Saturday, April 27, 2013

روزہ کے معاشرتی فوائد


السلام علیکم



پیارے بہنوں اور بھائیوں : دین اسلام کے ہر حکم میں انسان کے لئےدنیاو آخرت کی سعادت مندی اور کئی فوائد مضمر ہوتے ہیں۔ روزہ میں بھی جہاں اخروی لحاظ سے باعث اجر و ثواب ہے وہیں من جملہ فوائد کے روزہ طبی، معاشرتی و اجتماعی طور سے بھی فائدہ مند ہے جیسےجب معاشرے کے مالدار افراد روزہ رہ کر بھوک پیاس کی سختی کو برداشت کریں گے تو انہیں بھوک وپیاس کی شدت کا احساس ہوگا۔اس طرح وہ محتاج و تنگ د ست افراد کی ضرورت کو سمجھ سکیں گے اور ان کی طرف دستِ تعاون دراز کریں گے۔اس طرح معاشرہ اخوت وبھائی چارگی کا گہوارہ بن جائے گا۔اس لئے رمضان کو صبر اور غم خواری کا مہینہ بھی کہتے ہیں


سحر و افطار میں اوقات کی پابندی پر اگر غور کیا جائے تو احساس ہوگا کہ روزہ نظم وضبط کی تربیت کے لئےبھی ہے ۔ یہاں انسان اپنی مرضی نہیں چلا سکتے سحری کے لئے جو وقت متعین ہے انہیں اسی وقت میں سحری کا اہتمام کرنا ہے اور جو وقت افطار کے لئے خاص ہے اسی وقت روزہ افطار کرنا ہے۔اگر کسی نے جان بوجھ کر ذرا سی بھی تاخیر اور عجلت کا مظاہرہ کیا تو پھر ان کاروزہ رائیگاں ہونے کا خوف ہوگا۔آج کل دیکھا گیا ہے کے شادی بیاہ ہو کہ دعوتیں یا کسی سےملنے کا وعدہ اکثراوقات انتظار کی کوفت اٹھانی پڑتی ہےہمیں وقت کی قدر نہیں رہی ہمیں اوقات کی پابندی کی سخت ضرورت ہےہمیں آج کی خوشیوں کو اگر آنے والے کل کی مسرتوں میں بدلنا ہے تو وقت کو اپنی مٹھی میں قید کرنے کا ہنر سیکھناہی ہوگا کہتے ہیں وقت کبھی نہیں رکتا اور جو لوگ وقت کے قدم سے قدم ملا کر نہیں چلتے وہ زندگی کے راستے میں پیچھے رہ جاتے ہیں وقت ضائع کئے بغیر عمل کے میدان میں سرتا پاجستجو بننا ہوگا تب ہی ہم ایک کامیاب انسان بن سکتے ہیں
سدا عیش دوراں دکھاتا نہیں
گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں


اللہ ہمیں اس رمضان میں دنیاو آخرت کے فوائد کا مستحق فرمائے۔ سب مطالعہ کرنے والوں کی مشکور ہوں

خدا داد




السلام علیکم
حیدرآباد کے ممتاز شاعر عبدالغفار خدا داد کاجمعہ کی شب 2سمتبر2011 کوحیدرآباد میں منعقدہ ایک بڑے مشاعرے میں اپنا کلام سنا رہے تھے کہ قلب پر شدید حملہ کے سبب سےاپنے چاھنے والوں کوداغ مفارقت دے گئے یہ سانحہ اس وقت پیش آیاجب ان کے ایک دوست ہر سال جدہ سے چھٹی پر آتے تو اپنے احباب کے لے پر تکلف عشائیہ کے ساتھ محفل شعر کا بھی اہتمام کرتے جس میں شہر کے معرف شعراء کے علاوں اضلا ع و بیرونی ریاستوں کے چند شاعروں کو مدعو کرتے ۔اسی محفل میں اپنی باری آنے پر جب خدا داداسٹیج پر اپنی غزل سنارہے تھے تو چوتھے شعر پر اچانک لڑکھڑانے لگے۔ سامنے نشستوں پر بیٹھے ان کےدو قریبی دوستوں نے تیزی سے دوڑ کر ان کو تھام لیا ۔ محفل میں شریک ایک ڈاکٹر نے نبض دیکھکر ان کی موت کی تصدیق کردی ۔ ساری محفل پر سکتہ طاری ہوگیا ۔ان کی وفات اہل ِخاندان،دوستوں اور حیدرآباد کے ادبی حلقوں کے لئے سانحہ ہے۔اس سانحے سے تادیر سنبھل نہ سکیں گے۔
 
تمام مرحلے صوت وبیاں کے ختم ہوئے
اب اس کے بعد ہماری نوا ہے خاموشی
 
عبدالقفار کی زندگی میں بڑے نشیب و فراز آئے ۔ بعض مرتبہ بڑی سخت آزمائشوں سے گزرے لیکن انہوں نے بڑی پامردی سے اور بڑے صبرو سکوں کے ساتھ حالات کا مقابلہ کیا اور وہ ُان طوفان سے بچ کر صحیح سلامت نکلے ۔ انتہائی نامساعد حالات میں بھی یہ شخص ہمیشہ کی طرح احباب کے جھرمٹ میں اپنائیت ،خلوص اور ایثار کی متاع بے بہا لٹاتا رہا اور قہقہے بکھیرتے رہا۔ان کے اخلاق ، شرافت اورانکساری کے سب ہی قائل تھے جو ایک باران سے مل لیتا ان کی سراپا پُرخلاص شخصیت کا اسیر ہو جاتا ۔ بارہ سال قبل اہلیہ کے انتقال کے بعد وہ تنہا رہ گئےتھے ۔انہیں اولاد نہیں تھی ۔وہ اپنی ضعیف والدہ اور ایک بیوہ بہن کے ساتھ اپنے ذاتی مکان محمدی لائن(ٹولی چوکی)میں رہا کرتے تھے۔وہ ساری عمرپیشہ تدریس سے وابستہ رہے ۔ ریاضی کے بہیت اچھے استاد مانے جاتے تھے ۔ مختلف خانگی مدارس میں انہوں نے خدمات انجام دیں۔جہاں بھی کام کیا وہاں اپنی محنت،ایمانداری اور شرافت کے نقوش چھوڑے ۔ سادگی ،قناعت اور بے نیازی کا یہ عالم کہ کبھی تنخواہ کی کمی کی فکرنہ کی ۔ سادہ لباس ، سادہ غذا ،اور سادہ زندگی میں خوش ومگن رہا کرتے تھے ۔ خود داری بھی ایسی کہ بر سہا برس کی رفاقت میں کبھی ان کو اپنی کسی ضرورت واحتیا ج کا ذکر کرتے نہیں پایا ۔وہ اپنے اس شعر کی عملی تفسیر تھے
 
اس سے بہتر ہے زہر کھا لینا
ایک لقمہ حرام کمانے سے
 
اکثر وہ اپنے قریبی احباب سے حج پر جانے کی شدید خواہش کا اظہار کیا کرتے تھے ۔ایک ایک پیسہ جوڑانہوں نے بالآخر رقم جمع کی اور دو سال قبل حج کا فریضہ ادا کیا ۔
 
زمانہ طالب علمی ہی سے عبدالغفارخداداد شعروادب کا نکھراستھرا ذوق رکھتے تھے اپنے محدود وسائل کے باوجو اچھی کتا بیں اورمعیاری جرائد اور رسائل خرید کر پڑھناان کامحبوب مشغلہ تھا ۔ ان کی ذاتی لائبریری میں کتابوں کا اچھا خاصا ذخیرہ موجود ہے ۔ وہ مشاعروں میں اپنا کلام بہت کم کم سناتے تھے مخصوص محفلوں میں بے حداصرار کرنے پر کلام سنایا کرتے تھے ۔ویسے شہر کی کم وبیش سبھی اہم شعری ونثری تقریبات میں ان کی شرکت لازمی ہوتی تھی ۔ ہمارے بعض جدید شعراءجہاں امیجری اور نئے پن کی تلاش میں مہمل تر کیبیں تراش رہے ہیں وہاں خدا داد کے فن میں سادگی جھلکتی ہے ۔اپنی بات کو نہایت عام فیم، سادہ،سلیس اورسلجھے ہوئے انداز میں پیش کرتے ۔انہوں نے جدت پسندی کا مظاہرہ کیا اور نہ دوسروں کو چونکا دینے کی کوشش کی ۔ اس کے علاوہ انہوں نے اپنی غزلوں میں علامتی ،رمزیہ اور استعاراتی نظام سے بھی گریز کیا۔ صاف واضح اور سادہ زبان میں عصر حاضرکے مسائل ومعاملات کو با مقصد شاعری کے روپ میں پیش کرکے انہوں نے محفلوں میں انفرادیت کا نقش چھوڑا اور سامعین سےداد و تحسین حاصل کی ۔ مذہبی حسیت وتصوف اور ملت کے دکھ درد کی آئینہ داران کی شاعری نطر آتی ہے انہوں نے باضابطہ ترتیب وار اپنےکلام کو محفوظ نہیں رکھا ۔ چیدہ چیدہ کاغذات پر وہ لکھتے رہے بنیادی طور پر وہ غزل کے شاعر ہیں لیکن انہوں نے چند نظمیں بھی لکھیں جن میں سب سے مشہور نظم تاج محل جو ساٹھ بند پر مشتمل ہے ۔ یہ طویل نظم اعتماد کے ادبی صفحہ پر پوری کی پوری شائع ہوئی تھی۔ اس نظم کو دہلی سے تاج محل کے عنوان پر شائع ہونے والی ایک کتاب کے لئے بھی منتخب کرلیا گیا تھا خداداد صاحب اس کی تو سیع کرکے دوسو بند کی نظم میں تبدیل کرنے اور کتابی صورت میں شائع کرنے کا ارادہ رکھتے تھےاس نظم کی ادبی حلقوں میں بڑی پزیرائی ہوئی تھی ۔ بابری مسجد کے انہدام اور فرقہ وارانہ فسادات کے موضوعات پر ان کے قلم میں اضطراب کی لہریں دیکھنے کو ملتی ہیں کلا سیکی طرز کی ان کی شاعری میں زبان و بیان کا حسن اور کردار کی عظمتیں واضح طور پر محسوس کی جاتی ہیں درج ِذیل چند اشعار سے ان کی شاعری کی خصوصیات کو سمجھنے میں مددملے گی ۔
 
سپردِ خاک میت کررہے ہیں
یہی اردو کی خدمت کر رہے ہیں
 
تا باں تاباں بڑھ کر سورج سر پر آپہچا
چڑھتا سورج پوجنے والو ،سورج چڑھ کر ڈھلتا ہے
 
مومن کبھی اللہ سے کرتا نہیں شکویٰ
اللہ کی مرضی ہی فقط اس کی رضا ہے
 
 
کس بات پہ نازاں ہے خدا داد بتا تو
یہ جسم ترا قبر کے کیڑوں کی غذا ہے
 
 
رزق چل کر کبھی نہیں آتا
اڑنا پڑتا ہے آشیانے سے

ساری تسبیح بے عدد ٹہری
ایک دھاگے کے ٹوٹ جانے سے
 
 
ماں کو دیکھا جو پیار سے میں نے
اس کا اب تک ثواب جاری ہے


 
خدا داد اس طرح اپنے چاہنے والوں سوگوار اور اشکبار چھوڑ کر اس دنیا سے رخصت ہوجا ئیں گےوہم وگمان میں نہ تھا حقیقتاً وہ دلوں کی بستی اور یادوں کی دنیامیں شرافت نفسی،ملنساری اور اخلاص کی وجہ سے ہمیشہ رکھےجائیں گے ۔
 
 
ممتاز شاعر جناب عبدالغفار خداداد کے سانحہ پریوسف روش کا لکھا تعزیتی قطعہ
 
حبیب حق تعالٰی ہیں محمد
وسیلہ بن کے سب کے سہارے
 
 
ہیں زندہ شاعری کے ساتھ بے شک
خداداد آج بھی دل میں ہمارے

آپ سب کی مشکور ہو ں کہ میرے بلاگ پر تشریف لے لائے

Monday, April 22, 2013

حاصل زندگی

 
 
 
السلام علیکم
 
محترم بھائیوں اور پیاری بہنوں
 
 
آج 22 اپریل کوعیسوی لحاظ سےہمارے پیارے رسول محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے میلاد کا دن ہے  ۔ ہمیں ان کے امتی ہونے اور اپنے مسلمان ہونےپر فخر کرنا چاہیے ۔ یہ وہ خدائی نعمت ہے جو خریدنے سے نہیں بالکہ اللہ کی توفیق سے ملتی ہے اور جس نے اسے پالیا اس نے دونوں جہاں میں سرخرو ہو گیا ۔ پیارے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی محبت کو لازم کرلیں کیونکہ یہ جز ایمان ہے۔جب تک آپﷺکواپنی ہر محبوب چیز سے زیادہ نہیں چاہنگے تب تک ہمارا ایمان کامل نہیں ہوگا۔ آپ کی محبت کو پیدا کرنے آپﷺ کی سیرت کا مطالعہ کریں۔ دیکھنا پھر آپ عش عش کرنے لگے گے پھر ایک ایک بات وحرکت پر غور کیجئے آپ پیارے رسول کے گرویدہ ہوتے چلے جائنگے ۔ پھر آپ کا دل خودبخود خصورﷺ کی تعلیمات و سنت پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کرئیگا  ۔ حبیبﷺ کی سنت و محبت کی وجہہ سے ہمارے اخلاق و کردار  ،عادات واطوار ،میل میلاپ ، طرز زندگی خوب سے خوب تر ہوتے چلی جاتی ہے ۔آپﷺ کا سچا عاشق ہی سچا مسلمان اور مخلوق میں اشرف ہوتا ہے جو نہ خود پر ظلم (گناہ )کرتا ہے نہ دوسروں پر ظلم کرتا ہے۔ دنیا اور آخرت کی بھلائی کامیابی آپ  سے جڑی ہے آپ کی محبت ہی حاصل ایمان ہےاور وہ ہی حاصلِ زندگی بھی ہے ( ایمان کے بغیر کوئی زندگی زندگی نہیں )۔  
 
اللہ پاک ہم سب کو دینِ محمدی کے راستہ پر چلنے کی توفیق دے۔ سنت کو زندہ کرنے والا سنت کو اپنانے والا بنائے ۔آمین 
 
 
.................................................................................
 
 تیرے در سے دور ہٹ کر ، میں کہیں نہ جا سکوں گا
جو اُٹھا دیا یہاں سے ، کوئی راہ نہ پا سکوں گا
 
میری زندگی تمہیں سے ، میری بندگی تمہیں سے
 تیرے نقش پا پہ چل کر ، تیرے رب کو پا سکوں گا
 
جو پکڑ لیا ہے دامن، پہ ہزار نا توانی
نہ چھڑایئے خدا را، کہ کہیں نہ جا سکوں گا
 
تیری پاک صحبتوں میں ، جو ملا ہےراز ہستی
نہ کہیں سے مل سکا تھا، نہ کہیں سے پا سکوں گا
 
وہ جو با ر امانتوں کا ، نہ اُٹھا سکا تھا کوئی
 تیری بندہ پروری سے ، اسے میں اُٹھا سکوں گا
 
میری سجدہ ریزیوں کو، تیرے سنگ ِ آستاں سے
وہ ملا ہے ذوقِ سجدہ، نہ کبھی بھلا سکوں گا
 
میرے دل کے چند ٹکڑے ، للہ قبول کیجے
 نہ انہیں بساط و ساماں، نہ کچھ اور لا سکوں گا
 
 
میری تشنگی کا عالم ، ہر لحظہ بڑھ رہا ہے
میرے ولولوں سے پوچھو، کیسے بجھا سکوں گا
 
یہ بجھا بجھا سا دیپک ، ارمان و آرزو کا
تیرے حسنِ ضوفشاں سےدائم جلا سکوں گا
 
میرا من ہو تیری بستی، میرا تن ہو تیری نگری
کہ میں داغ ہائے سینہ ، یونہی جلا سکوں گا
 
پنہائیاں یہ دل کی، مہمان کی ہیں طالب
تجھ سے یہ گھر سجے گا ، تجھ سے بسا سکوں گا
 
سرِ عا شقے علامت ، دلِ عاشقے سلامت
زہے جذبہء شہادت کہ نہ سر اُٹھا سکوں گا
 
میر اسلسلہ قلندر  میرا واسطہ محمدؐ
اسی واسطے سے خاؔور میں خدا کو پا سکوں گا
 
خاورسہروردی
 
 

Saturday, April 20, 2013

میری ڈائری سے ایک نظم

 
السلام علیکم
 
میری ڈائری میں نوٹ کی ہوئی ایک نظم  شاعر کے نام کا تو پتہ نہیں مگر آج پڑھا تو پھر ایک بار اچھی لگی تو سوچا کہ شاید آپ سب کو بھی پسند آجائے اس لئے  شیئر کررہی ہوں۔
 
 
 
 
اے میری سوچ کی محور، تم اپنے سارے دکھ رو لو
سمجھ لو مجھ کو چارہ گر، تم اپنے سارے دکھ رو لو
 
 
اِسے تم مشورہ سمجھو یا میرا تجربہ سمجھو!
یہ دل ہوجائے گا پتھر، تم اپنے سارے دکھ رو لو
 
 
مجھے خاموش اشکوں سے بہت ہی خوف آتا ہے
نہ رکھو آنکھ یوں بنجر، تم اپنے سارے دکھ رو لو
 
 
تمہیں اس کی خبر ہوگی، یہ اک دن خُوں رلائے گا
بُھلا کر خواب کا پیکر، تم اپنے سارے دکھ رو لو
 
 
مری جاں! یہ نہیں سوچو، سمیٹوں گا اِنہیں کیسے
مرے شانے پہ سَر رکھ کر، تم اپنے سارے دکھ رو لو
 
 
سُنا ہے اُس کی آنکھوں میں تمہارے زخم کھلتے ہیں
تمہیں کہتا ہے جو اکثر، تم اپنے سارے دکھ رو لو
 
 
سُنو! نامہرباں آنکھیں تمہیں ایسے ہی دیکھیں گی
نہیں بدلے گا یہ منظر، تم اپنے سارے دکھ رو لو
 
 
اگر یوں اشک رونے سے انَا پر چوٹ پڑتی ہے
ہنسی کی اوڑھ کر چادر، تم اپنے سارے دکھ رو ل
و
 
 
بتا دینا یہ میرا دل تمہارے غم سے بوجھل ہے
اُسے کہنا یہ نامہ بَر، تم اپنے سارے دکھ رو لو
 
 
......................

Thursday, April 11, 2013

اطمینان ِقلب





السلام علیکم
میرے عزیز بھائیوں اور پیاری بہنوں

 میں آج آپ لوگوں سے ایک بہت پرانی اور یادگار بات شیئرکرنا چاھتی  ہوں ۔۔۔۔
یہ اس وقت کا واقعہ ہےجب میرا بیٹا صرف دو سال اور چند ماہ کا تھا۔

ہوا کچھ یوں تھاکہ میری کم عقلی و نا تجربہ کاری اور بچے کی ناسمجھی  و شرارتی طبعیت کی وجہہ سے مجھے نیند میں دیکھ کر تکیہ کے نیچے سے چابی نکال کر نگل لی۔ جب میں بیدار ہوئے  اور چابی تلاش کرتے دیکھنے پر اس نے بتایا کہ امی  وہ میں نے منہ میں رکھی تھی تو اندر چلی گئی  اس بات کا پتہ چلتے ہی پریشانی کے مارے ہماری سیٹی گم ہو گئی۔ بہتریے حلق میں انگلیاں ڈالی کہ شاید چابی اٹکی نکل جائے بہت کوشش کے بعد بھی  ناکامی کا منہ ہی دیکھنے کو ملا۔

پھر اسی پریشانی کے عالم میں بیٹے کو ہسپتال لے گئے۔ ڈاکٹر صاحب نے معاملہ سنتے ہی فوراً ایکسرے کی ہدایت کی۔ ایکسرے کا رزلٹ دیکھ کر ڈاکٹر نے کہا کہ چابی بچے کے معدے کے اندر چلی گئی ہے۔ تھوڑے دن انتظار کرکے دیکھتے ہیں کہ شاید خود ہی نکل آئے۔ بصورت دیگر آپریشن کے علاوہ اس چابی کو باہر نکالنے کا کوئی اور چارہ نہیں ہے۔انہوں نے وضاحت کی کہ زیادہ سے زیادہ دس دن تک انتظار کیا جاسکتا ہے۔اتنی مدت سے زیادہ انتظار نہیں جایا جاسکتا۔چابی نکالنا بہت ضروری تھا کیونکہ اگر اس میں زنگ لگ جاتا ہے تو صورتحال اور خطرناک ہو سکتی تھی۔

ڈاکٹر کی بات سن کر بجائے پریشانی کم ہونے کے مزید بڑھ گئی۔ اپنے بچے کے آپریشن کا سن کر کوئی بھی والدین پریشانی میں گھِر ہی سکتے ہیں۔ ساس محترمہ نے صحت یابی پر پچاس رکعت اسی وقت اور زندگی بھر دو رکعاتوں کی نمازکا نکلنے کی صورت میں وعدہ کرلیا اور جیٹھانیوں نےدو یا چار شکرانے کے روزے رکھنے کی منت مان لی۔ غرض یہ کہ گھر میں ہر کوئی کسی نہ کسی انداز میں بچے کی صحت یابی کے لیے اللہ تعالیٰ سے مدد مانگنے لگا۔

کوئی موز کہلانے کہتا تو کوئی کچھ اور ۔۔۔ امی نےبھی  مشورہ دیا کہ بچے کو نہار پیٹ ارنٹی کا تیل ایک چمچہ پلایا جائے' لیکن میری دماغی حالت کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ میں نے پریشانی میں ایک ہی دن میں بیٹے کو چار پانچ مرتبہ ارنٹی کا تیل پلا دیا۔

اس پریشانی میں دس دن گزر گئے اور اب آپریشن کے سواء کوئی راستہ نظر نہیں آ رہا تھا۔ مجھے اپنے بابا سے بہت محبت اور عقیدت تھیوہ میرے والد کے ساتھ ساتھ استاذی و مرشدی بھی ہیں ۔ میرا دل کہتا تھا کہ بابا کی دعا سے سب ٹھیک ہو جائے گا۔

میں نے اپنے بابا کو فون کیا اور روہانسی آواز میں کہا  "بابا! میری غلطی لاپرواہی کی سزا میرے معصوم بچے کو کیوں مل رہی ہے۔غلطی میری ہے تو تکلیف بھی مجھے ہی ملنی چاہیے اس معصوم کو نہیں۔اور آپ بھی تو دعا نہیں کر رہے ہیں۔ اگر آپ دعا کرتے تو پریشانی ابھی تک ٹل چکی ہوتی۔"

بابا نے کہا۔" اگر ساری شکایات کہہ چکی ہو تو میری بات سنو، جب کنجی بچے نے نگلی، تو تم نے نکالنے کی کوشش کی پھر اسے ڈاکٹر کے پاس بھی لے گئی۔ لیکن ڈاکٹر کی مدد سے کچھ فائدہ نہیں ہوا وہ بھی بے بس ہوگیا۔ تم اور سب نےنکلنے کی تدبیر بھی کی اور دعائیں بھی مانگی اب اگر روکر گڑگڑا کر کی جانے والی دعاؤں سے بھی یہ پریشانی نہیں ٹلی تواب اپنے ارادے کو اللہ کی رضا میں راضی کر لو۔

اب یہ اسکی مرضی پر منحصر ہے کہ بچے کوآپریش سے شفاء دے یا موت، تم تو بچے کو صرف تب سے چاہتی ہو جب وہ تمہیں عطا ہوا مگر اس اللہ کو تو اس روح سے اس سے بھی بہت پہلے سے محبت ہے۔

تو ابھی اس کی مرضی پر سرنڈر کر کے مطمئن ہو جاؤ۔اب اس اللہ کی مرضی جو چاہے وہ کرے۔ بس یہ ہی کامیابی کا راستہ ہے۔

رہی یہ بات کہ یہ مشکل آئی کیوں' تو جان لو کہ کبھی کبھی اللہ ہمارے درجات کی بلندی کےلئے آزمائش بھیجتا ہے۔" اس کے بعد میرے بابا نے سلام کر کے فون رکھ دیا۔

مجھے بابا کی باتوں پرپہلی بار بہت افسوس ہو رہا تھا۔ کبھی بابا کی باتیں زہن میں گھومتیں اور کبھی بچے کی موت کا تصور کر کے دل دہل جاتا۔

آپریشن کا نتیجہ کیا نکلے گا۔ ایک تلوار تھی جو سر پر لٹک رہی تھی۔دو دن پہلے بچے کے ساتھ میں ہاسپٹل میں رہنے آگئی۔۔

چونکہ معدے کا آپریشن تھا اس لیے ڈاکٹرہدایات دے رہا تھا کہ بچے کا معدہ خالی رکھنا ہے، آپریشن نو بجے شروع ہو گا اور یہ بھی بتا رہا تھا کہ کون کون سے ڈاکٹر آپریشن کے وقت موجود ہوں گے۔

ایک امید و بیم کی کیفت طاری تھی۔ پوری رات ڈاکٹر اور بابا کی باتیں زہن میں گھومتی رہیں۔ کبھی بچے پرنظر پڑتی تو دل کے اندر ایک ہوک سی اٹھتی۔

خدا خدا کرکے صبح ہوئی۔ نرس سے بات کرنے پر معلوم ہوا کہ اس آپریشن کے بعد بچہ تا عمر سخت اور محنت کا کام کرنے سے قاصر رہے گا۔ یہ بات سن کرمزید دکھ ہوا۔

مجھے بابا کی بات یاد آئی کہ ہم کتنے لاچار اور بے بس ہیں صرف اسی کا ارادہ اصل ہے اورہماری کامیابی اسی میں ہے کہ اس کے ارادے کو اصل مانا جائے۔ اس کی مرضی وہ نواز دے یا سزا دے۔ یا اللہ ،  تیرا ارادہ اصل اردہ ہے میرا اردہ محض بے معنی حسرت ۔ اپنی بے بسی پر آنکھیں بہنے لگی  اور دل سے بے اختیار آواز نکلی کہ "اے مولا! میں راضی ہوں تیرے ہر فیصلے پر چاہے اگر تیرا فیصلہ موت ہی ہے تو اس میں بھی میں راضی ہوں"

اس سوچ کے سہارے میں نے اپنے دل کو مضبوط کر لیا۔

بچے کو ایکسرے روم لے جایا گیا۔ ایکسرے ڈویلپ ہونے کے بعد ایکسرے آپریٹر بولا
" تم یہ ایکسرے لے کر فوراً ڈاکٹر کے پاس پہنچو"

"مگر نرس تو کہہ رہی تھی میں وارڈ میں آ کر یہ ایکسرے لے جاؤں گئی۔" میں نے جواب دیا۔

"نہیں کیس بدل چکا ہے تم ڈاکٹر کے پاس فوراً پہنچو۔" ایکسرے آپریٹر نے زور دے کر کہا تو پریشانی مزید بڑھ گئی۔

یا اللہ خیر اب کیا ہوگیا ؟ میں بھاگتی ہوئی ڈاکٹر کے کمرے میں پہنچ کر اس کو ایکسرے دکھایا۔

ڈاکٹر نے ایکسرے کو پکڑا اور غور سے دیکھتا ہوا بولا۔ "چابی کافی حد تک نکل گئی ہے۔ اب آپریشن کی ضرورت نہیں رہی۔ ایک دو گھنٹے میں وہ خود بخود نکل جائے گی اس کاچکلا حصہ(چوڑاحصّہ)معدہ سے باہر آگیا ہے۔

اطمیان کی ایک لہر میرے پورے جسم میں پھیل گئی۔مجھے اس وقت لگ رہا تھا کہ ہر جگہ ہر ایک میں اللہ کا وجود پنہا ہے ہر ایک پر اس کی حکومت ہے وہ سب کا مالک و مختار ہے۔ ہمارا وجود بھی اسی کے لئےہے ۔ اسی کی مرضی سے ہے ۔اس کا اردا اصل ہے ہمارا اردا محض بے معنی بات ۔ ہمارے وجود کا مقصد اس کے وجود کی گواہی دینا ہے اور بس


مجھے کیا سمجھ رکھا ہے میں نشان ِ بے نشان ہوں

 مجھے اپنے دادا کے اس مصرع اور بابا کی نصیحت کا مطلب سمجھنے آگیا تھا ۔الحمدللہ بہت بڑی پریشانی ختم ہوئی

بعد میں کوئی تیل سے تو کوئی روزوں کی منت سے اور کوئی نماز کی وجہہ کنجی نکلنے کا باعث سمجھے مگر میرا دل کہتا تھا کہ اللہ کی رضا پر راضی رہنے مصیبت پر صبر کرنے آزمایش میں پورے اترنے کی ہمت مجھے ملنے پر یہ مصیبت ٹل سکی۔ اگر بابا کی رہنمائی  مجھے نہ ملتی تو شائد مجھے اور کتنی آزمایشوں سے گزر نا پڑتا۔

اوراب جب بھی کوئی پریشانی آتی ہے میں اس پریشانی کو اللہ کے حوالے کرکے بے فکر ہوجاتی ہو۔ اور دوسرے سمجھتے ہیں کہ مجھے کوئی فکر نہیں میں بے حس ہو چکی ہوں۔اللہ کا ہی بھروسا اور آسرا ہمیں کافی ہےوہ ہم کو ہم سے بڑھکر چاھتا ہے ۔
۔۔۔۔

Saturday, April 06, 2013

کہیں دیر نہ ہو جائے


میرے محترم بھائیوں اور پیاری بہنوں

السلام علیکم
بیس مارچ کو رات گیارہ بجے ہم  اپنی چھوٹی بچی کے اسکول کی  چھٹی کے ساتھ ہی سفر کے لئے روانہ ہوگئے ۔  یہاں سے نکل کر دوسرے دن مکہ معظم کوظہر کی نماز پر پہچے . کچھ دیر ثول کے مقیم بچوں کا انتظار کرکے عصر کی نماز  کی ادائیگی کے بعدطواف شروع کیا گیا ۔ طواف میں اتنا زیادہ رش تھا کہ حج کے دن یاد آنے لگے۔ حرم شریف میں تعمیر کا کام چل رہا ہے اوپر سے طواف نہیں کیا جاسکتا تھا ۔ سب ہی کو صحنِ کعبہ ہی سے طواف کرنا ہے ۔

میاں اور میرے لڑکوں نے دیوار کی طرح میرے آگے پیچے  چلتے رہے۔ لوگوں کی کثرت کی وجہہ سے ہمارا دم گھٹنے لگا تھا۔ مگر اللہ کی محبت اور ثواب کے آگے سب کچھ اللہ کے بندوں کو منظور رہتا ہے  یہ کیفیت وہاں موجود سب ہی میں  محسوس کی میں نے ۔ اتنے بڑے دربار میں گزرا ہوا ہرلمحہ ہر ایک کااتنا قیمتی رہتا ہے کہ وہاں صرف عمل ہی عمل کرنے کی فکر سب کو پڑی رہتی ہے۔ نہ کوئی تکلیف کا ذکر نہ کسی بات کی شکایت ۔ ہر حال میں راضی والی کیفیت میں نے سب ہی میں پائی ہے۔ سب کے چہروں پر اللہ کا انعام کر دا سکون اطمینان تھا اور سب ہی کے ہونٹ شُکر اور دعاوں سے لبریز تھے ۔

میں کوشش کرتی کہ عبادت کے ساتھ ساتھ وہاں کے مناظر اپنی آنکھوں میں محفوظ کر تی رہوں اور وہاں موجود اللہ کی نیک مخلوق کے نیک اعمال دیکھ دیکھ کر محظوظ  ہوتی رہوں ۔ مگر میں نے اپنے تجربہ اور غور و فکر کی عادت کی وجہ سے یہ محسوس کیا ہے کہ  عمرہ و حج کے لئے طاقت قوت کی بھی ضرورت ہوتی ہے اگر یہ نہ ہو تو کسی جوان سہارے کی اشدی ضرورت درکار ہوتی  ہے۔ اس لئے جیسا ہی ہم پر حج فرض ہوتا ہے ہم پہلی فرصت میں اس فرض کا اردہ کرلیں کیونکہ میرے خیال میں اپنے زورِ بازو کا مزہ ہی اور ہوتا ہے۔ یہاں تک آنے کے لئے روپے پیسے کا حصول تو کوشش سے کرلیتے ہیں اور میں نے یہ بھی دیکھا ہے کہ حج اور عمرہ آنے والے دعائیں تو خوب یاد کرآتے ہیں مگر اس کے متعلق احکام سے بہت کم واقف ہوتے ہیں ہمیں چاہے کہ پیسوں ،صحت کے خاص خیال کے ساتھ ہی ساتھ حج و عمرے کے سارے مسائل ازبر کرلیں۔ان شاء اللہ اگر توفیق ہوئی تو اس ٹوپک پر ایک الگ مضمون لکھونگی ۔

میری تنقیدی نظروں کی وجہہ اور پھر میں عمر کی اس دور میں آگئی ہوں کہ بات کچھ کرنے جاتی ہوں اور رخ نصیحت کی طرف پھر جاتا ہے۔سوری اگر کچھ ناگوار لگا ہو تو ۔۔۔۔

کچھ دن بیٹوں کے گھر رہ کر ہم پھر اپنی منزل کی طرف لوٹنے کی تیاری کرنے لگے ۔ پہلی اپریل کوپانچ بجنے کے بعد نکلے تو یہاں دوسرے دن صبح نو بجنے پر پہچے  ۔

زندگی کا سفر ہو یا زندگی میں سفر ہو ۔ سفر میں آنے والے خطرہ کے لئے تیار مسلسل منزل تک پہچنے کی تک و دور سے گزرنا پڑتا ہے   ۔کبھی صاف کھلی کھلی  سڑک کے مسافر تو کبھی ٹیڑھی بیڑھی راستہ کے راہی ہوتے ہیں۔ کبھی راستہ کے کناروں پر اونچے نیچے پہاڑ تو کہیں چٹیال میدان ہوتے ہیں اور کہیں کہیں باغات و سبزہ اگا بھی ملی گا ۔اور کبھی رات میں چاند کی چاندی سفر میں نور بھردے گی تو کبھی گُھپ اندھرے سے بھی دوچار ہونا پڑے گا اور کبھی تو سورج کے نکلنے والا حسین منظر دل میں نیا عزم پیدا کریگا تو کبھی سفر میں سورج کی تمازت جسم کو جلسا دے گی ۔ مگر پھر بھی مسافر کو چلنا ہی  رہتا ہے اس کو اس کی منزل تک پہچنا ہی ہوتا ہے اس لئے ہر صُعوبت اور مصیبت و تکلیف کو چہلتے چلتا ہی جاتا ہے اور جب وہ منزل کے قریب پہچتا ہے تو اس کو اپنے شہر کی روشنیوں کو قریب آتے دیکھ کر اس کا دل خوشی سے روشن ہوجاتا ہے۔اس کی اس طویل محنت ومشقت کا نتجہ گھر کے آرام و سکون کی صورت میں ملنے والا ہوتا ہے۔وہ اور پھرتی سے جلد سے جلد پہچنے کی کوشش کرتا ہے ۔

شہر کی روشنیوں اور منزل کے قریب آنے کی خوشی کو ہم بھی محسوس کرنے لگے تھے تو میں گھر پہچتے پہچتے اپنی تخیلات کی دنیا میں گم خود  سے یہ سوال کرنے لگی تھی۔۔۔۔۔  کیا ہم اپنی زندگی کے اختتام پر بھی اتنے ہی خوش ہوگے ؟کیا ہمیں قبر میں جاکر  ایسے ہی آرام اور سکون ملنے کی امید ہے ؟ ہم زندگی کے طویل دور میں کیا اپنے آخرت کے آرام کے سامان کا انتظام کرپائے ہیں ؟کتنے ملتے جلتے ہیں یہ اور وہ سفر ، اور راستے ہم کیوں ان چھوٹی چھوٹی باتوں سے سبق نہیں لیتے ؟جس طرح سفرکا انجام گھر ہے اُسی طرح زندگی کا انجام بھی قبر پر ختم ہوجاتا ہے ۔ ہم سفر میں رہکر بھی گھر کو یاد کرتے ہیں ۔ اس کی پرواہ بھی کرتے ہیں۔  پھر کیوں ہم ایسے ہی اپنے ابدی گھر کا کیوں نہیں سوچتے ؟ ہمارا ایمان مر کے اٹھنے پر ہے تو ہمیں اس پر پکا اعتقاد بھی کرنا ہی  ہوگا ۔زندگی میں باعمل بننا ہوگا.یہ مال یہ اولاد یہ ساری نعمتیں ہمیں دنیا میں برتنے دیگئی ہیں انہیں جتنا ہو سکے آخرت کے لئے استمعال کرناچاہیے ۔ دنیا میں ایسے رہیں کہ کسی بھی وقت دنیا سے سدھارنے تیار رہیں ۔ کیا ہم کبھی بھی کسی بھی وقت ختم ہونے والے سفر کے لئے تیار ہیں ؟ اگر ہم نے نہیں سوچا ہے تو اب سوچنا ہی ہوگا۔ کہیں دیر نہ ہو جائے۔۔۔۔۔۔

سفر کی کچھ تصاویر پیش ہیں 
طلوع آفتاب کا منظر 

ریگستانی منظر .

صبح کا دلکش منظر

پل کے نیچے پل دو پل مسافر کے روکنے کا منظر

فجر تک چاند چمکتا رہا


سورج کی تیز روشنی 

شہر کی آمد آمد کا منظر



۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔