Wednesday, October 28, 2015

نعم البدل

محترم بھائیوں اور پیاری بہنوں 

السلام علیکم


وہ دوہزار بارہ کا ایک خوش گوار دن تھا جب وہ مجھے سے بڑی گرم جوشی سے ہاتھ ملایا تھا پھر تو اس نے مجھے اور میں نے اسے ایسا تھاما کہ چھوڑنے کا نام ہی نہ لیا ہر گھڑی سوتے جاگتے ، محفل و برخاست  ، فرصت ہو یا مصروفیت وہ ہر جگہ ہر وقت میرے  ساتھ رہنے لگا ۔ اس کی ایک پل کی غیر موجودگی بھی مجھے بے چین کردتیی

ایک طویل عرصہ کی رفاقت کے بعد ایک دن اس کو تنفسی شکایت ہوگئی ۔ ہم نے اس کے خاص ڈاکٹر کے پاس پہچایا تووہ چھوٹے سے آپریش کے بعد ہمارے گھر واپس آگیا  کچھ دن ٹھیک رہنے کے بعد اسکی پھر سانس گھٹنے لگی ۔ اب تو بار بار اسے طبیب کی ضرورت لا حق ہونے لگی ہم اس کی محبت میں اس کے عادی ہوچکے تھے ۔ ہم سے اس کی یہ حالات بردا شت نہ ہوتی  ۔اس کو ٹھیک کرنے کی ہر جتن کرتے ہر زاویہ سے اسے دیکھتے  پیٹھ سہلاتے دباتے اس کے بند ہوتے آنکھوں کو روشنی سے منور کرنے کی کوشش  کرتے کبھی کامیاب ہوتے اور کبھی وہ ٖغشی میں آنکھیں بند رکھا رہتا ۔۔۔۔۔ آخر پھر ایک ماہ پہلے اس نے ہمیشہ کے لئے آنکھیں موند لیں ۔ انسان سدا سے بے بس رہا ہے ہم بھی مجبور تھے اور مجبور تو صرف آہ و بکا کے بعد چپ ہورہتا ہے ۔ہم بھی چپ رہے اور سب سے بات چیت چھوڑدی بس ضرورت پر ہی منہ کھولتے ۔

 اس کے جانے سے ہمارے دوست عزیز رشتہ دار سب ہی متاثر تھے ہم نے  سب سے بات چیت چھوڑ رکھی تھی گھر والوں کے اصرار پر ہم نے گھر کے ایک ننھے سے دل کو لگانا چاہا مگر وہ تو بہت چھوٹا تھا اس نے بس ہمارا  اتنا غم غلط کیا کہ گھر والوں اور قریب کے لوگوں سےہی میں بات چیت کر نے لگی تھی مگر دنیا سے ابھی کٹ آف ہی تھی ۔ پھر بیٹوں سے میری یہ حالت دیکھی نہ گئی اور کل انہوں نے مجھے اس کا نعم البدل لاکر دیا یعنی گیلکسی ایس 3 کے خراب ہونے پر آئی فون 6 (ایس) دیلادیا ۔ الحمدللہ




Thursday, October 15, 2015

ایک شگفتہ تحریر

   
السلام علیکم

، ون اردو فورم پر ہم رمضان میں  بہت مزہ کیا کرتے تھے ایک دوسرے پر
  خاکے لکھا کرتے خیالی سحری کا حال لکھتے اور افطار و سحری کے پکوان ایک دوسرے کو بتایا کرتے اب ون اردو سائیٹ بند ہوگئی مگر یادیں ابھی بھی دماغ میں محفوظ ہیں وہ سارے ممبرز ابھی بھی یادوں میں دعاوں میں شامل رہتے ہیں آپ سب نے کائنات جی کا لکھا "کوثر بیگ کی سحری " تو پڑھا ہی ہے اب ون اردو  کی ایک اور ممبر اور فیس بک کے ون اردو پیچ کی ایڈمین نے بہت پہلے ایسے ہی  ایک خیالی انٹرویوں میرا اور آمنہ جی کا ملاکر لکھا تھا  آپ سب کے لئے اسے شیئر کررہی ہوں اسےپڑھیں اور محظوظ ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

السلام علیکم ناظرین

آج پھر سے دو عدد نہایت معزز محترم شخصیات کے پول لے کر میں ہوں ثنا بچہ۔۔۔۔۔۔اوہ سوری میں ہوں ایک نہایت مشہور صحافی جو کہ بالکل بھی نہ بکتی ہے نہ جھکتی ہے ہاں پوائنٹس آتے نظر آئیں تو بس اپنے کہے ہوئے میں تھوڑا ردو بدل کر لیتی ہوں ۔۔۔یہ کوئی بے ایمانی تو نہ ہوئی نا۔۔۔

تو جناب آج ہم اس فورم کی دو مشہور اور ذرا بزرگوار ہستیوں کے ساتھ کچھ 
ٹایم گزاریں گے ۔۔
اور آُپ کا وقت بھی گزروائیں گے ۔۔زبردستی


اچھا جی تو ہوا کچھ یوں کہ عمران بھائی کی حالت پڑھ کر لبنی کا بہت دل للچا رہاتھا کہ وہ بھی ہمارے ساتھ ہوتیں تو اس بار کیمرہ مین کی جگہ لبنی یہ فرائض انجام دیں گی ۔۔۔

تو لبنی جو کہ آج کل ذرا کمزور ہو گئی ہے دوسروں کو کھانے پر ڈانٹتے ڈانٹتے ایسی عادت ہوئی کہ خود بھی جب کھانا کھانے بیٹھتی ہے تو اپنے آُپ کو ڈانٹ کر کھانا چھوڑ دیتی ہے بےچاری ۔۔۔

دماغ پر اثر ہو گیا نا
تو جب لبنی جی نے کیمرے کو اٹھانے کی کوشش کی تو اس کے وزن سے نیچے جا گریں ۔۔اور کیمرے کے نیچے سے انہیں ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکالا گیا۔۔ذرا سانس بحال ہوئی تو نعرہ لگا کر اٹھیں کہ ہمت عورتاں مدد خدا
اور کیمرہ اٹھا لیا۔۔

ان کی اتنی بڑی اچیومنٹ پر ہماری پوری ٹیم نے کھڑے ہو کر ایک منٹ تک تالیاں بجائیں ۔۔

ہمارا ارادہ تو تھا کہ پانچ منٹ تک بجوائی جاءیں لیکن لبنی نے کہا کہ اس سے 
پہلے کہ میں دوبارہ مٹی کی سوندھی خوشبو سونگھنے کے لیے زمین بوس ہو جاوں اب چلو۔۔
تو جناب ہم نے اپنی ہر دلعزیز کوثر آپی کے گھر کی راہ لی ۔۔اس بار حیرت انگیز طور پر نہ کسی سے پوچھا اور نہ ہی بھولے کیونکہ ایڈریس یاد تھا۔۔۔

دروازہ کھٹکھٹایا تو ایک پیاری سی لڑکی باہر نکلی ۔۔ہم نے کہا کہ جی ہم کوثر آپی سے ملنے آیے ہیں ۔۔وہ بولیں ۔۔
جی ضرور خوش آمدید اندر آئیے۔۔
ہم ان کے ہمراہ اندر گئے ۔ہمیں بیٹھانے کے بعد وہ خود بھی سامنے والے صوفے پر براجمان ہو گئیں ۔۔
ہم سمجھے شاید ان کو کیمرہ میں آنا ہے اس لیے یہیں بیٹھ گئی ہیں ۔۔
پھر سے پوچھا جی اپنی امی کو بلا دیں ہمیں ان سے ملنا ہے ۔۔۔
جواب آیا۔۔۔
پیاری رفعت اور پیاری کمزور سی لبنی۔۔۔۔۔امی باوا کو نکو بلا سکتے نا وہ تو حیدر آباد میں ہوتے نا۔۔

ہائیں ۔۔ہم حیران پریشان ۔ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے ۔۔۔
کہ کوثر آُپی فورم میں اعلان کیے بغیر ہی چلی گئیں ۔۔
ان کو کہا ۔۔
دیکھیں آُپ کی امی کیسے فورم کے سب بہن بھائیوں کو اپنا کہتی ہیں اور بنا بتائے ہی انڈیا چلی گئیں ۔۔۔(دل میں کہا۔۔۔۔کیسی بے مروت نکلیں ۔۔ہم کون سا ان سے انڈیا سے ساڑھیاں منگوا لیتے ۔۔۔)۔

وہ بولیں ۔۔۔

مذاخاں نکو کرو جی ۔۔۔میں ایچ تو کوثر ہوں ۔۔
اب تو حد ہی ہو گئی ۔۔
لبنی یہ سن کر لڑکھڑائی ۔۔کیمرہ میرے اوپر گرتے گرتے بچا،،فورا سے لبنی کو سہارا دلایا اور زمین کی طرف دکھایا۔۔کہ لبنی یہاں مٹی کی سوندھی خوشبو کی کارپٹ بچھا ہے سیدھی کھڑی رہو۔۔براداشت کرو یہ صدمہ۔۔۔

ہم نے ناگواری سے کہا۔۔
دیکھیں آُپ کا ہمارا کوئی مذاق نہیں ہے کوثر آپی کو بلائیں ۔۔

بولیں ۔۔
اجی دھوکہ کھا گئے نا آُپ لوگاں بھی ۔۔سب یہ ایچ کرتے۔۔فورم پر اپنے آپ کو بڑا بتائی اس لیے کہ سب میری بات سنیں اور میری عزت کریں ۔۔ویسے تو ابھی تو میں جوان ہوں ۔۔۔۔
اوہ اچھا ۔۔۔۔۔۔۔۔میں نے ایک گہری سانس لی ۔۔
لیکن آپ تو فورم پر کہتی ہیں میرے بچے بڑے بڑے ہیں پوتے پوتیاں ہیں تو یہ سب کیسے ۔۔۔؟؟

بولیں ۔۔
پیاری رفعت ۔۔
دیکھو نا بہنا کیا بڑے بڑے بچوں کے اماں باوا بڈھے ہو جاتے ۔۔۔
لیکن اب مجھے خطرہ ہو رہا ہے ۔۔سب مجھے زیادہ ایچ بڑی اماں بناتے۔۔مجھے غصہ بھی آتا ہے لیکن کیا کروں ۔۔اب سوچ رہی ہوں میں بھی ثمرین کی طرح دھماکہ کر کے سب کو سچ سچ کی اپنی عمر بتا ایچ دوں ۔۔

ہم نے انہیں دھماکے سے روکا کہ ہمارے جانے کے بعد کیجیے گا ۔۔
کوثر آپی بولیں ۔۔
پیاری رفعت اور پیاری لبنی۔۔۔آپ ایک منٹ ادر ایچ بیٹھو میں آتی ہوں ۔۔
ان کے جانے کے بعد پیچھے مڑ کر دیکھا تو ایک صاحبہ اخبارات کا ڈھیر اپنے سامنے رکھے چشمہ ناک پر ٹکایے ہوئے نہایت تیزی سے کچھ لکھتی جا رہی ہیں ۔۔

پاس جا کر دیکھا تو وہ ہم سب کی استانی جی ام فوزان تھیں۔۔ہم خوش ہو گئے کہ ایک ٹکٹ میں دو مزے ۔۔
جھٹ ان کے پاس جا کر سلام مارا۔۔
نہایت غصے سے سر اٹھایا
سلام کا جواب دیا۔چشمہ درست کیا اور فرمایا۔۔
بس اسی لیے تو کہتی ہوں اب بہت ہو چکا اس قوم کو انقلاب کی ضرورت ہے ۔۔ان کی سوچ میں ارتقا ہی نہیں ہے ۔۔کوئی ادب لحاظ کچھ نہیں ۔۔استاد کی عزت تو اب ختم ہو گئی بالکل ۔۔


ہمارا وہ حال کہ بس کاٹو تو بدن میں لہو نہیں ۔۔۔کہ کہیں ٹیچر جی نے تشدد شروع کر دیا تو جیو پر ہم بگڑے چہرے کے ساتھ کیسے لگیں گے نا ۔۔۔
سو ڈرتے ڈرتے عرض کیا۔۔
کیا ہوا آمنہ جی کوئی غلطی ہو گئی کیا?
جواب آیا ۔۔۔
غلطی۔۔۔۔ آپ اسے غلطی کہتی ہیں ۔۔میرے بس میں ہو تو ایسی گستاخی پر ٌپھانسی لگوا دوں ۔۔
ڈر کے مارے ہاتھ پاوں کانپنے لگے اور میرے ہاتھ پاوں کی تو خیر تھی ڈر تو لبنی کا تھا کیمرہ اگر آمنہ جی کے اوپر گرتا تو ہم تو شہید ہی ہو کر نکلتے اس گھر سے ۔۔۔
گھگھیاتے ہوئے پوچھا ہمارا قصور تو بتائیں ۔۔
بولیں ۔۔
میں نے کوئی سو نیوز پیپر پڑھ کر ریسرچ کرنے کے بعد ابھی بلاگ لکھنا شروع کیا ہی تھا کہ آپ نے آکر سارا کام خراب کر دیا۔۔۔۔۔۔اب اگر میں نے بلاگ نہ لکھا تو سب کیا سمجھیں گے ؟میں نے سوچا تھا پہلے بلاگ لکھوں گی جب اس پر کمنٹس آءیں گے پھر اسی بلاگ کا تھریڈ شروع کر لوں گی ۔۔جب خوب تپ جاءے گا تھریڈ تو اخیر میں سب کو کہوں گی ۔۔۔۔۔۔۔کہ ابھی ہم بات چیت کرنے کے لاءق نہیں ہوءے ہماری سوچ ابھی پستی میں ہے اس میں ارتقا کی ضرورت ہے ۔۔۔۔۔پھر میں غصے سے ٹاپک لاک کروں گی ۔یا میں نہیں کروں گی تو اپنی وارننگ باجی آجاءیں گی ۔۔ اور تھریڈ لاک ہو جایے گا ۔۔۔۔۔۔۔لیکن پھر میں اگلے مہینے کے میگ میں وہی تحریر پھر سے بھیج دوں گی ۔۔۔۔۔۔پھر اس سے اگلے مہینے اس پر تبصرہ آیے گا کہ آمنہ جی کی تحریر پر تو ایک تھریڈ بنتا ہے ۔۔۔۔۔میں پھر سے نام بدل کر وہی تھریڈشروع کر دوں گی ۔۔۔۔پھر سے گرما گرمی ہو گی ۔۔۔۔میرے تھریڈکی ریٹنگ ارتقا پر پہنچ جایے گی ۔۔۔۔لیکن وارننگ باجی پھر سے بند کر دیں گی ۔۔۔۔پھر میں دوبارہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔
ہماری برداشت ختم ہو چکی تھی ۔جلدی سے بولے ۔۔
جان کی امان پاءیں تو ہم بھی کچھ عرض کریں۔۔
جواب آیا۔۔۔۔۔۔۔۔جی جی بولیے مجھے تو ویسے بھی زیادہ بولنے کی عادت نہیں ہے ۔۔
۔۔۔۔۔۔مجھے وہ لوگ سخت برے لگتے ہیں جو زیادہ بولیں۔۔زیادہ وہی لوگ بولتے ہیں جن کی سوچ میں ارتقا نہیں ہوتا ۔۔اور جن کی سوچ ارتقا تک نہیں پہنچے گی وہ ایک ملک کیسے چلا سکتے ہیں بس اس ملک کو انقلاب کی ضرورت ہے ۔ایسے انقلاب کی جس میں وہ لوگ سامنے آءیں جن کی سوچ میں ارتقا ہو ۔۔
ابھی وہ سانس لینے کو رکیں تو ہم نے جلدی سے پوچھ لیا۔۔۔

آمنہ جی یہ بتائیں ۔کہ استاد کی عزت کم کیوں ہوکئی ہے ہمارا نظام تعلیم کیوں اس قدر گر گیا ہے؟؟

جواب آیا۔۔
ہمم۔۔۔۔۔لگتا ہے کچھ معقول لوگ ہیں آپ ۔۔۔۔۔۔دیکھیے جی آج کل استاد ایک نسل کو سنوار نہیں رہا بلکہ اچھی سیلری کے لیے بچے پڑھا رہا ہے ۔۔بلکہ میں تو کہوںگی گدھے ہانک رہا ہے ۔۔۔گدھے کا تو پتا ہے نا آپ کو ۔۔(ساتھ ہی ہمیں ایسی نظروں سے دیکھ کر مسکرائیں جیسے گدھے دیکھ لیے ہوں۔۔۔۔)تو جب استاد اپنی ذمے داری سمجھ کر پوری نہیں کرے گا تو شاگرد اس کی عزت کیسے کرے گا ۔۔۔۔ویسے بھی آج کل شاگرد جو ہیں ان کی سوچ ابھی پختہ نہیں ہوئی ابھی ارتقا تک نہیں پہنچی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(اففف پھر سے ارتقا۔۔دل چاہ رہا تھا کہ دیوار سے ٹکریں ماریں لیکن اخلاق اتنا اچھا ہے ہمارا کہ ہم دونوں ہی مسکراتی رہیں ۔۔۔۔۔)

اتنے میں کوثر آپی واپس آگئیں اور بولیں ۔۔۔

ارے پیاری رفعت اور پیاری لبنی ۔۔۔۔آپ دونوں ادر آجائے نا۔۔آمنہ بہن بہت اچھی ہیں پڑھی لکھی اچھا اچھا سوچنے والی ۔۔تو ان کو ان کا کام کرنے دیتے ہیں تاکہ وہ اچھی باتاں ہم کو بھی سکھائے۔۔۔۔
ہم کوثر آپی کو دعائیں دیتے ہوئے جھٹ ادھر سے اٹھ گئے ۔۔
کوثر آپی بولیں ۔۔۔میں عاجز اور معصوم بندی بہت خوش ہوں کہ آپ دونوںپیاری بہنوں نے میرے گھر کو اس قابل سمجھا اور یہاں قدم رنجہ فرمایا۔۔۔
(ہم تو خوشی سے پھولنے ہی لگے اور ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر اپنے اپنے پیارے ہونے کا یقین کیا۔۔۔)

ہم نے سوال کیا۔۔۔

کوثر آپی آپ کا لہجہ اتنا عاجزانہ کیوں ہے ?
بولیں۔۔
پیاری رفعت ۔۔بات یہ ہے کہ میں تو چھوٹے ہوتے سے ایسی ایچ ہوں۔۔۔میرے بچے تو مجھے امی نہیں بلاتے عاجزانہ امی بلاتے۔۔صاحب بھی عاجزانہ ہی بلاتے۔۔۔اب تو مجھے اپنا اصل نام ہی بھول جاتا ہے ۔۔۔کبھی کبھی مجھے برا لگتا غصہ آتا لیکن میں غصہ پی جاتی ہوں ۔۔نام کی لاج رکھنے کو ۔۔(ان کا چہرہ شاید اندرونی غصے سے سرخ ہو رہا تھا۔۔۔)ایک دم بولیں ۔۔۔۔۔پیاری رفعت میں ابھی ایچ آئی۔۔۔
(اور اٹھ کر چلی گئیں)

ہم نے ذرا سی نظر پھر سے دوسری طرف پھیری آمنہ جی دھڑا دھڑ لکھے جا رہی تھیں۔۔۔۔اچانک چشمے کے اوپر سے ہمیں دیکھا ۔۔۔اور نوکر کو آواز دی ۔۔
(ہم دونوں ہی ڈر گئیں کہ بس شاید آخری وقت آگیا۔۔یا دھکے دے کر نکلوائیں گی ہمیں یہاں سے ۔۔۔)
لیکن وہ بولیں۔۔۔
بیٹا ذرا اوپر جاو پانی کی ٹینکی کے اوپر شاپر میں کچھ سوچ ڈالی ہوئی ہے ارتقا کے لیے ۔۔آج کے لیے کافی ارتقا ہو گیا ہو گیا اسے دھیان سے نیچے اتار لاو ۔۔باقی ارتقا کل لائیں گے ۔۔۔۔۔

لبنی نے مجھے دیکھا میں نے لبنی کو ۔۔۔۔ہنسنے کا بہت دل ہو رہا تھا۔۔لیکن ہمیں 
اپنی جان عزیز تھی ۔۔لبنی نے جھٹ کیمرہ رکھ کر کاپی پین نکالا ۔۔میں نے بھی پیپر پر جھٹ سے لکھنا شروع کیا اور ایک دوسرے کو ٹرانسفر کیا۔۔۔۔اور سمائیل دی ۔۔۔
کاغذ پر لکھا تھا ۔۔۔۔
ہی ہی ہی ہی ہی ہی ہی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیا کرتے ویسے تو نہیں ہنس سکتے تھے نا ۔۔۔۔
اس وقت واقعی ہمیں تعلیم کی اہمیت کا اندازہ ہوا ۔۔اگر ہمیں لکھنا نا آتا تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہنسی کافی مہنگی پڑتی نا


کوثر آپی پھر سے واپس آگئیں ۔۔۔منہ میں کچھ ڈالا ہوا تھا۔۔۔
ہم نے اگلا سوال کیا۔۔۔۔

لیکن آپی اتنا عاجزانہ پن کیوں۔۔۔۔کیا آپ کو واقعی غصہ نہیں آتا??
بولیں۔۔۔۔پیاری رفعت۔۔۔۔ایسا تو نئیں ۔۔کہ مجھے غصہ نہ آئے ۔۔کئی بار اتنی فضول پوسٹ پڑھنے کو ملتیں فورم پر ۔۔۔سخت غصہ میں دل کرتا کہ جس کی پوسٹ ہے اس کو قتل کروادوں۔۔لیکن اس سے امیج خراب ہو سکتی ہے نا ۔۔اس لیے بس دھیان رکھ کر بول دیتی ہوں کہ بہت اچھی پوسٹ کی۔۔۔اندر سے تو دل کرتا ہے کہ بس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(ایک دم سے چہرہ سرخ)
بولیں ۔۔۔پیاری رفعت میں ابھی آئی۔۔۔۔
اب کی بار ہم نے پیچھے دیکھنے کی غلطی نہیں کی ۔۔۔
کوثر آپی واپس آئیں ۔۔

ہم نے پوچھا آپی چلیں یہ بتائیں کہ کھانے میں کیا اچھا بناتی ہیں?
ابھی کچھ بولنے ہی والی تھیں کہ اندر سے آپی کی بیٹی روتی ہوئی آگئیں۔۔۔
اور بولیں۔۔۔۔۔امی یہ کیا کرتے آپ ۔میں چائے کیسے بناوں پورے ہفتے کی چینی آپ آج ہی ختم کر دی ۔۔۔اب پورا ہفتہ ہم کیا کریں گے ۔۔۔اور آپ کو چینی نہ ملے تو شامت تو ہماری آنی ہے ۔۔۔آپ چینی نہیں کھائے گے تو ہم پر غصہ ہوتی رہیں گی ۔۔۔اب میں کیا کروں۔۔۔۔۔۔

کوثر آپی نے بیٹی کو گھورا ۔۔۔۔اور بولیں پیاری رفعت پیاری لبنی اچھی بہنو ادر ایچ بیٹھو میں ابھی آتی۔۔۔۔

وہ تو چلی گئیں۔۔۔
اور ہم نے ایک دوسرے کو دیکھ کر بھاگنے کا ارادہ کیا۔۔۔ لبنی جی جوش میں کیمرہ ایک ہاتھ میں منتقل کیا تو دھڑام سے میرے اوپر آگریں۔۔۔۔میں نے نہایت غصے سے کیمرہ چھینا اور لبنی کو کہا۔۔۔۔
دیکھنا اب اگلی باری تم کو کہیں نہیں لے کر جاوں گی تمہاری جگہ ثمرین کو لے جاوں گی وہ کم از کم تمہاری باتوں میں آکر کھانا پینا تو نہیں چھوڑتی ۔۔۔
لبنی یہ سن کر نہایت خونخوار انداز میں میری طرف بڑھی ۔۔۔اور میں نے جان بچانے کے لیے باہر کی طرف دوڑ لگا دی
........................................................

تحریر! میری پیاری دوست رفعت کی ہے ۔ 

Sunday, October 11, 2015

تشنگی


  • رات گہری ہو چلی تھی حویلی کی رنگینیوں نے اپنے لئے کہیں اور جگہ ڈھونڈ لی تھی ۔ سب ملازم اپنے اپنے ٹھکانوں پر پہنچ چکے تھے ۔ شہزادی بیگم صاحبہ اپنی تسلی کے لئے وسعی و عریض عمارت پہ مشتمل حویلی میں موجود کمروں کے دروازوں پہ لگے تالوں کا معائنہ کرتی ہوئی راہ داری میں جب داخل ہوئیں تو بہو رانی کو بیگم صاحبہ نے اپنی آرام گاہ کی طرف جاتے دیکھا تو آواز دی "بہو " جی، امی جان "آپ ابھی تک نہیں سوئیں ' شہزادی بیگم نے تشویش بھرے لہجے میں پوچھا ۔ جی میں پانی لینے آئی تھی سوکھے حلق سے تھوک نگلتے ہوۓ بہو رانی نے جواب دیا.."کل سے خادمہ کو کہہ کر اپنے کمرے میں پانی کا بندوبست مغرب سے پہلے کر لیا کریں. جی بہتر'' وہ اتنا کہہ کر تیزی سے اپنی خوابگاہ کو ھولی۔
    شہزادی بیگم نے چند قدم آگے بڑھائے تھے کہ انہیں لگا جیسے بائیں طرف کھڑکی پر پڑا پردہ ہلنے لگا ہے۔ جب رک کر دیکھا توپردہ ساکت تھا پھر وہ پردے کے قریب آئیں اور پردے کو اٹھانے لگی تو پردے کے پیچھے سے بوا نصیبن نکلی بوا کی تین پشتیں اس حویلی میں کام کرتی چلی آرہیں تھیں.. چھوٹے نواب انہیں کے گود مین کھیل کر جوان ہوئے تھے ۔ "یہ کیا ہے، آپ یہاں کیوں تھی عیجب حرکتیں کرتی ہیں آپ ! ہماری تو جان ہی نکلے جارہی تھی ۔ تکلیف کے معذرت شہزادی بیگم صاحبہ . مجھے آپ کو ایک خاص بات بتانی ہے آپ میرے کمرہ میں چلیں بتاتی ہوں ۔ "ہم آپ کے کمرے میں چلیں گے ہوش تو ہے آپکو شہزادی بیگم نے رعب کیساتھ متکبرانہ لہجے میں بوا سے کہا ۔ جی بیگم صاحبہ معافی چاھتی ہوں..بیگم صاحبہ نے تنبیع کرتے ھوۓ نصیبین سے کہا اچھا ٹھیک ھے آئندہ اپنی حیثیت مت بھولا کریں' حویلی کے مہمان خانے میں چلواسے رات میں بھی کھولا رکھا جاتا ہے..نصیبین آگے آگے ھو لی ۔راستے میں پڑنے والے مد ھم روشنی کی جگہ تیر روشنی کے سبھی بند بلبوں کے بٹن کھولتی جاتی..شہزادی بیگم نصیبن کے پیچھے پیچھے چلتی ہوئی مہمان خانے تک پہنچی..
    مخملی ریشم سے ملبوس تخت و تاج جیسی معلوم ہوتیں کرسیاں ترتیب سے رکھی گئیں تھیں.. دیوار میں نصب قدِآدم بڑے نواب صاحب کی تصویر پر نگاہ ڈالتے ہوئے ایک کرسی کو شہزادی بیگم نے اپنی طرف موڑ کر برجمان ہوتے ہوۓ بوا کو مخاطب کرتے ہوۓ کہا ہاں بولو نصیبین.. بوا نے قریب اکر دھیمی سی اواز میں شہزادی بیگم سے کہنے لگی ۔اللہ اپ کے گھر کو ہمیشہ رونق بخشے میں کہوں تو چھوٹا منہ بڑی بات ہوگی آپ سے پہلے معذرت کی درخوست ہے ۔ تھوڑی دیر چپ رہنے کے بعد شہزادی بیگم حیرانگی اور غصے کے لہجے میں بولی کچھ بولو گی ؟ آپ تو ہمارے گھر پیدا ہوئی، امی حضور کے زیر سایہ بڑی ہوئی ہیں ۔ پھر کہنے میں جھجک کیسی بوا نے خوشامدی لہجے میں بیگم صاحبہ سے کہا. بات یہ ہے بیگم صاحبہ ابھی بہو رانی کو حویلی میں بیاہ کر آۓ صرف دس مہنے ہوۓ ہیں روز چھوٹے نواب صاحب رات میں باہر جانے لگتے ہیں تو وہ ہر دن سینہ سپرہوکر روکنے کھڑی ہوجاتی ھے..طرح طرح سے منتیں کرتی ہیں دہائیاں دیتی ہیں.. میں ہر روز چپ چاپ یہ معاملہ دیکھتی رہتی ہوں اور چھوٹےنواب صاحب ٹس سے مس نہیں ہوتے۔ کئی بار آپ سے کہنے کا ارادا بھی کیا مگر آپ کے رعب و دبدبے نے ہمت پست کردی ۔ " نصیبن بوا آپ نے تو ہمیں پریشان کردیا نوابوں کی زندگی میں یہ سب تو ہوتا ہی رہتا ہے آپ کو نہیں معلوم کیا؟ ہمارے ساتھ بھی تو ایسا ہوتا رہا تھا پھر ایک وقت کے بعد نواب صاحب کے دوستوں کی بیٹھک حویلی میں لگنے لگی ..ایک وقت آیا سبھی دوست ایک ایک کرکے غیر حاضر ہونے لگ گئے آہستہ آہستہ نواب صاحب کے دوستوں کی بیٹھک ختم ہو گئی۔ آپ دروازے اور لائیٹ بند کرکے آرام کرلیں " یہ کہہ کر شہزادی بیگم تیز تیز قدموں سے اپنی آرام گاہ کیطرف چل دی.
    بہت ہی بڑا کمرہ جس کو بہت ماہرانہ انداز سے سجایا گیا تھا موتیاں کے پھولوں کی مہک چاروں طرف بکھری تھی کمرے میں پڑی آرامدہ مسہری پر لیٹی بہت دیر تک پریشانی کے عالم میں شہزادی بیگم سوچتی رہیں.. کب نیند نے اپنے پر پھیلا کر آغوش میں لیا خبر بھی نہ ہوئی ۔ صبح ہوتے ہی ناشتہ کرنے کے بعد شہزادی بیگم نے بوا کو بھیج کر بہو رانی کو بلوایا. بہو رانی حیرانی اور پریشانی کے عالم میں سوچتی رہی آخرکار کیونکر مجھے بیگم صاحبہ نے بلوایا ھے.. یوں اچانک آج کیسے ؟ اس سے پہلے تو مجھے کبھی نہ بلوایا، آخر کچھ نہ کچھ بات ضرور ۔ کہیں بیگم صاحبہ کو چھوٹے نواب کی خبر تو نہیں لگ گئی اور میرا روکنا انکو ناگوارتو نہیں گزرا ہو گا. وہ ہیں ہی ایسی سخت مزاج.. روایتی نواب زادی .. کیا بات ہوگی وہ سوچتی رہی.. جبکہ دسترخوان پر مختلف انواع اقسام کے پکوان رکھے ہونے کے باوجود تھوڑا سا لیکر زہر مار کرلیا اور نعمت خانہ کیطرف چل دی " آئیں یہاں تخت پر ہمارے قریب آ جائیں" یہ کہتے ہوئےکئی تختوں میں سے ایک تخت پر بیٹھی شہزادی بیگم نے گاوتکیہ (لمبا اور گول ہوتا ہے) سے ٹیک لگاتے ہوۓ کہا. اس کشادہ اور خوبصورت نعمت خوانے میں تھوڑے تھوڑے وقفے پرتخت بچھے تھے جن پہ مخملی سفید اور سرخ رنگ کی چادریں چڑھیں تھی.. سب تختوں کے بیچ میں دبیزلال قالین ڈالی گئی تھی تختوں پر سرخ گاو تکیے اور کشن سلیقے سے رکھے گئے تھے دیواروں پر دیوارگری لگائی گئی تھی دروازوں پر چھت سے لٹکتے ریشمی پردےجو فرش تک لٹک رہے تھے ۔ چھوٹی بہو نے سارے کمرہ کا طائرنہ جائزہ لیا اور بیگم صاحبہ کے ساتھ والے تخت پر براجمان ہوگئی ۔
    آپ گھبرا کیوں رہی ہیں آپ ہمارے اکلوتا بیٹے کی بیوی ہیں ۔ اس گھر کی مالکہ ہونے کیساتھ ہماری بیٹی جیسی ہیں ۔ بہت امیدیں وابستہ ہیں ہمیں آپ سے۔۔۔۔۔ بہو رانی نے بولنے کے لیۓ ابھی آدھا منہ ہی کھولا تھا کہ شہزادی بیگم نے ٹوکتے ہوۓ کہا ہماری پوری بات سن لی جیۓ. آپ کی شادی ہوۓ سال ہونے کو ہے.. ھمیں اپنی حویلی میں بچے کی گلکاریاں اور اٹھکھیلیاں دیکھنےکے لئےدل بےچینی سے منتظر ہے ۔ بہو رانی کا چہرہ گلنار کی طرح سرخ ہوگیا جو اس کے دل کی آرزو خوشی بنکر چہرہ پر واضع نظر آرہی تھی اور شرم و حیا کی لالی الگ تھی یا پھر کچھ اور .. شہزادی بیگم کی بات پوری ہونے سے پہلے چھوٹی بہورانی نے امی جان " کہہ کر لپٹ گئی ۔شہزادی بیگم نے پیار سے سر سہلایا پھر کہنے لگی میری اچھی بہو رانی مجھے سب معلوم ہے چھوٹے نواب روز باہر دوستوں کی محفل سجانے چلے جاتے ہیں بس ہمارے نور نظر کو آجانے دیں ہم ان کی خبر لیں گے آپکو فکرمند ھونے کی ضرورت نہیں..آپ کسی کچے دھاگے سے نہیں بندھیں ۔ آپ کے سر پر ہاتھ رکھ کر لے آئیں ہیں ۔ ہم نے حویلی کا ملازم آپ کی والدہ کو بلوانے بھیج دیا ہے ۔ ان سے ملکر آپ کو یقینا مسرت ہو گی ۔ شہزادی بیگم خود کو بہو رانی سے الگ کرتے ھوۓ نرمی سے بولیں..آپ روز روز چھوٹے نواب کو تنگ نہ کیا کریں یہ حویلی آپ کی ہے اور ہم وعدہ کرتے ہیں اس حویلی میں آپ کی جگہہ کوئی اور بہو نہیں آ سکتی ۔ خوش رہیں اور اپنی والدہ کے آنے سے پہلے ملازموں سے کہہ کر دعوت کا پرتکلف اھتممام کروا لیجیۓ..
    ماں کو دیکھ کر جیسے بہو رانی کے دل کو بہت عرصے بعد سکون ملا مایوس اور شکستہ دل کو تسلی ہوئی چہرے پہ رونق لوٹ آئی..جتنی دیر ماں رہی بہو رانی کسی نہ کسی بہانہ سے مہمان خانہ میں رات کے وقت بھی چکر لگاتی رہتی.۔ایک دن اماں جی نے بہو رانی کو خانہ باغ چلنے کے لیۓ کہا.. بہو رانی نے شہزادی بیگم سے اجازت چاہی کہ ہم امی جان کے ساتھ اپنے گھر کا باغ دیکھنے چلی جائیں آجکل وہاں بہت سارے رنگ برنگے پھول لگے ہیں عرصہ دراز سے باغیچے میں پھول کھلتے نہیں دیکھے تازہ ہوا نہیں لی..انہیں دیکھ آئیں ۔ ہاں چلی جائیں مگر جلدی آئیے گا..اجازات ملتے ہی ماں بیٹی باغ کی طرف چل دیں جہاں نہ حویلی کے ملازم تھے نہ کوئی اور وہاں پہنچ کر خوب دکھ سکھ بانٹے ، گھر کی بہنوں بھائیوں کی باتیں کرتی رہیں .اماں نے پوچھا کہ آپ تو بی بی خوش ہیں ناں ؟ اس سے پہلے کے بیٹی جواب دیتی ماں پھر بولی اتنا اچھا سسرال تو قسمت والوں کوملتا ہے ، نہ آگے کوئی نہ پیچھے کوئی حصہ دار ۔ "امی جان دھن دولت سب کچھ نہیں ہوتی اگر میاں کی محبت نہ ملے تو یہ سب بیکار اور بے معنی ہے پھر ایسی جائیداد کا کرنا کیا ؟ اماں نے منہ پر حیرت سے ہاتھ رکھتے ہوۓ کہا. آپ ہماری بیٹی ہیں لال حویلی کی غزالہ خانم کی، نواب سرفراز جنگ بہادرکی بیوی اور سر ہدایت اللہ خان کی بیٹی ہیں ہم! ہمیں سب بتادیا گیا ہے چھوٹے نواب کی بے اعتنائی لاپرواہی کے متعلق ، آپ کے والد نواب ہونے کے باوجود ہم سے رشتہ ازواج قائم ہونے کے بعد دوستوں کی محافل سے یوں دور ہوۓ کہ آج تک پلٹ کرادھر دیکھا تک نہیں.۔ سنو بٹیا رانی آپ کو ایسے گر سکھاتی ہوں کہ جمائی راجہ مٹھی میں بند نظر آئیں گے.
    چوڑی ، کنگن ، مالے ، بالے لچھے ، جھمکے ، پازیب صرف پہنا نہیں جاتا ۔ آو میں آپ کو سکھاتی ہوں کہ کیسے پازیب پہن کر چھم چھم چلنا اور کھڑے ہوکرکب چھن چھن کی آواز نکلنی چاہئے .ترچھی نگاہوں کے تیرکب چلا کر مرٖغِ بسمل کی طرح تڑپایا جاۓ۔ چوڑیوں کی کھنک کیسے من کو بھاتی ہے ۔ مہندی سولہ سنگھار کرنا کیوں سہاگن کو ضروری ہے ۔ عطرو خوشبو کی دھونی سے کیسے مدہوش کیا جاسکتا ہے ۔ باورچی سے من پسند چیزیں بنوا کر اپنے نام سے پیش کرکے نزاکت سے اپنے ہاتھوں نوالا دیا جاتا ھے سنو اپنی عزت پہلے خود کرنا سیکھو۔ خود کو حقیر و ذلیل کبھی مت سمجھو ایسا کرو گی تو دوسروں کو ذلیل کرنے کا موقعہ مل جائے گا ۔ کبھی کمزور نہ ہونا کامیاب وہی ہوتے ہیں جو آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہیں۔ آپ بھی کسی سے کم نہیں ہیں گوری ایسی کے ہاتھ لگانے سے میل لگے ۔اونچی ناک ،غلافی آنکھیں ،پتلے ہونٹ جاذب نظر سراپا ۔متانت سے بھرا لب و لہجہ ۔ اس شہر کی سب سے بڑی حویلی کی مستقبل قریب میں اکلوتی مالکن ہو ۔ آٹھ دن میں اماں جی صاحبہ نے اتنی باتیں سمجھائیں کہ بیٹی ماں کی زبان بولنے لگی..ماں چلی گئی لیکن بہو رانی نے ان نصیحتوں کو پلو سے باندھے عمل پیرا ہوتی رہیں ۔ تھوڑے ہی عرصے میں حویلی کا ماحول بدل گیا۔ اب دونوں ہنستے مسکراتے ساتھ ساتھ رہتے انہیں دیکھ کر سب خاص و عام خوش ہوتے دعائیں دیتے مگر چھوٹے نواب دس سال بعد بھی محافل میں رونق افروز ہوتے رہے بہو رانی کے دل میں کھٹک برقرار رہی ۔ ویسے بھی صبر کرتے کرتے عادی ہوچکی تھی. اس طویل عرصہ میں گھر کے چراغ کی امید کی جوت جگاۓ شہزادی بیگم نہیں تھکی تھیں۔ البتہ اس گھڑی کو کوستی جب بہو رانی کو وعدہ دے بیٹھیں تھی کہ کسی اور کو بہو بنا کر نہ لایا جاۓ گا..
    اچانک ایک دن بہو رانی کے پیٹ میں شدید تکلیف شروع ہوگئی لال حویلی سے اماں جی بھی آ گئیں شہزادی بیگم اور انہوں نے مل کر بہو رانی سے کئی سوال کر ڈالے جب ان کو یقین ہوگیا تو پھولیں نہ سمائیں. دونوں نے مزید سات مہینوں کی مدت کا حساب لگایا.. خواہشوں کی منڈیر پر تڑپتی مچلتی خوشی ایسی کہ اپنی مانی ہوئی منتیں مرادیں گننے لگیں.. پھر ایک دوسرے کو خوشی سے دیکھتیں گلے لگاتیں اور کہتیں سب ادا ہو جائیں گی.. پہلے بہو بیگم کی تکلیف ختم ہونا ضروری ہے ۔ ڈرئیوار سے کہہ کر گاڑی نکالی گئی سب گاڑی میں بیٹھ کر ہسپتال ہو لیۓ۔ شہزادی بیگم نے پہنچنے سے پہلے لیڈی ڈاکٹر کو فون پہ اطلاع دے رکھی تھی۔ ڈاکٹر ایسی جس سے بات کرنے کے لیۓ بھی مہنوں پہلے وقت لینا پڑتا تھا عام شہریوں کو . ڈاکٹر کے روم میں پہچے دو تین ٹیسٹ کروائے پھر مریض کا چیک اپ کرنے لگی ایک دو سوال کرکے پھر چیک کرنے لگی ۔ بہو رانی کو بیڈ پر جا کے لیٹنے کو کہا ۔۔۔۔ کچھ دیر بعد لیڈی ڈاکٹر اپنی میز پر آ کر بیٹھ گئی ۔ مضطرب نظروں سے سب دیکھنے لگے ۔ آپ دونوں میں ان کی ماں کون ہیں ۔ "جی یہ" شہزادی بیگم نے اشارے سے بتایا ۔ ان کی عمر کیا ہے ؟ "جی بتیس سال " آپ لوگ عجیب ہوتے ہیں اتنا سارا پیسہ ہونے کے باوجود اپنی کنواری لڑکیوں کو بوڑھی کر دیتے ہیں۔ "کیا " دونوں کی انکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں ۔
  • Kauser Baig