Friday, December 05, 2014

شاعر کی ڈسمبر میں رونے کی وجہہ


السلام علیکم
  
میرے پیارے بہنوں اور بھائیوں


ون اردو فورم پرآج سے تین سال پہلے ایک تھریڈ بنا تھا جس میں سوال کیا گیا  کیا تھا  کہ شاعر ڈسمبر میں روتا کیوں ہے ؟تو میں نے  بھی اپنے خیالات کا اظہارکیا تھا ۔ آج وہی تحریر یہاں اس جاتے ہوئے ڈسمبر کو آخری سلام کےساتھ پیش کررہی ہوں ۔
  
سب سے پہلے ہم دیکھتے ہیں عام آدمی کیوں روتا ہے اس کے بعد پھر دیکھے گے کہ شاعر کیوں روتا ہےان دونوں کے رونے کی وجہہ معلوم ہونے کے بعد خود ہی فرق پتہ چل جائےگاہمیں۔
  
میرے خیال میں عام آدمی کبھی ہر روز بڑتی مہنگائی کی وجہہ سے روتا ہے تو کبھی کثیر عیال اس کی وجہہ ہوتی ہے۔ کبھی حصولِ روزگار میں سرگردان ر ہنے کے باوجودملازمت نہ ملے توروتا ہے۔ کوئی ٹیچر کی مار سے روتا ہےکوئی والدین کی لگاتار پڑھاتے رہنے کی تکرار سے روتا ہے۔

کہیں بیٹی کو جلانے کی وجہہ سے روتا ہے اور کہیں کوئی بہو کی ضرب سے روتا ہے۔ کبھی اس وجہہ سے بھی روتا ہے کےجن بچوں پراپنی جوانی،کمائی،محنت ،وقت اور پیار کے خزانہ نچھاور کیے وہ انہیں کو گھر سے بے گھر کرنے لگے تو روتا ہے۔ کوئی پردیسی پیا کے ساتھ کو روتا ہے تو کوئی پردیس میں کام سے تھکا ہارا گھر آکر افرادِخاندان کی یاد میں روتا ہے۔ کوئی پیسے کی افراط سے بیٹے کے ڈگمگاتے قدم دیکھ کر روتا ہے تو کوئی بگڑی بیوی کے مزاج سے تنگ آ کر روتا ہے۔اور کسی کو شوہر کے ظلم کی زیادتی رولاتی ہے۔ کہیں کوئی مالک کے ظلم کا شکار ہوتا ہے تو کوئی مالک کو لوٹ کر بھاگ جانے پر روتا ہے کوئی بیماری کی شدت سے روتا ہےتو کوئی اپنوں کی تکلیف پر روتا ہے کوئی گزرے ہوئے لمحہ کو یاد کرکے روتا ہے کوئی آنے والی پریشانیوں سے گھبرا کر روتا ہے ، کوئی کسی کے غم میں روتا ہے توکوئی کسی کی محبت میں روتا ہے ۔ کوئی آخرت کے ڈر سے روتا ہےتو کوئی خوفِ خدا سے روتا ہے اور بھی کئی ہزار وجہہ ہوسکتی ہیں اب کیا کیا بتائے آپ کو، روتے ہوئے انسان آیا ہے روتے ہوئے ہی چلا جائے گا ۔ سب کو اپنے مقدر کا رونا رونا ہی ہے سب منجانب اللہ سمجھ کر راضی رہیں ہمارے اپنے بس میں کچھ نہیں اس لئے یہ زندگی کے جتنے بھی پل ہیں ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ وہ حقوق کی ادائیگی اور دوسروں کے چہروں پر مسکراہٹ لانے میں ہم لگادیے تو ہر مشکل ،دکھ، پریشانی ،محرومی کےباوجود ایک عام آدمی کا دل مسکراتا رہےگا۔ ۔



اب کچھ شاعر کے رونے کی وجہہ دیکھتےہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


جب کبھی کوئی درد سے بلکھتا ہے شاعر اس درد کو اپنے دل میں محسوس کرکے بیان کرکے روتا ہے،جب کوئی بھی کسی بھی مصیبت میں ہوتا ہے شاعر بلبلاکر رونے لگتا ہے۔ کوئی کسی پر زیادتی کرے یہ شاعر صاحب ہی ہوتے ہیں جو سب سے پہلےروتے آواز اٹھاتے ہیں۔ کبھی محبت کا پیغام رورو کر دیتے ہیں کبھی ملکی حالات پران کے آنسو نکلتے ہیں کبھی سیلاب پر آنسو کے سیلاب بہاتے ہیں تو کبھی غلط حکمراں کے قصہ سن سن کر روتےاور رلاتے ہیں تو کبھی گرتی انسانیت کو رو کر جگاتے ہیں۔ کبھی مظلوم کی بے کسی انہیں رولاتی ہے تو کبھی سرمایہ دار کااسٹاک انہیں رلاتا ہے کبھی بھوکے،بے لباس لوگوں کی بے سروسامانی پر روتے ہیں تو کبھی بےحیائی وبے حجابی پہ ہیں روتے۔ کبھی امیروں کےبے تحاشا خرچے کا رونا ہےکبھی کسی بے بس کوایک روٹی چورنے پرکڑی سزا دینے کا رونا ہےکیا کیا کہہ انہیں کس کس بات کا غم نہیں ہوتا ۔ یہ کبھی کبھی تو اگر کوئی وجہہ رونے کی نہ ہو توبھی یہ خود پر زبردستی کوئی غم طاری کرلیتے ہیں اورکبھی نہ کی جانے والی محبت کا ذکر بھی بڑے دل سوز انداز میں رو رو کر سنا تے ہیں بے چارے شاعر لوگ ایک اکیلی جان اور زمانہ بھر کا غم شاعرکی جان پر وہ کیا کہتے ہیں ہزاروں آفتیں اور ایک جانِ ناتواں شاعر کی بے چارے سال بھر نہ رویے تو کیا کرےباقی کسر ڈسمبر بھی نکل دیتا ہے بھیگا بھیگا موسم دیکھ کر یہ سمجھتے ہیں یہ وقت شاید موسم کے رونے کا ہے یہ حضرات کو تو کسی کو اکیلے روتے دیکھنا ایک آنکھ نہیں بھاتا توانہیں یہ موسم اچھا لگنےاورنئی سال کی آمد، آنے والے خوشیوں کی نوید ،امنگوں کی نئی جوت کی وجہ سے رونا نہیں آتا رونا لانے کے لئے یہ دل ہی دل میں اپنے سارے سال کے غم یاد کرکے موسم کا ساتھ دینے رونے لگ جاتے ہیں ۔۔۔۔ارے میں نے ان کا ایک رونے کا ذکر بھول ہی گئی جو ان کو آٹھوں پہرتین سو پینسٹھ دن رولاتااور پریشان کئے رکھتا ہےوہ ہے ان کے لکھے گئے اشعار نہ سنے کا رونا (شاعر حضرات سے معذرت بس یہ سب ہنسی مزاق کے لئے لکھا گیا ہے)۔مختضر یہ کے عام آدمی بے چارہ اپنے ہی غم میں ہمیشہ نڈھال اور شاعر بے چارا خود سے بے نیاز غمِ دورہ میں ہر وقت مبتلا ہوتا ہے۔
یہ سب میں نےشاعر اور غیر شاعر کے غم غلط کرنے لکھا ہے اگر میری اس لن ترانی سے کسی کو تکلیف ہو تو معاف کردیجئے گا۔


نئے سال کی بہت بہت مبارک باد پیشگی پیش ہےاور میری جانب سے سب کے آنے والے دنوں کے لئے ڈھیر ساری دعائیں بہت بہت شکریہ میرے بلاگ پر آنے کے لئے اور وقت دینے کےلئے







۔

Saturday, November 29, 2014

زبانِ یارِ من ترکی و من ترکی نمی دانم



زبانِ یارِ من ترکی و من ترکی نمی دانم 


اس کلام حافظ میں نہ جانے کیا بات ہے کہ یہ شعر پہلے یاد کیا جاتا ہے اور بعد
 میں اس کے معنی جاننے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ہمارے بچپن میں ایک گانا سنا کرتے تھےزبانِ یارِ من ترکی و من ترکی نمی دانم ۔نمی دانم ۔ نمی دانم ۔نمی دانم۔نم نم نم نم نم ہم عمر کے اس حصہ میں تھے جہاں معنوں کو زیادہ دھیان نہیں دیا جاتا مگرہندی گانے میں بس ایک لائن الگ آتے ہی ہماری جستجو کی آگ کو بھڑکا گئی اور ہم نے نہ جانے کتنوں سے اس کے معنی پوچھے قریب قریب سب نے ہمیں معنی بتلائیں مگر سب ہی غیر یقینی انداز سے آخر میں ہوگے کا اضافہ کرتے اور ہماری تشنگی کم نہ ہوتی ہم اس سوال کی تلاش میں لگے رہے ۔
ایک دن ہماری
 اردو کی کلاس چل رہی تھی  ٹیچر نے جب سارا سبق پڑھکر سمجھایا پھرپوچھا کہ کسی کو کچھ پوچھنا ہے؟  ہم نے ہاتھ بلند کردئیے تو انہوں نے پوچھا بتاو کیا سمجھ نہیں آیا ؟ تو ہم نےکہا ہمیں اس مصرع کے معنی نہیں سمجھ آتے"زبانِ یارِ من ترکی و من ترکی نمی دانم" ٹیچر نے ہمیں گھور کر دیکھا کیا سبق میں یہ لکھا تھا ؟ ہم نے آنکھیں نیچی کئے سر ہلا دیا ۔ پھر ٹیچر نے پوچھا کیا یہ فارسی کی کلاس لی جارہی ہے ؟ ہم نے پھر نفی میں سر ہلادیا پھر ٹیچر نے ڈانٹ کر پوچھا کہ یہ بات آپ کے دماغ میں آئی کہاں سے ہم کلاس کے وقفہ کے دوران جن لڑکیوں سے یہ سوال کئے تھے وہ بولنے لگی تو ٹیچر نے مجھے بیٹھنے اور سب کو  ڈانٹ کر چپ کروایا اورپیریڈ کے اختتام پر ہوم ورک کی ساری کاپیاں چیک کرنے کی چپراسی کے بجائے مجھے اسٹاف روم تک ساتھ لے چلنے کی سزا سنائی ۔جب میں نے اسٹاف روم میں احمدی آپا کی بیٹھنے کی مخصوص جگہ کاپیاں رکھی تو انہوں نے مجھے روک کر اس شعر کے معنی بتائے اور سمجھائے تھے۔تب مجھے اس کا دوسرا شعر اور انکے معنی پتہ چلے انہوں نے یہ بھی بتایا تھا کہ یہ شعر اتنا عام ہوا کہ اگر کسی کو دوسری زبان نہ سمجھ میں آئے تو اسے کہا کرتے ہیں ایک طرح سے کہاوت بن گئی ہے ۔

 زبانِ یارِ من ترکی و من ترکی نمی دانم 
چہ خوش بودے اگر بودے زبانش در دہانِ من 
ترجمہ
میرے یار کی زبان ترکی ہے اور میں ترکی نہیں جانتا کیا ہی اچھا ہو اگر اسکی زبان میرے منہ میں ہو۔​

 بہت پہلے کی بات ہے میں نے نیوز میں پڑھی تھی اسلام آباد میں ترکی وزیرآعظم کی تقریر کے لئے ترجمے کی سہولت نہ ہونے سے پریشانی کا سامنا ہوا اور کچھ ہی دن پہلے میں نے بی بی سی کا ایک بلاگ پڑھا تھا جس میں بلاگر نےتو برازیل کے سفر کی روداد لکھی اور اس میں شکایت کی ہے کہ لوگ اردو انگریزی جانتے نہیں اور صرف فارسی ہی بولتے ہیں۔۔۔۔اسی عنوان سے اردو پوائنٹ پر  محمد بن قاسم کا ایک مزاحیہ تحریر پڑھی بہت لوگوں نے عنوان اسے بنائے تو بہت سوں نے باتوں میں حسن پیدا کرنےاس کا استعمال کیا جاتا ہے ۔

جب بھی حرم یا کہیں اور میں کسی ترکی کو تیز تیز باتیں کرتے سنتی ہوں تو یہ مصرع دماغ میں گھومنے لگتا ہے اور سوچتی رہتی ہوں کہ جو فارسی جانتے ہیں اور جو نہ جانتے ہیں سب ہی اس مصرع سے خوب واقف ہوتے ہیں ۔

آج تک علماء ایکٹرس سائنس دان ،کھلاڑی ڈاکٹر انجینئر،ناول نگار ماہرے فن وغیرہ وغیرہ کی بھی اتنی شہرت نہ دیکھی اور نہ سنی جتنی مشہوری اس مصرع کی ہے۔


۔۔۔

Tuesday, November 18, 2014

بہنوں کو نصیحت


السلام علیکم و رحمتہ اللہ

میری پیاری بہنوں اور عزیز بھائیوں


اکثر بہنوں سے یہ سنتی آئی ہوں کہ عورت ذات بڑی بد قسمت ہوتی ہے  ۔سب ہی کو بیٹے کی پیدائش کے آرزو مند دیکھا ہے 
اگر وجہہ پوچھو تو کہیں گے کہ بیٹی کے نصیب سے ڈر لگتا ہےاگر اچھے نہ ہو تو ۔۔۔۔ کبھی تو یہ بھی سنا کہ کتنا پڑھ لو لکھ لو نوکری کرلو پھر بھی وہ مجبور و بے بس ہوتی ہے۔ دب کر زندگی گزارنا ازل سے  اس کا مقدر ہے اور بھی اس طرح کے جملے آئے دن سننے میں آتے رہتے ہیں۔میری پیاری بہنوں یوں گلہ کرنے کے بجائے کیا آپ نے سوچا ہے کہ اللہ تعالٰی اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے ہم پر کتنے احسان کئے ہیں۔ ہماری فطری شرم و حیا کے مطابق ہمیں باہر کے اموار سے دور رکھا ۔ کمانے کا پرمشقت کام آدمی پرواجب کئے ۔ سب سے زیادہ ماں کی اطاعت کا حکم دیا۔ بیٹی کی تربیت اور شادی کے بدلہ جنت کی بشارت دی۔ بیوی کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت فرمائے۔  
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جب کوئی عورت اپنے خاوند کے گھر سے کوئی چیز اٹھاتی ہے یا رکھتی ہے اور وہ بھلائی کا اردہ کرتی ہے  تو اللہ تعالی اس عمل کے بدلے اس کے لئے ایک نیکی لکھ دیتا ہے ایک گناہ مٹا دیتا ہے اور ایک درجہ بلند کردیتا ہے اور جب کسی عورت کا اپنے خاوند سے حمل ٹہرتا ہے تو اس کے لئے رات  کو قیام کرنے والے ،روزہ دار اور اللہ تعالٰی کے راستے میں جہاد کرنے والے کی طرح ثواب لکھا جاتا ہے اور جب بچہ ہوتے وقت تکلیف میں مبتلا ہوتی ہے تو ہر تکلیف کے بدلے ایک غلام آزاد کرنے اور ہر دودھ پلانے کے بدلے غلام آزاد کرنے کا ثواب حاصل ہوتا ہے ۔ جب وہ بچے کا   دودھ چھڑاتی ہے تو آسمان سے منادی اعلان کرتا ہے ۔ اے عورت !تونے اپنا گزشتہ عمل مکمل کرلیا اب بقیہ کام کے لئے تیار ہوجا ۔۔۔
حضرت عبادہ بن کثیر بواسطہ عبداللہ حریری ،حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا سے رویت کرتے ہیں وہ فرماتی ہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے اشاد فرمایا میری امت میں بہترین مرد وہ ہیں جو عورتوں سے اچھا سلوک کرتے ہیں  اور میری امت میں بہترین  عورتیں وہ ہیں جو اپنے شوہر کے حق میں بہتر ہیں ۔ ان میں سے ہر عورت کے لئے روزانہ ایک ہزار شہید کا ثواب لکھا جاتا ہے جس نے اللہ تعالٰی کے راستے میں صبر اور ثواب کی نیت سے جام شہادت نوش کیا ۔اور ان عورتوں میں سے ایک بڑی بڑی آنکھوں والی حور پر ایسے ہی فضیلت  رکھتی ہے جیسے مجھے تم میں سے ادنی آدمی پر فضیلت حاصل ہے اور میری امت  میں بہترین عورت وہ ہے جو اپنے خاوند کی خواہش آسانی سے پورا کرتی ہیں بشرطیکہ وہ گناہ کا کام نہ ہو ۔اور میری امت  کے بہترین مرد وہ ہیں جو اپنی بیویوں کے ساتھ نرمی سے پیش آتے ہیں ان میں سے ہر مرد کے لئے روزانہ ایک سو ایسے شہید کا ثواب لکھا جاتا ہے جو اللہ تعالٰی کے راستے میں صبر کرتے ہوئے  اور ثواب کی نیت سےشہید   ہوئے ۔حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یارسول اللہ ! یہ کیا بات ہے عورت کے لئے ایک ہزار شہید کا ثواب اور مرد کے لئے ایک   سو شہید کا ثواب؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  کیا تم کو معلوم نہیں کہ عورت کے لئے مرد سے زیادہ اجر اورافضل ثواب ہے بیشک اللہ جنت میں مرد کے درجات بیوی کے راضی ہونے اور اس کے مرد کےلئے دعا کرنے کی وجہہ سے بلند کریگا کیا تمہیں معلوم نہیں کہ شرک کے بعد بڑا گناہ عورت کا اپنے خاوند کو ناراض کرنا ہےسنو دو کمزورں کے بارے میں اللہ ربی عالٰی سے ڈرو  بیشک اللہ تعالٰی ان دونوں کے بارے میں تم سے پوچھے گا ایک یتیم اور دوسری عورت جس نے ان دونوں سے حسن سلوک کیا اس نے اللہ تعالٰی اور اس کی رضا پالیا اور جس نے ان سے برا سلوک کیا وہ اللہ تعالٰی کی ناراضگی کا مستحق ہوا اور خاوند کا حق ایسے ہی ہے جیسے میرا تم پر حق ہے جس نے میرے حق کو ضائع کیا اس نے اللہ تعالٰی کے  حق کو ضائع کیا اور جس نے اللہ کا حق ضائع کیا وہ اللہ تعالٰی کی ناراضگی کا مستحق ہوا۔ اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہے اور وہ لوٹنے کی کیا ہی بری جگہ ہے ۔

حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا گیا کیا عورتوں پر جہاد فرض ہے ؟ آپ نے فرمایا ہاں ان کا جہاد غیرت کرنا ہے وہ اپنے نفسوں کے ساتھ جہاد کریں اگر صبر کریں تو مجاہد شمار ہونگی اگر راضی رہیں تو اسلامی سرحد کی حفاظت کرنے والی کہلائیں گی پس ان کے لئے دو اجر ہیں  نیز وہ اس حق کی ادائیگی کا اعتقاد بھی رکھیں جو دونوں میں سے ہر ایک کے دوسرے پر واجب ہے ۔جیسا کہ ارشاد خدا ہے کہ  "اور عورتوں کے لئے  اس کی مثل جو ان کے ذمہ ہے "۔اور یہ اس لئے ضروری ہے تاکہ دونوں  اللہ کی اطاعت کریں اور اس کا حکم بجالائیں ۔ عورت کو یہ عقیدہ رکھنا چاہئے کہ یہ کام اس کے لئے جہاد سے بہتر ہے کیونکہ نبی اکرم   صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ۔آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا عورت کے لئے خاوند اور قبر سے بہتر کوئی چیز نہیں  اور آپ صلی اللہ نے فرمایا وہ شخص مسکین ہے جس کی بیوی نہیں ،عرض  کیا گیا اگر مال کے اعتبار سے غننی ہو؟ آپ نے فرمایا ، اگرچہ مالدار ہو ایسے ہی عورت کے لئے بھی کہا گیا ۔۔
میری بہنوں ان نوازشوں کے عوض میں ہمیں اپنے باپ  اور میاں کی عزت کی رکھوالی کرنا ہے ۔ شرم و حیا کو اپنا زیوار بنانا ہے شوہر کی فرمابرداری اور اسکے آرام و راحت کا خیال رکھنا ہے اگر دیکھا جائے تو آخرت کے ان انعامات کے آگے یہ کام کچھ بھی نہیں پھراچھے ماحول میں اولاد کی نیک تربیت کرنے سے ان کے نیک اعمال بھی آپ کے کھاتے میں ان شاءاللہ جمع ہوتے رینگے ۔  میری بہنوں ! رنگ برنگ کے کپڑے طرح طرح کے فیشن قسم قسم کے کھانے بھائیں بھائیں کے لوگ یہ کچھ کام نہیں آنے والا تمہارے اعمال ہی تمہارے کام آئنگے نماز کی پابندی کے ساتھ قرآن کی تلاوت ایک رکوع ہی کیوں نہ ہو پڑھا کرو۔ اگر ہوسکے تو صدقہ خیرات کرو۔ گھر کے کام جوبھی کرو ثواب کی نیت سے کرو ۔

اللہ ہم مسلمان عورتوں کو عزت اور ایمان کی زندگی اور موت دے ۔آمین   

Monday, October 13, 2014

خون پھر خون ہے

خون پھر خون ہے



جب ہمیں کوئی اپنوں سے تکلیف یا نا انصافی ہوتی ہے تو ہم بہت اندرتک دردمحسوس کرتے ہیں ۔ ہمیشہ دیکھا گیا ہے کہ خون کے رشتہ کا درد نا قابل برداشت ہواکرتاہے رہ رہ کردل میں اچھے دن یاد کیا کرتے ہیں مگر لب پر ڈھیروں شکایتوں کا دفتر کھولے ہوتےہیں ۔

  یہ رشتے ہمارے پیدا ہونے سے پہلے سے قائم رہتے ہیں ۔ یہ خون کا ہی نہیں اباو اجداد سے بھی جڑا ہوا کرتا ہے یعنی نسل در نسل  اور دلی و دماغی اور روحنی طور سے ہم اس سے جنم سےمانوس ہوتے ہیں  اور لاشعور سے ہی اُن سے پر اعتماد رہتے ہیں پھر جس کو زیادہ عرصہ اور زیادہ چاہا جاتاہے اس کی ہلکی چوٹ بھی گہری لگتی ہےیہ ہی وجہہ ہے کہ درد بہت محسوس ہوتا ہے ۔ اور دیکھا گیا ہے کہ خون کے رشتہ میں ہی زیادہ لڑائیاں ہوا کرتی ہیں ۔اس لئے ایک کرنے کے لئے ہمارے بڑے کہاکرتے تھے کہ جس سے محبت ہوتی ہے اسی سے ناراضگی کااظہار ہوا کرتاہے۔ اس کی سب سے نرالی بات یہ ہوتی ہے کہ جھگڑے کے بعد بھی کسی غیر سے ان کے بارے میں برا نہ سن سکتے ہیں نہ انہیں تکلیف میں دیکھ سکتے ہیں دوری کے باوجود دل ان کے دکھ سکھ میں شامل رہتا ہے۔ کسی ایک کے پہل کرنے کے محتاج ہوتے ہیں جہاں کسی ایک فریق نے ہاتھ بڑا دیاتو یہ پانی میں لکڑی مارنے کے بعد جیساپانی ایک ہوتاہے ویسے ایک ہوجاتے ہیں ۔ ایسے ہوتے ہیں خون کے رشتےجو توڑنے سے بھی نہ ٹوٹے۔ خون  پھر خون  ہے وہ جوش مارے تو ہر لڑائی ہر ظلم بھلا دے کتنی ہی مسافت پر ہو اسے فرق نہیں پڑتا کتنا بھی طویل عرصہ بچھڑ کر گزارنے کے باوجود ملنے پر دوری، دوری نہیں ہوتی ملتے ہی باہم ایک ہوجاتے ہیں۔ یہ ہوتے ہیں خون کے رشے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

ظلم کی بات ہی کیا ظلم کی اوقات ہی کیا
خون پھرخون ہےسوشکل بدل سکتا ہے

Sunday, September 21, 2014

دل کے رشتے

 
دل کے رشتہ

 قاسم صاحب کو ریٹائر ہوئے تین سال بیت گئے تھے ۔ آج وہ ہسپتال کے آئی سی یو وارڈ میں کبھی ہوش تو کبھی بے ہوشی کی حالت میں موت سے لڑ رہےتھے۔ قریب ہی میں (رخشندہ بیگم) گھبرائی ہوئی پریشان سی بیٹھی انہیں تکے جا رہی تھیں۔ امریکہ میں مقیم عنبرین بیٹی کو فون کرنے ہی والی تھیں کہ میرا بیٹا عاصم ایک ہاتھ میں گھر کا ٹفن پکڑے اندر داخل ہوا جسے دیکھ کر میں حیران ہوگئیں۔ "یہ ٹفن کس نے تیار کر کے بھیجا ہے؟" اس سے آتے ہی جھٹ سےسوال کیا۔ ’’وہ امی‘‘ اس سے آگےعاصم کچھ نہ کہہ سکا اور چپ ہوگیا۔ "وہ امی کیا؟" عاصم نے دروزے کی طرف اشارہ کردیا۔ زرینہ کے چہرہ پر آج بھی پہلی ملاقات جیسی بے یقینی، ڈر اور امید کے ملے جلے عکس صاف نظر آرہے تھے ۔ اور بالکل اسی طرح آنکھیں نیچے جھکائے ہوئی، ہاتھ جوڑے کھڑی تھی۔ مجھے آج بھی کل کی بات کی طرح یادآ گئی ۔


 ڈور بیل کی آوازپر میں نے کپڑے ایک طرف رکھ کر درواز کھولا تو کریمن بوا سامنے کھڑی تھی میں انہیں اندر آنے کہہ کر خود صوفہ پر آبیٹھی وہ نیچے بیٹھنے لگی تو میں نے انہیں یاد دلایا کہ میرے پاس بلا تفریق انسان کی قدر وعزت ہوتی ہے۔ کریمن بوا خوشآمدی انداز میں زمین و آسمان کے قلابے ملانے لگی۔ آپ کے در پر میں خود کئی مصیبت کے ماروں کو لاکر ضرورتوں کا ازالہ کرواچکی ہوں ۔آپ جیسی نیک بی بی نے کبھی مجھے مایوس نہیں بھیجا کبھی مجھے جھوٹا نہیں کیا ہر بار بھرم بنائے رکھا۔ مجھ سے رہا نہ گیا کچھ تیز آواز سے میں نے بوا ، بوا کہکرپھر دھیمے سے کہا، آپ بھی تو محلہ بھر کا خیال رکھتی ہیں سب کے دکھ درد میں ساتھ دیتی ہیں ۔۔ اچھا بتاو کیا بات ہے؟ اگر میں کچھ مدد کرسکوں تو ضرور کرونگی ۔ میں بات مطلب پر لے آئی۔ ابھی میری بات ختم بھی نہ ہوئی تھی کہ وہ بول پڑی کہ "اب مدد تو آپ ہی کرسکتی ہیں ۔ بات دراصل یہ ہے بی بی اپنے محلہ سے متصل کچھ غربا کے مکانات ہیں جہاں مہینہ بھر پہلے فسادات ہوئے تھے ۔دو سال پہلے آپ کے پاس کام کرنے والی نسیم بی اور اس کا بیٹا بھی وہی رہتا تھا جو اسی فساد میں مرگیا ، اس کا آدمی بھاگ گیا ۔پلنگ کے نیچے چھپنے سے بیٹی بچ گئی ۔بستی کےمختلف لوگوں سے بات کرکے ان کے گھر رکھتی رہی ہوں مگر کہیں بھی ٹک نہ سکی کیونکہ اس کو اس حادثہ کے بعد سے دورے پڑنے لگ گئے ہیں۔ پانچ آٹھ دن مشکل سے نکالتی ہو گی کسی ایک جگہ اور دورے ختم ہوتے ہی دوسرے دن مجھے بلا کر ساتھ کر دیتے ہیں۔ آپ بہت محبت والی ہیں اس بے سہارا لڑکی کو آسرا مل جائے گا یہ سوچ کر آپ کی دہلیز تک آئی ہوں ۔آپ کی بچی کا اتران پہن لے گی جھوٹا کھالے گی ۔آپ کے کام میں مدد بھی دے گی۔" بے تکان بولتی بوا کو روکنے میں نے پوچھا ’’مگروہ ہے کہاں"؟ بوا آواز دینے لگی زرینہ او زرینہ۔ وہ آہستہ آہستہ چل کر آرہی تھی بوا نے سلام کرنے کہا اور بتایا کہ یہ بہت اچھی بی بی ہیں۔ تم یہاں بہت خوش رہو گی۔۔ وہ سلام کی جگہ ہاتھ جوڑے کھڑی تھی بہت بھولی پیاری سی لڑکی۔ میں نے اس کو پاس بلایا سر پر ہاتھ رکھا تو نس نس میں ایک عجب سا سکون اور طمانیت محسوس ہوئی ۔۔۔۔


قاسم صاحب کو پردیس فون کرکے ایک اور فیملی ممبر کی آمد کی خوش خبری دی تو وہ بہت ناراض ہوئے پھر میں نے ساری باتیں بتا کر آخر انہیں منا ہی لیا ۔بچوں نے پہلے انجان انجان سا برتاو کیا مگرزرینہ کی ملنساری نے بہت جلدسب کو شیر وشکر کر لیا۔ میں نے بھی اس کی دیکھ بھال میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ بیٹی کے اسکول میں داخلہ کروانا چاہا مگر نہ ہوسکا تو میں نے اسی کے پرانے اسکول سے پڑھا کر گھر پر ٹیوشن کا انتظام کیا اور پھر میٹرک میں امتیازی کامیابی کے بعد اچھے سے کالج بھی جانے لگی۔ اسے پڑھائی کا بہت شوق تھا وہ پڑھائی کے ساتھ ہی ساتھ لاکھ منع کرنے کے باوجود سب کے کام وقت سے پہلے دوڑ دوڑ کر کرتی۔ میرا بے حد خیال رکھتی ہمارے پاس آنے کے بعد اسے ہسٹیریا کا دورہ ایک بار بھی نہیں پڑا۔ لگتا تھا وہ اپنا ماضی بھول چکی تھی۔۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زرینہ کے گھر آنے کے بعد قاسم صاحب کی یہ دوسری چھٹی تھی کل وہ واپس جارہے تھے۔سب ہی اداس ناشتہ کر رہے تھے۔ زرینہ جلدی سے ناشتہ کر کے اوپر رخشندہ بیگم کے کمرے میں جا کر جلدی جلدی ہمیشہ کی طرح کپڑوں کو استری کرنے لگی۔۔۔ ۔اچانک زرینہ کے زور زور سے پکارنے اور رونے کی آواز کو سن کر میں بھاگتے ہوئے زینہ عبور کر کے اوپر پہنچی تو وہاں کے ماحول نے میرے تن بدن میں آگ لگا دی۔۔ "یہ کیا کررہے تھے آپ؟" قاسم صاحب کو زرینہ کے قریب دیکھ کر پوچھا تو وہ کہنے لگے "اسے شاید ہسٹیریا کا دورہ پڑا ہے۔۔" "نہیں یہ غلط بیانی ہے۔" میں غصہ سے بے قابو ہوگئی۔ قاسم صاحب بنا کچھ جواب دئے واش روم میں چلے گئے میں زور زور سے دروازہ پیٹتی اور کہتی رہیں کہ وہ میری بیٹی ہے ۔تم نے ہمت کیسے کی ۔میں تمہیں نہیں چھوڑنے والی۔۔۔میں نے زرینہ کے رونے کی آواز پر پلٹ کر دیکھا اور بے اختیار ہاتھ کھول کر پاس آنے کا اشارہ کیا ۔سہمی ہوئے زرینہ آ کر مجھ سے لپٹ گئی۔ اس کے لپٹتے ہی میرے امڈتے ہوئے ممتا کا چشمہ یک لخت سوکھ گیا۔ نہ جانے مجھ میں سے اچانک کیسے نفرت کا دریا ابلنے لگا۔ زرینہ کو پرے ہٹا کر سیڑیوں سے تیزی سے نیچے اترنے لگی ۔



 پھر مجھے یاد نہیں کب قاسم صاحب واپس گئے ۔ بچے کتنا پریشان ہوئے۔ میں کتنی دیر تک سب کے ساتھ ہوتے ہوئے بھی تنہا اپنے خیالوں میں گم رہی۔ میں سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر یہاں سے دور چلے جانے کا سوچتی تو کبھی دل کہتا قاسم صاحب جیسے بے وفا کی اب مجھے کوئی ضرورت نہیں۔ مگر جب عنبرین اورعاصم کا خیال آتا تو خود کو مجبور پاتی۔ پھر سوچنے لگی زرینہ کو کریمن بوا کے حوالہ کر دوں۔ نہ رہے گا بانس اور نہ بجے گی بانسری۔ آخرمیں بھی تو بنیادی طور پر انسان ہی ہوں، میں ایسا کیوں نہیں کرسکتی ۔ نہیں میں اتنی کم ظرف نہیں ہوسکتی۔ اف یہ ضمیر کے کچوکے بھی کتنے تکلیف دہ ہوتے ہیں۔ بے ضمیر لوگ خود کے لئے جیتے ہیں، جو جی میں آئے کر گزرتے ہیں۔ ہر پل نیکی بدی کا حساب کرتے نہیں رہتے دوسروں کے دکھ درد سے انہیں مطلب نہیں ہوتا۔جب ضمیر جاگے تو انسان کتنا بدل جاتا ہے خود کوایذا پہنچا کر وہ دوسروں کو خوش دیکھتا ہے مگر اپنی ذات سے کسی کو دکھ نہیں ہونے دیتا۔وہ زمین پر رہ کر بھی آسمان ہو جاتا ہے ۔میرا آسمان کی بلندی سے نیچے اترنا محال ہے ۔۔۔  نہیں میں خود کے اور سب کی نظروں سے گر گئی تو یہ زندگی زندگی نہیں ہوگی ۔۔۔۔مگر میرا دونوں ہی سے دل کا ناطہ ہے دونوں ہی کو میں نے بےانتہا گہرائیوں سے چاہا ہے ۔یہ کیسی آزمائش کی ساعت آن پڑی ہے ۔یہ ایک ساعت مجھے ایک صدی لگ رہی ہے کیا اس کے گزرتے ہی سب کچھ ختم ہوجائے گا اور یہ دل کا رشتہ ٹوٹ جائے گا ۔جس کو ہم نے دامنِ دل میں اتنی عمر چھپایا ہے وہ کھو جائے گا۔ وہ پرائی تھی میں نے کیوں اس سے اتنا من لگا لیا ۔نہیں میں نے اسے اپنا مانا ہے وہ پرائی نہیں پھر کچھ سوچ کر میں نے زیرلب بڑبڑایا۔ ہاں ہاں وہ پرائی ہے ۔بیٹی پرائی ہی تو ہوتی ہے ۔


 میں نے زرینہ کو شادی پر راضی کرلیا بڑی دھوم دھام سے شادی ہوئی ۔ وہ اپنے خود کے گھر رہنے لگی ۔میں اور بچے اس کے ہر دکھ سکھ میں اس کے پاس جاتےاس کے بچے کی پیدائش پر بھی ہسپتال میں ساتھ رہی۔ کبھی کمی محسوس نہ ہونے دی۔ ہمارے گھر وہ کبھی نہیں آئی اور نہ میں نے اس سے آنے کو کہا ۔ بہت محبت کرنے والا شوہر اور پیارا سا بیٹا سب ہی کچھ تھا اس کے پاس۔ وہ اپنی زندگی میں خوش تھی ۔آج اس نے میری مشکل کی گھڑی میں خود کی انا ، بے عزتی کے احساس کی پروا کئے بنا ہماری مدد کو دوڑے دوڑے آگئی تھی۔ میں نے زرینہ کے ہاتھ کو چوم کر اسے گلے لگا لیا۔۔ قاسم صاحب کے کراہنے کی آواز پر ہم نے ایک ساتھ ان کی طرف دیکھا تو وہ سرتاپا ندامت ہماری جانب دیکھتے ہوئے ہاتھ جوڑے رونے لگے اور پھر انہوں نے آہستہ آہستہ اپنی آنکھیں موند لیں۔۔۔




Sunday, July 27, 2014

دکن میں عید


دکن میں عید

رمضان کا بابرکت مہینہ کے آنے سے رونقوں،رحمتوں , برکتوں میں اضافہ ہوتا ہے تو یہ اپنے اختتام پر عید کی نوید بھی لے آتا ہے ۔عید کی تیاری ہر طبقہ اپنی استطاعت کے لحاظ سے کرتے ہیں ۔اللہ کریم کے قانونِِ فطرت کے کیا کہنے امیر کو ثواب وجزادینے کا وعدہ کرکے غریبوں کی خوشیوں کا بندوبس فرماتا ہے ۔ زیادہ تررمضان میں نیکیوں کے حریص حضرات زکوتہ اور خیرخیرات کا اہتمام کرتے ہیں ۔عید کی آمد، کیا امیر کیا غریب سب کے لئے موجبِ مسرت ہوتی ہے ۔اس کی تیاری کئی دن پہلے سےشروع ہوجاتی ہے ۔ مرد حضرات جاب، روزے،تراویح کی نمازکے ساتھ ساتھ اپنے کنبہ کی عید کی تیاری میں کوشاںریتے ہیں تو خواتین سحری،افظار،تلاوت ،نماز کی مصروفیت کے باوجود سب کے لئے نئی کپڑے ،گھر کی تفصیلی صفائی اور شوپنگ میں مگن ہوتی ہیں ۔ نو بیاہ اور منگنی والی لڑکی کے گھر سسرال سے عیدی بھیجی جاتی ہے ۔ نوخیز لڑکیاں اور سہاگن عورتیں مہدی ہاتھوں پر لگاتی ہیں بچوں کی خوشی تو دیدنی ہوتی ہے۔ جیسے جیسے ماہ رمضان اختتام کے قریب آتا ہےشوپنگ عروج پر ہوتی ہےاورہرطرف خواتین وحضرات خریداری کرتے نظرآتےہیں چاہیے وہ چھوٹاہویابڑاامیرہوکے غریب کسی دانشوار کاقول ہے کہ کھانااپنے لئےاور پہنا دوسروں کےلئےکے مصدق لباس ہوکے زیوارت،چپل ہوکےچوڑیاں ہرکوئی ایک دوسرےپرسبقت لے جانےکی کوشش میں لگےرہیتے ہیں سب کو خوب سے خوب تر کی تلاش ہوتی ہے۔ ماہ ِرمضان ایسامہینہ ہے۔جس میں چھوٹے سے چھوٹےبیوپاری کا کاروباری بھی عروج پر رہتا ہےاور ان کی مارکٹ میں مانگ بڑجاتی ہے ۔ قلی قطب شاہ کے بسائے ہوے شہر حیدرآباد دکن کے قلبِ شہرچار مینار کی گود میں شاہ علی بنڈہ سے پرانے پل تک تو خلوت سےپرانی حویلی تک سامان سے لدی دوکانوں پر ایسے مناظردیکھے جاسکتے ہیں جس میں کوئی پھترگٹی سے لباس وعطریات خرید رہے ہیں تو کوئی سونے،چاندی اور نقلی زیورات کے لئے گلزار حوض سے کالی کمان کے چکر لگا ریے ہیں تو کوئی لاڈبازار سے چوڑیاں وسلمٰی ستارےاور میک اپ کی شاپنگ میں مصروف ہوتے ہیں تو کوئی کوئی گھر کی سجاوٹ کی اشیاء کی خریداری میں محو ہیں اور کوئی گھرآیے مہمان کی ضیافت کے لئے تیار کیاجانے والے پکوان کاخورد ونوش کے سامان کامیر عالم منڈی میں تول مول کررہے ہیں تو کوئی اس ہجوم کوصرف دیکھنےہی چلے آتے ہیں۔عید کے دن سے پہلے فجر تک بازار میں کاروبار چلتاہی رہتا ہے۔
عید کا چاند نظر آتے ہی سب اپنے سے بڑوں کو فرشی سلام کرتے ہیں چاند کی مبارک باد دیتے ہیں ۔ پھر صبح فجر سے اٹھکر مرد حضرات نہا دھو کر نئے کپڑے زیب تن کرکے شیر قورمہ نوش کرنے کے بعد عیدگاہ یا مکہ مسجد جاکر عید کی نماز ادا کرتے ہیں اور ان کے آنے تک خواتین پکوان سے فارغ ہوکر چھوٹے بچوں کی تیاری کےبعدخود بناوسنگار کرکے نماز سے واپسی کا انتظار کرتی ہیں اڑوس پڑوس میں شیرقورمہ بھیجایا جاتاہے ۔ نماز سے واپسی کے بعد عید کا سلام اور مبارک بادی ایک دوسرے کو دیتے ہیں اپنے سے چھوٹوں کو عیدی دیی جاتی ہے پھر کھانے سے فارغ ہونے کے بعد مرد حضرات عزیز واقارب سے ملنے چلے جاتے ہیں اور خواتین آنےوالے مہمانوں کی ضیافت میں مصروف ہوجاتی ہیں آنے والے مہمان کوشیر قورمہ کھاری سویاں،نہتاری سویاں،چائےیا شربت اور عطر،پان پیش کیا جاتا ہے۔پھر دوسرے دن خواتین اپنے میکے جاکر ملاقات کر آتی ہیں ہر وقت ہر مقام پر سب ہی بہت خوش نظرآتے ہیں۔ عزیز اقارب پڑوسی اپنے پرائےدوست دشمن سب ہی ایک دوسرےکےگِلے شکوے بھولا کرآپس میں َگلےمل لیتے ہیں۔

Wednesday, July 02, 2014

تذكرة القرأن


تذكرة القرأن
رمضان کا بابرکت مہینہ ہم سب پر سایہ فگن ہے ہمیں چاہیے کہ اس مبارک ماہ میں اپنے پیدائش کے مقصد کو یاد رکھے اور زیادہ سے زیادہ عبادت کی کوشش کرے ۔ کیوں نہ ہم ایسی عبادت کریں جس میں وقت کم لگے اور ثواب زیادہ ملی کیوں نہ ہم ایسی عبادت کو پسند کریں جس کوہمارے پیارے رسول صلی اللہ علیہ و سلم اور اصحاب رسول نے پسند فرمایا ۔آج میں آپ کی توجہ ایک ایسی آسمانی کتاب کے طرف مبادلہ کرنا چاہتی ہوں جو ہمارے آخری رسول محمدﷺ پر نازل ہوئی جس کو ہم قرآن مجید کہتے ہیں جس کے پڑھنے اور پڑھانے کا اللہ پاک نے خود حکم فرمایا ہے۔


صیحح بخاری میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعایٰی عنہ سے مروی ہے کہ رسولﷺ نے فرمایا؛ تم میں بہتر وہ شخض ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے۔۔۔۔
خود سیکھنا اور دوسروں کو سیکھانا دونوں ہی کے لئے مستقیل خیر و بہتری ہےاور کیوں نہ ہو یہ اللہ پاک کا کلام ہے ۔اللہ پاک قرآن مجید میں خود فرماتا ہے ۔ قُل لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الْإِنسُ وَالْجِنُّ عَلَىٰ أَن يَأْتُوا بِمِثْلِ هَٰذَا الْقُرْآنِ لَا يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيرًا اے رسول کہدیجئے کہ اگر سب انسان اور جن بھی مجتمع ہو جائئیں اور ایک دوسرے کی مدد و اعانت بھی کریں اور پھر بھی وہ اس قرآن جیسی کوئی کتاب بنانا چاہیں تو ہرگز ہرگز ایسا نہ کر سکیں گے ۔
اس دعویٰ کے الفاظ کی شوکت اور قوت پر غور کرنے سے بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ یہ قرآن کلام اللہ کا ہے ۔

صحیح مسلم میں حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہےکہ رسول اللہ تعاٰلٰی علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعاٰلٰی اس کتاب سے بہت لوگوں کو بلند کرتا ہے اور بہتوں کو پست کرتا ہے یعنی جو اس پر ایمان لاتے اور عمل کرتے ہیں اُن کے لئے بلندی ہے اور دوسروں کے لئے پستی پس ہم خود پر لازم کرلیے کہ اپنے درجات کی بلندی کے لئے تلاوت کلام پاک میں مشغول ہوجائے اور اپنی بہتری کا سامان کرلیں

 کیونکہ ترمذی و الدارمی میں ابو سعید رضی اللہ عنہ سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد منقول ہے کہ حق سبحان وتقدس کا فرمان ہے کہ جس شخض کو قرآن شریف کی مشغولی کی وجہہ سے ذکر کرنے دعائیں مانگنے کی فرصت نہیں ملتی میں اس کو سب دعائیں والوں سے زیادہ عطا کرتا ہوں اور اللہ تعالٰی شانہُ کے کلام کو سب کلاموں پر ہی فضیلت ہے جیسی کہ خود حق تعالٰی کو تمام مخلوق پر ۔ جب کوئی شخض اس کی تالیف کا اہتمام کیا کرتا ہے تو فطرتاً اس کی طرف التفات اور توجہ ہوا کرتی ہے اس لئے حق تعالٰی کے کلام کا ورد رکھنے والے کی طرف حق سبحان وتقدس کی زیادتی توجہ بھی بدیہی اور 
یقینی ہے جو قرب کا سبب ہوتی ہے۔

نسائی و ابن ماجہ میں انس رضی اللہ عنہ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد نقل کیا ہے کہ حق تعالٰی کے لئے لوگوں میں سے بعض لوگ خاص گھر کے لوگ ہیں ،صحابہ نےعرض کیا کہ وہ کون لوگ ہیں فرمایا کہ قرآن شریف والے کہ وہ اللہ کے اہل ہیں اور خواص ہیں ۔

اب ہمیں غور کرنا چاہیے کے اللہ پاک کی یہ مہربانی ہے کہ ہمیں اللہ کی قربت ونظر عنایت پانے کے لئےکتنا آسان و سہل طریقہ سے اللہ پاک کا تقرب ومقرب بنے کا کیا اچھا موقعہ عنایت فرمایا گیا ہے۔بس ذرا سی توجہ اور محنت سے اللہ کےاہل اور اس کے خواص میں شمار کئے جاتے ہیں اور اللہ کے پاس خاص شمار ہونا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔

اورایک بار پھر ترمذی و دارمی ہی سے نقل ہے کہ عبداللہ بن مسعود نے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو شخض کتاب اللہ کا ایک حرف پڑھے گا اُس کو ایک نیکی ملے گی جو دس کے برابر ہوگی میں نہیں کہتا الم ایک حروف ہے بلکہ الف ایک حرف لام دوسرا حرف ہے میم تیسرا حرف ہے۔ آپ لوگ خود ہی اس حدیث سے اندازہ کرلیجئے کہ قرآن کے ہر ہر حروف کے بدلہ ہم کو کتنی نیکیاں مل رہی ہیں پھر کیوں نہ ہم اس کو زیادہ سے زیادہ پڑھکر نیکیوں کو حاصل کرنے کی کوشش میں لگ جائے ۔


امام احمد و ترمذی و ابو داود ونسائی نے عمر رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے
 کہ رسول اللہ نے فرمایا صاحب قرآن سے کہا جائے گاکہ پڑھ اورچڑھ اورترتیل کے ساتھ پڑھ جس طرح دنیا میں ترتیل کے ساتھ پڑھتا تھا تیری منزل آخر آیت جو تو پڑھے گا وہاں ہے

شرح احیاء میں لکھا ہے کہ ہر آیت ایک درجہ ہے جنت میں پس قاری سے کہا جاوے گا کہ جنت کے درجات پر تلاوت کے بقدر چڑھتے جاوے ۔ جو شخض قرآن پاک تمام پورا کرلے گا وہ جنت کے اعلٰی درجے پر پہچےگا ،اور جو شخض کچھ حصّہ پڑھا ہوا ہوگا وہ اس کی بقدر درجات پر پہنچے گا ۔ بالجملہ منتہاے ترقی منتہائے قرآت ہوگی۔

معاذجہنی رضی اللہ عنہ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد نقل کیا ہے کہ جو شخض قرآن پڑھے اور اس پر عمل کرے اس کے والدین کو قیامت کے دن ایک تاج پہنایا جاوے گا جس کی روشنی آفتاب سے بھی زیادہ ہوگی ۔ اگر وہ آفتاب تمہارے گھروں میں ہو ۔ پس کیا گمان ہے تمہارا اس شخض کے متعلق جو خود عامل ہو ۔۔(رواہ احمد ابوداود و صححہ الحاکم)۔

فضائل قرآن مجید میں حضرت محمد زکریا صاحبؒ اس حدیث کی تشریح میں فرماتے ہیں قرآن پاک کے پڑھنے اور اس پر عمل کرنے کی برکت یہ ہےکہ اس کے پڑھنے والے کے والدین کو ایسا تاج پہنایا جاوے گا جس کی روشنی آفتاب کی روشنی سے بہت زیادہ ہواگر وہ آفتاب تمہارے گھروں میں ہو ،یعنی آفتاب اتنی دور سے اس قدر روشنی پھیلاتا ہے اگر وہ گھر کے اندر آجا ئے تو یقیناً بہت زیادہ روشنی اور چمک کا سبب ہوگا تو پڑھنے والے کے والدین کو جو تاج پہنایا جاویگا اس کی روشنی اس روشنی سے زیادہ ہوگی جس کو گھر میں طلوع ہونے والا آفتاب پھیلا رہا ہے اور جب کہ والدین کےلئے یہ ذخیرہ ہے تو خود پڑھنے والے کے اجر کا خود اندازہ کر لیا جاوے کہ کس قدر ہوگا کہ اس کے طفیلیوں کا یہ حال ہے تو اصل کا حال بدرجہا زیادہ ہوگا۔ کہ والدین کو یہ اجر صرف اس وجہہ سے ہوا ہے کہ وہ اس کے وجود یا تعلیم کا سبب ہوئے ہیں ۔

آفتاب کے گھر میں ہونے سے جو تشبیہہ دی گئی ہے اس میں علاوہ ازیں کہ قرب میں روشنی زیادہ محسوس ہوتی ہے ایک اور لطیف امر کی طرف بھی اشارہ ہے وہ یہ کہ جو چیز ہر وقت پاس رہتی ہے اس سے انس و الفت زیادہ ہوتی ہے اس لئے آفتاب کی دوری کی وجہ سے جو اس سے بیگانگی ہے وہ ہر وقت کے قرب کی وجہ سے مُبدّل بہ انس ہو جاوے گی تو اس صورت میں روشنی کے علاوہ اس کے ساتھ موانست کی طرف بھی اشارہ ہے اور اس طرف بھی وہ اپنی ہوگی کہ آفتاب سے اگرچہ ہر شخض نفع اٹھا تا ہے لیکن اگر وہ کسی کو ہبہ کردیا جاوے تو اس کے لئے کس قدر افتخار کی چیز ہو ۔

آپ دیکھے کہ قرآن کو حفظ کرنے کی کیا فضیلت و برکت ہے کہ شرح احیاء میں ان لوگوں کی فہرست میں جو قیامت کے ہولناک اور وحشت اثر دن میں اللہ کے سائے کے نیچے رہیں گے ۔حضرت علی رضی اللہ عنہ کی حدیث سے بروایت نقل کیا ہے کہ حاملنِ قرآن یعنی حفاظ اللہ کے سائے کے نیچے انبیاء اور برگزیدہ لوگوں کے ساتھ ہونگے.


حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضور اقدس ﷺ کا ارشاد نقل کیا ہے کہ جس شخض نے قرآن پڑھا،پھر اس کو حفظ یاد کیا حلال کو حلال جانا حرام کو حرام ۔حق تعالٰی اس کو جنت میں داخل فرمادیں گے اورر اس کے گھرانے میں سے ایسے دس آدمیوں کے بارے میں اس کی شفاعت قبول فرمایں گے جن کے لئے جہنم واجب ہوچکی ہو ۔(ترمذی وابن ماجہ )۔  


ان ہی کتابوں میں ایک اور حدیث سے قرآن مجید کے پڑھنے کے تاکید اور یاد کرنے والوں کی توصیف یوں بیان ہوتی ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی سےروایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قرآن سیکھو اور پڑھو کہ جس نے قرآن سیکھا اور پڑھا اور اس کے ساتھ قیام کیااُس کی مثال یہ ہے جیسے مشک سے تھیلی بھری ہوئی ہے جس کی خوشبو ہر جگہ پیھلی ہوئی ہے اور سیکھا اورسوگیا یعنی قیام اللیل نہیں کیا اس کی مثال وہ تھیلی ہے جس میں مشک بھری ہوئی ہے اوراس کا مونھ باندھ دیا گیا ہے


بخاری ومسلم کی ایک حدیث میں ابو موسٰی رضی اللہ عنہ نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ سلم کا ارشاد نقل کیاہے کہ جو مسلمان قرآن پڑھتا ہے،اس کی مثال ترنج کی سی ہے کہ اس کی خوشبو بھی عمدہ ہوتی ہے اور مزہ بھی لذیز ۔ اور جو مومن قرآن شریف نہ پڑھے اس کی مثال کھجور کی سی ہے کہ خوشبو کچھ نہیں مگرمزہ شیریں ہوتا ہے ۔ اور جو منافق قرآن شریف نہیں پڑھتا اس کی مثال حنظل کے پھول کی سی ہےکہ مزہ بھی کڑوا اور خوشبو کچھ نہیں اور جو منافق قرآن پڑھتا ہے اس کی مثال خوشبو دار پھول کی سی ہے کہ خوشبو عمدہ اور مزہ کڑوا۔

اس حدیث کے بارے میں مولانا زکریاؒ فرماتے ہیں۔
مقصوداس حدیث سے غیر محسوس شے کو محسوس کے ساتھ تشبیہہ دینا ہے تاکہ ذہن میں فرق کلام پاک کے پڑھنے اور نہ پڑھنے میں سہولت سے آجاوے ورنہ ظاہرہے کہ کلام پاک کی حلاوت و مہک سے کیا نسبت،ترنج و کھجور کو اگرچہ ان اشیاء کے ساتھ تشبیہہ میں خاص نکات بھی ہیں جوعلوم نبویہ سے تعلق رکھتے ہیں اورنبی کریمﷺ کے علوم کی وسعت کی طرف مشیر ہیں ۔

مثلاً ترنج ہی کو لے لیجئے منھ میں خوشبو پیدا کرتا ہے ،معدہ کو صاف کرتا ہے ،ہضم میں قوت دیتا ہےوغیرہ وغیرہ یہ منافع ایسے ہیں قراتِ قرآن شریف کے ساتھ خاص مناسبت رکھتے ہیں مثلاً منھ کاخوشبودارہونا،باطن کاصاف کرنا،روحانیت میں قوت پیدا کرنا۔ یہ منافع تلاوت میں ہیں جو پہلے منافع کے ساتھ بہت مشابہت رکھتے ہیں ۔ ایک خاص اثر ترنج میں یہ بھی بتلایا جاتا ہے کہ جس گھر میں ترنج ہو وہاں جن نہیں جاسکتا۔ اگر یہ صحیح ہے تو پھر کلام پاک کے ساتھ خاص مشابہت ہے معض اطباء سے میں نے سنا ہے کہ ترنج سے حافظ بھی قوی ہوتا ہے اور حضرت علی کرم اللہ وجہ سے احیاء میں نقل کیا ہے کہ تین چیزیں حافظ کو بڑھاتی ہیں ایک مسواک دوسرا روزہ اور تیسرا تلاوت کلام اللہ شریف ۔۔۔۔

ابو داود کی روایت میں اس حدیث کے ختم پر ایک اور مضمون نہایت ہی مفید ہے کہ بہتر ہمنشین کی مثال مشک والے آدمی کی سی ہےاگر تجھے مشک نہ مل سکا تو خوشبو تو کہیں گئی نہیں ،اور بد تر ہمنشین کی مثال آگ کی بھٹی والے کی طرح سے ہے کہ اگر سیاہی نہ پہچے تب بھی دھواں تو کہیں گیا ہی نہیں ۔نہایت ہی اہم بات ہے ۔آدمی کو اپنے ہم نشینوں پر بھی نظر کرنا چاہیے کہ کس قسم کے لوگوں میں ہر وقت نشست و بر خاست ہے


بیہقی نے شعب الایمان میں ابن عمر رضی اللہ عنہماسے رویت کی ہےکہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا ان دلوں میں بھی زنگ لگ جاتی ہے جس طرح لوہے میں پانی لگنے سے زنگ لگتی ہے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اس کی جلا کس چیز سے ہوگی فرمایا کثرت سے موت کو یاد کرنے اور تلاوت قرآنِ مجید۔۔


قارئین اکرام اب ہم سب کو قرآن پاک کے پڑھنے کی فصیلت اور ثواب سے خوب آگاہ ہوگئے ہیں موت کا کوئی وقت معین نہیں ہم سستی کو چھوڑ کر اس مبارک ماہ جس میں اس کا نزول ہوا ہے اس میں کثرت سے تلاوت کا اہتمام کریگےاور کیوں نہ کرے جس وقت جب کوئی رشتہ ناتہ کام نہیں آتا سب کو اپنی پڑی ہوگی اس دن قرآن اپنے پڑھنے والے کے لئے جھگڑا کرے گا اور اللہ پاک قبول کرلے گا قرآن پاک کا دیکھنا چھونا پڑھنا سب عبادت ہے حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ نے حضور سے وصیت فرمانے کہا تو حضور نے وصیت میں ایک یہ بھی فرمایا کہ تلاوت قرآن کا اہتمام کرو کہ دنیا میں نور ہے اور آخرت میں ذخیرہ ۔


بس حضور محمدصلی اللہ علیہ و سلم کی اس وصیت پر میں اس مضمون کو ختم کرتی ہوں اور دعا کرتی ہوں کہ اللہ تعالٰی مجھکو آپ کو ہماری اولاد و متعلقین اور سب مسلمانوں کوزیادہ سے زیادہ تلاوتِ کلام اللہ کی تو فیق عطا فرمائے۔آمین

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
..

Tuesday, June 10, 2014

ماں کا دل



السلام علیکم

میرے اچھے بھائیوں اور پیاری بہنوں

عورت کے دل کو اللہ نے لگتا ہے خاص مٹی سے گھڑا ہوگا اور خاص طور سے جب وہ ایک ماں بھی ہو ۔اور میں نے اپنے تجربہ سے دیکھا ہے کہ ایک عورت کی جب اللہ سنتا ہے تو اس کی اولاد کے حق میں کی گئی دعائیں فوراً قبول کرتا ہے اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ اللہ پاک عورت کو آزماءش میں ڈالنا چاہتا ہے تو بھی اولاد کی وجہہ سے ہی آزماتا ہے اور میں سمجھتی ہوں کہ عورت کی اس سے سخت سزا ہوہی نہیں سکتی ۔ماں کے دل کا حال اور احساس اس تازہ بہ تازہ خود پر گزرے اس واقعہ سے شایدآپ کو معلوم ہو۔

آٹھ تاریخ کو بیٹے نے ایک ماہ کی چھٹی گزارنے اپنے سسرال امریکہ کا پروگرام بنایا ۔اس کو جانے کے لئے چھوڑنے ہم سب ایر پوارٹ فیملی کے ساتھ گئے۔ سامان ویٹ کیا اور بوڈینگ کارڈ لیا گیا ۔کچھ دیر ساتھ بیٹھنے کے بعد ایک گھنٹے کا ٹائم ابھی باقی رہنے کے باوجود والدین اور دوسرے رشتہ دار کو تکلیف نہ دینے کے خیال سے وہ اندر چلے جانے کا اردہ کیا اور سب سے مل ملا کر وہ بیوی بچوں کے ساتھ اندر چلے گئے ۔

 ماں کے دل نے اپنے احساس کا اظہار باوجود ضبط کہ آنکھوں سے کردیا اور چپکے سے اپنےآپ سے بیٹے کی جدائی کی شکایت کرلی اور اللہ کی مرضی پر راضامندی میں سر جھکا کر سب کے ہمراہ گھر واپس آگئے ۔مغموم ماں بستر پر لیٹے خالی خالی نظروں سے چھت دیکھنے لگی اور پھرکچھ دیر بعد فون کی بیل نے بیدلی کی کیفیت کوفراموش کردیا ۔ عمرہ کے رش کی زیادتی نے چیکنگ میں دیر کردی اور پلین مس  ہوگیا، رات زیادہ ہوگئی، بچوں کا ساتھ ہے آکر لے جائیں بیٹے نے فون پر کہا ۔ ہم جلدی سے ایر پورٹ بھاگے بھاگے گئے پھرواپسی میں بیٹے نے راستہ بھربہت افسوس کیا اپنے اور اپنے بچوں کی تھکن کا ذکر کیا سیٹ آگے بڑھانے پر اضافہ فیس دینے کا بتایا ۔

 ماں کا دل پھرایک بار تڑپ اٹھا اور دل ہی دل میں خود کو الزام دینے لگی کہ دل میں بھی تو نے ایسا کیوں سوچا تو ہی نے اپنے بیٹے کا دل دکھا یا ہے  کیوں اس کا نہیں سوچا اپنی خوشی کیوں چاہی ۔ وہ شہ رگ سے قریب رہنے والے نے تیری یہ بات سن لی اور مان لی ۔ نہیں نہیں ایسا نہیں ہونا چاہئے تھا  ۔ میں اسی سے معروضہ کرونگی جس کے ہاتھ میں ساری دنیا کی بھاگ ڈور ہے ۔پھر دعائیں من ہی من مانگنے لگی ہے ۔ اے اللہ پاک اس کو سیٹ آسانی سے بنا پیسے بھرے مل جائے جب بغیر تجھ سے مانگے تو نے مجھے بیٹے کا ساتھ دیا میں ہر ہر پل کے لئے تیری شکر گزار ہوں اب تو تیرے کرم سے اتنی آسانیاں ہوگئی ہیں دور رہ کر بھی ایک انسان قریب سے بھی زیادہ قریب تر لگنے لگاتا ہے بس انسان کو دل سے قریب ہونا چاہئے ایک ماں اپنے بچے کو پریشاں نہیں دیکھ سکتی بدلہ میں اس پر مصبت کے پہاڑ ہی کیوں نہ ٹوٹ جائیں ۔

دل سے مانگی دعا رد نہیں ہوتی اللہ نے بنا اضافہ پیسوں کے اسی وقت کی دوسرے دن کی سیٹ دیلادی اور پھر ماں نے اپنے دل کو منا لیا کہ اب تو چپ ہی رہ کبھی یہ کبھی وہ کہنے کی ضرورت نہیں اور پھر ایر پورٹ سے باہر ہی باہر چھوڑ آئے بہانہ بنادیا کہ کہیں پھر دیر نہ ہوجائے۔اصل میں تو خود پر اعتبار نہیں تھا کیا پتہ پھر یہ بیٹے کے قرب کے لئے مچل جائے ایک ماں کے دل کا کوئی بھروسہ نہیں ۔

بیٹا لمحہ بہ لمحہ دور ہوتا رہا اور ماں کو لگتا رہا کہ وہ اس سے قریب سے قریب تر ہورہا ہے پہلے ساتھ رہتے اس کا خیال یوں ہر پل نہیں ہواکرتا تھا مگراب ہر ساعت اسی کا دھیان لگا رہتا ہے ۔۔
اللہ پاک ؛ جتنا دل ،زبان ،خیال، محبت رضا اور محویت ایک ماں کو اولاد کے لئے ہر دم  رہتی ہے۔اس سے کئی گنا زیادہ ہم تیرے لئے کیا کریں ۔ 
 
بلاگ  پر تشریف لانے کا شکریہ

Sunday, June 01, 2014

رشتہ ازواج


السلام علیکم و رحمتہ اللہ

محترم بھائیوں اور پیاری بہنوں

محبت اللہ کی  پہلی نعمت ہےجو ابا آدم اور اماں حوا کو عطا ہوئی ۔ یہ عرش اعظیم سےاترتی ہے اور دلوں میں گھر کر جاتی ہے ۔ محبت میں استحکام و استقلال سچی محبت کی نشانی ہے۔ اگر یہ نہ ہو تو محبت کے معنی ہی بدل جاتے ہیں ۔ محبت نام ہے دو لوگوں کو متحد کرنے کا  یہ توحید کی روح ہے ۔ محبت غیریت کو مٹا دیتی ہے ۔

دنیا میں اتنے رشتہ ہیں اتنے متعلقہ لوگ ہوتے ہیں ہر ایک سے کسی نہ کسی

وجہہ سے  دل میں محبت رہتی ہے یا پیدا ہوہی جاتی ہے ۔کسی سے خون کا رشتہ ہوتا ہے تو کسی سے احسان کا اور کسی سے اخلاص کا ۔۔۔۔ رشتوں کے اتنے نام ہیں جو سب ہی جانتے ہیں کہنے کی  حاجت نہیں مگر ان سارے رشتوں میں وہ کونسا رشتہ  ہوسکتا ہے جس سے ہم شدید محبت کرتے ہیں جس میں  اپنا میں بھی فنا کردیتے ہیں جس کی بنیاد ہی محبت پر قائم ہوتی ہے۔ میرے خیال سے وہ ہے انسان کا پہلا رشتہ ،رشتہ ازواج، جس میں دو انسان مل کر ایک ہو جاتے ہیں ۔ محبت ،عزت اولاد، مال و دولت ،ہر چیز ایک دوسرے کی ہوجاتی ہے ۔ ضرورت زندگی ،رہن سہن سب ساتھ رہتا ہے ایک دوسرے کی خوشی و غم کے ساتھی ہوتے ہیں گویا  دونوں ایک جان ،ایک زبان ایک دل ہوجاتے ہیں  اور ان کا  مقصد حیات تک ایک ہو جاتا ہے

محبت پہلے صورت سے ہوتی ہے پھر اخلاق و عادات سے محبت میں رنگ بھر جاتا ہے پھر ذات سے محبت ہو جاتی ہے اور یہ محبت امر کہلاتی ہے ۔

محبت کو لازوال کرنے خود کو مٹانا پڑتا ۔ اپنا سب کچھ محبوب کے حوالے کردینا پڑتا ہے ۔ دوسروں کی پسند کو اپنی پسند بنالے ۔اپنا آرام اپنی خواہش سب کچھ محبوب کے تابع کرنے کے بعد ہی کامل محبت حاصل ہوتی ہے ۔

اگرمیاں بیوی کی محبت میں یہ خوبیاں نہ پیدا ہوئی تو یہ  پیارا رشتہ ایک مزاخ میں تبدیل ہو جاتا ہے  اور اس ازلی رشتہ کو تماشہ بنا لیا جاتا ہے۔ان کو آپس میں مل کر ہر بات کو طے کرنا چاہئے ۔ جہاں کسی دوسرے کواپنے مسئلہ میں  شامل کیا تو سمجھوں کہ اس رشتہ کی یکتا جو اس رشتہ کی درمیانی اہم کڑی ہوتی ہے وہ ختم ہوگئی۔پھر یہ خوبصورت رشتہ انتہائی بد صورت بن جاتا ہے ۔

 میاں کو چاہئے کہ بیوی کا اپنے گھر عزیر اقارب کو چھوڑ آنے کا خیال کرے اور چھوٹے بڑے غلطیوں کو در گزار کرے اور بی بی کو بھی چاہئے کہ وہ میاں اور سسرالی کو بدلنے کی کوشش کے بجائے خود کو اس ماحول کے سانچے میں ڈھلنے کی کوشش کرے اور دونوں ہی ایک دوسرے کو  نیکی کی تلقین   اور برائی کی نشاندہی  کرے مگر بہت ہی سمجھداری سے ایسا کرے کہ نکتا چینی نہ لگے ۔اگر یہ ممکن نہ ہو توخود عمل کرکے انہیں بتلائیں۔ صحبت کا اثر بھی خوب ہوتا ہے ۔ اس رشتہ کی اہمیت کو سمجھے اسی سے دنیا میں آگے نسلیں بڑھتی ہیں ان کا مثبت رویہ بچوں میں بھی منتقل ہوتا رہتا ہے۔ اس رشتہ کا ساتھ توان شاٗاللہ اخرت میں بھی ہوگا ۔  پھر کیوں نہ ہم اس کے حقوق اہمیت کا خیال جی جان نہ کرے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بلاگ پر تشریف لانے کا شکریہ

Saturday, April 19, 2014

قصہ ایک تقریب کا



السلام علیکم



بہت پرانی تحریر جو پوسٹ کرنے سے رہ گئی تھی آج نظر آئی تو شائع کررہی ہوں ۔ ہوسکتا ہے آپ کو اچھی لگے یا پھر کوئی اور بھی آپ میں سے اس تجربہ سے گزرچکے ہوں ۔

مجھے ایک شادی کی تقریب میں جانے کا موقع ملا وہاں بِیٹھے بیٹھے کچھ اپنے تاثرات قلم بند کئے تھے وہ حاضر ہیں ۔



آج پهر شادی کی دعوت ہے بخار کے باوجود دوا کهاکر ہاته منہ دهو کر خود کو تازہ دم کرکے آئی ہوں دوستی کے لئے اتنا تو کرنا ہی چاہئے نا

مگر یہاں آنے کے بعد دلہا دلہن اور ان کے قریبی لوگ سب ہی ندارد ہیں بہت انتظار کے بعد ساڑهے نو بجے دلہے راجا آئے ہیں دلہن تو ابهی تک غائب ہے . ان کو خود پر کنٹرول نہیں وقت کی پابندی نہیں کرسکتے تو آٹه بجے کا وقت رقعہ پر لکهنے کی کیا ضرورت ہے ۔

اب کی بار انڈیا آنے پرکئی شادیوں میں شرکت کا موقعہ ملا میں تو پہلی بار کےتلخ تجربہ کے بعد جلدی جانے کی مخالفت کرتی مگر میاں نہ کبهی مانے ہیں نہ مانےگے ہر بار یہ ہی کہتے ہیں کہ "کیا معلوم یہ لوگ وقت کے پابند ہو" کوئی پابند تو نہ نکلے مگر مجهے تو صاحب کی بات کے پابند ہونا ہی پڑتا ہے .


دلہن بیوٹی پارلرمیں بیٹهی دلہے میاں کے لئے سولہ سنگھار کرواتی ہے مہمان اپنے ٹی وی پروگرام دیکهکر آتے ہیں .اب تو قاضی حضرات پہلے کے جیسا شہر کے اندیشہ میں دبلی بهی نہیں ہوتے بلکہ دلہا دلہن کی تیاری کے بعد ایک فون کرنے پرکچه دیر میں آجاتے ہیں .سیل فون کا دور ہے ادهر دلہن بیوٹی پارلر میں تیار ہوئی دلہے میاں کو اطلاع ملی اور ایک کال قاضی صاحب کو لگادیا جاتا ہے اور وہ کثیر رقم کی امید پر بھاگے آجاتے ہیں .


اب تو ساڑهے دس بجنے والے ہیں.دلہن کا سجا ہوا اسٹیج بے فکر ماوں کےبچے دلہن کے استمعال سے پہلے پهول نوچ کراور تکیوں سے گهر گهر کهیل رہے ہیں.میں آئی وقت کچه لوگ تهے لیکن اب تو ہال بهی مہمانوں سے کچها کهچ فل ہوگیا ہے . چلیے اب بہت آپ سب سے کہہ کر جی ہلکا کرلیا ہے .میرے اطراف سجی سجائی دلہنیں، میرا مطلب ہے خواتین جلوہ افروز ہونے لگی ہیں ان پر بهی اپنی کچھ نظرکرم ڈالو آخر یہ ہمارے ہی لئے تو سنگار کرکے آئی ہیں نہیں توپھر ان کے ساته زیادتی ہوگی۔

اس شادی کے ہنگاموں میں رتی وقت کے لئے بھی میرے دماغ سے یہ کوفت دور نہ ہوسکی اور خود سے سوال کرتی رہی کہ  ہم مسلم ایسے کیوں ہیں جبکہ نماز، روزے، حج جیسی عبادتوں کے لئے بهی اوقات کی پابندی ضروری ہوتی ہے .پھر یہ کہکر دل کو تسلی دی کہ  ہم تو دل کی ماننے والے لوگ ہیں اور دل تو دیوانہ ہوتا ہے۔

شکریہ بلاگ پر تشریف لانے کے لئے۔
۔

Tuesday, April 01, 2014

کامیاب زندگی کا راز


السلام علیکم
میرے عزیز بھائیوں اور پیاری بہنوں
کوئی زندگی کو " آگ کا دریا ہےاور ڈوب کہ جانا ہے"  کہتے ہیں تو کوئی "زندگی ایک سفر ہے سہانا" سمجھتے ہیں اور کسی کا خیال ہے کہ "زندگی ہر قدم ایک نئی  جنگ ہے" اور کسی کو لگتا ہے کہ" زندگی  نام ہے مرمر کے جیئے جانے کا" اور بعض بعض اسے آزمائشی دور سےتعبیر کرتے ہیں ۔ کوئی "زندگی کے رنگ کئی رے"، گاتے نظر آئےگے۔ تو کوئی یہ شعر پڑھتے ہونگے"زندگی نام ہے ایک جہد مسسل کا" تو کوئی یہ شعر پڑھتے اظہار خیال کرینگے "عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی"

کسی کے مدنظر زندگی مال و دولت حاصل کرنا ہے تو کوئی زندگی کا مقصد شہرت نام کو مانتا ہے۔ کوئی محبت کرنے کروانے کو زندگی کا حاصل مانتے ہیں ۔
    بحرحال جس کو جس چیز کی اہمیت زیادہ لگے اور اپنی اپنی زندگی سے جو نتائج اخذ کرتے ہیں اسی کی روشنی میں اظہار رائے کر دیتے ہیں  اگر آپ غور کریں تو آپ کو ہر خیال سچ لگے۔ انسان کی زندگی میں کئی اتار چڑھاو  آتے ہیں  تو کبھی کبھی زندگی  آگ کے دریا سے کم نہیں لگتی اور جب ہم اچھے حالات سے گزرہے ہوتے ہیں تو ایک سہانا سفر ہی لگنےلگتی ہے ۔ کوئی زندگی کی دشوار رہ میں ہمت والا ہو تو زندگی کو جنگ ہی کہے گا اور کوئی لڑتے لڑتے تھک ہار جائے تو مرمر کے جینے کی فریاد کرینگے اور کبھی جہد مسلسل کا دور طویل ہوجائے تو آزمائش کا خیال آتا ہے اگر کوئی دیدہٗ دری سے زندگی کو دیکھے گا تو اسے زندگی کے کئی رنگ نظر آئنگے۔ اور یہ بات بھی سچ ہے کہ جیسے عمل کروگے اس کا صلہ ویسا ہی ملے گا  ۔
اس لئے ہمیں اچھے اعمال کے لئے کوشش کرنی چاہئے اور ساتھ ساتھ دعا کرتے رہنا چاہئے کہ  اللھم جنبنی منکراتِ الاخلاق( اے اللہ مجھے بری عادت سے بچا)  نہ صرف ظاہری آداب کا خیال رکھے بلکہ باطن کو بھی آراستہ کریں  ۔ دیکھا جائے تو ظاہری اعمال دلوں اور خیالات کا عکس ہوتے ہیں۔  آپ کا دل نیکی کی طرف راغب ہوگا تو چہرہ پر اس کی چمک دمک عیاں ہوگئی اس لئے ہمیں اپنے باطن کوپہلے درست کرنا چاہئےپھر ہمارا ظاہر خودبخود بہتر ہوجائیگا ۔
اب سوال یہ ہوتا ہے کہ ہم کہاں سے اور کیسے سیکھے اچھے اعمال تو  ہمارے پیارے رہبر و رہنما حضور نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلم کے اخلاق و آداب کے بارے میں جاننے کی کوشش کرنی چاہئے ۔ آپ کی ہر عادات طیبہ و اخلاق حمیدہ ہمارے لئے  ایک نمونہ ہے اس منارہٗ نور کو قابل تقلید بنا کر خود کو بہتر بنانے کی کوشش کرلیں۔ اسی سے ہماری دنیا و آخرت کی زندگی کامیاب ہوگی ۔اور  ہم اپنے لئے اور دوسروں کے لئے باعث نجات بنے گے۔ بلاشبہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم  گم کردہ راہ کے راہ نما ہیں ۔
 اللہ تعالیٰ ہمیں اتباع رسول اللہ صلی علیہ و سلم کی توفیق دے آپ کی تعلیمات پر عمل کرکے زندگی سنوارنے کی تو فیق عطا فرمائے ۔ تو فیق اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے۔
بلاگ پر تشریف لانے کا دلی شکریہ

۔۔

Thursday, March 13, 2014

ضمیر کی آواز


السلام علیکم

بھائیوں اور بہنوں:

روز اخبار میں جرائم کی خبریں، احباب کے قصہ سن سن کرہول سی ہونے لگتی ہے ۔ کہیں چوری کہیں خون خرابہ کہیں لڑاٰٗئی، دوسروں کی تذلیل کرکے خوش ہونا یہ سب کبھی غلط تربیت کا نتیجہ تو کبھی خراب صحبت کے اثرات ہوتے ہیں ۔اگر ہم چاہے تو ہمارا ضمیر پھر زندہ ہو سکتا ہے بس دل میں خدا کا خوف پیدا کریں تقدیر میں جو ملنا ہے اور جو ہونا ہے اس پر راضی برضا رہیں ،صبر کا دامن تھامے رہیں ۔

 فرینکلین کہتا ہے کہ "برے کام صرف اس لئے ُبرے نہیں کہ وہ ممنوع ہیں بلکہ اس لیے بھی کہ وہ مضر بھی ہیں"۔

اب آپ خود غور کرکےدیکھو،کیا ہم بُرائی سےصرف اس لئے اجتناب کرتے ہیں کہ سماجی اور مذہبی قوانین میں برائی سے بچنے کی تاکید کی جاتی ہے؟ یا پھر ہمیں اندر سے کوئی ٹوکتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ایک سال کے بچے کو بهی اتنی سمجه ہوتی ہے کہ   ان سے محبت کا برتاؤ کرتے ہیں یا ان پر ناراض ہوتے ہیں اسی لحاظ سے وہ سامنے والے کو پہچانتے ہیں اپنے اچهے برے اور عزت نفس کا خیال ہر جاندار کو رہتا ہے .

دراصل ہماری فطرت اور ہماراضمیر خود ہمارامدد گار ہوتا ہے ۔ جو ہمیں نقصان پہچانے والی چیزوں کے قریب جانے سے روکتے رہتا ہے یہ الگ بات ہے کہ ہم کئی باراپنے ضمیر کی آوازکو نہیں سنتے اور نقصان اٹهاتے ہیں.اسی طرح ہر بار اگر ہم اس کی آواز کو ان سنی کرتے رہے تو ایک عرصہ کے بعد ضمیر کی آواز کو ہم کچل ڈالتے ہیں یا یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ ہم اسکو روند دیتے ہیں ۔ خوداپنے آپ کو مسل دیتے ہیں ۔ پهر ہمارے احساس، جذبات ،اچهے برے کی تمیز ہم سے بہت دور جا چکی ہوتی ہے یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ جس نے اپنےضمیرکوپہچان لیا اس نے بہتری و کامیابی کو پالیا  ۔

ہمیں سمجھنا چاہئے کہ  برے کا انجام ہمیشہ برا ہے ۔ ہم اس دنیا میں بھی نقصان میں ہوگے پھر مرنے کے بعد بھی نیستی کہاں ایک اورابدی زندگی آگے پڑی ہے ۔ جس کا دارومدار اسی زندگی پر مبنی ہے ۔ جیسا بُو گے ویسا کاٹوگے۔

اللہ پاک نے بندہ کو عقل دی ہے بھلے ُبرے کی تمیز دی ہے ۔اختیار دیا ہےپھر ہم غور کیوں نہ کریں عمل کیوں نہ کریں؟

اللہ پاک قرآن مجید میں ہم سے فرماتا ہےلَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ (اچھے کام کرے گا تو اس کو ان کا فائدہ ملے گا برے کرے گا تو اسے ان کا نقصان پہنچے گا)۔ ۗ 
اگر ہم اس آیت کو یاد رکھکر اپنے ہر قول و فعل سے پہلے خود کو جانچ لیے توہماری بہتری تو ہے ہی  ہمارے سے تعلق رکھنے والوں کو بھی ان شاٗاللہ توفیق ہوگی۔ 

کہیں آپ  میری ان  نصیحت والی  باتوں سے تنگ آکر شاذ تمکنت کا یہ شعر تو نہیں کہہ رہے ہیں ۔
تو دوست ہے تو نصیحت نہ کر خدا کے لئے
مرا ضمیر بہت ہے مری سزا کے لئے

بلاگ پر تشریف لانے کا شکریہ
 
 


Sunday, February 23, 2014

مقصد حیات

السلام علیکم و رحمتہ اللہ


عزیز بھائیوں اور پیاری بہنوں


کیا آپ نے کبھی زندگی میں اداسی ، بے بسی یا پھر موت کے ڈر یا حساب کتاب کے خوف سے ایسا سوچتے ہیں کہ کاش ہم انسان نہ ہوتے کوئی ذرہ ہوتے پتھر ہوتے یا پرندہ ہوتے یا کچھ اورپھریوں فرائض ،حقوق کی ذمہ داریوں اور سزا و جزا سے آزاد ہوتے؟

آپ نے سوچا ہو یا نہیں ہاں مگر مجھے ایسا خیال ضرور آتا رہا ہے مگر میں نےپچھلی شب کسی سے ہنسی ہنسی میں یوں ہی دل کی بات میرے منہ سے نکل گئی پھر میں نےمن ہی من سنجیدگی سے سوچا کہ اس رب کی کائنات میں اگرمیں ، میں نا ہوتی تو کیا ہونا پسند کرتی بہت غور و غوض کے بعد میں نےسوچا

کاش ،میں عورت بننے سے تو پهول بنکر مہکتی تو کتنا اچها ہوتا . اگر مزار پر چڑهائی جاتی تو عقیدت سے دیکهی جاتی اگر کسی خاتون کے سر میں سجتی تو رونق بڑهاتی یا کوئی پیار کا تحفہ بناکر محبوب کے نظر کرتا یا پهر کوئی سوکهنے کے بعد بهی بطور محبت کی نشانی سنبھال کررکهتا .یا نہیں تو گلے کا ہار بنتی یا پھر کسی باغیچے کی بہار سمجهی جاتی ہر صورت میں خود مہک کر دوسروں کو خوشی تازگی کا احساس بخشتی ۔

مگر شاید نہیں مجهے عورت کے روپ میں ہی رہنا مناسب تها.کسی کی نشانی بنکر جینا تها اور پهر مجهے کسی کا گهربھی بسانا تها ۔ اپنے وجود سے کسی کو وجود بخشنا تها.میں انسان ہوں اللہ کی خاص مخلوق جس کے لئے یہ جہاں کی ہر چیز بنائی گئی ہے ۔جتنا بڑا مقام اتنے بڑی زمہ دایاں اور فرائض اگر ادائیگی عمدہ ہو تو نتئجہ بھی عمدہ اس طرح سے دوسرے جہاں میں بھی آسانیاں ،آرام اور ابدی سکون نصیب ہوگا۔

یہ میں اپنی من کی باتوں میں آکر کیا مانگ رہی تھی صرف دو دن کی زندگی جب کہ میرے لئے دو جہاں میں اس سے کئی گنا لمبی زندگی کی میعاد مقرر ہوئی ہے
وہ سب کو زندگی دینے والا ہم سے بڑهکر ہمارے مقصد حیات کو بہتر جانتا ہے.

بس ہمارے لئے کیا بہتر ہے ہم کون ہوتے ہیں کہنے والے ۔ جو بھی دیا مالک نے ہم کو اوقات سے بڑکر دیا ہے۔ اوپر والے کی مرضی میں راضی ہیں اللہ تعالی ہم کو ایسے اعمال کی توفیق دے جس سے وہ ہم سے راضی رہے ۔ اللہ پاک ہم کوہمارے اس مقصد حیات میں کامیاب و کامران کرے۔آمین


بلاگ پر تشریف لانے کا بے حد شکریہ

.

۔

Monday, February 10, 2014

فیضانِ شیخؒ


فیضانِ شیخؒ




اللہ تعالٰی نے قرآن مجید میں اولیاء اللہ کے مخصوص فضائل اوران کی تعریف ارشاد فرمائی ہے ۔اولیاءاللہ کو نہ کسی ناگوار چیز کے پیش آنے کا خطرہ ہوگا نہ کسی مقصد کے فوت ہوجانے کا غم، اولیاءاللہ وہ ہیں جو ایمان لائے تقوی وپرہیزگاری اختیار کی ان کے لئے دنیا و آخرت میں خوشخبری ہے ۔
 
ولی کون ہے، ولی کسے کہتے ہیں، ولی اللہ کے مقرب بندہ کو کہتے ہیں۔ ولی بننے کے لئے تین چیزوں کی ضرورت ہے،پہلی چیز صداقت و سچائی اس کے اندر کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہو، دوسری چیز اس کا دل ہمیشہ اللہ کے خوف سے لبریز ہو، تیسری اپنے کسی عمل سے بھی چھوٹا سا بھی شرک ظاہر نہ ہو۔ ایسی ہی ایک پاکیزہ ہستی ایران کے شمال کی طرف جہاں ایک بڑی جھیل ہے اس کے مشرقی کنارے پر ایک صوبہ ہے جسے ولایتِ گیلان(جیلان) کہتے ہیں حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ؒکی جاے پیدائش وہی ہے اسی کی وجہہ سے آپؒ گیلانی کہلاتے ہیں ۔
 
 
آپ ؒایک صاحبِ کرامت ولی اور نجیب الطرفین بزرگ ہیں ۔ آپؒ نے اپنی تمام توانائیوں کو تحفظ اسلام اور اعلاء کلمتہ الحق کے لئے صرف فرمادیا،اپنی زندگی کا ہر لمحہ دین اور اصلاح امت کے لئے وقف فرمایا۔
 
 
 آپؒ ہر وقت اللہ تعالٰی کے دربار میں متوجہ رہا کرتے۔ حضور اکرم ﷺ کی اتباع و پیروی اور شریعت کا آپؒ پر اس قدر غلبہ تھا کہ خلاف شرع کوئی کام نہ فرماتے،سفر وحضر،خلوت وجلوت، برم و رزم میں کبھی کوئی سنت و مستحب عمل ترک نہ فرماتے ،ہمیشہ مشتبہ امور سے گریز فرماتے۔
 
 
آپؒ بحثیت مرشد کامل اور مصلح دوراں ارشادت و اصلاح کے فرائض کی ادئیگی کا کام ایسے وقت اور ماحول میں شروع کیا جب کہ پورا معاشرہ فکری و عملی بے راہ روی اور ہنگامہ خیزانتشار اور فتنوں سے دوچار تھا۔ قول و فعل کے تضاد، صالح اقدار کی پامالی،اقتدار کی ہوس،نفس پرستی، حق ناشناسی،اخلاقی انحطاط ،دین ودیانت سے بیگانگی ،ریاکی گرم بازاری،گروہ بندیاں،فکر و نظر کے اختلاف،جبرواستبداد،ظلم و زیادتی اورشخصی کردار و نیز جماعتی نظم کا فقدان تھا ان حالات میں آپؒ نے اپنی مثالی باعمل شخصیت ،اعلٰی اخلاق و کردار،علم و حکمت،ارشادات،مواعظ حسنہ اور تعلیمات حقہ کے ذریعہ تعلیم و تربیت،اصلاح معاشرہ اور لوگوں کے افکار و اعمال کو سدھارنے کا عظیم فریضہ نہایت موثر اور کامیاب طریقہ سے پورا کیا آپؒ نے امت کی دکھتی ہوئی رگ پکڑ کر تشخیص فرمائی معاشرہ میں مسلمان جن مسائل سے دوچار تھے ان کو حل فرمایا۔
 
 
 
شیخ عبدالقاد جیلانی  کی تعلیمات مسلسل چاردہوں پر مشتمل ہے ۔  آپؒ کے رشد و ہدایت اور اصلاح کےمشن کے ذریعہ گمراہ بدعات میں مبتلا سرکش، معصیت اور نا فرمانی کے اندھیروں میں ڈوبے ہوئے ماحول کو حق شناس، دیندار اورصالحیت سے بھرپور معاشرہ میں بدل دیا ۔آپؒ نےملت اسلامیہ کی شیرازہ بندی کی اور لوگوں کے قلوب میں ایمان ویقین،صداقت وعدالت کی حرارتوں کو تیز کرکے انھیں اطاعت حق تعالٰی،اتباع رسول اللہﷺ ،اعلٰی اخلاق، فکر وعمل کی صالحیت ،اخوت و باہمی محبت کے فیوض وبرکات کا احساس دلایا۔
 
آپؒ کے ارشادات مبارکہ و فرامین عالیہ اور مواعظ شریفہ سننے کے بعد انسان اپنی زندگی میں ضرور تبدیلی لاتا ہے ،آپؒ کی تعلیمات سے واقفیت اور اسکی اشاعت وقت کا اہم تقاضہ ہےآپؒ اللہ تعالٰی کے بندوں کو اللہ تعالٰی کا سچا فرمانبردار،عبادت گزار،پرہیزگار بناکر ان کے دارین کو تابناک بنانے اور رسول اللہ کی تابعداری ،اطاعت ،سنتوں پر عمل پیرائی کا قلبی ذوق پیدا کرکے صالحیت کانمونہ بنا دینے کی مبارک کوششوں میں انہماک اور مخلصانہ جدوجہد کے سبب پورے معاشرہ میں صدق و صفا، نیکی وبھلائی پر مبنی صالح انقلاب رونما فرمایا
 
 
حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی نے معبود حقیقی خالق کائنات کی عبادت کا اعلٰی نمونہ دنیا کے سامنے پیش کیا اور مخلوق خدا کی راحت رسانی ،گمراہوں کو راہ راست پر گامزن کرنے ،اہل سعادت کی روحانی تربیت،احیاء وتجدید،عقائد و اعمال کی اصلاح،معاشرہ کی از سر نو تعمیر اور اسلام کے پیغام حق پہچانے کےلئے اپنی زندگی کا ہر لمحہ محضوص کردیا تھا ۔ جس کا فیضان اثر گزشتہ نوصدیوں سے بلا وقفہ و تعطیل جاری و ساری ہے ۔ توحید باری تعالٰی کے انوار اور عظمت رسول اللہ ﷺ کے منور احساس فکر اور اعمال کو اخلاص اور پاکیزگی سے نوازتے رہیں ہیں آپؒ نے اپنے ارشادت و فرمودات کے ذریعہ اس حقیقت کو واضح فرما دیاہے۔ آپؒ کافیض علمی و روحانی زمان ومکاں کی حدود سے بالاتراحکامات الٰہی اورتعلیمات رسالت پناہی ﷺ کاسر چشمہ اور منبع بنا ہوا بلا انقطاع جاری ہے
 
 
 
مردان حق آگاہ اور صوفیان باصفا کے سچے طریقہ پر جان و دل سے عمل پیرا ہو کر ہی اللہ کے راستہ کا حق ادا کیا جا سکتا ہے ۔ان کی گردراہ کو سرنہ چشم بناکر ہی اللہ تعالٰی کا قرب حاصل کیا جاسکتا ہے۔
 
آپؒ کی چند کتابوں کے نام درج ذیل ہیں جو بھی خواہش مند ہو، وہ مستفید ہوسکتے ہیں ۔۔
 
تتصنیفات اور ملفوظات بے شمار ہیں اور ہر ایک دُرَّ بے بہا ہے ۔اکثر تو دست برزمانہ کی نزر ہوچکی ہیں ۔ جو بہت مشہور ہیں وہ یہ ہیں۔
 
غنیتہ الطالبین : فقہ جنبلی کی نادر کتاب ہے جس میں ہر مسئلہ کو آیات قرآنی اور احادیث کی روشنی میں واضح فرمادیا گیا ہے ۔ اس کے ترجمے اب بزبانِفارسی و اردو میں ہوچکے ہیں۔
فتوح الغیب : اس میں کئی مقالہ ہیں اور ہرمقالہ پر قرآن اور حدیث کے ساتھ نہایت ہی پر اثر انداز میں نصیحت فرمائی گئی ہے ۔ اس کا اردو ترجمہ بھی ہوچکا ہے ۔
 
فتح ربانی : میں آپؒ کے مواعظ اور خطابات پر مشتمل بڑی کارآمد کتاب ہے ۔ اس کاطرزبیان بھی فتوح الغیب ہی کی طرح ہے ۔ اس کا بھی اردو ترجمہ شائع ہوچکا ہے ۔
اسبوع شریف : ہفتہ واری دعاوں کا مجرب انتخاب ہے ۔ راتب صدیقی میں یہ کئی دعائیں محفوظ ہیں ۔
الہامات ٖغوثیہ : نصائح کا عمدہ ترین نمونہ ہے ۔
ارشادات غوثیہ :اس میں مختلف ارشادات اور پند و مواعظ ہیں۔
مکتوبات حضرت محبوب سبحانی : کے نام سے بھی ایک کتاب نولکثور کی مطبوء ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
 
 
۔