Sunday, December 23, 2012

ہم حالِ دل سنائیں گے ۔ سنیے

 
السلام علیکم
 
میرے ُمعّزز بھائیوں اورپیاری بہنوں :۔ یہ تحریر میں نے پچھلے سال اپنے دوسرے بلاگ میں پوسٹ کی تھی۔ سوچا یہاں بھی کردوں۔۔ لیجئےحاضرخدمت ہے   

آج کل کچھ فرصت میں ہوں دل چاہا کہ کچھ آپ سب سے باتیں کرکے اپنا جی ٹھنڈا کروں یعنی پھر سے آپ کے کان کترنے لگو یا دماغ کھانے کچھ بھی کہہ لیے مگر کچھ اپنے قیمتی لمحہ آپ مجھے بہن کا حق سمجھ کر عنایت کرہی دیے توبڑی مہربانی
تو جناب اس ویک اینڈ پر میری ایک بہت پرانی ملاقاتی میرے گھر آئی میں نے ان کی اوران سے تعلق رکھنے والے سب ہی کی خیریت پوچھی اور سلام کہنے کہتی رہی جب میں نے انکی پڑوس میں رہنے والی نند کو سلام کہا تو کہنے لگی ہاں(کچھ کھیچتے ہوئے) یاد رہا تو کہہ دونگی میں نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا ایسے کیوں کہہ رہی ہو؟ تو کہنے لگی اب کیا بتاو چند دن پہلے میرے گھر آئی تھی کہنے لگی بچوں کو اسکول میں چھٹیاں ہیں ہم بحرین گھومنے جارہے ہیں اس ہی لیے میں ابھی تمہیں کرسمس اور نئے سال کی مبارک باد دینے آئی ہوں مجھے بہت غصہ آیا میں نے بھی اسے کہہ دیا کے نہ ہم کرسمس مناتے ہیں اور نہ نیا سال بس یہ بات پر بہت لےدے ہوئی ۔۔۔
 
  

 بعض دوست ایسے ہوتے ہیں جن کو جو چاہے کہا سناجاتا ہے جیسے پانی میں لکڑی مارنے سے پانی کچھ ہی دیر میں ایک ہوجاتا ہے انکا حال بھی ویسے ہی ہوتا ہے اور ایسے دوست کو خوب چھیڑنے میں مزہ بھی آتا ہےمیں شہد کے چھتّا ہلانے کے ارادے سے کہا اس میں غلط کیا ہے جہاں تک مجھے معلوم ہے عیسٰی علیہ السلام پر اللہ نے سلامتی بھیجی ہے عسٰی علیہ السلام پر ہمارابھی ایمان ہے وہ اللہ کے پیغبر ہیں اور ان کی تعریف بیان کی گئی ہے اور نئے سال کے بارے میں کہا کہ میاں کو تنخواہ اسی حساب سے ملتی ہے گھر کا خرچہ بھی وہی تاریخ کے ساتھ لکھتی اور کرتی ہو بچوں کے اسکول کے ہر نوٹ بک پر وہی تاریخ لکھی ہوتی ہے جو میل کرتی ہو اس میں بھی وہ ہی عسوی حساب ہی لکھی رہتی ہے۔ اور پھر وہ محترمہ تمہاری نند اور پڑوسن بھی ہیں کیا تمہیں یاد نہیں پڑوس کا حق بہت ہی زیادہ ہے یہاں تودو، دو حق بنتے تھے۔پھر ہمارے درمیان بہت بحث کے بعد اس نے کہا کہ سچ میں مجھے ایسے نہیں کرنا چاہیے تھا ان شاء اللہ آتے ہی میں خود ہی اس کے پاس جاونگی تو میں نے اس سے پھر کہا کہ تم بہن سے بات کرلو مگر ہمارا سال تو پہلی محرم سے شروع ہوتا ہے ۔ میری اس بات سے یہ مت سمجھ لینا کہ اس نئے سال کو لے کر جوجشن منائے جاتے ہیں فحاشی وعریانی اور بے بیہودگی سے بھری محافل وپروگرام کا انعقاد کرتے اور اس میں شریک ہوتے ہیں اور اس کو ٹی وی پردیکھنا میں اچھا سمجھتی ہوں نہ سمجھو یہ سب کوتو میں بھی پسند نہیں کرتی ہاں دوسروں کو خوش کرنے صرف کہنے تک ہی کہنا اور اپنا محاسبہ کرنے ٹھیک ہے ۔ ہمیں عسوی کے ساتھ اپنے بچوں کو قمری مہینوں کے نام بھی یاد کروانے ان کے سامنے اپنے روز مرہ کے معمولات کو قمری حساب سے ترتیب دینےچاہیےجیسے چھٹیاں ،شادی ،کسی کے آنے یا جانے کا دن یاد رکھنا وغیرہ ہمارا اسلام بہت سادہ مذہب ہےاور سادگی کو پسند کرتا ہےخرافات ،لغویات،اور بے جا حرکتوں کے لئے اسلامی معاشرہ میں کوئی کنجائش نہیں ہے اسلام ہمیں اللہ کی فرمابرداری اور خلقِ خدا کی خدمت سیکھاتا ہے۔ ہمارے دو عیدیں ہیں وہ ہی امیر غریب مل کر خوشی خوشی گزار لے تو بس ہے ان میں ہی نہ جانے کتنے لوگوں کو نئے کپڑے نہیں بنتے ہونگے کتنوں کے گھر چولہے نہیں جلتے ہوگئے۔
 
 
 مجھے اچھے سے یاد ہے جب میں بارہ سال کی تھی میرے بھائی صاحب کا انتقال ہوگیا تھا وہ ہی ہمارے گھر کے واحد کمانے والے تھے بابا کا وظیفہ بہت تھوڑا تھا اب ٹیچرز کو بہت ملتا ہے جب ایسا نہیں تھا ہم پر ایک ساتھ دو مصیبت آئی ایک بھائی کا غم دوسرے معاشی بد حالی بابا پرامی کے ساتھ ہم دو بہنوں اور ایک بھائی کی بھی ذمہ داری تھی۔ اس ہی زمانے میں بقرعید کی عید آئی مہینے کا آخر تھا گھر میں تین دن سےکچھ نہیں تھا عصر کا وقت ہوگیا کوئی نہیں آئے اس پر امی کچھ بے چین ہوکر کہنے لگی پہلے نماز کے ساتھ ہی لوگوں کا آنا شروع ہوجاتا تھا اب ہمارے حالات کے ساتھ رشتہ دار بھی بدل گئے بابا تو اس وقت بھی زبان سے شکر ادء کرتے ،کہے اچھا ہوا ہم مہمان کی خاطر ٹھیک سے نہیں کرسکتے تھےشاید عید کی مبارک باد اس غم کے بعد دینے کترا رہے ہونگے ۔۔ امی ِادھر اُدھر سے کچھ پیسےڈھونڈ ڈھانڈ کرجمع کرکے  دودھ ،چائے کی پتی خرید رکھی تھی مہمانوں کی چائے کے لئے پھر عصر کے بعد سب ایک کے بعد ایک آنے اور گوشت دینے لگے امی کچھ ضیافت نہ کرنے پر معافیوں کے ساتھ چائے عطر دیتی پھر ہم نے اس رات صرف نمک ڈال کر گوشت ُابال کر کھایا تھا الحمدللہ آج اللہ نے وہ دن نہیں رکھے مگر آج بھی جب بھی کوئی غریب کو دیکھتی ہوں مجھے وہ اِبتلا کا دور یاد آجاتا ہے۔
 
 
اگر اللہ ہمیں بہت دیں توہمیں چاہیے کہ ہم بیکار کاموں میں خرچا کرنے کے بجائے کسی کی ضرورت پوری کردے ان کی دنیا اور ہماری آخرت کا سامان ہوجائے گا۔وقت ہماری دسترس میں نہیں ہے . بے وجود ہونے والی تیزگام زندگی مٹھی میں پکڑے جانے والی نہیں برف کی طرح گھل رہی ہے پگھل کر گھٹنے لگی ہے ہمیں اس پر اختیار ہی نہیں اور نہ قدرت ہے محدود وقت کےلئے ہی سہی بس ہم زندہ رہنے تک اختیار ہے اسی کو غنیمت جانے ہم ان لمحوں کو زندگی کا حاصل بنالے جو ہمیں میسر ہے اپنی صلاحیت اور محنت سےاپنی زندگی بامقصد بنالے نیکی اور خیر کی طلب کرے شر سے پناہ مانگےخامیوں سے پاک تو کوئی بشرنہیں ہے مگر اچھے سے اچھے بنے کی کوشش کرےسچی سیدھی رہ کو اپنائیں دوسروں کو خوشی دینے کی سعی کرے اپنے سے دکھ اور نقصان نہ پہچائے کسی کو،حق دار کو انکے حق دینے میں کبھی کوتاہی نہ کرے فرائص کا خاص خیال رکھے ۔اپنے لئےنفع بخش اور دوسروں کےلئے راحت بخش یہ شروع ہونے والا سال بنائے ۔ اللہ ہم کوعمل کی توفیق عطا کرے اور اللہ پاک جو سال گزار گیا اس میں ہونے والے ہم سب کی غلطیوں خطاوں کو تو معاف فرما دے ۔ ہم مسلمان ہیں ہر موقعہ پر تیرے ہی بارگاہ پر حاضر ہوکر فریاد کرتے ہیں تو قبول فرما جو ہمارے حق میں بہتر ہےاے مالک حقیقی ۔۔۔

ان دعاوں کے ساتھ اجازات دیجئے گا بہت شکریہ میرے اس حال ِدل سنے کےلئے ۔اگر کوئی بات غلط لگی تو ضرور بتایے میں تو بس اپنے دل میں آنی والی باتیں آپ سب کو اپنا سمجھ کر کہہ لیتی ہوں۔۔۔۔۔۔۔
 
 

کرسمس پردرویش بھائی کا یہ بلاگ بھی آپ ضرور پڑھیے گا بہت معلوماتی ہے ۔

Saturday, December 15, 2012

عورت کی خاص ملکيت

 
 
السلام علیکم
 
 
میری پیاری بہنوں اور عزیز بھائیوں :۔ آج میں آپ سب سے ایک سوال کرنا چاہتی ہوں اور چاھتی ہوں کہ مجھے آپ ضرور بہ ضرور جواب دیجئے گا چاھے وہ میرے مخالف ہی کیوں نہ رہے مجھے آپ کی رائے پا کر بہت خوشی ہوگی پیشگی شکریہ ۔۔۔۔
 
 
ویسے تو رونا کئی وجہ سے آتا ہے  کہتے ہیں جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو وہ شیطان کے چھونے  سے رونے لگتا ہےتو کوئی دنیا میں آنے سے روتا ہے کہتے ہیں اور ڈاکٹرز کچھ اور رونے کی وجہہ بتاتے ہیں ۔ بچے بھوک ہو یا درد ہر صورت میں  رو کر ماں کو مدد کے لئے بلالیتے ہیں ۔کچھ بڑے ہوتے ہیں تو اپنی من مرضی کے کھانے کھلونے وغیرہ رو کر حاصل کرلیتے ہیں ۔ دیکھا جائے تو حضرتِ انسان پیدائش سے مرنے تک کئی کئی بار کئی کئی  وجہہ سے روتے رہتا ہے  رونا بھی کئی قسم کا ہوتا ہے اور کئی  وجہوں سے آتا ہے جیسے غریب و مجبور اور بے بس کا رونا واجبی ہوتا ہے  بہتوں پر یہ بے اثر ہوتا ہے مگر ابھی کچھ اللہ کے بندوں ہیں جن کے دل ابھی بھی ان سے پگھلتے ہیں ۔ رونا کسی نعمت کے ملنے کے بعد کھونے پر بھی آتا ہے اور کسی کے جدا ہونے پر بھی رونا بے اختیار آجاتاہے اور کبھی عزت ناموز پر انگلی اٹھانے ، مالی نقصان اور کسی چیز کی محرومی پر بھی رونا آنے لگتا ہے۔اپنے اور اپنے پیاروں کی دکھ بیماری  دیکھی نہیں جاتی  اور پھر رونے  لگ جاتے ہیں ۔ کبھی دھوکا کھا کر انسان روتا ہے توکبھی کسی کی دل آزاری رولادیتی ہے اور کبھی دل کا لگانا رونے کی وجہ بنتا ہے تو کبھی کسی کا دل لگتا ہوا دیکھنا  رونے کا باعث ہوتا ہے ۔اب میں کتنے رونوں کا رونا رو سکتی ہوں حسرت ، خود غرضی ، بے حسی ، حرص و ہوس  ، دنگا و فساد اور تباہی و بربادی ، مالک و قومیت ، نسب ورنگ ،  مذہیب ،خاندان کی لڑئیاں  اور بھی کئی باتیں ہیں جو ہمیں  کسی نہ کسی بات پر آزرُدہ خاطر اور رونے مجبور کرتے ہیں میں آج اس رونے کی بات نہیں  کرنا چاھتی کیونکہ  ہمارے بزرگ فرماتے ہیں کہ اللہ کوبھول کر ہنسنا بھی جُرم ہے اور ان کو بھول کر رونا بھی جرم ہے مجھےحضرت عثمان رضی اللہ   کا قول بھی یاد آرہا ہے ۔ جنت کےاندرروناعجیب ہےاوردنیاکےاندرہنسناعجیب ترہے۔اور ۔حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں صبرمیں کوئی مصیبت نہیں اوررونےمیں کچھ فائدہ نہیں۔اس لئے بزرگ اللہ کے خوف سے روتے ہیں  ۔ تلاوتِ قران کبھی رونے کی وجہہ ہوتی ہے تو کبھی حضور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی محبت اس کا سبب ہوتی ہے۔ خیر میں اپنی بات کی طرف آتی ہوں
 
 
 تو عزیزوں میرا  ان سب طرح کے  رونے  بیان کرنے کا کوئی اردہ  نہیں تھا بس بات سے بات دماغ میں آتی گئی اور میں ایویں لکھتے گئی آج  میری تحریر کا ایک ہی  مقصد تھا کہ میں اس رونے کا ذکر کروں جس  سے شاید آپ سب ہی کبھی نہ کبھی  اس رونے کا سامنا کر ہی چکے ہوگے اس رونے کو عورت کی خاص ملکيت  بھی کہا جاتا ۔   جس کے آگے تیس مارخاں ،راجہ پرجا سب ہی بنا تھکے کے ہار جاتے ہیں اور اس رونے نے تو ہمیشہ سب کو ہارا دیا  ہمیشہ  فتح کا چھنڈا لہرلیا  کبھی اس کا وار خالی نہیں جاتا ۔شکاری خود شکار ہوجاتا ہے اس کے آگے ہتیار والے بھی کند ہوجاتے ہیں۔ جی جی آپ ٹھیک سمجھے میں عورت کے ان قیمتی آنسو کی بات کررہی ہوں۔جو بہت انمول ہوتے ہیں      
 
 
سچ ہی تو کہتے ہیں رونا عورت کا ہتیار ہوتا ہے اور یہ طاقت بھی اور کمزوری بھی سمجھا جاتا ہے ۔ میں نے خود دیکھا ہے اسے ایسے ایسے مشکل وقت میں استمعال کرکے بڑے بڑے مسائل اپنے حق میں کروالئے گئے ہیں۔
 
 
  میں بھی ایک عورت ہی ہوں مگر افسوس مجھے رونا نہیں آتا جس کی وجہہ سے میں ایک نارمل عورت نہیں کہلائی جاسکتی  ۔ میرے بچے اپنی بیوی میں اس بات کو نہ پا کر مجھے ایک محبت کرنے والی ماں کے ساتھ دنیا کی سب سے الگ ماں سمجھتے ہیں اور اپنی بیوی سے اس بات کی امید کرتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ وہ بھی ایسی کیوں نہیں ہے ۔ میاں کو ہمیشہ اس بات کا احساس رہا، جب بھی زیادتی ہوگی یہ کچھ نہ کہےگی یہ ضبط کرلے گی ۔ اپنے ، پرائیوں کی زیادتی پر چپ رہنے پر کڑھتے ہیں پوچھتے ہیں تم کیوں لوگوں سے ڈرتی ہو کیا تم دوسروں کا کھاتی ہو جو ان کی بات پر یوں خاموش ہو جاتی ہو تمہیں بیوقوف بناتے ہیں ۔ حق بات کہنے کی ہمت کرو وغیرہ وغیرہ۔ اور کبھی تو مجھے سخت دلی تو کبھی بزدل کے طعنہ بھی ملتے ہیں ۔ ایسا نہیں کہ مجھے  رونا نہیں آتا ،آتا ہے مگر اکیلے میں کسی کی موجودگی میں ایک آنسو بھی نکلنا محال ہے میرے لئے میں اس محروم  پر کبھی خود حیران ہو جاتی ہوں ۔ میں ایک ایسی عورت ہوں جس کا اپنا  قیمتی ہتیاراس کے پاس نہیں۔ میں خود کو کمزور عورت سمجھتی ہوں مگر میرے پاس کمزوی کی سب سے خاص نشانی نہیں ۔ میرے پاس عورت کی وہ مخصوص  ملکیت نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس لئے شاید دوسرے سب مجھے سچ میں یوقوف سمجھتے ہیں ۔ مجھ سے بڑی آواز نکال کر خوش ہو جاتے ہیں رو دھو کر الٹے سیدھے شکایتں لگا کر سوچ لیتے ہیں کہ اس میں ہمت نہیں مقابلہ کی یہ تو نمبر ون دبکو ہے یہ کیا کرلے گی تھوڑا کہہ کر چپ ہو جایئگی۔۔مگر سچ بولوں تو مجھے یہ سب سہتے وقت بہت برداشت کرنا پڑتا ہے بہت صبر اور ہمت کی ضرورت ہوتی ہے آنسو پینا آسان بات نہیں ۔ اس کے لئے خون کے آنسو دل کو بہانا پڑتا ہے ۔ اپنے لئے تو کوئی بھی لڑتا ہے یہاں تک کہ ایک جانور بھی ۔ مگر ایثار کا جذنہ بہت کم میں ہوتا ہے یہ سامنے والے کے دل پر خاموش وار کرتا ہے ۔ بے حس سے بے حس کوبادیر ہی سہی اپنے کئے کا احساس دیلاتا ہے ۔ دشمن کو بھی دوست بناتا ہے ۔۔آپ کو سب سے ممتاز بناتا ہے  ۔کیا یہ سب میری خام خیالی ہے کیا حقیقت میں میری خوش فہمی ہے۔ کیا سچ میں مجھے بیوقوف سمجھا جاتا ہے ؟ میرا آج  آپ سے یہ ہی سوال ہے امید کے مرحمت فرمائنگے۔۔۔۔۔۔۔۔
 
 

Monday, December 10, 2012

مولانا محمد علی جوہر

   
 
السلام علیکم
 
مولانا محمد علی جوہر کی آج دس ڈسمبر کو 134ویں یوم پیدائش ہے اس موقعہ پرآپ کے ساتھ کچھ باتیں انکے بارے  ہم ملکریاد کریں  اور ان کے درجات کی بلندی کی دعا کریں ۔
 
 
یہ مضمون ویکیپیڈیا سے لیا گیا



مولانا محمد علی جوہر
 

پیدائش: 1878ء

انتقال: 1931ء

ہندوستانی مسلمانوں کے عظیم رہنما۔ جوہر تخلص۔ ریاست رام پور میں پیدا ہوئے۔ دو سال کے تھے کہ والد کا انتقال ہوگیا۔ والدہ مذہبی خصوصیات کا مرقع تھیں، اس لیے بچپن ہی سے تعلیمات اسلامی سے گہرا شغف تھا۔ ابتدائی تعلیم رام پور اور بریلی میں پائی۔ اعلی تعلیم کے لیے علی گڑھ چلے گئے۔ بی اے کا امتحان اس شاندار کامیابی سے پاس کیا کہ آلہ آباد یونیورسٹی میں اول آئے۔ آئی سی ایس کی تکمیل آکسفورڈ یونیورسٹی میں کی۔ واپسی پر رام پور اور بڑودہ کی ریاستوں میں ملازمت کی مگر جلد ہی ملازمت سے دل بھر گیا۔ اور کلکتے جا کر انگریزی اخبار کامریڈ جاری کیا۔ مولانا کی لاجواب انشاء پردازی اور ذہانت طبع کی بدولت نہ صرف ہندوستان بلکہ بیرون ہند بھی کامریڈ بڑے شوق سے پڑھا جاتا جاتا تھا۔

انگریزی زبان پر عبور کے علاوہ مولانا کی اردو دانی بھی مسلم تھی۔ انھوں نے ایک اردو روزنامہ ہمدرد بھی جاری کیا جو بے باکی اور بے خوفی کے ساتھ اظہار خیال کا کامیاب نمونہ تھا۔ جدوجہد آزادی میں سرگرم حصہ لینے کے جرم میں مولانا کی زندگی کا کافی حصہ قید و بند میں بسر ہوا۔ تحریک عدم تعاون کی پاداش میں کئی سال جیل میں رہے۔ 1919ء کی تحریک خلافت کے بانی آپ ہی تھے۔ ترک موالات کی تحریک میں گاندھی جی کے برابر شریک تھے۔ جامعہ ملیہ دہلی آپ ہی کی کوششوں سے قائم ہوا۔ آپ جنوری 1931ء میں گول میز کانفرنس میں شرکت کی غرض سے انگلستان گئے۔ یہاں آپ نے آزادیء وطن کا مطالبہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر تم انگریز میرے ملک کو آزاد نہ کرو گے تو میں واپس نہیں جاؤں گا اور تمہیں میری قبر بھی یہیں بنانا ہوگی۔ اس کے کچھ عرصہ بعد آپ نے لندن میں انتقال فرمایا۔ تدفین کی غرض سے نعش بیت المقدس لے جائی گئی۔ مولانا کو اردو شعر و ادب سے بھی دلی شغف تھا۔ بے شمار غزلیں اور نظمیں لکھیں جو مجاہدانہ رنگ سے بھرپور ہیں۔ مثلاً


دورِ حیات آئے گا قاتل، قضا کے بعد
ہے ابتدا ہماری تری انتہا کے بع
د
 
 
جینا وہ کیا کہ دل میں نہ ہو تیری آرزو
باقی ہے موت ہی دلِ بے مدّعا کے بعد
 
 
تجھ سے مقابلے کی کسے تاب ہے ولے
میرا لہو بھی خوب ہے تیری حنا کے  بعد

 

لذّت ہنوز مائدہٴ عشق میں نہیں
آتا ہے لطفِ جرمِ تمنّا، سزا کے بعد
 

قتلِ حُسین اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
 


 
ایک بار اردو پوائنٹ پر ادبی لطیفوں میں مولانا جوہر کی خوش مزاجی کا ایک واقعہ پڑھی تھی وہ بھی یہاں نقل کرتی ہوں ۔۔۔
 
 
 مولانا محمد علی جوہر رام پور کے رہنے والے تھے۔ایک دفعہ سیتا پور گئے تو کھانے کے بعد میزبانوں نے پوچھا کہ آپ میٹھا تو نہیں کھائیں گے؟کیونکہ مولانا شوگر کے مریض تھے۔
مولانا بولے: بھئی کیوں نہیں لوں گا؟ میرے سسرال کا کھانا ہے کیسے انکار کروں؟
یہ سن کر سب لوگ حیران ہوئے اور پوچھا کہ سیتا پور میں آپ کے سسرال کیسے ہوئے ؟
تو مولانا بولے: سیدھی سی بات ہے کہ میں رام پور کا رہنے والا ہوں۔ظاہر ہے سیتا پور میرا سسرال ہوا۔
 
 
آپ کے بارے میں مزید معلومات اردو مجلس میں بھی پڑھی جاسکتی ہیں اس کا لنک یہ ہے ،http://www.urduvb.com/forum/showthread.php?t=8748
 
 
 

Saturday, December 08, 2012

حضرت علی کے اقوالِ زریں دوسرا حصہ

 
 

السلام علیکم
 

حصرت علی مرتضی رضی اللہ عنہ کے ارشادات ،اقوال ،نصیحت ،وعظ ،عمل کمالات ،علم , معرفت ،ایمان ،تقویٰ ، توکل ، قنا عت ، صبر و شکر ، بندگی ،اطاعت ،سخاوت ،عبادت ،   عجز و انکساری ، حکمت ،دانائی ، ایثار و قربانی ایک عام انسان کی سوچ سے بالا تر ہے  پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے  "میں علم کا شہر ہوں ،اور علی اس کا دروازہ ہے ۔


آج میں نے تصوف میگزین پڑھا تو یہ حضرت علی کے اقوال پڑھے ہیں تو پھر ایک بار  آپ لوگوں کے ساتھ شیئر کرنے طبعیت آمادہ  و بے چین ہوئی ۔ اس امید کے ساتھ یہ اقوال شیئر کررہی ہوں کہ  شاید ہم  میں سے کوئی ان اقوال کی روشنی سے فیض یاب ہوسکے ، اللہ ہمیں عمل کرنے میں اپنی خاص مدد فرمائے ۔۔۔


 حضرت علی مر تضٰی رضی اللہ عنہ کے اقوال ملاحظہ فرمائے

پریشانی خاموش رہنے سے کم ،صبر کرنے سے ختم اور شکر کرنے سے خوشی میں بدل جاتی ہے۔

 جو تمہیں غم کی شدت میں یاد آئے تو سمجھ لو کہ وہ تم سے محبت کرتا ہے۔

کبھی کسی کے سامنے صفائی پیش نہ کرو،کیوں کہ جسے تم پر یقین ہے ، اسے ضرورت نہیں اور جسے تم پر یقین نہیں وہ مانے گا نہیں۔

ہمیشہ سچ بولو کہ تمہیں قسم کھانے کی ضرورت نہ پڑے ۔

انسانوں کے دل وحشی ہیں جو انہیں موہ لے ، اسی پر جھک جاتے ہیں۔

جب عقل پختہ ہوجاتی ہے ،باتیں کم ہوجاتی ہیں۔

جو بات کوئی کہے تو اس کے لئے ُبرا خیال اس وقت تک نہ کرو، جب تک اس کا کوئی اچھا مطلب نکل سکے۔

دنیا کی مثال سانپ کی سی ہے کہ چھونے میں نرم اور پیٹ میں خطرناک زہر۔۔

کسی کے خلوص اور پیار کو اس کی بے وقوفی مت سمجھو ، ورنہ کسی دن تم خلوص اور پیار تلاش کروگےاور لوگ تمہیں بے وقوف سمجھیں گے ۔

جو بھی برسر اقتدار آتا ہے ، وہ اپنے آپ کو دوسروں پر ترجیح دیتا ہے۔

بھوکے شریف اور پیٹ بھرے کمینے سے بچو ۔


لوگوں کو دعا کے لئے کہنے سے زیادہ بہتر ہے ایسا عمل کرو کہ لوگوں کے دل سے آپ کے لئے دعا نکلے۔

مومن کا سب سے اچھا عمل یہ ہے کہ وہ دوسروں کی غلطیوں کو نظر انداز کردے ۔

سب سے بڑاعیب یہ ہے کہ وہ دوسروں کی غلطیوں کو نظر انداز کردے ۔

سب سے بڑا عیب یہ ہے کہ تم کسی پر وہ عیب لگا ؤ جو تم میں خود ہے۔

جو ذرا سی بات  پر دوست نہ رہے ، وہ دوست تھا ہی نہیں ۔

جس کو ایسے دوست کی تلاش ہو ، جس میں کوئی خامی نہ ہو ، اسے کبھی بھی دوست نہیں ملتا ۔

انصاف یہ نہیں کہ بد گمانی پر فیصلہ کردیا جائے ۔

حکمت مومن کی کھوئی ہوئی چیز ہے ، حکمت خواہ منافق سے ملے لے لو ۔

کسی کی مدد کرتے وقت اس کے چہرے کی جانب مت دیکھو ، ہوسکتا ہے اس کی شرمندہ آنکھیں تمہارے دل میں غرور کا بیج بودیں ۔

صبر کی توفیق مصیبت کے برابر ملتی ہے ،اور جس نے اپنی مصیبت کے وقت ران پر ہاتھ مارا ، اس کا کیادھرا اکارت گیا ۔

موت کو ہمیشہ یاد رکھو ، مگر موت کی آرزو کبھی نہ کرو ۔

قناعت وہ دولت ہے جو ختم نہیں ہوسکتی  ۔



۔



Saturday, December 01, 2012

پل دو پل کا ساتھ

 









السلام علیکم


پیاری بہنوں اور محترم بھائیوں:۔ آئیے آج آپ میرے اور میری تخیلات کی دنیا میں پل دو پل ساتھ گزار کر بتلائیں کہ آپ کو میری باتیں کیسی لگی۔۔۔

یہ چند ہی دنوں پہلے کی بات ہے ۔ بدھ کے روز رات بھر بارش ہوتی رہی جمعرات کی صبح بھی بوندا باندی کا سلسلہ قائم تھا ۔ ہمیں دواخانہ منتھلی چیک اَپ کے لئے جانا تھا۔ میں سمجھ رہی تھی کہ اس بارش کی وجہہ سے لوگ کم ہی آئے ہونگے مگر وہاں جانے کے بعد پتہ چلا کہ میں غلط سوچ رہی تھی دواخانے کے قریب ہمیں پارک گنگ نہ مل سکی ۔ وہاں پہلے سے بہت ساری گاڑیاں موجود تھی میرے صاحب نےمجھے دواخانے کے داخلی دروازے پر چھوڑنا چاہا تو میں ساتھ ہی رہنے کہا تووہ بنا اترنے مجبور کئے آگے چلنے لگے کیونکہ عقب کی گاڑی نے سمجھانے کی مہلت ہی نہ دی تھی ۔ موڑ کے آخری سرے پر گاڑی پارک کرکے ہم زمین پر بارش کے پانی کے مد نظر احتیاط سے چلنے لگے ۔ میاں فٹ پاتھ کی طرف جانے لگے تو ان کی تقلید میں میں بھی چلنے لگی ۔ کچھ دور جانے کے بعد دو تین گاڑیاں فٹ پاٹھ پر چڑھا کر پارک کی گئی تھی جس کی وجہہ سے ہمیں سڑک سے ہوکر گزارنا پڑا ۔ سڑک پر پانی تھا اور گاڑیاں قریب سے آہستہ آہستہ گزار رہی تھی پھر ایک تویوٹا گاڑی بڑی تیزی سے گزری جس کو دیکھتے ہی میں فٹ پاتھ کی طرف اچھل کر ایک قدم بڑھا دی اور ساتھ ہی ساتھ اتنی ہی تیزی سے مجھ پر کراہیت اور غصّہ کی کیفیت طاری ہونے لگی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انہوں یہ سمجھتا کیا ہے گاڑی میں بیٹھا ہے تو ،ارے پرسوں ہی میں نے شاید عرب نیوز میں پڑھا تھا کہ ٹویو ٹا کے سب سے اعلٰی عہدے دارسی ای او بھی ایک عام انسان کی طرح سب ورکز کے ساتھ بیٹھکر کھاتے ہیں اور ایک یہ بھی انسان ہےصرف ایک ٹو یو ٹا گاڑی کا مالک ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بد تمیز۔ میں دل ہی دل بڑبڑانے لگی ۔


میرا موڈ خراب ہو چکا تھا میں خاموش ہی تھی مگر ذہن بہت کچھ سوچ رہا تھا ۔ہمیشہ کی طرح ہم ڈاکٹر کے پاس گئے اور وہ بھی ہمیشہ کی طرح میرے صاحب سے سلام کے بعد سیاسی باتیں شروع کردیں پھر اس نے کچھ وقت کے بعد ہاتھ سے اشارہ کر کے کہا کہ میرا وطن بہت نیچے کی طرف جارہا ہے ۔ او کے ، تمہارا کیا حال ہے ۔ اس کے چہرے پر تفکر، افسوس دیکھکر مجھے بہت اچھا لگا ۔ اس لئے نہیں کہ وہ فکر مند ہے بلکہ اس لئے کہ وہ اپنوں اور اپنے وطن کے لئے فکرمند تھے ۔۔ یہ بھی ایک انسان ہے جو اپنے وطن سے اتنی دور رہکر اس کے لئے اتنا سوچتا ہے اللہ اس کی پریشانی دفع کرے ۔

 
کچھ دیر بعد میں ای سی جی روم کے باہر میاں کا انتظار کررہی تھی کہ دیکھا ایک گیارہ سال کا لڑکا نو سال کے لڑکے کے ساتھ آکر نرس کو آواز لگا رہا تھا وہ شاید اس کا چھوٹا بھائی تھا کیونکہ دونوں کے چہرے بہت ملتے جلتے تھے ۔ ان کے ساتھ کوئی بڑے دور دور تک نظر نہیں آرہے تھے ۔ اس لڑکے نے اپنے چھوٹے بھائی کو کرسی کی طرف اشارہ کر کے بیٹھنے کہا اور خود انتظار میں ادھر اُدھر ٹہلنے لگا ۔ نرس کے آنے پر بات کرنے کے بعد بھائی کا سر سہلانے لگا اور دونوں ای سی جی روم میں چلے گئے ۔ میں نےزور سے پلک چھپک کر محسوس کرنا چاہا کہ یہ فلم نہیں حقیقت ہے ۔۔


وہیں بیٹھے بیٹھے میں نے اپنے قریب بیٹھے لوگوں پر نظر دوڑائی تو میرے بازو دو موٹی موٹی سعودی عورتیں تھی جس کو میں نے بیٹھتے وقت سلام کیا تو انہوں نے سلام کا جواب تو نہیں دیا مگر اپنی گفتگو کو منقطع کرکے میری طرف ایک نظر دیکھ کر پھر سے محو گفتگو ہوگئی تھی ۔ میرے سامنے کی سیٹ پر ایک ہندو خاتون اپنی دو لڑکیوں کے ساتھ تھی باتیں کرنے کے انداز سے مدراس کی لگ رہی تھی اسی کے بازو ایک موٹی خاتو ن اور ایک دبلی خاتون تھی جو شاید ماں بیٹی لگ رہی تھی چونکہ تھوڑی دیر پہلے دبلی برقعہ پوش نے دوسری خاتون کے پرس سے فون نکل کر لینے پر اس نے ہاتھ سے واپس لے لیا تھا۔ اب میں سامنے کنڑ پر لگی لائن کا جائزہ لینے لگی اتنے میں کیا دیکھتی ہوں کہ لائن میں کھڑی ایک محترمہ سے ایک دوسری محترمہ نے نہ جانے کہاں سے ایک دم آکر بہت ہی گرم جوشی سے ملنے لگی دیکھنے میں وہ مصری لگ رہی تھی کیوں کہ ان کے چہرے کھلے تھی اوروہ عربی میں باتیں کرہی تھی پہلے تو وہ ایک دوسرے کے گال سے گال ملایا پھر ہاتھ ملائے اورکچھ دیر باتیں کرنے کے بعد ادھرِاُدھر ہوگئی۔ وہ ساری گفتگو کے دوران ایکسا ہاتھ تھامے رہے ان کے چہروں پر خوشی اور اپنائیت کے احساس نے تو دیکھنے والوں کے اندر بھی شادابی بھر دی ت....


اب میرے سامنے والی مدراسی فیملی نے بے چین ہو کر اپنے بازو والی خاتون سےانگریزی میں فون مانگنے لگی تھی ۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتی میرے بازو بیٹھی خاتون نے اسے اشارے اور زبان سے ایک ساتھ دینے سے منا کردیا ۔ مجھے لگا اب وہ مدراسن یہاں موجود خواتین سے نا امید ہوکر دور کھڑی نرس سے فون کی التجا کے انداز میں سوال کیا مگر ان نرسوں نے بھی اس سے بہانہ بنا دیا ،مجھے یہ اچھا نہیں لگا اور میں نے اسے اپنا فون نکال کر دے دیا ۔ ابھی فون لگا ہی تھا کہ اس کا ہسبنڈ ہنستے سامنے آموجود ہوا اور اس نے بجائے شکریہ کہنے کے یو انڈین سوال کردیا میرے سر کی جنبش کے ساتھ ہی ہاتھ ہلا کر چلی گئی ۔ ابھی وہ گئی ہی تھی کہ اس کے پیچھےا یک سعودی میاں بیوی ہاتھ تھامے چلے آرہے تھے جس کے سامنے ان ہی کا ایک تین چار سال کا لڑکا چھوٹے سے اپنے گلے کے مفلر سے کھیلتے چلتے ہوئے آرہا تھا ۔ اس نے ایسے اندازِ بے نیازی سے مفلر کے ایک سرے کو چھٹکے سے کندھے پر ڈالا اور میرے سامنے سے گزارنے لگا۔ اُسے ایسا کرتے دیکھ کر مجھے لگا جیسے میں نے بھی اُسے دیکھنے سے اپنے سارے غم اور ٖغصہ اور شکوئے شکایات پست پشت ڈالکر اس ننھنے شہزادے کی طرح ہر بات سے بے نیاز ہوگئی ہوں ۔

 
یہ پل دو پل کا تعلق بھی عجب ہے یہ پل دو پل کی ملاقات بھی ہمیں کیسا اچھا اور برا احساس دے جاتے ہیں ہم مختصر سے ساتھ میں بھی دوسروں پر اپنا تاثر چھوڑ جاتے ہیں ۔ سامنے والا ہمارے رہن سہن ، طور طریقہ اور رویہ ہی کی وجہہ سے ہمارے بارے میں رائے قائم کرلیتے ہیں ۔ ہمارا ایک اچھا عمل بھی کبھی ہم کودوسروں کی نظر میں بے نظیر اور نفس بنا دیتا ہے اس لئے ہمیں چاہیے کہ خود میں اچھی باتیں پیدا کرنے کی کوشش کریں اس طرح ہم مثالی بنکر نظر نوازبن جائے تو کیا ہی بات ہے ۔

 
اس لئے بزرگوں کا فرمان ہے کہ مومن کی شان یہ ہے کہ وہ بین الخوف الرجاء یعنی عذاب الٰہی کے خوف سے ہر وقت کانپتا رہتا ہے ۔ کہ زندگی کے کسی بھی لمحے معصیت کا ارتکاب نہ کر بیٹھے جس سے جہنم میں نہ جانا پڑے ۔ باوجود یہ کہ اسے اللہ کے بارے میں حسن ظن ہوتا ہے کہ وہ رحمٰن و رحیم اسے گناہوں سے بچنے کی تو فیق بھی دے گا ۔ اچھے انسان ایسا کوئی کام نہیں کرتے جس کی وجہہ سے خود کو اور دوسروں کو تکلیف اٹھانی پڑے ۔


ہمیں چاہیے کہ جو کچھ کریں اللہ سے ڈرتے ہوئے کریں کیونکہ ہم اپنے اپنے اعمال کے ساتھ اللہ کے حضور پیش کئے جائنگے جس نے ذرّہ برابر نیکی یا برائی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا ۔ لوگوں کے اعمال کے مطابق ہی فیصلہ فرمائے گا۔


اللہ پاک ہم کوہمیشہ نیک کاموں کی توفیق عطا کرے۔

....میرے بلاگ پر آنے کی تہہ دل سے شکر گزار ہوں
 
 
.