Monday, October 13, 2014

خون پھر خون ہے

خون پھر خون ہے



جب ہمیں کوئی اپنوں سے تکلیف یا نا انصافی ہوتی ہے تو ہم بہت اندرتک دردمحسوس کرتے ہیں ۔ ہمیشہ دیکھا گیا ہے کہ خون کے رشتہ کا درد نا قابل برداشت ہواکرتاہے رہ رہ کردل میں اچھے دن یاد کیا کرتے ہیں مگر لب پر ڈھیروں شکایتوں کا دفتر کھولے ہوتےہیں ۔

  یہ رشتے ہمارے پیدا ہونے سے پہلے سے قائم رہتے ہیں ۔ یہ خون کا ہی نہیں اباو اجداد سے بھی جڑا ہوا کرتا ہے یعنی نسل در نسل  اور دلی و دماغی اور روحنی طور سے ہم اس سے جنم سےمانوس ہوتے ہیں  اور لاشعور سے ہی اُن سے پر اعتماد رہتے ہیں پھر جس کو زیادہ عرصہ اور زیادہ چاہا جاتاہے اس کی ہلکی چوٹ بھی گہری لگتی ہےیہ ہی وجہہ ہے کہ درد بہت محسوس ہوتا ہے ۔ اور دیکھا گیا ہے کہ خون کے رشتہ میں ہی زیادہ لڑائیاں ہوا کرتی ہیں ۔اس لئے ایک کرنے کے لئے ہمارے بڑے کہاکرتے تھے کہ جس سے محبت ہوتی ہے اسی سے ناراضگی کااظہار ہوا کرتاہے۔ اس کی سب سے نرالی بات یہ ہوتی ہے کہ جھگڑے کے بعد بھی کسی غیر سے ان کے بارے میں برا نہ سن سکتے ہیں نہ انہیں تکلیف میں دیکھ سکتے ہیں دوری کے باوجود دل ان کے دکھ سکھ میں شامل رہتا ہے۔ کسی ایک کے پہل کرنے کے محتاج ہوتے ہیں جہاں کسی ایک فریق نے ہاتھ بڑا دیاتو یہ پانی میں لکڑی مارنے کے بعد جیساپانی ایک ہوتاہے ویسے ایک ہوجاتے ہیں ۔ ایسے ہوتے ہیں خون کے رشتےجو توڑنے سے بھی نہ ٹوٹے۔ خون  پھر خون  ہے وہ جوش مارے تو ہر لڑائی ہر ظلم بھلا دے کتنی ہی مسافت پر ہو اسے فرق نہیں پڑتا کتنا بھی طویل عرصہ بچھڑ کر گزارنے کے باوجود ملنے پر دوری، دوری نہیں ہوتی ملتے ہی باہم ایک ہوجاتے ہیں۔ یہ ہوتے ہیں خون کے رشے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

ظلم کی بات ہی کیا ظلم کی اوقات ہی کیا
خون پھرخون ہےسوشکل بدل سکتا ہے