Tuesday, January 22, 2019

ماضی کا کرب


تحریر : کوثر بیگ 

خون کے رشتے، وطن کی محبت، احساس و جذبات، ماضی کی یادیں اور اپنے طرز زندگی کا انداز ، مشرقی لوگ غیر محسوس طریقے سے نسل در نسل منتقل کرتے رہتے ہیں۔ اس لئے ہم اپنے طور طریقہ رسم و رواج بڑی مستعدی و خوشی سے نبھا تے جاتے ہیں ۔
ہم بزرگوں سے محبت  عقیدت کی حد تک کرتے ہیں ۔ اٹھارہ دن پہلے لمبا سفر طے کرکے اپنے ننھیالی رشتہ داروں سے ملنے آئی ہوں، ان عزیزوں سے تیس سالہ زندگی میں پہلی بار ملاقات ہوئی ـ ۔آنے سے پہلے کئی وسوسے آتے رہے اکیلے اجنبی مقام پر آتے ڈر کے  ساتھ لگتا تھا کہیں کوئی مجھے اپنی جانب کھیچ کر ہمت بھی بڑھا رہا ہے ۔ ذہن میں مرحوم والدین سے کیا گیا وعدہ پورا  کرنے کا عزم بھی  کارفرما تھا ۔ یہاں آنے کے بعد  کوئی پہچانے گا  یا نہیں یہ خیال الگ دامن گیر رہا۔

یہاں پہنچ کر میں حیران رہ گئی ۔ اتنی گرم جوشی و خلوص سے استقبال ہوا کہ میزبانوں کی محبت اور اپنی نانی اماں پر فخر محسوس کرنےلگی اور  اب دو دن بعد طویل عرصہ  کےلئےجدا ہونے کا احساسانہیں چھوڑتے لگ رہا ہے جیسے برسوں کا ساتھ تھا ۔ نانی اماں کے چھوٹے بھائی نانوابو اور ان کی فیملی کے گھر قیام کیا، خوب سیر و تفریح کرائی، ضعیفی کی وجہ سےنانو ابو  ہمارے ساتھ چل نہیں پاتے تھے ـ تو ایک دن پہلے مجھے ہر اس جگہ کے بارے میں تفصیل سے  بتاتے  جاتے جہاں ہم اگلے دن جانے والے ہوتے اس طرح یہاں آکر مجھے پیار خلوص کےساتھ بڑی دلچسپ معلومات بھی حاصل ہوتے رہے ـ۔
واپسی کے لئے دو دن باقی ہیں میں ہر لمحہ اپنوں میں گزارنا چاہتی ہوں ابھی ہم ڈنر سے فارغ ہوئے تھے کہ میرے دل میں کئی برسوں سے چھپی جستجو نے سر اٹھایا اور میں نانو سے دل کی بات  کہنے لگی:

" نانو ابو آپ مجھے اتنی معلومات سے روشناس کروائے ہیں وہیں میری نانی امی کی ہجرت کے بعد آپ لوگوں کے کیسے حالات رہے؟ وہ بھی مجھے آپ کے زبانی سننے ہیں"

نانو ابو نے پہلے تو مجھے عینک کے پیچھے سے جہاں دید نظروں سے بغور  دیکھا پھر آہستہ سے سر ہلایا اور آرام کرسی سے پیٹھ ٹکا کر اسے پیچھے دھکیلا، سکون سے نیم دراز ہوگئے ۔ دوبارہ میری جانب متوجہ ہو کر تخت پر مجھے آرام سے بیٹھنے کو کہا ۔ چائے کے لئے پوتی کو حکم دیا اور پھر اپنی بات کی یوں شروعات کی: ...  

" قصہ تو طویل ہے مگر مختصراً کہنے کی کوشش کرتا ہوں ۔ یہاں کی مملکت کے اطراف ایک بڑا ملک غلامی سے نجات پایا تھا، ان کے پاس وسائل زیادہ نہیں تھے ۔ یہاں کی شاہی حکومت کا اپنا سکہ اپنی ریل گاڑیاں ،ایرپورٹ ،کمپنیاں، صنعت و حرفت ، ڈاک گویا ہر نعمت سے مالا مال مملکت تھی ۔ غر با پروری، مذہبی رواداری، علمی خدمات ان سب  کے ہمیشہ پیش نظر رہا۔ ہزاروں سال سے جس نے بھی یہاں حکومت کی اس نے مقدس روایات برقرار رکھیں ۔ 

آخری دور ہم نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے ۔  
غربا اور فقرا کوچوبیس گھنٹے بلا روک ٹوک کھاناکھلایا جاتا رمضان میں مساجد میں افطار کرایا جاتا، محرم میں بغیر گوشت کا کھانا عاشور خانوں کو بھیجا جاتا۔ دیوالی کےموقع پر بادشاہ کا جلوس نکلتا جس میں بادشاہ کے اردگردسینکڑوں لوگ گاتے  ہوئے دف بجاتے اور تلوار پھیرا کر کرتب دکھاتے ہوئے چلتے ۔ خدمت گار بھالدار چو بداروں کا ہجوم رہتا۔ مشعلچی چاندی کے دستے لگے ہوئے مشعل اور چاندی کی خوبصورت اور نازک کپیاں لیے آگے پیچھے تیز تیز چلتے ۔ گھوڑ سوارمصاحبین ہم رکاب رہتے تھےـ
یہ جگہ ہر زمانے میں نظر افروز رہی ۔ اس کے ہر پہلو میں دل کشی رہی تہذیب وتمدن بہت اعلٰی وخاص رہا ۔ اس کی مٹی میں شروع سے رواداری بھائی چارہ رہا ۔ صدیوں سے چلتی آئی گنگا جمنی تہذیب قائم  تھی ۔ اسےعلم و ہنر  کا گہوارہ مانا جاتا۔ یہاں مال و زر کی کبھی کمی نہ رہی ۔ یہ موتیوں کے شہر سے جانا جاتا تھا ۔

 شاہی مملکت کے اطراف بسے ملک سے جب قابض حکمراں اپنا دامن بچا کر فرار ہوگئے ۔ ان کےقائم مقام آزاد حکومت نے غلامی سے نجات پالی ۔مگر انکے پاس وسائل زیادہ نہیں تھے ـ ۔شاہ کی مملکت دیکھ کر ان کے منہ میں پانی آیا اور انہوں نے نظرِبد ڈالی ۔ شاہ کئی ممالک کی، جس طرح بھی ضرورت رہی مدد کرتے رہے تھے۔ جب ان پر وقت آیا تو سب حکمرانوں نے احسان بھلا کر پیٹھ دیکھائی ۔ دنیا کے امیر ترین لوگوں میں شامل ہونے والا انسان اپنی گدی اور رعایا  کے لئے جوابی کاروائی کرنے  لگا ۔ 

چار دن تک ہزار ہا شاہی  فوجی شہید ہوتے رہے ۔پے در پے بمباری سے سرحدوں پر فوجیوں اور خاص و عام انسان خاک و خون میں ملنے کی اطلاعات آتی رہیں ۔ ہزاروں بے یار و مددگار اور بے گھر ہوگئے ۔ ادویات ، خوردونوش کا سامان ، پٹرول اور پینے کے پانی کےلئے کلورین درآمد کرنے پر ناکہ بندی لگنے کی و جہ سے شہر بھر میں غذا کی کمی اور کئی افراد ہیضہ کے مرض میں مبتلا ہوگئے ۔  حملہ بے حد سخت ثابت ہوا  شاہی مملکت کا سورج غروب ہونے لگا ۔ فوجیوں   کے بد اخلاقی کی خبریں  موصول ہونے لگی ۔ سرحدوں اور اضلاع سے لوگ صدر مقام کا رخ کرنے لگے ۔ ہندو مسلم فساد کا لا علاج مرض پھوٹ پڑا۔ پرانی قدریں مٹنے لگیں۔ آزادی کی خاطر ہزاروں کی تعداد میں لوگ مرے، گھر، دکانیں لٹ گئیں ہزاروں بے روزگار ہوگئے ۔ فرقہ واریت کا نہ ختم ہونے والے سلسلے کی ابتداء ہوگئی بلآخر شاہی مملکت آزاد جمہوری حکومت میں ضم ہوگئی ـ "

نانو ابو کی آنکھوں میں پانی بھر آیا، آواز بھرا نے لگی تو مجھے جاکر سونے کے لیے کہا
" نانو ابو آپ کو نیند آرہی ہے تو ٹھیک ہے آپ آرام کریں۔ اب مجھے تو جستجو سونے نہیں دے گی
" نہیں! اب میرے لئے بھی نیند آنا مشکل ہے۔ چائے آگئی تھی ۔ آہستہ آہستہ چسکی لیتے ہوئے  پھر خود ہی آگے سنانے لگے
" گھروں میں لوگ ڈرے سہمے محصور تھے ۔نو عمر بچوں کو آزاد حکومت کی پولیس لے جارہی تھی ۔ فسادی گھروں کو لوٹ رہے تھے ۔ کل تک جو امن و امان سے تھے وہ پریشان بے حال ہوچکے تھے ۔میری بہن یعنی آپ کے نانا نانی کی رہائش سرحد کے قریب تھی لٹ لٹا کر جان بچا تے ہمارے پاس آکر ٹھہر گئے تھے اور انکے سسرالی دوسرے ملک ہجرت کے لئے روانہ ہوگئے مگر یہاں بھی خوف و ڈر کا ماحول دیکھ کر وہ ہجرت کرنے کا ارادہ کرلیا ۔ میرے والدینانہیں بھیجتے ہوئے گھبرا رہے تھے۔
ابا ،اماں نے مل کرطے کیا کہ ابا  سرحد تک ساتھ جاکر چھوڑ  آئیں گے، میرے بڑے دو بھائیوں کو منچان پر ٹین کے پرانے ڈبوں میں بیٹھا دیا جاتا تھا کیونکہ بارہ سال سے بڑے بچوں کو پولیس امن کے خیال سے گرفتار کر ر ہی تھی ۔ گھر کی تلواریں کنواں میں ڈال دی گئی، تمام لٹھ چھپا دیے گئے ۔ گھر گھر تلاشی لی جارہی تھی ـ ہتھیار برآمد ہونے کی صورت میں گرفتار کیا جا رہا تھا ۔ ابا نے اپنے بڑے بھائی کی بیوہ اور ان کے بچوں کی ذمہ داری بھی اپنے سر لے رکھی تھی ـ وہ سب بھی ہمارے گھر رہتے تھے میرے دادا دادی  بھی موجود تھے ۔ اتنے لوگوں کے ہوتے ہوئے بھی گھر میں سناٹا چھایا رہتا ۔ 

‏‎  ہمارے گھر کے پرانے ملازم نے چھپتے چھپاتے آکر اطلاع دی کہ فسادی ہماری گلی کی طرف آرہے ہیں  ۔ یہاں سے کہیں اور جاکر پناہ لیں یا کچھ اور تدبیر کریں ۔ یہ سنتے ہی اماں اٹھیں گھر کے تینوں سمت میں باہر کھولنے والے  سب راستوں  کو اندر سے تالا لگایا برقعہ پہنا بندوق برقعہ کے اندر چھپائی لٹھ ہاتھ میں لیکر سامنے والے باہر کے دروازہ کی طرف بڑھنے لگی گھر  کے سب لوگ جانے سے منع کرتے رہے تھے ہم بچوں نے اماں کے پاؤں پکڑ لیے دادا جان اللہ پر بھروسہ کا درس دینے لگے دادی نے اپنا پلو پھیلا کر کہنے لگیں:
" بیٹا خطرہ مول لے کر گھر سے باہر گیا ہے ۔ بہو تم اس کی امانت ہو وہ آئے گا تو ہم کیا جواب دیں گے جو ہو گا ہم مل کر سامنا کریں گے ـ"  
اماں نے بڑی متانت سے دادی کو تسلی دی ۔
" آپ کے بیٹے نے مجھے لٹھ پھیرانا ، تلوار بازی اور بندوق چلانا شاید آج کے لئے ہی سیکھایا تھا ۔ اب میرا فرض بنتا ہے کہ ان کے پیچھے گھر بار کی آخری سانسوں تک حفاظت کروں ـ "
دادی کے قدم بوس ہوئی ۔ بے اختیار دادا، دادی نے اماں کے سر پر ہاتھ رکھا۔ اماں تیزی سے باہر جاکر دروازہ مقفل کرلیا ـ

‏ ‎میں چھ سات سال کا تھا کھڑکی کی دراڑ سے اماں کو دیکھتا رہا دادی نے اپنے پاس بلایا کھڑ کی میں بیٹھنے سے منع کیا مگر  مجھے اماں کا ساتھ چاہئیے تھا انہیں دیکھتا رہا ۔  کچھ ہی دیر گزری تھی کہ آٹھ دس لوگ چیختے پکارتے بھاگتے ہمارے گھر کی طرف بڑھنے لگے اماں لٹھ چاروں طرف بجلی کی رفتار سےگھومانے لگی لٹھ کی ما ر ان  اشرارکو لگتی تو گھمڑے آجاتے جسے وہ سہلا تے رہ جاتے پھر اماں نے بندوق نکالی جیسے دیکھ کر وہ  بھاگ کھڑے ہوئے ۔ اماں دروازے کے پاس بیٹھ گئیں ۔ میں بھاگ کر قریب جاکراندر سے  ہی آواز لگائی:
" اب آجاؤ نا  اماں “  انہوں نے وہیں سے جواب دیا:
 “وہ پھر آسکتے ہیں تم دادی کے پاس جاؤ۔ میں پھر آکر کھڑکی میں اماں کو دیکھتے بیٹھ گیا ۔ بہت دیر گزر گئی سورج ڈھل گیا اندھیرا پھیلنے لگا ۔ 
 پھر لوگوں کے قدموں کی آواز یں قریب سے قریب آتی محسوس ہونے لگیں  ۔ پھر لٹھوں کی آوازیں آنے لگیں اماں  پھر مقابلہ کرنے لگیں ۔ تاریکی میں کچھ دیکھائی نہیں دے رہا تھا بس مار لگنے، درد سے کراہنے اور لٹھوں کے ٹکرانے کی آوازیں بہت دیر تک آتی رہیں ۔ پھر ہر طرف پراسرار خاموشی چھا گئی ۔ تاریکی مزید بڑھ گئی ۔ میں انتظار کرتا کھڑ کی میں بیٹھا رہ گیا ۔۔۔

‏‎آج بھی اس دروازے سے کوئی اجنبی گھر میں داخل نہیں ہوسکتا  اگر آنا بھی چاہتا تو اس پر ہول و ہیبت طاری ہوجاتی ہے اور وہ سر پر پاؤں رکھ کر بھا گ کھڑا ہوتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ختم شدہ