Tuesday, September 20, 2016

کالی زلف


کالی زلف

ایک زمانہ تھا شاعر کسی نازنین مہ جبین کو دیکھتے تو ان کے چہرے و رخسار کے بعد نظر کالی زلفوں پر جاتی اور وہ قصیدے پڑھنے لگ جاتے وہ اسے کبھی وجہ بہار کہتے تو کبھی اسے رات سے تشبہ دیتے اور کبھی گھٹا بنا دیتے جیسے یہ شعر
کھول دی ہے زلف کس نے پھول سے رخسار پر
چھا گئی کالی گھٹا سی آن کر گلزار پر

  کالی زلف عاشقوں کے لئے بھی بہت اہم ہوا کرتی تھی ان کی عین خواہش ہوا کرتی کہ محبوبہ کے زلف کے سایہ میں شام کرلیں بلکہ عمر تمام کرلیں وہ چاہتے کہ محبوبہ کے بڑے گھنے سے زلف ہوں بس  انہیں در و دیوار سے کیا مطلب کون محنت کریں گھر بنائیں مشقت اٹھائیں  بس خیالوں کی دنیا بسا کر اس میں کالی دراز زلف کی چھاؤن میں پڑے رہیں ۔ پھر جب دنیا اور دنیا کے حالات 
کے سامنے کا وقت آئے تو کہنے لگے  ۔

بہت مشکل ہے دنیا کا سنورنا 
تیرے زلفوں کا پیچ و خم نہیں ہے 

نہ اب وہ شاعر رہے نہ عاشق اور کالی زلفوں کے دیوانے آپ حیرت سے اس جملہ کو کیوں دیکھ رہے ہو میں نے سچی بات کی ہے نہ اب کوئی اسے سانپ کی طرح ڈستا دل پر محسوس کرتا ہے نہ لہرا کر چلنے پر کوئی کالی زلف کےساتھ ساتھ خود کے من کو لہراتا خیال کرتا ہے نہ اس کے چھٹکنے سے موتیوں کے ٹوٹنے کا گمان کیا کرتے ہیں  اور نہ زلف کے سنوارنے اور بگڑنے سے محبوب کے حال کا پتہ چلتا ہے ۔
بکھری ہوئی وہ زلف اشاروں میں کہہ گئی
میں بھی شریک ہوں تیرے حالِ تباہ میں 

 عورت جو اپنے زلفوں کو بڑھانے محبوب کو پھنسا نے کبھی زلفی ائیر آئل ڈالتی تو کبھی شیکاکائی سے بال دھوتی کبھی خوشبوں کے شیمپو سے زلف صاف کرتی اپنے زلف کو سنوارتی سجاتی خوبصورت رنگ کرتی خوبصورت زیورات سے آراستہ کرتی  غریب بھی ہوتی تو پھولوں سے سجا تی مہکاتی مگر آج کی خواتین آزادی کے ساتھ ساتھ اب وہ پردہ کی طرح زلف کی زنجیر سے بھی آزاد ہوگئی ہیں اب انہیں ان ترکیبوں کی ضرورت نہیں رہی انہوں  نے دراز زلفوں کو کمر تک پھر شانوں تک اور اب کانوں تک لے آئی ہیں انہیں اب محبوب کے خوابوں میں رہنا نہیں ہے بلکہ اب انہیں محبوب کے خوابوں کو کھولی آنکھوں سے پورا کرنا ہے ان کا خیالی نہیں بلکہ عملی ساتھ دینا ہے ۔ اب نہ ان کے پاس اپنی کالی زلفوں کی پیچ و خم دور کرنےوقت ہے اور نہ سنوارنے وقت ہے محبوب کے لئے سجنے سنوارنے کی حاجت تو نہیں رہی وہ ویسے ہی دامِ الفت میں گرفتار رہتا ہے ۔ اگر کسی خاص موقعوں و محفل پر ضرورت محسوس بھی ہوئی تو خود کو سجانے سنوارنےکی تو  چند ٹکوں میں  بیوٹیشن  یہ کام آپ کے لیے کردے گی ۔
دنیا کی روش دیکھی ہے تیری زلف دوتا میں 
بنتی ہے یہ مشکل سے بگڑتی ہے ذرا میں

میرے زمانے کے والدین بھی عجیب تھے وہ شاعری عاشقی سے ہمیں بہت دور رکھتے امی ،حضرت ایوب کا قصہ سناتی جس میں ان کی بی بی ایوب علیہ سلام کے واسطے اپنے بالوں کو انکے سہارے کےلئے پیش کرتی تھی اور پھر ایک دن ایوب علیہ السلام کی بھوک مٹانے ایک عورت کو اپنے بال فروخت کردیتی ہیں ۔ ہمیں وفا اطاعت فرمانبرداری کےلئے ایسے قصوں سے عملی زندگی کےلئے تیار کیا جاتا تھا اور رات دن بابا ہمیں عشق رسول صلی اللہ علیہ و سلم  کو ہمارےسینے میں بھرنے کی کوشش کرتے ۔ آپ کے معطر جسم و گیسو کی تعریف کرتے کالی زلفوں پر قربان جانے کا درس دیتے جن کے زیر سایہ قیامت کے دن رہنے کی دُعایں مانگی جاتی  ۔
۔
 ہماری دونوں جہاں کی زندگی سنوارنے میں والدین کا بڑا حصہ ہوتا تھا ۔ کیا ہم بھی اپنے بچوں کی ایسی تربیت کر رہے ہیں ؟؟؟ خیر چلیں اب دعا پر یہ مضمون ختم کرتی ہوں
اللہ پاک ہمیں دونوں جہاں میں کامیابی دے

Tuesday, September 06, 2016

ماں بیٹے کی نوک چھونک

 پہلے زمانے میں دکن کی خواتین حیدرآبادی محاورات استمعال کیاکرتی تھی اسی کو یاد( کرکے یہ لکھی ہوں پسند آیا کہ نہیں بتائیں )۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ماں بیٹے کی نوک چھونک


کام سے تھک کراماں نے پانی کی ضرورت محسوس کی تو خود سے بڑبڑانے لگی باندی جگ کے پاواں دھوتی اپنے نئیں دھوتی

ارے اماں آپ کیوں اکیلی کام کرتی ہیں شازیہ سے کہا کریں نا وہ مدد کرے گی بیٹے نے کہا

ہوں (زور سے سانس لیتے ہوئے)نکّوماں نکوّ بڑی ماں کو بلاو ھنڈی میں ڈوئی ھلاو ۔ اماں نے طنز سے کہا
ایسا کیوں کہتی ہو اماں وہ ایسی نہیں ہے۔

اجی ساون کے اندھے کو ہرا ہی سوچھتا ہے۔ اماں نے پھر جل کر کہا
اماں اب ایسا کیا کہدیا میں نے جو یوں برا مان رہی ہو ؟

ہاں ہاں مئچہ(میں ہی ) ُبری ہوں نا وہ کیا کہتے ہیں چھلنی جاکے سوپ سے بولی تیرے میں کتنے چھید


آپ سے شازیہ کے بارے میں کچھ کہنا ہی نہیں تھا اماں مجھے

ہووں( ہاں )بیٹا اندھا ریوڑیاں اپنوں کو بانٹتا ہے نا


افف فوہ ماں جب سے شادی کی ہے تب سے آپ نے مجھے بھی غیر سمجھا ہوا ہے۔

ہاں بیٹا ،شادی کے لڈو کھائے تو پچتھائے اور نہ کھائے تو پچھتائے

تو پھر آپ ہی بتائیں میں کیا کرو اب ؟

جو اب کرئیں وہچہ(وہ ہی)کرو ۔اپلیاں ڈوب رئیں پتھرے تیرئیں۔ اور کیا

اماں اب بس بہت ہوگیا ہم الگ ہوجائیں گے۔

ارے مجھے پتہ ہے تم لوگ تو یہ چہ چاہ رئیں۔( یہ ہی چا ہتے ہیں) دادا مریں گے بیل بٹیں گے۔

آپ کچھ بھی کہہ لیں اب نہیں رہنا ہمیں

ارے جا ! میں بھی دیکھتئوں(دیکھتی ہوں) دونوں الگ کیسا رہتئیں(رہتے ہیں)دونوں کو دمڑی کی آمدنی نئیں گھڑی بھر فرصت نئیں

جب اماں نے احساس دیلایا تو بیٹے نے دل ہی دل میں اپنی بیوی کی خوبیاں کو یاد کیا تو خیال آیا کہ سر منڈائے تو اولے پڑے والی بات نہ ہوجائے اس لئے بنا 
کچھ کہے اماں کے پاوں دبانے لگا۔

اماں نے سوچا کہ آیا اونٹ پہاڑ کے نیچے۔۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Monday, June 27, 2016

بے لاگ دستِ قدرت میں







میرے بلاگ کی یہ سوویں ( 100) پوسٹ ہے اوراس میں بہت خوشی سے یہ خبر دے رہی ہوں کہ  کئی روز بیتابی سے  انتظار  
کرنےکے بعد رمضان رفیق بھائی کی  کوشش اور مہربانی سے پوسٹ کے ذریعہ بے لاگ میرے ہاتھوں تک پہچ گئی ۔۔۔۔جس خلوص و خیال اور جدو جہد سے رمضان بھائی نے ارسال کی ہے اس کے لئے شکریہ کہنا بہت کم ہوگا اللہ ہی ان کو جزائے خیر دے ۔

بچوں نے فون پر جب مجھے بتایا کہ آپ کا پارسل آیا ہے تو میری بے چینی میں مزید اضافہ ہوگیا پھر جب بے لاگ میرے ہاتھوں میں آئی تو بیٹے نے جلدی سے رمضان بھائی کو میسج دینے کہا مگر میں تواسے ایسا الٹ پلٹ کردیکھ رہی تھی جیسے کسی نے پہلی بار کوئی کتاب دیکھی ہو۔ جب کھول کر مطالعہ کیا تو اپنے سارے بلاگرز بھائیوں بہنوں کے نام ستاروں جیسے جگمگا رہے تھے ایک کے بعد دیگر سب کے تحاریر پڑھتی رہی بہت خوشی کا احساس چھایا رہا جن  کو نیٹ پر پڑھنے  ڈھونڈ کرگھورنا پڑتا تھا انہیں ایک جگہ پاکر اچھا  لگ رہا تھا
ہر ایک کا مضمون بہت خوب ہے کوئی نصیحت کررہے ہیں کوئی اپنے بلاگ کے بارے میں بتارہے ہیں تو کوئی اپنی یادیں اور کوئی تجربہ شیئر کررہے ہیں کوئی اپنا علم بانٹ رہے ہیں ۔۔۔۔۔ کئی بلاگرز کے یہ تحاریر کا مجمع قابل تعریف ہے جو انہوں نے اپنے دماغ اور قلم کی صلاحیتیں کو روبہ عمل لاکر بلاگ پرصرف کررہے ہیں یہ ایک اچھا قدم ہے اس طرح ہم بلاگرز کے تحاریر محفوظ بھی ہونگے اور ہمارے فکری و فنی نظریہ عام بھی ہوگا ۔اب کی طرح ہمارے بلاگرز کے محدود قارئین نہیں رہنگے اس نا چیز کو بھی بے لاگ میں شامل فرما  یا گیا ہے، ممنون ہوں ۔


ہرچھ ماہ بعد یا ہر سال یہ سلسلہ چلتے رہنا چاہیے بیشک رمضان بھائی ،خاور بھائی ،ساجد بھائی،زاہد بھائی اور دوسرے احباب کو مسائل اور دشواریاں کا سامنا ہوا ہوگا مگر ایک بار اس نیک کام کی باگ ڈور سنبھالی ہے تو اسے آگے بھی ضرور نبھائیں اپنے احباب کے دلوں کو خوشی اور چہرے پر مسکراہٹ دینا کوئی معمولی کام نہیں ۔  اس تعارفی ایڈیشن میں جو بلاگرز غیر حاضر ہیں آگے وہ بھی آپ کے ساتھ ہونگے اور خوب سے خوب تر کی طرف گامزان رہنگے ۔ان 
شاءاللہ

میری طرف سے اشاعت میں مدد کرنے والے اسے سپلائی کرنے والے خریدنے اور پڑھنے والوں کا دلی شکریہ ادا کرتی ہوں اور ڈھیروں دعائیں آپ سب کےلئےمیری جانب سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Wednesday, January 13, 2016

دوہرے جذبات


السلام علیکم 

کل دواخانہ کے انتظار گاہ کی رکھی کرسی پر بیٹھی وقتاً فوقتاً اپنے فون کو کھولتی دیکھتی پھر بےچینی سے آپریشن تھیٹر سے ہر آنے جانے والے پر چونک کر نظر ڈالتی رہی اپنے آنے والے نومولود پوتے کی آمد کی سرتا پا منتظر تھی کہ سیل فون نے فیملی گروپ پر اطلاع دی کہ میرے ایک بہت ہی عزیز رشتہ دار نے داعی اجل کو لبیک کہا ہے تو میں ایک عجب تجریدی کیفیت میں گرفتار ہوگئی کبھی آنے والے بچے کے لئے پیار اور آمد کی خوشی ہوتی تو کبھی اپنے عزیز کی رحلت کا غم امڈ آتا ان کی یادیں نظر کے سامنے محسوس ہوتی ہمارا ان سے ایک نہیں تین تین رشتے تھے پھر میرے والدین کے اور انکے والدین میں بلا کا میل ملاپ خلوص تھا ہم ان کے گھر پچپن سے جاتے ان کی وہ بچپن کی سمجھداری سے کی گئی شراتیں لطیفہ گوئی مختلف آوازیں نکلنا ہنسنا باتیں کرنا پھر بڑے ہوکر بہت ہی بردبار مہذب بے حد با اخلاق ملنسار اپنے والدین کے نقش قدم پرچلنے والے انسان کی زندگی گزارتے دیکھنا پھر ایک طویل عرصہ موت سے لڑنا اور ایک 
لفظ بھی شکایت نہ کرنا سب کچھ یاد آتے اور دل کو مغموم کرتا رہا ۔۔۔


 مجھے احساس ہوا کہ یہ دنیا ایک راستہ ہے ہر انسان ایک پلیٹ فورم  سے آتا ہے زندگی کا سفرگزار کر دوسرے پلیٹ فورم پر انتطار کے لئے چلے جاتا ہے کوئی اس سفر میں زیادہ عرصہ ساتھ رہتا ہے تو کوئی جلدی چلا جاتا ہے بس ہماری نظر تو اس منزل پر مرکوز ہونی چاہئے جہاں ہمیں مستقل رہنا ہے۔ نومولود کو گود میں لے کر میرے دل سے یہ ہی دعا نکلی کہ اللہ اسے نیک اور صالح بنا دنیا کی سختی اور آزمائیش سے بچائے دونوں جہاں کی کامیابی عطا کر ۔۔۔۔    


یہ تو سنا اور دیکھا تھا کہ انسان دوہرے چہرہ اور رہن سہن رکھتے ہیں مگر اپنے اندر اٹھنے والی خوشی اور غم کے احساس و خیالات کو محسوس کر کے  اپنی خود کی حالت پر حیرت ہوئی کہ اللہ نے انسان کو کیا بنایا ہے وہ ایک وقت میں الگ الگ جذبات خود میں بہت خوبی سے سما سکتا ہے ۔ تمام تر تعریف کے قابل اللہ واحدکی 
ہمیشہ قائم رہنے والی ذات پاک  ہے ۔

۔

Thursday, January 07, 2016

دھبہ اور زخم ۔۔ منی افسانے





السلام علیکم

یہ چھوٹے چھوٹے دو افسانہ میں نے اردو افسانہ فورم کے اردو فلیش فکشن2015 کے لئے لکھے تھے۔



دھبہ


جب سے مالکن میکہ گئی ہیں مجھے  پرہی گھر کے سارے کام آن پڑے ہیں  یہ صبح صبح صاحب کو اٹھانے کا کام تو سب سے زیادہ مشکل ہوتا ہے ۔ بھگوان کرے کے مالکن جلد سے جلد واپس آجائے اور میری جان چھوٹے ۔۔۔۔۔ رامو منہ ہی منہ بڑ بڑاتا ہوا پھر  بیڈ روم کا دروازہ کٹکٹانے لگا  ۔  اندر  سے صاحب نے نیند سے بھرے لہجہ میں" ہاں ہاں رامو " کی آواز لگائی تو رامو جواب پاکر اطمینان کی سانس لی

ناشتہ کی میز پر بیٹھے بڑے صاحب نے لقمہ منہ میں لیتے  ہوئے اخبار دوسری طرف سرکاتے رامو سے کہنے لگے "ارے او رامو ذرا دیکھ تو آنا عبدل نے گاڑی تیار کی یا نہیں اورہاں  ڈرائیور کو بھی دیکھ لیں " 
رامو دوڑتے جاکر دوڑتا الٹے پاوں بھاگتا آیا اور اطلاع دی کہ صاحب عبدل تو بیمار ہے بھٹی بخار میں تپ رہا ہے آج وہ گاڑی کو صاف نہیں کرسکے گا ۔
رامو اس کا بیٹا اب کچھ بڑا ہوگیا ہے نا اس سے کہو کہ اپنے باپ کا کام آج وہ  انجام دے باہر اس سے چھوٹے بچوں کو بھی میں نے گاڑی صاف کرتے دیکھا ہے ۔
جی صاحب ابھی بول کر حاصر ہوتا ہوں
چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے عبدل کے بیٹے نے گاڑی خوب چمکائی آج وہ خوش تھا کہ اس نے اپنے بیمار باپ کی مدد کی تھی اور اسے یقین تھا کہ بڑے صاحب بھی دیکھ کر ضرور اس کے کام کو پسند کرینگے ہو سکتا ہے کہ اس پہلے کام کا انعام بھی دیں اسی آس میں وہ وہی کھڑا رہا 
 بڑے صاحب کو آتا دیکھا تو اس نے  آگے بڑ کر گاڑی کا دروازہ کھولنے لگا ۔بڑے صاحب نے کراہیت کے انداز سے اس کو دیکھا اور چھڑک کر  زور سے کہا "اے لڑکے دور رہے گاڑی سے ! دھبہ لگ جائیگا" اور پھر ہاتھ بڑھا کر ڈور لگا لیا ۔۔۔۔۔  لڑکا اپنے ہاتھوں کو غور سے دیکھتا رہ گیا 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔321
زخم



  رتنا ایک پڑھی لکھی آزاد خیال لڑکی تھی   سونے پر سہاگہ وہ اپنے گھر کی اکلوتی  بیٹی بھی تھی ۔ وہ  صنف مخالف کی زیادتی پر  مزحمت کے بعد خود کو پرسکون محسوس کررہی تھی ۔ آج کی عورت مجبور نہیں ۔ وہ پہلی ضرب پر ہی اپنی آواز بلند کرکے ظلم کو پنپنے نہیں دے گی وہ مظلومیت کی لپٹی چادر نکال کر ہمت کی عبا  پہنے لگی ہے وہ سارا راستہ ایسا ہی کچھ سوچنی رہی  ۔ 
رتنا اپنے باپ اور بھائیوں کے ساتھ سسرال سے اپنے میکے کے گھر میں داخل ہوئی تو بڑی خوش تھی اس نے زنانی بیٹھک میں جاکر اماں سے مل کر لپٹ گئی اور کہنے لگی ۔اماں بابا اور بھائیوں نے میاں اور سسرال والوں کا لڑ لڑ کر مزاج بحال کردیا پورا محلہ جمع ہونے لگا تھا ۔آخر میں وہ لوگ معافیاں چاہنے لگے تھے اور مجھے گھر سے نہ جانے سے منا کررہے تھے مگر بابا نے کہا کہ چار 
دن آرام کرنے کے بعد وہ مجھے واپس گھر بھیج دینگے اور مجھے لے کر آگئے وہ ایک سانس میں ساری روداد سنانے لگی ۔
ماں نے تیل میں ہلدی پکا کر برتن رتنا کے آگے بڑھا دیا ۔ ماں بابا تو ڈاکٹر بابو سے میرے یہاں آنے سے پہلے مرہم پٹی کروا چکے ہیں نا !۔وہ کہنے لگی
ماں نے خاموشی سے اپنی پیٹھ کی چادر ہٹائی اور بلوز کا بندھن کھول کر اس کے آگے کھڑی ہوگئی ۔ افف اماں ! رتنا مار کے زخم دیکھ کر مجسمِ حیران رہ گئی۔ آخر یہ کیا ہے اور کیسا ہوا ماں ۔ماں کی خاموشی اور بہتے آنسو اس سے ساری کہانی چپکے سے سنا گئے ۔ وہ بے اختیار گلا کرنے لگی ۔ یہ مرد ایسے کیوں ہوتے ہیں کیوں ہوتے ہیں وہ بار بار خود 
سے سوال کرتی رہی!!! اُسے اپنے دل اور جسم پر ایک اور کاری زخم کا احساس ہونے لگا ۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔