Saturday, November 29, 2014

زبانِ یارِ من ترکی و من ترکی نمی دانم



زبانِ یارِ من ترکی و من ترکی نمی دانم 


اس کلام حافظ میں نہ جانے کیا بات ہے کہ یہ شعر پہلے یاد کیا جاتا ہے اور بعد
 میں اس کے معنی جاننے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ہمارے بچپن میں ایک گانا سنا کرتے تھےزبانِ یارِ من ترکی و من ترکی نمی دانم ۔نمی دانم ۔ نمی دانم ۔نمی دانم۔نم نم نم نم نم ہم عمر کے اس حصہ میں تھے جہاں معنوں کو زیادہ دھیان نہیں دیا جاتا مگرہندی گانے میں بس ایک لائن الگ آتے ہی ہماری جستجو کی آگ کو بھڑکا گئی اور ہم نے نہ جانے کتنوں سے اس کے معنی پوچھے قریب قریب سب نے ہمیں معنی بتلائیں مگر سب ہی غیر یقینی انداز سے آخر میں ہوگے کا اضافہ کرتے اور ہماری تشنگی کم نہ ہوتی ہم اس سوال کی تلاش میں لگے رہے ۔
ایک دن ہماری
 اردو کی کلاس چل رہی تھی  ٹیچر نے جب سارا سبق پڑھکر سمجھایا پھرپوچھا کہ کسی کو کچھ پوچھنا ہے؟  ہم نے ہاتھ بلند کردئیے تو انہوں نے پوچھا بتاو کیا سمجھ نہیں آیا ؟ تو ہم نےکہا ہمیں اس مصرع کے معنی نہیں سمجھ آتے"زبانِ یارِ من ترکی و من ترکی نمی دانم" ٹیچر نے ہمیں گھور کر دیکھا کیا سبق میں یہ لکھا تھا ؟ ہم نے آنکھیں نیچی کئے سر ہلا دیا ۔ پھر ٹیچر نے پوچھا کیا یہ فارسی کی کلاس لی جارہی ہے ؟ ہم نے پھر نفی میں سر ہلادیا پھر ٹیچر نے ڈانٹ کر پوچھا کہ یہ بات آپ کے دماغ میں آئی کہاں سے ہم کلاس کے وقفہ کے دوران جن لڑکیوں سے یہ سوال کئے تھے وہ بولنے لگی تو ٹیچر نے مجھے بیٹھنے اور سب کو  ڈانٹ کر چپ کروایا اورپیریڈ کے اختتام پر ہوم ورک کی ساری کاپیاں چیک کرنے کی چپراسی کے بجائے مجھے اسٹاف روم تک ساتھ لے چلنے کی سزا سنائی ۔جب میں نے اسٹاف روم میں احمدی آپا کی بیٹھنے کی مخصوص جگہ کاپیاں رکھی تو انہوں نے مجھے روک کر اس شعر کے معنی بتائے اور سمجھائے تھے۔تب مجھے اس کا دوسرا شعر اور انکے معنی پتہ چلے انہوں نے یہ بھی بتایا تھا کہ یہ شعر اتنا عام ہوا کہ اگر کسی کو دوسری زبان نہ سمجھ میں آئے تو اسے کہا کرتے ہیں ایک طرح سے کہاوت بن گئی ہے ۔

 زبانِ یارِ من ترکی و من ترکی نمی دانم 
چہ خوش بودے اگر بودے زبانش در دہانِ من 
ترجمہ
میرے یار کی زبان ترکی ہے اور میں ترکی نہیں جانتا کیا ہی اچھا ہو اگر اسکی زبان میرے منہ میں ہو۔​

 بہت پہلے کی بات ہے میں نے نیوز میں پڑھی تھی اسلام آباد میں ترکی وزیرآعظم کی تقریر کے لئے ترجمے کی سہولت نہ ہونے سے پریشانی کا سامنا ہوا اور کچھ ہی دن پہلے میں نے بی بی سی کا ایک بلاگ پڑھا تھا جس میں بلاگر نےتو برازیل کے سفر کی روداد لکھی اور اس میں شکایت کی ہے کہ لوگ اردو انگریزی جانتے نہیں اور صرف فارسی ہی بولتے ہیں۔۔۔۔اسی عنوان سے اردو پوائنٹ پر  محمد بن قاسم کا ایک مزاحیہ تحریر پڑھی بہت لوگوں نے عنوان اسے بنائے تو بہت سوں نے باتوں میں حسن پیدا کرنےاس کا استعمال کیا جاتا ہے ۔

جب بھی حرم یا کہیں اور میں کسی ترکی کو تیز تیز باتیں کرتے سنتی ہوں تو یہ مصرع دماغ میں گھومنے لگتا ہے اور سوچتی رہتی ہوں کہ جو فارسی جانتے ہیں اور جو نہ جانتے ہیں سب ہی اس مصرع سے خوب واقف ہوتے ہیں ۔

آج تک علماء ایکٹرس سائنس دان ،کھلاڑی ڈاکٹر انجینئر،ناول نگار ماہرے فن وغیرہ وغیرہ کی بھی اتنی شہرت نہ دیکھی اور نہ سنی جتنی مشہوری اس مصرع کی ہے۔


۔۔۔

Tuesday, November 18, 2014

بہنوں کو نصیحت


السلام علیکم و رحمتہ اللہ

میری پیاری بہنوں اور عزیز بھائیوں


اکثر بہنوں سے یہ سنتی آئی ہوں کہ عورت ذات بڑی بد قسمت ہوتی ہے  ۔سب ہی کو بیٹے کی پیدائش کے آرزو مند دیکھا ہے 
اگر وجہہ پوچھو تو کہیں گے کہ بیٹی کے نصیب سے ڈر لگتا ہےاگر اچھے نہ ہو تو ۔۔۔۔ کبھی تو یہ بھی سنا کہ کتنا پڑھ لو لکھ لو نوکری کرلو پھر بھی وہ مجبور و بے بس ہوتی ہے۔ دب کر زندگی گزارنا ازل سے  اس کا مقدر ہے اور بھی اس طرح کے جملے آئے دن سننے میں آتے رہتے ہیں۔میری پیاری بہنوں یوں گلہ کرنے کے بجائے کیا آپ نے سوچا ہے کہ اللہ تعالٰی اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے ہم پر کتنے احسان کئے ہیں۔ ہماری فطری شرم و حیا کے مطابق ہمیں باہر کے اموار سے دور رکھا ۔ کمانے کا پرمشقت کام آدمی پرواجب کئے ۔ سب سے زیادہ ماں کی اطاعت کا حکم دیا۔ بیٹی کی تربیت اور شادی کے بدلہ جنت کی بشارت دی۔ بیوی کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت فرمائے۔  
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جب کوئی عورت اپنے خاوند کے گھر سے کوئی چیز اٹھاتی ہے یا رکھتی ہے اور وہ بھلائی کا اردہ کرتی ہے  تو اللہ تعالی اس عمل کے بدلے اس کے لئے ایک نیکی لکھ دیتا ہے ایک گناہ مٹا دیتا ہے اور ایک درجہ بلند کردیتا ہے اور جب کسی عورت کا اپنے خاوند سے حمل ٹہرتا ہے تو اس کے لئے رات  کو قیام کرنے والے ،روزہ دار اور اللہ تعالٰی کے راستے میں جہاد کرنے والے کی طرح ثواب لکھا جاتا ہے اور جب بچہ ہوتے وقت تکلیف میں مبتلا ہوتی ہے تو ہر تکلیف کے بدلے ایک غلام آزاد کرنے اور ہر دودھ پلانے کے بدلے غلام آزاد کرنے کا ثواب حاصل ہوتا ہے ۔ جب وہ بچے کا   دودھ چھڑاتی ہے تو آسمان سے منادی اعلان کرتا ہے ۔ اے عورت !تونے اپنا گزشتہ عمل مکمل کرلیا اب بقیہ کام کے لئے تیار ہوجا ۔۔۔
حضرت عبادہ بن کثیر بواسطہ عبداللہ حریری ،حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا سے رویت کرتے ہیں وہ فرماتی ہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے اشاد فرمایا میری امت میں بہترین مرد وہ ہیں جو عورتوں سے اچھا سلوک کرتے ہیں  اور میری امت میں بہترین  عورتیں وہ ہیں جو اپنے شوہر کے حق میں بہتر ہیں ۔ ان میں سے ہر عورت کے لئے روزانہ ایک ہزار شہید کا ثواب لکھا جاتا ہے جس نے اللہ تعالٰی کے راستے میں صبر اور ثواب کی نیت سے جام شہادت نوش کیا ۔اور ان عورتوں میں سے ایک بڑی بڑی آنکھوں والی حور پر ایسے ہی فضیلت  رکھتی ہے جیسے مجھے تم میں سے ادنی آدمی پر فضیلت حاصل ہے اور میری امت  میں بہترین عورت وہ ہے جو اپنے خاوند کی خواہش آسانی سے پورا کرتی ہیں بشرطیکہ وہ گناہ کا کام نہ ہو ۔اور میری امت  کے بہترین مرد وہ ہیں جو اپنی بیویوں کے ساتھ نرمی سے پیش آتے ہیں ان میں سے ہر مرد کے لئے روزانہ ایک سو ایسے شہید کا ثواب لکھا جاتا ہے جو اللہ تعالٰی کے راستے میں صبر کرتے ہوئے  اور ثواب کی نیت سےشہید   ہوئے ۔حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یارسول اللہ ! یہ کیا بات ہے عورت کے لئے ایک ہزار شہید کا ثواب اور مرد کے لئے ایک   سو شہید کا ثواب؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  کیا تم کو معلوم نہیں کہ عورت کے لئے مرد سے زیادہ اجر اورافضل ثواب ہے بیشک اللہ جنت میں مرد کے درجات بیوی کے راضی ہونے اور اس کے مرد کےلئے دعا کرنے کی وجہہ سے بلند کریگا کیا تمہیں معلوم نہیں کہ شرک کے بعد بڑا گناہ عورت کا اپنے خاوند کو ناراض کرنا ہےسنو دو کمزورں کے بارے میں اللہ ربی عالٰی سے ڈرو  بیشک اللہ تعالٰی ان دونوں کے بارے میں تم سے پوچھے گا ایک یتیم اور دوسری عورت جس نے ان دونوں سے حسن سلوک کیا اس نے اللہ تعالٰی اور اس کی رضا پالیا اور جس نے ان سے برا سلوک کیا وہ اللہ تعالٰی کی ناراضگی کا مستحق ہوا اور خاوند کا حق ایسے ہی ہے جیسے میرا تم پر حق ہے جس نے میرے حق کو ضائع کیا اس نے اللہ تعالٰی کے  حق کو ضائع کیا اور جس نے اللہ کا حق ضائع کیا وہ اللہ تعالٰی کی ناراضگی کا مستحق ہوا۔ اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہے اور وہ لوٹنے کی کیا ہی بری جگہ ہے ۔

حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا گیا کیا عورتوں پر جہاد فرض ہے ؟ آپ نے فرمایا ہاں ان کا جہاد غیرت کرنا ہے وہ اپنے نفسوں کے ساتھ جہاد کریں اگر صبر کریں تو مجاہد شمار ہونگی اگر راضی رہیں تو اسلامی سرحد کی حفاظت کرنے والی کہلائیں گی پس ان کے لئے دو اجر ہیں  نیز وہ اس حق کی ادائیگی کا اعتقاد بھی رکھیں جو دونوں میں سے ہر ایک کے دوسرے پر واجب ہے ۔جیسا کہ ارشاد خدا ہے کہ  "اور عورتوں کے لئے  اس کی مثل جو ان کے ذمہ ہے "۔اور یہ اس لئے ضروری ہے تاکہ دونوں  اللہ کی اطاعت کریں اور اس کا حکم بجالائیں ۔ عورت کو یہ عقیدہ رکھنا چاہئے کہ یہ کام اس کے لئے جہاد سے بہتر ہے کیونکہ نبی اکرم   صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ۔آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا عورت کے لئے خاوند اور قبر سے بہتر کوئی چیز نہیں  اور آپ صلی اللہ نے فرمایا وہ شخص مسکین ہے جس کی بیوی نہیں ،عرض  کیا گیا اگر مال کے اعتبار سے غننی ہو؟ آپ نے فرمایا ، اگرچہ مالدار ہو ایسے ہی عورت کے لئے بھی کہا گیا ۔۔
میری بہنوں ان نوازشوں کے عوض میں ہمیں اپنے باپ  اور میاں کی عزت کی رکھوالی کرنا ہے ۔ شرم و حیا کو اپنا زیوار بنانا ہے شوہر کی فرمابرداری اور اسکے آرام و راحت کا خیال رکھنا ہے اگر دیکھا جائے تو آخرت کے ان انعامات کے آگے یہ کام کچھ بھی نہیں پھراچھے ماحول میں اولاد کی نیک تربیت کرنے سے ان کے نیک اعمال بھی آپ کے کھاتے میں ان شاءاللہ جمع ہوتے رینگے ۔  میری بہنوں ! رنگ برنگ کے کپڑے طرح طرح کے فیشن قسم قسم کے کھانے بھائیں بھائیں کے لوگ یہ کچھ کام نہیں آنے والا تمہارے اعمال ہی تمہارے کام آئنگے نماز کی پابندی کے ساتھ قرآن کی تلاوت ایک رکوع ہی کیوں نہ ہو پڑھا کرو۔ اگر ہوسکے تو صدقہ خیرات کرو۔ گھر کے کام جوبھی کرو ثواب کی نیت سے کرو ۔

اللہ ہم مسلمان عورتوں کو عزت اور ایمان کی زندگی اور موت دے ۔آمین