Sunday, December 29, 2013

تجدید ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایک افسانہ


تجدید ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک افسانہ
  




, ہیلو، ہیلو

السلام علیکم ۔۔ ۔ ۔کیسی ہو۔ ۔ ۔ ہاں ٹھیک ہوں ۔ ۔ ۔ کیا ،عرفان نے باس سے جھگڑا کرکے نوکری چھوڑ دی? مگر کیوں ?۔ ۔ ۔ چھٹی کےلئے ۔ ۔ ۔ نہیں شاید امی کی طبیعت خراب ہو مجھے پریشان نہ کرنا چاھتے ہوں ۔ ۔ ۔ کیا وطن، نہیں ۔ ۔ ۔۔۔ اچھا اچھا مکرم بھائی مجھے سمجھانے کہہ ہیں ۔ ۔ ۔ چلیے . . . اللہ حافظ* * مکرم بھائی جو عرفان کے ساتھ آفس میں ملازم ہیں انکی بیوی سے بات کرکے وہ بہت دیر تک ریسئیوار ہاتھ میں تھامے سوچتی رہی کہ عرفان کو کیا ہوگیا ہے ہر وقت موڈ خراب رہنے لگا ہے پانچ سال سے زیادہ شادی کو ہوا۔اسنے کیا کچھ نہیں دیا۔ ایک اعلی نو تعمیر رہائشی بستی میں نیا گھرنمونے میں نادر اورسجاوٹ بےمثال،سامان سے لڈا گھر، گاڑی سب ہی  میسر تھا۔ میں جس جیز کو پسند کرتی وہ دوسرے دن گھر میں موجود پاتی کسی دوکان پرا یک سے زیادہ کسی چیز کودیکھتی تووہ خرید لی جاتی میرے ہر آرام کےلئے اپنےآرام کی قربانی دینے میں خوشی محسوس کرتے,ہر جگہ ہر معاملہ میں مجھے ملحوظ خاطر رکھتے ایک دن میں نے کمپیوٹر کوبتاکر کہا تھایہ تو شو پیس ہےانٹر نیٹ  کنکشن کے بغیر ایسا ہے جیسے بغیر روح کے بدن تو پھر دوسرے دن ہی نیٹ آگیا ہم نے دودن تک دوست رشتہ داروں سے فون کر کر کےآی ڈی لیتے ایڈ کرتے رہیےپھر کئی دن مطلوبہ سائیڈوں کو ڈھونڈ ڈھانڈ کردیتے .

 ہم ایک سائیٹ تلاش کررہے تھے کہ چیٹ روم پہچگئے دونوں نے ملکر خوب انجان لوگوں سے باتیں کی ۔ مجھے اتنا بھی  اچھا نہیں لگا جتنا کے انہیں پھر عرفان نے روز کی عادت بنالی میں اکتا کر ساتھ بیھٹنا چھوڑ دیا
افف کچھ دیر میں عرفان آتے ہی ہونگے کچھ چاے کے ساتھ بنالو۔خیالوں کے بھنور سے نکل کر کچن کی طرف کئی کچھ وقت گزرا ہی تھا کہ عرفان کے گاڑی کی آواز آئی پھرعرفان اندر داخل ہوے ۔چاے کا ٹرے بیڈروم میں رکھے ہوئے صوفہ کے سامنے میز پر رکھا ۔عرفان کو آتے ہی بیڈ روم میں چاے پینا  بہت پسند تھامیں پلنگ پر بیٹتے ہوے حال احوال پوچھی تو غور سے دیکھتے ہوے صرف آنکھوں کو چھپک کر جواب دیا پھر کچھ وقفہ سے میں نے آفس پر فون کرنے پر نا اٹھا نے کے بارے میں کہا تو تیوری چڑھا کر بہت ناراض ہوئے کہنے لگے آفس کام کرنے جاتا ہوں ۔ تم سے گھپے مارنے نہیں۔ خبردار جوتم نے آئندہ کبھی فون کیا تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا ۔ جہاں ہو وہی رہو۔


انکے یہ حاکمانے جملہ سنکر میں آمنا صدقنا کو بہتر سمجھکر چپ رہی ۔ جب اقتدار واختیار ملتا ہے تو اعتدال اورتوازن رخصت ہوجاتا ہے ۔ بے قدری ہرایک ہی کو ناگوار گزرتی ہے ۔ ذلت سے دل بجھ جاتا ہے ۔ مجھےعرفان کے رویہ کودیکھکرمسلمان ہونے کے ناتہ مجھے قرن اوٌل کی یاد آگئی سنت کی کسوٹی پر گھستے ہی ساراملمع اتر گیا ۔ کتنا معیاراورمزاج کا فرق ہے زمین آسمان سے بھی زیادہ ،میرا حق کیا ہے احساس دیلاؤں ! نہیں میری حیثیت نقارخانے کے طوطی سے بھی کمتر ہوگی ہے ۔ اب چپ ہی رہنا مناسب ہے ۔


عرفان کے سیل فون نے مجھے اپنے طرف متوجہ کرلیا وہ ریسیپشن کا بہانہ کرکے باہر کی طرف بڑ گئے ۔ میرے اندر شک کے جراثیم پنپنا شروع ہوے میں نے باہر کے دروازے کی آڑ میں باتیں سنے کی کوشش کی تو مجھے لگا کہ زمین گھومنے لگی ہے۔ وہ کہہ رہے تھےمیں تم سے ملنے اب  دو دن ہیں . پھرصرف اور  صرف ہم ہونگے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔نوکری تو پھر مل جایگی  ۔ ۔ ۔ ۔کیا نہیں کوئی جایداد نہیں اور نہ بینک میں زیادہ پیسہ ہی ہیں تم ساتھ ہو تو میرے لئے کافی ہے۔ ۔اچھا رات کو نٹ پر بات ہوگی محبت کے اقرار کے بعد عرفان آنے لگے میں اپنے آپ کو بڑی مشکل سے بیڈ روم تک لا سکی سارے کمرہ کو بغور دیکھی تو  سب ہی غم خوار لگے گھڑی کی سسکیاں،گلدستہ میں سجے پھولوں کا ہل ہل کر تسلیاں دینا , مجسم ندامت کمپیوٹرکا بنا کھڑا رہنا, فون کا درد سے چیخنا سب ہی درد کے ساتھی لگے ۔ ۔ ۔


نہیں اب میں  یہاں نہیں رہونگی۔ عرفان کو میں نے بھی تو کتنی عزت محبت دی ہر بار ان کی خدمت کو تیار ،ہمیشہ پسند نا پسند کا خیال رکھا ۔ وہ ناشکر گزار ہیں بد دماغ اور بے حس ہوگئے ہیں ان کومیری ضرورت نہیں تو مجھے بھی انکی ضرورت نہیں میں روتے  جانے کب سو گئی اور عرفان کب تک کمپوٹر سے لگے بیٹھے رہے مجھے خبر ہی نہ ہوئی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 دوسرے دن عرفان خلافِ توقع  صبح آفس جاچکے تھے ۔
فون کی گھنٹی بچنے لگی اٹھایا تودوسرے طرف مکرم بھائی تھے کہہ رہے تھے بھابی آپ گریٹ ہو ، مہان ہو میرےلاکھ سمجھا پربھی جو نہ ہو سکا وہ آپ نے کردیکھایا۔ میں نے نہ سمجھتے ہوئے پوچھا ,آپ کیا کہہ رہے ہیں تو بولے کہ عرفان نے با س سے معافی مانگ کر نوکری بحال کرلی ہے اور جانے کا ارادہ بھی ملتوی کرلیا ہے ۔ جلدی میں ہوں رات میں فون کرونگا۔ ایک سانس میں سب کہکر فون رک دیا۔میں اس شدنی پر حیران تھی۔ میری جستجو بڑی اور میں کمپیوٹر میں ہسٹری چیک کرنے لگی،آخرمجھے رات والی چیٹنگ مل گئ جس میں حاصل گفتگو یہ تھی کہ عرفان نے پیار محبت کا یقین دلایا تھا اور دوسری طرف سے موٹی رقم کی مہر میں ڈیمئنڈ تھی عرفان نے آخر میں لکھا تھاکہ میں نے اپنی زندگی ،کیریر سب کچھ داو پر لگایا اورتم  خود غرص نکلی جی کرتا ہے تمہارا خون کردوں
 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عرفان روزکی طرح آفس سے آکر صوفہ پر بیٹھے چاے پی رہے تھے۔ وہ چاے ختم کرکے پیالی رکھکر پلنگ پر میرے قریب سر جھکا کر بیٹھ گئے ۔ جھکے ہوے سر کو کچھ اور جھکا کر انہوں نے میرے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ دیا ۔
بہت کچھ کہنے میرے ہونٹ گھولےہی تھے کہ دل نے زور سے دھڑک کر روک دیا اور ساتھ میں سوال بھی کرڈالا ۔‘‘کیاآندھی طوفان کے بعد بستی نہیں بستی کیا اس کے مکین اسے اُجڑتا چھوڑ جاتے ہیں‘‘ مجھے لگاجیسے کمرہ میں محبت ،اعتماد ،خوشی کی فضاءچھاگئ ہو ۔ کمپیوٹر فخر سے کچھ اور اکھڑ گیا ہو،گلدستہ کے پھول ایک دوسرے سے خوشی میں گلے ملنے لگےہوں ،گھڑی گنگنانے لگی ہو، فون کے قہقہ نے مجھے چھونکا  


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔