Saturday, June 30, 2012

بد نظری ایک آفت


السلام علیکم



میرے معزیز بھائیوں اور پیاری بہنوں:ـ

آپ سب کو میری پچھلی ایک یاد ایک تجربہ ایک پیغام  والی تحریر یاد ہوگی تو میں نے بس اُس واقعہ سے متاثر ہونے پر، اللہ پاک نے مجھ سے یہ مصمون تالیف کروایا ہے ۔ امید کرتی ہوں کہ آپ سب پسند فرمائے گے۔

اللہ تعالٰی فرآنِ مبین میں سورہ بقرہ میں فرماتا ہے شیطان تمہیں مفلسی سے ڈراتا ہے اور بے حیا ئی کا حکم دیتا ہے ۔اللہ تم کو بخشش اور فضل کا وعدہ کرتا ہے۔

شیطان کی کوشش ہمیشہ یہ ہوتی ہے کہ بندہ اللہ کی بندگی سے دور ہو جائے اور من چاہی خواہشوں کا اسیر ہو کر لعنت الہٰی کا حقدار بنے اور شیطان اپنی اس کوشش میں مسلسل محنت کرتاہے ۔ انسان کو طرح طرح کی لالچ میں مبتلا کر دیتا ہے ایسے میں اللہ پاک نے فرمایا کہ اگر تم اللہ کا فضل،مغفرت اور خوشنودی رب چاہتے ہوتو شیطان کے پھندوں سے اپنے آپ کو بچائے رکھو۔

ہمیں چاہیے کہ اسلامی زندگی کو اپنانے کی کوشش کریں اسی میں ہماری بھلائی ہے پاکیزہ زندگی ہی ہمارے لئے نجات کا ذریعہ ثابت ہوسکتی ہے۔ اس ہی لئے صوفیہ اکرام تزکیہ قلوب پر بہت زور دیتے ہیں

تزکیہ سے مراد یہ ہے کہ کفر و ضلالت، ارتکاب محرمات،معاصی ،خصائل ناپسندیدہ اور ظلماتِ نفسانیہ سے ظاہر باطن کو صاف ستھرا کرناہے ۔ تزکیہ ِظاہر و باطن نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی تعلیمات ہیں۔اللہ اپنے پیارے حبیب کے توسط سے سیدھی رہ ہمیں بتارہا ہے جس پر عمل کرنا ہم پر لازم ہے۔اسی کو اپنا کر ہم شیطان کے شر سے محفوظ رہے سکتے ہیں۔


شیطان کے پھندوں میں سے ایک پھندہ بد نظری بھی ہے آج ہم اس کے بارے میں اللہ ،اس کے رسول اور ہمارے بزرگ ہمیں کیا ہدایت دیتے ہیں ،جاننے کی کوشش کریے گے۔اللہ تعالٰی اپنے پیارے محبوب محمد صلی اللہ علیہ وسلم سےقرآن مبین میں فرماتے ہیں کہ

اےحبیب صلی اللہ علیہ و سلم ایمان والے مردوں سے فرمادیجئے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور شرمگاہوں کی حفاظت کریں(سورہ نور۳۰)۔


اور پھر خواتین کے لئے علیدہ ارشاد فرمایا: اےحبیب صلی اللہ علیہ و سلم ایمان والی عورتوں سے فرمادیجئے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اورشرمگاہوں کی حفاظت کریں۔۔
اللہ مسلمان عورتوں اور مردوں کو بد نظری سے بچاتا رکھے ۔آمین

بد نطری سے انسان کے دل میں تخم پڑجاتا ہے ،جو موقع ملنےپر اپنی بہار دکھاتا ہے ۔ قابیل نےہابیل کی بیوی کے حسن وجمال پر بدنظر ڈالنے کی وجہہ ہی سے اپنے بھائی کو قتل کردیا اور دنیا میں سب سے پہلی نافرمانی کا مرتکب ہوا ۔



قرآن میں ان کے فعل کا تذکرہ ہوا ہے۔گناہ کی بنیاد ڈالنے کی وجہہ سے قیامت تک جتنے قاتلین آئیں گے ان کا بھی بوجھ اس کے سر ہوگا۔اسی لئے پہلی نظر سے بچنے کی تدبیر کرنی چاہیے۔



حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد گرامی ہے کہ آنکھوں کا زنا دیکھنا ہے،کانوں کا زناسننا ہے،زبان کا زنا بات کرنا ہے،ہاتھ کا زنا پکڑناہے،پاؤں کا زناچلنا ہے، ،دل آرزو اور تمنا کرتا ہے۔
،شرمگاہ اس کی تصدق یا تکذیب کرتی ہے (مشکوۃ جلد صفحہ۳۲)۔


صاحب ِعقل اگر غور کریں تو جاننے گے کہ نظر کھٹک پیدا کرتی ہے کھٹک سوچ کو وجود بخشتی ہے،سوچ شہوت کو ابھارتی ہے اور شہوت ارادہ کوجنم دیتی ہے۔اس سے معلوم ہوا کہ زنا کا ارادہ تب ہوتا ہے ،جب انسان غیر محرم کو دیکھتا ہے ۔اگر دیکھے گا ہی نہیں تو ارادہ بھی نہیں ہوگا۔


پس معلوم ہوا کہ بد نظری زنا کی پہلی سیڑھی ہے ۔مثل مشہور ہےکہ دنیا کا سب سے لمبا سفر ایک قدم اٹھانے سے شروع ہوجاتا ہے ۔اسی طرح زنا کا سفر بد نظری سے شروع ہوتا ہے۔مومن کو چاہیے پہلی سیڑھی ہی چڑھنے سے پرہیز کرے۔


سہل بن سعدی الساعدی نے خبر دی کہ ایک آدمی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے دروازہ کے سوراخ سے اندر جھانکنے لگے ۔ اس وقت آنحصرت کے پاس لوہے کا کنگھا تھا جس سے آپ سر جھاڑ رہے تھے ۔ جب آپ نے دیکھا تو فرمایا کہ اگر مجھے معلوم ہوتا کہ تم میرا انتظار کررہے ہوتو میں اسے تمہارے آنکھ میں چبھو دیتا ۔ پھر آپ نے فرمایا کہ (گھر کے اندر آنے کا) اذن لینے کا حکم دیا گیا ہے وہ اسی لیے تو ہے کہ نظر نہ پڑے (بخاری شریف)۔


حافظ ابن قیم علیہ الرحمہ فرماتے ہیں نگاہ کا تیر پھیکا جائے تو پھیکنے والا پہلے قتل ہوجاتا ہے ۔وجہ یہ ہے کہ نگاہ ڈالنے والا دوسری نگاہ کو اپنے زخم کا مداوا سمجھتا ہے ،حالانکہ وہ زخم کو زیادہ گہرا کرتا ہے۔ حافظ ابن قیم فرماتے ہیں آنکھ بند کرنا آسان ہے مگر بعد تکلیف پر صبر کرنا مشکل ہے ۔


امام غزالی ،اکسیر ہدایت میں فرماتے ہیں شہوت کی آفتوں میں سے ایک عشق ہے ۔ وہ بہت گناہوں کا سبب ہوتا ہے اگر آدمی ابتدا میں احتیاط نہ کرے توہاتھ سے جاتا رہتا ہے اور احتیاط کی صورت یہ ہے کہ آنکھ کو محفوظ رکھے اگر اتفاقاً کسی پر آنکھ پڑ جائے تو اسے دوبار روکنا آسان ہوگا اور آنکھ کو بلا قید چھوڑ دے گا تو پھر اس کا ٹھرنا مشکل ہوجائیگا اس رہ میں نفس چار پایہ کی سی ہے اگر کسی طرف جانے کا قصد کرے تو پہلے ہی اسکی باگ پھیر نا آسان ہوتا ہےاور جب مطلق العنان ہوگیا اورباگ چھوٹ گئی تو دم پکڑ کے کھیچنا دشوار ہوتا ہے تو آنکھ کو محفوظ رکھنا اصل ہے ۔

حضرت داود نے اپنے بیٹے کو نصیحت فرمائی کہ شیر اور ازدہے(بڑا سانپ ) کے پچھے جانا روا ہے مگر عورتوں کے پیچھے ہرگز نہ جانا



سلطان الا انبیا علیہ الصلٰوۃ والثنا فرماتے ہیں کہ نگاہ ابلیس کے تیرون میں سے زہر کا بجھا ہوا ایک تیر ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میں نے اپنی وفات کے بعد اپنی امت میں عورتوں کے مثل کوئی بلا نہیں چھوڑی ہے۔



مسند احمد میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرمی منقول ہے کہ اللہ تعالٰی فرماتا ہے جس نے میرے ڈر کی وجہہ سے بد نظری چھوڑی ،میں اسےایسا ایمان عطا کروں گا ،جس کی حلاوت وہ دل میں محسوس کرے گا ۔



کتنا اعظیم سودا ہےبد نظری کی وقتی اور عارضی لذت کو چھوڑنے پر ایمان کی دائمی حلاوت نصیب ہوتی ہے ۔پس جو شخص غیر محرم سے اپنی نظر بچائے گا اللہ پاک اس کو عبادت و ایمان میں لذت عطا کرے گا دیکھو تو یہ نعمت سب کچھ خرچ کرنے پر بھی نہ خرید سکنے والی دولت ہے ۔


جس قدر شہوت زیادہ غالب ہوگی اسی قدر اس کے خلاف کرنے میں ثواب بھی ان شاءاللہ زیادہ ہوگا ۔

گناہ سے عاجز ہونا بھی سعادت ہے کسی سبب سے عقوبت اور گناہ سے بچتا ہے اگر کوئی شخص حرام پر قادر ہو اور کوئی مانع بھی نہ ہو اور خوف خدا کے واسطے اس سے دست بردار ہوتو اسکا بڑا ثواب ہےاور وہ ان سات آدمیوں میں سے ہے جو قیامت کے دن عرش الٰہی کے سایہ میں ہونگے ۔


حق سبحانہ تعالٰے نے شہوت کو آدمی پر اسواسطے مسلط فرمایا ہے کہ وہ تخم ریزی کرتا رہے اور نسل نہ منقطع ہو جائے۔اور یہ بہشت کی لذت کانمونہ بھی ہو۔


اگر اس شہوات میں افراط ہو تواسے روزہ رکھ رکھ کر توڑنا واجب ہے اور اگر روزے سے نہ ٹوٹے تو نکاح کرلے ۔


رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی چشم مبارک راہ میں کسی خوبصورت عورت پر پڑ گئی آپ گھر آئے اور اپنی بی بی کے ساتھ صبحت کی اور فوراً غسل کرکے باہر نکل آئے اور فرمایا کہ جس کسی کے سامنے عورت آجائے اور شیطان اسکی شہوت لائے وہ اپنے گھر میں جاکر اپنی بیوی سے صحبت کرے کہ جو کچھ تمہاری بیوی پاس ہے وہی غیر عورت کے پاس بھی ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ میں غیور ہوں تو اللہ تعالٰی تو مجھ سے زیادہ غیور ہے غیرت ہی کی وجہہ سے اللہ نے ظاہر اورو باطن فواحش کو حرام کردیا یعنی بد نظری فحش کاموں کا مقدمہ ہے ،جو اس کا ارتکاب کرتا ہے اللہ جل شانہ کو غیرت آتی ہے ،اپنے دربار عالی سے اس کو ملعون کردیتا ہے بد نطری کرنے والوں کو اپنی رحمت سے دور کردیتا ہےبے حیائی ایک ایسی بیماری و بلا ہے جس کی وجہہ سے معاشرہ پستی و زوال کا باعث بنتا ہے ۔


ہر برائی کا انجام برا ہی ہوتا ہےہمارے بزرگ کہتے تھے بد نظری کی وجہہ سےزندگی سےرزق اور وقت کی برکت اٹھا لی جاتی ہے ۔نفس کا شر ہمشہ پریشانی و پشیمانی اور مصیبت و بلا کو لاتا ہے۔
آپ کے دل میں اس سے نفرت ہونا دراصل ایمانی تقاضہ کی نشانی ہے۔ ہمیشہ تصور آخرت ذہین میں جمائے رکھیں ،اللہ مجھے دیکھ رہا ہے کا استحضار رکھیں آپ بے حیائی کے کاموں سے اس طرح سے اجتناب کرسکے گے ۔


صحابہ اکرام و اہل بیت عظام رضوان اللہ کی سیرت اور سلف صالحین کی زندگیوں کا مطالعہ کریں ۔ جو نیک بن کر زندگی گزارنا چاہتے ہیں وہ بد نظری سے بچ کر دنیا اور آخرت میں اللہ تعالٰی کی رحمت کے مستحق ہوں۔ ہم کوشش کرتے رہیں تو انشاء اللہ ،اللہ نیکی کی رہ میں ضرور ہماری مدد فرمائے گا ۔

میرے بلاگ پر تشریف لانے کا بے حد شکریہ۔۔۔






Wednesday, June 20, 2012

ایک یاد ایک تجربہ ایک پیغام



السلام علیکم
:میرے اچھے بھائیوں اور پیاری بہنوں
 
بہت زیادہ کام کے بعد فرصت ہوتی ہے تو اپنےساتھ سستی اداسی  بے چینی اور خیالات کا ہجوم لےآتی ہے ۔

کسی بات پر میری بیٹی مجھ سے فرط محبت سےلپٹ گئی تو مجھی بھی اپنی امی کی یاد بے اختیار آنے لگی تو  آج وہی اپنی ایک پرانی یاد ،ایک تجربہ اور ایک پیغام آپ سب سے شیئر کرنا چاہتی ہوں۔




چونکہ میں پردیس میں رہتی ہوں تو اپنی دل کی باتیں کسی سے شئیر بھی نہیں کر سکتی تو خیال آیا کیوں نا اپنے ویب کے بہنوں بھائیوں سے باتیں کر کے اپنی اس باتونی عادت کو تسکین اور دل کو سکون کیوں نہ پہچایا جائے اور آپ سب  کو بھی شاید میری باتیں محظوظ کرے اور مجھے جاننے میں مدد کرے ۔۔ خیر توپندرہ بیس دن سے بہت مصروفیت تھی
بیٹی کا ایڈمیش اسکول میں کروانا تھا  اس سلسلے میں پہلی مرتبہ ٹکسی سے چار پانچ بار  جانے کا اتفاق ہوا تو میری امی کی ایک بہت پرانی بات یاد آئی ۔  وہ یہ کہ امی کی دوستی چار گھر نہیں چالیس گھر سے زیادہ ہوا گر تی تھی چند گھر کے بعد کی ایک خاتون آئی امی سے مشورے کے لئے ان کی بیوہ بہو جو ان کی ذمہ داری تھی انہیں اچھی نوکری ملی تھی مگر وہ حالات سے ڈر رہی تھی کہ کیاکرے نوکری کروایے تو دوسرے محلہ کےلڑکے اسے چھڑرہے ہیں نہ کرو تو مکان کا ایک حصہ کرایہ پر دیا تھا اس کی آمدنی نہ کافی تھی۔ کرے تو کیا کرے

بس یہ ہی پوچھنے آئے تھے۔ہم تو اندراگاندھی کےاِقتدار کے دور میں ہوش سنبھالےتھے کیسے عورت کو کمزور مان سکتے تھے ہم نے امی سے پہلے چھٹ خالہ سے کہا ، آپ پریشان نہ ہو آج کی عورت کمزور نہیں اس میں ہمت ہے وہ چاہے تو کچھ بھی کرسکتی ہےاسلام میں اتنی سختی بھی نہیں مجبوری میں سب جائز ہے ۔
ہم آئے دن کئی اخبار میں خواتین کی حمایت کے کالم روز پڑھتے پڑھتے ازبر ہو گئے تھے وہ سب بولنا چاہتے تھے مگر امی نے ہمیں بلند آواز سے ’’چپ کرو بی بی تم نے نہ کبھی باہرکی دنیا دیکھی ہے نہ باہر کے لوگوں کو جانتی ہو ،لگی دادی بننے‘‘ کہا۔
ہم چپ رہے مگر دل میں سوچتے رہے کہ باہر جانے سے کیا معلومات ہوتے ہیں ویسے امی بھی سارا دن ہمارےساتھ گھر پر ہی رہتی ہیں ہم تو بھی بچوں کا شمارہ کھلونا ،خواتین کا میگزین بانو ، ادبی ماہنامہ بیسویں صدی اورہما اسلامی ڈائجسٹ ھدیٰ اوردوسری کتابیں نصاب سے ہٹ کر پڑھتے ہیں پھر اخبار روز کا روز پابندی سے بابا کو سناتے ہیں ۔ ہر ملنے آنے والوں سے ہم بھی تو ملتے ہیں یہ اور بات ہے کہ امی کے ڈر سے بات نہیں کرتے مگر سنتے توسب ہی ہیں۔ ایک طرح سےہم خود کو امی سے زیادہ واقف کار محسوس کررہےتھے ۔ یہ دنیا کے معلومات تو گھر پربیٹھے بیٹھے ہمیں امی سے زیادہ لگ جاتےتھے امی خود بھی تو ہمیشہ ہم جیسا گھر پر ہوتی ہیں پھر کیوں کر ہم میں کمی ہے ۔ یہ بات سمجھ ہی نہیں آئی۔
امی سے بعد میں کہا بھی تو امی بولی میری بھولی شہزادی بڑے ہوجاو سب سمجھ آئے گا ۔ہم تو خود کو بہت بڑے ہی سمجھتے تھے مگراس بات نے بھی امی کی ہمارےدل کو عجیب لگی مگر امی ناراض نہ ہو سوچ کر چپ رہے

 
پھر امی نے محلہ کے ایک رکشہ ران لڑکا جو اپنی اماں کے گھر کے خرچہ کے ساتھ کالج کی پڑھئی بھی کرتا تھا اس زمانے میں غریب بچے چار کلاس بھی پڑھلے تو بڑھی بات سمجھی جاتی تھی ۔اس کو بلا کر خالہ کی بہو کو لانے لےجانے کی راتب لگوادی امی کا یہ فیصلہ بھی ہمیں لگا تھا کہ امی اس رکشہ ران کی خیر خواہ ہیں ہم مانگنے پرتو پیسے بڑی مشکل سے دیتی ہیں اور ُان کو سواری کرنے کے بعد بنا مانگ بقایا رکھنے کو کہتی تھی مجھے لگا تھا خالہ سے اس رکشہ والے کو پیسے دیلانا چاہتی ہیں۔


پھر امی نے ان کے جانے کے بعد بہت سمجھا یا منایا بڑوں کے بیچ میں نہیں بولنا چاہیے اور اپنے کئے فیصلہ پر خوش بھی تھی میں امی کو بہت چاہتی تھی ۔اس لئے دل میں کچھ نہ رکھتے ان کی خوشی ہمیں سب سے عزیز تھی اور جب کی بات ہمیں آج اتنے برسوں بعد اپنی بیٹی اور جوان بیٹے کو ساتھ لے کر باہر نکلے تو پتہ چلا ۔امی کے گھر کی پابندیوں سے نکل کر میاں کی قید میں آئے تھےکبھی بنا میاں کے کہی گئی ہی نہیں تھے۔ اللہ نے ہمیشہ الحمدللہ سرپرستوں کے حصار میں رکھا۔۔۔۔
بیٹے نےٹکسی بلائی پیسوں کی بات کی راستہ بتایا میرے لئے پیچھے کا ڈور کھولا اور خود سامنے ٹکسی میں بیٹھ گیا ۔ڈرئیور نےاب سامنے کے آئینہ سے پیچھے دیکھنے لگا میں نے محسوس کیا تو سہم کر ڈور کی طرف سرکی اور وہ آئینہ پھر درست کرنے لگا میں نےاور بھی سمٹ کر ڈور سے لگ گئی پھر بیٹے سے دوبارا سعودی ڈرئیوار کو لینے سےمنا کردیا ۔ واپسی ٹھیک رہی دوسرے دن بھی جاتے وقت بھلا مانس ہی بندہ تھا پاکستانی، مگرواپسی میں تیسری بار بھی پاکستانی رہنے کی وجہہ سے زیادہ پیسے مانگنے کے باوجود ہاں کہدی مگر وہ بھی پہلے سعودی ڈرائیوار جیسا ہی نکلا میں سارا وقت ڈور سے باہر دیکھتی ڈور سے چپکے رہی۔
مجھے امی کا وہ بھولا ہوا وہ قصّہ یاد آنے لگا اوراب پتہ چلا کہ خواتین گھر میں کتنی محفوظ ہوتی ہیں۔اللہ پاک مرد کو کفیل بنا کرہمیں گھر پر بیٹھا کر عزت دی ہےہم پر احسان کیاہے۔

 
مجبوری میں باہر جانے والی ان بہنوں کے لئےدل سے دعا نکلی کہ وہ کیسے ان نظروں کا سامنا کرتی ہوں گی اللہ ان کی حفاظت کرے۔


اللہ پاک خاتونِ جنتؓ کی حیا کا ایک حصّہ آجائے ہم میں تاکہ کامیاب خاتون بن سکے ہماری امی کہتی تھی کہ خاتون جنت شرم و حیا کا پیکر تھی جس کا اندازہ آپ کی وصیت سے لگایا جاسکتا ہے جس میں انہوں نے رات کے وقت جنازہ نکالنے اور اپنے جنازہ پر کھجور کی ٹھہنیاں رکھ کر چادر اڑھانے کی تلقین کی تھیں ۔ آپ کے جسم مبارک غیرمحرم پر وصال کے بعد بھی ظاہر نہیں ہونے کے لئے ۔
میں برقعہ پہنے رہنے پر یہ حال ہےتو خیال آیا کہ جو خواتین دفاتر اور کالج کو جارہی ہیں بعض کالج و دفتربرقعہ پہن کرجاتی ہیں،پھر پہچنے کے بعداتار دیتی ہیں اور بعض تو بغیر برقعہ گھوم رہی ہوتی ہیں ان پر کیا بیتی ہوگی۔
میں نے ایک بے پردہ بہن سے پوچھا کے تمہیں برا نہیں لگتا بے چینی نہیں ہوتی تو وہ کہنے لگی پہلے بے چینی بھی ہوتی تھی اور برا بھی لگتا تھا پر اب تو عادت ہوگئی میں نے حیرت سے عادت بھی ہوتی ہے کیا ؟ سوال کیا تو کہنے لگی کہ دیکھ کر کیا کرلے گا گناہ تو اسے لگے گا میرا دل تو صاف ہے۔ اس اچھی سوچ کی اڑ میں یوں ہم شرم و حیا کا جنازہ نکل رہی ہیں ۔


ایسا نہیں ہے ہر دو کو احتیاط کرنی چاہیے اللہ کا خوف دل میں رکھے ۔آج کے دن دل میں خود سے عہد کرے کہ ہم اپنی ماں کا نام اونچا کریگے ان کی طرح ہر عورت کی عزت و قدر دل سے کریگے ۔ ہم خود کو برائی سے بچانے کی کوشش کرینگے یہ ہر بیٹا بیٹی دونوں ہی سوچ لیے ۔


قرآن میں فرمانے الہیٰ ہے ۔۔۔۔۔
اےحبیب صلی اللہ علیہ و سلم ایمان والے مردوں سے فرمادیجئے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور شرمگاہوں کی حفاظت کریں(سورہ نور۔۳۰)۔ اور پھر خواتین کے لئے علیدہ ارشاد فرمایا ۔ اےحبیب صلی اللہ علیہ و سلم ایمان والی عورتوں سے فرمادیجئے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اورشرمگاہوں کی حفاظت کریں۔۔

پس ہم پر لازم ہے کہ اللہ اس کے رسول کی اطاعت کریں نہیں تو ارتکاب جرم کرنے پر اللہ پاک بندے کی باغیانہ جسارت پر سزا دیتا ہے
برائیوں کے راستے بہت لمبے ہوتے ہیں اگر ایک بار ان راستوں پر قدم اٹھ گئے تو واپسی کے راستے کھو جاتے ہیں۔۔۔۔۔جب نیکیاں راہوں کو روشن کرتی ہیں تو کوئی نیک عمل رائیگاں نہیں جاتا۔ نیکی کے راستے کشادہ ہوتے ہیں نہیں تو دیگر صورت میں ارتکابِ جرم کا احساس تک مفقود ہوجاتا ہے ایسا ہونے سے پہلے خود کو اللہ کے احکام کے پابندی کرنے کی کوشش ہم کو کرنی چاہیے۔ رسول کی اطاعت کے لئے تیاررہیے اور دین کی رہ پر گامزان ہوجانا ہے ہمیں ۔یہ چند ساعتوں کی لذت سے نظرپھیر کر آخرت کی ابدی لذت اور ایمان کی حلاوت اور توفیق عطا کرے اللہ پاک ہمیں۔ اللہ ہم خواتین کو پردہ کرنے اورمرد و عورتوں کو بد نظری سے بچاتا رکھے ۔آمین     
میرا یہ پیغام ہے ہر مسلمان فرد کے واسطے۔۔۔

بہت بہت شکریہ بلاگ پر تشریف لانے کے لئے۔

Monday, June 11, 2012

ایک شخصیّت ۔۔ ایم ایف حسین


السلام علیکم
  یم ایف حسین کے انتقال پر لکھا ایک پرانا مصمون اپنے دوسرے بلاگ پر پوسٹ کیا تھا جو دس جون کے آنے پر پھر یاد آنے لگا جو ان کی یاد میں یہاں بھی آپ سب کے ساتھ  شیئر کر رہی ہوں

بڑی مشکل سے ہوتا ہے
چمن میں دیدہ ور پیدا

ایم ایف حسین کا پورا نام مقبول فدا حسین تھاان کا اپنا نام مقبول تھا لیکن وہ اپنے والد فدا حسین کے نام کو اپنے نام سے منسلک رکھتے تھےریاست مہارشٹرا میں۱۹۱۵میں ایک غریب خاندان میں پیدا ہوئےجب یہ دو سال کے تھے ان کی ماں چل بسی۔ یہ اپنا ابتدائی دور۱۹۳۰میں ہندی فلموں کے پوسٹر بنانےوالے معمولی پینٹر کی طور سےشروع کیا۔ان کی لگن ، تخلیقی صلاحیتوں اور مہارت کی وجہہ سے وہ بہت جلد عالمی شہرت کو پالیے۔ آرٹ سے بے پناہ رغبت نے ان کے فن کو چار چاند لگائے اور وہ بلندیوں کو چھوتے ہی چلے گئے یہاں تک کہ وہ دنیا کے عظیم اور مہنگے فن کاروں میں شمار ہونے لگے ۔انگریزی میکزین فوربس نے انہیں بندوستان کا پکاسوِ کے خطاب سے نوازا تھا ۔ ۲۰۰۸ میں ان کی پینٹینگ نے سب سے مہنگی قیمت حاصل کرنے کا عالمی ریکارڈ قائم کیا تھا۔ یہ پینٹنگ ۲۰لاکھ امریکی ڈالر میں فروخت ہوئی تھی۔ اس عظیم فن کار پر کچھ تنظیموں نے مذہبی جذبات سے کھلواڑ کا الزام عائد کر کے ان پر مختلف عدالتوں میں سینکڑوں مقدمات قائم کردیے  ممبئی میں ان کے مکان پر حملہ کرکےتہس نہس کردیا گیا کروڑوں
روپوں کے قیمتی شہ پارےبرباد کردیےگئے کسی فن کار کے لئےاس سے دردناک منظر کیا ہوسکتا ہے کہ خونِ جگر سے بنائی ہوئی پنٹنگز کو  پیروں تلے روندڈالیں۔ شاید اسی واقعہ نے حسین کا دل ٹوڑدیا۔ وہ اپنی جڑیں اور تہذیب و تمدن سے محبت کے باوجود ۔۲۰۰۷ سے وہ خود ساختہ جلا وطنی اختیارکئے ہوے تھے۔افسوس جس نے فن مصوری میں ملک کا نام روشن کیا اسی کی ناقدری کی گئی۔ ممبئ حیدرآباد کے بعد دبئی کے ڈیرہ علاقے میں واقع امارات میں نہایت وسیع اسٹوڈیوبنایا تھا یہی ان کی آخری یاد گار ہےگذشتہ سال فروری میں حسین نے قطر کی شہریت قبول کرکے اپنا ہندوستانی پاسپورٹ واپس کردیا تھا۔

مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض چکائے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے

ان کو حیدرآباد شہر سے گہرا جذباتی لگاو تھا۔ یوں بھی وہ حیدرآباد کے داماد تھےاکثر جاننے والوں نے انہیں کئی بار ننگے پاوں چل کر ایک عام ریستوران میں چائے پیتے اردو اخبار پڑھتے دیکھا ہے۔ وہ اپنی عظمتوں کو حاصل کرنے کے باوجود زمین سے وابستہ رہے۔ وہ بے لوث سادہ دل بے حد مخلص سرتاپا منکسرالمزاج مگر حوصلہ مند اور خوددار فنکارتھےان جیسے عظیم فنکار کی شخصیت کو نہ تو لفظوں میں جکڑا جاسکتا ہے اور نہ رنگوں میں قید کیا جاسکتاہے
بالآخر ہندوستان کے مایہ نازسپوت ۹ جون کو لندن میں شدیدہارٹ اٹیک سے انتقال فرماگئے۔اپنے پیچھے چار فرزدان اور دو دحتران چھوڑگئےان افراد نے حکومتِ ہندکی اس پیشکش کو مسترد کردیا کہ نامور مصور کے جسدخاکی کو بذریعہ طیارہ ہند منتقل کرکےیہاں انھیں مکمل عزاز کے ساتھ دفنایا جائے۔ حسین کے فرزندوں نے بتایا کی ان کی آخری خواہش یہی تھی کہ جہاں انتقال ہوجائے وہیں انھیں سپرد لحد کیا جائے۔ فن کار کی موت کبھی بھی واقعی ہو کہی بھی ہو، جب تک اسکا فن پارے رہیگے وہ بھی زندہ رہتا ہے۔عالمی فنکار سارے عالم ہی کا اثاثہ ہوتا ہے۔

دوگز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آخر آنکھیں بند ہی کرلیں

آزادی سے آسمان میں اڑنے والا ایک پرند خیال کا
آخر زخمی ہوکر سرحد پار مرا
جس کو رنگوں کی دنیا نےپالاتھا
ُاس کو رنگوں کی دنیا نے ماردیا
ُاس کو کتنا شوق۔ ۔ ۔ ۔
سلگتی راہ گذرپر سچ کی پیدل چلنے کا۔ ننگے پاوں
شوق ُسے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
صاف صاف سے کنولیس پر
زخمی دلوں کےزخمی منظر خونِ جگر سے رنگنےکا
جیسے دستِ غیب سےٹپکے سچ کا رنگ
شوقِ فداہو جانے کا
شوق حسینی کیلانے کا
اور قبول بارگاہ ہوجانے کا
رنگوں سےمایوس نہیں تھا
بکھرے منظر دیکھ کے لیکن خوں روتاتھا
اپنے تخیل کے رنگوں سے عالم رنگیں کرجاتا
دن کے اجالوں میں دکھلا تا داغ کئی
رات کو اپنی سوچ کے چاند عطا کرتا
شکلیں دیتا دِل میں نہاں اک اک حسرت کو
اور انسانی شکل میں پنہاں حیواں کو
عریاں کرتا
رنگوں کو بکھرا دیتا
کیسے دیکھتا منظر خونیں
آخر آنکھیں بند ہی کرلیں

میرافضل شولا پور

بشکریہ اعتماد (اس نثری نظم کے لئے)۔

بہت بہت شکریہ آپ کا میرے بلاگ پر آنے کے لئے۔

Sunday, June 10, 2012

دکن کی شان میں مختلف شعراء کا کلام (دوسری قسط)


السلام علیکم
میرے اچھے بھائیوں اور پیاری بہنوں
ڈاکٹر محمد عبدالحی کی مرتبہ کتاب مملکت ٰاصفیہ سے اقتباسات کی دوسری قسط پیش خدمت ہے ۔ اس منظوم نزرانہ کو جناب حسام الدین خاں غوری نے مرتب فرمایا ہے۔

حیدرآباد فیض بنیاد

مشہور مرثیہ گو شاعر میرانیس ۱۸۷۱عسوی میں حیدرآباد دکن آئے ۔ مجلس میںذیل کی دو رباعیاں فی البدیہی پڑھیں۔۔

اللہ و رسول کی امداد رہے

سرسبز یہ شہر فیض بنیاد رہے


نواب ایسا رئیس اعظم ایسے

یا رب آباد حیدرآباد رہے


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

موجود ہے جو کچھ جسے منظور ہے یاں

علم و عمل و عطا کا دستور ہے یاں
مختار الملک اور بند گانِ عالی

رحمت رحمت یہ نور پُرنور ہے یاں



ملجاہ و ما وائےجہاں

مولانا خواجہ الطاف حسین حالی کی کلیات میں دکن کی ادبی سرپرستی داد و ہش کے بارے میں بھر پور مخلصانہ حقیقت افروز اشعار ملتے ہیں ۔ حالی نے صحیح طور پر دکن کو دیکھا

اسماں جاہ ہے تقویت ملک دکن

اور ہے ملک دکن ملجاہ و ما وائے جہاں


یہ مقولہ ہند میں مدت سے ہے ضرب المثل

جو کہ جا پہچا دکن میں بس وہیں کا ہو رہا



پارسی ، ہندو ، مسلماں یا مسحی ہو کوئی

ہے دکن کو ہر کوئی اپنی ولایت جانتا



شمع فروزند

۔۔۱۸۹۱عسوی میں علامہ شبلی نعمانی حیدرآباد دکن آئے ۔ خوب قدر و منزلت ہوئی ۔ آپ نے حیدرآباد پر بہت سی نظمیں اور قصیدے فارسی زبان میں لکھے ، چند شعر ملاحظہ ہوں ۔۔



اے دکن !اے کہ جہاں را سر و سودا باتسُت

اے کہ مجموعہ ، صد یاس و تمنا باتسُت


اے کہ صد نقش زہر پردہ بر انگیختہ

اے کہ صد جلوہ گری بائے تماشا باتسُت


اے بزرگاں گراں پایہ وارکانِ دکن

اے کہ بر شمع فروزندہ ایوانِِ دکن


بر سرِ موئے مَن، امروز زبانے شدہ است

بہ سپاس آوری منتِ اعیانِ دکن



شہر حیدرآباد دکن

حضرت داغ دہلوی جو شہر یارر دلن میر محبوب علیخان آصف سادس کے استاد تھے ۔ حیدرآبد دن آکر حیدرآباد ہی کے ہو رہے ۔ شہر حیدرآباد ، وہاں کی آب و ہوا ،ماحول ،پھل پھول اور دیگر امتیازی خصوصیات پر سینکڑوں اشعار لکھے ،ان میں سے چند ملاحظہ فرمائیے ۔۔

دلی میں پھول والوں کی ہے ایک سیر داغ

بلدے میں ہم نے دیکھ لی سارے جہان کی سیر


نر گسِ باغ کو بھی ہم نے نہ دیکھا بیمار

حیدرآباد کی کیا آب و ہوا اچھی ہے


شہر ہے گلزایوں خلق ہت گلرنگ یوں

جیسے چمن در چمن باغ میں پھولے گلاب


بلدے کا اِک اِک مکاں اس میں دارالاماں

شہر کی ایک ایک گلی جادہ راہ ِ صواب


حیدرآباد ہے جنت سے سِوا دار الامن

کھا کے گندم نہ یہاں سے کبھی آدم نکلے


کھل جائیں آنکھیں دیکھتے ہی اس چمن کے پھول

رضواں کو ہم دکھائیں جو باغِ دکن کے بھول


نہیں حیدرآباد پیرس سے کچھ کم

یہاں بھی سجے ہیں مکاں کیسے کیسے


نہ گرمی ، نہ کہیں حد سے سردی

حیدرآباد میں ہے فصل کا ایسا عالم


حیدرآباد رہے تابہ قیامت قائم

یہی اب داغ مسلمانوں کی اِک بستی ہے



خطہء جنّت فضا

۱۹۱۰عسوی میں علامہ محمد اقبال حیدرآباد دکن آئے ۔ اس سفر کی یاد گار میں دو معرکتہ الآراء طویل نظمیں جو رسالہ ،خزن لا ہور میں شائع ہوئیں ۔ یہاں ان کی ایک نظم سے چند منتخب اشعار درج کئے جارہے ہیں ۔

کچھ تو کہہ ہم سے بھی اس وارفتگی کا ماجرا

لے گیا تجھ کو کہاں تیرا دلِ بے اختیار


کس تجلی گاہ نےکھیجا تیرا دامان ِ دل

تیری مشتِ خاک نے کس دیس میں پایا قرار


کیا کہوں اس بوستان غیرت فردوس کی

جس کے پھولوں میں ہوا اے ہمنوا میرا گزار


جس کے ذرّے مہر عالم تاب کو سامانِ نور

جس کی طور افزوزیوں پر دیدہ موسٰی نثار


جس کے بلبل عندلیب عقل گل کے ہمسفر

جس کے غنچوں کے لئے رخسار حورآئینہ دار


خطہ جنت فضا جس کی ہے دامن گیردل

عظمتِ دیرینہ ہندوستان کی یادگار


جس نے اسم اعظم محبوب کی تاثیر سے

وسعت عالم میں پایا صورتِ گردوں وقار


نور کے ذرّوں سے قدرت نے بنا یا یہ زمیں

آئینہ بن کے دکن کی خاک اگر پائے فشار



دیار محترم

جن کی شاعری حیدرآباد دکن کے علمی ماحول میں پروان چڑھی اور جوان ہوئی ۔ جب سقوط حیدرآباددکن کے بعد ۱۹۵۵عسوی مین اپنے وطن ثانی کولوٹے تو ان کےقلب میں یہاں کے ذرہ ذرہ سے بے پناہ محبت تھی جس تھی جس کا اظہار ایک طویل نظم میں کیا ۔ چند اشعار پیش ہیں ۔

حیدرآباد ،اےنگارگل بداماں السلام

السلام اے قصّہ ماضی کے عنوان السلام


تونے کی تھی روشنی میری اندھیری رات میں

مہرو ماہ خوابیدہ ہیں اب بھی ترے ذرّات میں


میرےقصرِزندگی پر اے دیارِ محترم

تونے ہی ذلفیں سنواری تھیں میرے افکار کی


تو ہی میرے روبرو اِک آن سے پر تول کر

مسکرایا تھا محبت کا دریچہ کھول کر


ولولوں میں تیرے نغموں کی روانی آئی تھی

تیرے باغوں میں ہوا کھا کر جوانی آئی تھی


اے دکن تیری زمیں کی رنگ رلیاں دل میں ہیں

پہلے جو زیرِقدم تھیں اب وہ گلیاں دلمیں ہیں


اسلام اے بزم یاراں اے دیارِ دوستاں

آج اٹھارہ برس کے بعد آیا ہوں یہاں


وہی ہے رخشِ وقت کو گردوں نے ایک مدتمیں ایڑ

کل جوان رخصت ہوا تھا آج پلٹا ہوں ادھیڑ


لیکن اے میرے چمن میری جوانی کے چمن

اے دکن نسرین دکن سنبل دکن سوسن دکن


تجھ میں غلطاں ہے مرے دل کی کہانی آج بھی

پُر فشاں تجھ میں ہے میری نوجوانی آج بھی


اب بھی عثمان ساگر کی ہواوں میں خراش

اب بھی آتی پہاڑوں سے صدائے جوش جوش


اس فضا میں ہے قیامت کا ترنم آج بھی

ثبت ہے ایک دشمن جان کا تبسم آج بھی


  
ولولے ناچے تھے جو گھنگھرو پہن کر پاوں میں

آج رقصاں ہے تیری بدلیوں کی چھاوں میں




آو سینے سے لگ جاو یارانِ دکن

پیشتر اس کے کہ روئے جوش کو ڈھاپنے کفن




شہرِ گوہریں حیدرآباد دکن

محترمہ سروجنی نائیڈو کانگریس کی ممتاز اور ہر دلعزیز رہنما کی انگریزی نظم 
کا ترجمہ از حبیب اللہ رشدی۔۔

اَے گل ِرنگین ، عشرت کے مکاں میرے وطن

تو میرے فکر و تخیل کا ہے اَک کانَ عدن


  
میرے دل میں تیرے الفت کا جو ہے طوفان بپا

آہ ہو سکتا ہے نہیں کوئی بھی اس سے آشنا


حُسن وخوبی ہے تِری دِل میں جو فطرت نے بھری

ہاں اسی چشمے سے میری زندگی پیدا ہوئی


کیا یہ میرا جسم پتلا خاک کا تیری نہیں؟

کیا تیری پاکیزہ مٹی سے مری مٹی نہیں؟




زندگی کے نخل نے میرے نہیں پائی ہے کیا

تیرے چشموں کے مصفّٰا آب سے نشو ونما




کیا تیرے صحرا میں سحر آگیں پہاڑی نے کبھی

اپنی فکر انگیز رونق سے مجھے لوری نہ دی


آہ ! اب میں گرچہ اک تکلیف دہ غربت میں ہوں

اور آوارہ بہت تیرے غم ِفرقت میں ہوں


پھربھی کیا میرے دل میں محزون کا تو معبد نہیں

جستجو تیرے لئے کیا روح کا مقصد نہیں !۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
بلبلِ ہند کے اس کلام کے بعد اس قسط کو یہاں ختم کرتی ہوں ان شاءاللہ یہ سلسلہ جاری ہے ۔امید کہ آپ لوگ ضرور اسے پڑھکر محظوظ ہوئے ہونگے ۔ میرے بلاگ پر آنے کے لئے شکریہ ۔ خوش رہیے سدا۔۔۔۔۔۔۔۔۔



Tuesday, June 05, 2012

دکن کی شان میں مختلف شعراء کا کلام



السلام علیکم

میرے اچھے بھائیوں اور پیاری بہنوں :م



ڈاکٹر محمد عبدالحی کی مرتبہ کتاب  مملکت ٰا صفیہ  سے اقتباسات  پیش ہیں  



دکن کے قدیم ترین شعراء سے لیکر سقوط حیدرآباد تک سینکڑوں شعراء مملکت آصفیہ کی ستا ئش لکھی ہے ۔ یہاں صرف چند منتخب شعراء کا نز رانہ عقیدت پیش کیا جارہا ہے ۔ اس منظوم نزرانہ کو جناب حسام الدین خاں غوری نے مرتب فرمایا ہے جس کے لئے ہم موضوف کے مشکور ہیں ۔۔۔


مناجات




اردو کے پہلے صاحب دیوان شاعر شہر حیدرآباد دکن کے بانی محمد قلی قطب شاہ معانی نے لکھی



مناجات میری تو سن یا سمیع
منجے خوش تو رکھ رات دن یا سمیع




میرا شہرلوگاں سوں معمور کر
رکھا جوں تو دریا میں سِن یاسمیع



مرادات کا جم ترنگ دے قطب
اے سامرنت دے عنین یا سمیع



دکن ہے نگینہ


محمد قلی قطب شاہ کے عہد کا شاعر ملک الشعراء ملا وجہی سب رس اور قطب مشتری کا مصنف حیدرآباد دکن کی تعریف میں لکھتا ہے ۔۔۔


د کھن سا نہیں ٹھار سنسار میں
بنج فاضلاں کا ہے اس ٹھار میں


دکھن ملک کھن دھن عجب ساج ہے
کہ سب ملک سر ہور دکن تاج ہے


دکھن ہے نگینہ انگوٹھی ہے جگ
انگوٹھی کو حرمت نگینہ ہی لگ


دکھن ملک بھوتیج فاصلہ ہے
تلنگانہ اس کا خلاصہ ہے


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مقام ۔ وجود ۔ سجی ۔ اور ۔ بہت ہی



دنیا میں پیارا


طبعی ۔ابوالحسن شاہ کے عہد کا شاعر" بہرام دگل اندام "کا منصف حیدرآباد دکن کی ستاءش کرتا ہے ۔۔

جو کوئی یاد کرتا نئیں اپنا وطن
او مردہ ہے پیرن ہے اس کا کفن


اگر کوئی غربت میں شاہی کرے
اگر مال ہور ملک لاکھاں دھرے


اپس کوں دیکھے کھول کر جوں دیکھاں
دیوے خاک تن کا وطن کا نشاں


وطن سب کو دنیا میں پیارا رہے
سفر ہے سو حوں بار باراں رہے


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نہیں ۔ پیرہن ۔ اور ۔خود کو


حیدرآباد دکن


غالب جنگ آزادی کے بعد حیدرآباد دکن آنا چاہتے تھے انہوں نے اپنے ممدوح ناصر الدولہ کی شان میں ایک قصیدہ لکھ کر روانہ کیا تھا۔تفصیلات "غالب اور حیدرآباد" از ضیاالدین احمد شکیب میں ملاحظہ فرمائیے۔۔



حیدرآباد دکن روضئہ رضواں شدہ است
ساز و برگ طرب وعیش فراواں شدہ است


حیدرآباد بہت دور ہے ،اس ملک کے لوگ
اُس طرف کو نہیں جاتے ہیں جو جانتے ہیں تو کم




ہند میں ہیں اہل تسنّن کی ہیں دو سلطنتی
حیدرآباد دکن رشک گلستان ارم


میرے بلاگ پر تشریف لانے کا شکریہ ان شاءاللہ اس کی دوسری قسط کے ساتھ حاضر ہوں گی۔۔۔۔۔۔۔۔



ایک منتخب کتاب




السلام علیکم
میرے اچھے بھائیوں اور پیاری بہنوں :


اکثر دیکھا جاتا ہے کہ لوگ اپنے ملک سے پردیس جاتے ہیں تو آتے وقت کپڑے اور دوسری ضروری اشیاء لے آتے ہیں مگرمیں اپنے لئے کچھ خرید لاتی ہوں تو وہ کتابیں ہوتی ہیں مطالعہ کے بعد بھی میں سارا سال ورق گردانی کرتی رہتی ہوں ۔ جب پچھلے دنوں وطن گئی تو ایک عمدہ کتابوں کا سیٹ ملا جس کی مجھے بہت عرصہ سے جستجو تھی ۔ ایسا لگا جیسے ایک بنا کہے دلی تمنا پوری ہو گئی ہو ۔ بہت عرصہ سے اردہ تھا کہ اس کی کچھ باتیں آپ سب سے بھی شیئر کرتی رہوں مگر کاہلی کبھی تو مصروفیت کبھی آڑے آتی رہی ۔

ہر ایک کو اپنا وطن جان سے پیارا ہوتا ہے اور وطن میں اس کا شہر تو سب سے عزیز ہوتا ہے۔ یہ محبت فطری ہوتی ہے شاید مجھے بھی اپنے شہر حیدرآباد دکن سے اس ہی لئے انس قدرتی ہے ۔

ایک روزمجھے بک اسٹورپر مملکت ٰٰٰا صفیہ نامی کتاب نظر آئی جس میں شہرِ حیدرآباد کے بارے میں ساڑھے پانچ سو صفات کی دو جلدیں دیکھی تو دیکھتی ہی رہ گئی ۔ جب اس کے مرتب کے بارے میں پڑھا تو اور بھی حیرت ہوئی ان کا وطن ثانی پاکستان ہے۔۔

آج بھی ایسے لوگ دنیا میں ہیں جوچھوٹ جانے کے بعد بھی اپنے پرانے وطن کے لئے اتنی محنت کرتے ہیں ۔اسی کتاب میں ُمرتب ڈاکٹر محمد عبدالحی صاحب یہ کتاب کے مکمل کرنے کے بعد کہتے ہیں "چونکہ نہ خطاب کی پروا ہے اور نہ عتاب کا ڈر جو بھی ہوسکا میں اس سے مطمئن اور مسرور ہوں ۔ نام نہیں کام پیشِ نظر تھا"۔۔۔۔آگے کہتے ہیں ۔ جب ایک دوست نے حیرت سےآپ سے پوچھا ۔ِاس کتاب کی اشاعت سے تمہارا مقصد کیا ہے "؟ جواباً عرض کیا کہ زندگی کو سنوارنے کا ایک اسلوب ، ماضی سے سبق لینا ،حال کا جائزہ لینا اور مستقبل کے لئے صحیح راہ متعین کرنا ۔ ان سب کے علاوہ حق نمک بھی تو کوئی چیز ہوتی ہے۔۔۔۔۔


آفریں صد آفریں ۔۔۔ آپ بھی مطالعہ کے بعد یہ ہی کہیے گا، مجھے یقین ہے ۔ تعریف کرنی تو بہت ہے اس کتاب کی تیاری میں شامل سارے حضرات کی مگر کیا کریں ان کے لائق تعریفی الفاظ نہیں مل رہے ہیں اس لئے قلم رک جارہا ہے۔ اللہ جزائے خیر دے انہیں۔۔۔۔۔۔۔









بہت شکریہ میرے بلاگ پر آنے کا ۔۔۔۔ان شاءاللہ اس کتاب کے اقتباسات   بھی پیش کرنے کی کوشش کرونگی۔

Monday, June 04, 2012

نادر نمونہ


آج میں آپ سب کے ساتھ میری بیش بہا پونجی میں سےایک میرے بابا کے ہاتھ سے لکھا نمونہ لائی ہوں ۔ یہ بلاک میں لکھا ہے مگر ٹھیک سے نظر نہیں آرہا تھا تو میں نے گرین کردیا۔ جیسے کے آپ لوگ جانتے ہیں میں پردیسن ہوں تو زیادہ زادِراہ نہیں لاسکتی تھی تو قسمت سے میرے پاس لے دیے کر یہ ایک ہی رہ گیا ہے ۔




میرے بابا بہت ہی اچھے خوش نویس تھے۔آیتِ قرآنی اسماِ باری تعالٰی اسماِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اصحابِ رسول اور اہلِ بیت کے نام لاتعداد تحریر کئے۔ جمع کرکے کبھی نہیں رکھے جو بھی پسندیدگی کااظہار کرتے ان کومرحمت کردیتے۔ایک بار گھر آیے مہمان پرایسے ہی مہربانی کی میں نے ان کےجانے کے بعدبابا سے کہاوہ اتنا اچھا تھا آپ مجھے دیتے میں محفوظ رکتی میری طرف کچھ دیر غور سے دیکھے میرے چہرے پر ناراضگی دیکھکر فرمائے " جس کی قسمت کا تھا وہ تو لے جا چکے" جب بابا کی نظر مجھ پر رکی تب مجھے ایمان کا پہلا رکن یاد آیا جس میں اللہ پراسکے رسولوں،آسمانی کتابوں،قیامت اورتقدیر پرایمان لانالازم ہےاور میرے دل نے بے اختیارکہا الخیروالشر بمشیئتہ اللہ(ہر بھلائی اور برائی یعنی تکلیف اللہ کی مشیّت کے مطابق ہے)۔




سب کچھ ہمارے دل کو ملا کیا نہیں ملا
تیری نگاہِ لطف جومسلوک ہوگئی




بابا کے پاس ایک قلم دان تھا جس میں خود کے ہاتھ سے بروا کے قلم مختلف سائز کے تراش خراش کر رکھتے اس میں دوات کی پوتل ،ایک رول کا ڈنڈا جس سے لکیر مارتے اور ہلکے گہرے پنسل ہوتے ان میں سے ترکہ میں خالی قلمدان میرے حصہ میں آیا الحمدللہ ۔ میرے پھوپی زاد بھائی جو اپنے نانا کےسوانح نگار ہیں وہ میرے بابا کے بارے میں اپنا ایک خواب عبداللہ میں بیان کئے ہیں آپکو ان ہی کے الفاظ میں سناتی ہوں
ایک مرتبہ میں نے خواب میں دیکھا کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم مجھے اپنے ساتھ اپنے حجرہ مبارک میں لے گئےہیں ۔ جس میں سفید فرش بچھا ہوا ہے درمیان میں نیچے بیٹھ کر کام کرنے کی میز ہے۔کمرہ کی دیواروں میں قدیم وضع کے محراب بنے ہوئے ہیں۔اورکچھ ظغرےبھی لکڑی کی کھونٹیوں پر آویزاں ہیں ۔ اوپری جانب کے لمبے محراب میں سےکاغذوں کا ایک بنڈل حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے نکالا اور مجھے دیتے ہوئے فرمایا تم اپنا کام کرو اور میز کے پاس تشریف فرما ہوگئے میز کے سیدھے جانب کی طرف میں بھی بیٹھ گیا اور بنڈل کھولنے لگا ۔ اتنے میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے طغروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مجھ سے فرمایا "یہ محمد پاشا کی محنت کا نتیجہ ہے ۔محمد پاشا کا شکریہ"۔




ہم جب کوئی بھی نیک عمل کرتے ہیں اس کا ثواب اللہ تعالی ضرور ہم کو دےگا اللہ کی رضا سے بڑھکر کوئی چیربھی نہیں۔آپ سوچتے ہونگے کوثر بتاتی تو ایک چیز ہے اور سناتی دس۔تو بہت بہت
شکریہ میری یادیں شیئر کریےاتنا وقت دیے بڑی مہربانی آپکی ۔ ان شاءاللہ پھر ملےگئے