فرصت کے کام ہیں پھر کبھی کئے جاسکتے ہیں ۔ دنیا تمہارے لئے ہے تم دنیا کے لئے نہیں ۔ اب اپنوں میں ہو تو اپنوں کے ہو کر رہو  اور میں چاھتے ہوئے بھی نہ سمجھا سکتی کہ جب کوئی میرے مونس و ہمدرد قریب نہ ہوتے تو یہ ہی سب دل کا چین ہوا کرتے تھے ۔ وقت تو کسی کے لئے نہ روکا ہے نہ روکے گا مگر  کبھی کبھی وقت  سے تنگی کی شکایت ضرور ہونے لگتی ہے تو تب وہ اور اپنی قدر و قیمت کا احساس دیلانے لگتا ہے۔ جمرات کی صبح پھر ایک بار اپنے حیدرآباد شہر اور اقارِب کو چھوڑ کر ایک پرندے کی طرح دانہ پانی اور اپنے جیون ساتھی کے ہمقدم رہنے کی خاطر میں ہوا میں اڑان کرنے لگی ۔ انسان جہاں کہی بھی ہو وہ کچھ نیا دیکھتا ہے نیاسیکھتا ہے کچھ یادیں دماغ میں ہمیشہ جمع ہوتی رہتی ہیں تو کچھ لوگ اپنے اچھے اور برے تاثرات چھوڑتے جاتے ہیں ۔ میں یہاں ایک  سال گھر میں رہ کرجو نہ دیکھ پاتی وہ سب مجھے قریب ایک ماہ کچھ یوم میں اس کا کئی گنا زیادہ دیکھنے کو ملا ۔ میں نے دیکھا کہ ایک مسلمان کس طرح اپنے زورِ بازو سے دوسرے مسلمان بھائی کو ناموس کے نقصان پہچانے کا خوف دیلا کر مال لوٹ لے جاتا ہے۔ میں  یہ سن کر بھی حیران رہ گئی کہ ایک حافظہ قرآن اپنی من کی چلانے  کے لئے  ایک بے بنیاد تہمت لگانے سے بھی پیچھے نہیں رہے ۔اور بھی ایسی بہت ساری باتیں میں نے دیکھی ہیں جس کا موقعہ بموقعہ آگے ذکر کرتی  رہونگی ان شاءاللہ ۔
 
ہم بچپن سے سنتے تھے کہ حق کی ہمیشہ جیت ہوتی ہے نیکیوں کا صلہ ہمیشہ اچھا ملتا ہے ۔ مسلمان مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔اور بھی کئی اس طرح کے جملہ میرے دماغ کی تہہ میں محفوظ تھے وہ سب ایک ساتھ چیخ چیخ کر مجھ سے سوال کرنے لگے تھے کہ اس میں سچائی کتنی ہے اگر ہے تو پھر گناہگار کا پلڑا بھاری کیوں ہے ان باتوں پر یقین کرنے والے پس کیوں رہے ہیں۔ رہنا تو میں وہاں اور چاھتی تھی مگر دل اور دماغ کےان سوالات نے مجھے رہنے نہ دیا اور میں اس گوشِہء عافیت میں چلی آئی۔
 
جہاں کچھ بری یادیں ملی ہیں تو کچھ اچھی یادیں بھی پائی ہیں جیسے اللہ کے کرم سے میری بیٹی کی رسمِ منگنی انجام دی گئی ۔ پہلی بار اپنی سب سے چھوٹی نومولود پوتی کو دیکھا ۔  بھتیجے کی شادی  اور تمام رسومات میں تفصیلی شرکت رہی اور بہت سارے مہربانوں سے ہمیں دعوتیں بھی ملی تھی اور کئی نئے پرانے حضرات سے پر خلوص ملاقاتیں بھی ہوئیں تھی۔
 

 
کچھ کتابوں کی خریداری کی گئی ، کچھ کپڑے خریدے گئے اور کچھ ٹھیلے والے کی وہ چیزیں کھائی جن کے بارے میں یہاں بیٹھ کر بار بار کھانے کے بارے میں سوچا کرتے اور بنانے کی نا کام کوشش کیا کرتے تھے جیسے
پانی پوری ، آئس فروٹ ،برف کا گولا، چاٹ ،بوٹ (ہرا چنا )بھٹا یعنی مکئی ، بھیل پوری اور بہت ساری پسندیدہ مزیدار چیزیں اپنے پیاروں کے ساتھ اللہ پاک نے اس عرصہ میں کھلا دی۔ میں نے بہت بار وہاں کی تصویر لینے کی کوشش کی مگر ہر بار ناکام ہوگئی کبھی ساتھ رہنے والوں نے شوآف کہنے لگے تو ارادا ملتوی کرلیا اورکبھی دوسروں کی ناراضگی کا ڈر دیلایا گیا تو کبھی کسی کی رفاقت نے تصویر لینا ہی بھولا دیا چند ایک تصویر ڈھونڈنے پر پوسٹ کے قابل مل ہی گئی ہیں شئیر کئے دیتی ہوں امید کہ پسند فرماینگے 
 
 
میری اس بکواس کو پڑھنے  اور برداشت کرنے کا  بے حد شکریہ ان شاءاللہ بہت جلد پھر ملاقات ہوگی۔۔۔اللہ پاک سب کو خوش و خرم رکھے ۔