Tuesday, June 30, 2015

ہم نے روزہ رکھا





السلام علیکم

 آج صبح جب میں نے فیس بک کھولا تو دیکھا کہ شعیب صفدر بھائی کا مسیج انتظار کررہا تھا پہلے تو حیران ہوئی کہ کبھی نہیں سو بھائی نے کیسے یاد کیا۔ جب پڑھا تو بے اختیار مسکراہٹ آگئی لکھا تھا "آپ کو اپنی تحریر میں ٹیگ کیا ہے مطلب آپ کو ایک تحریر بچپن کے روزوں پر لکھنی ہے " مجھے لگا صفدر بھائی جج کی کرسی پر بیٹھے حکم صادر فرما رہے ہیں اور  تحریر نہ لکھنے کی صورت میں ہتھوڑا ہمارے سر پر نہ لگ جائیں اس لئے اپنی پہلی فرصت میں فائل اوہ سوری تحریر تیار کردی ہے  ۔ میری زبانی میرے پہلے روزہ کا حال کچھ یوں عرص ہے۔

بچپن کی باتیں بچپن کی طرح ہی سہانے ہوتے ہیں  ۔ بچپن میں ہم، ہم نہیں ہوتے بلکہ ایک انجمن ہوتے ہیں جہاں امی بابا اور بہنوں بھائیوں کی نصیحت مشورے پیار محبت ڈانٹ ہمارے ہر قدم کو ناپنے تالنے کے بعدبھی تیار ملتے تھے  ۔ میں خود کو ایک گڑیا کی طرح محسوس کیاکرتی تھی کیا کرنا ہے کب کھانا ہے کہاں جانا ہے بیٹھنا ہے  بڑے کہتے اور ہم بنا سوچے سمجھے  ایک بے جان گڑیا کی طرح تعمیل کیا کرتے ۔

جب میں پانچ سال کی تھی اب کی طرح گرمیوں میں رمضان آیا تھا ۔ ایک دن میں نے امی بابا کی باتیں سنی بابا  میرے روزہ رکھانے کی بات کررہے تھے۔ امی  میرے بہت چھوٹے ہونے کی بات کی تو بابا نے فرمایا کہ چھوٹی تم کو دیکھ رہی ہے ،ہمارے سارے بچے پانچ سال میں روزہ رکھے ۔امی نے گرمی کا بہانہ بنایا تو بابا مان گئے ۔  کیوں کہ میں  گھر کی سب سے چھوٹی فرد ہونے سے  بہت لاڈ دلار  ہواکرتے تھے ۔اس لئے آیندہ سال پر بات ٹل گئی مگر مجھے یاد ہے میں نے بابا  کے  سامنے امی سے روزہ رہنے کی ضد پکڑ لی امی انکار کرتی رہیں تو بابا نے مجھے سمجھایا کہ رات میں اٹھکر کھانا ہوگا پھر سارا دن کوئی بھی چیز حلق سے نہیں اترنی ہوتی ہے پانی تک بھی نہیں ۔  میرے ہاں ہاں کہنے کے بعد سحر کی تیاری کی گئی مجھے سحر کا بالکل یاد نہیں مگر امی کہتی تھی کہ ہمارے پڑوس میں ایک نورانساء آپا ہوا کرتی تھی جو سحر میں آکر امی کے بعد انہوں نے  کھلانے کی آخری کسر پوری کی تھی ۔ فجر کی نماز کے بعد سب قرآن پڑھنے بیٹھے تو ہم نے بھی اپنا  قاعدہ پڑھا ایسا لگ رہا تھا کہ اب میں بھی سب کی طرح بہت بڑی ہوگئی ہوں  ۔کچھ دیر سونے کے بعد امی نے ظہر کی نماز کو اٹھا یا پھر امی تو افطار کی تیاری میں لگ گئی مگر ساتھ ہی ساتھ ہم پر نظر بھی رکھی رہتی کہ ہم کچھ کھا نہ لیں یہاں تک کہ ہم باتھ روم جانا چاہتے تو پہلے سمجھاتے کہ پانی بھی پینا نہیں ہے ۔جب باہر آتے تو سب غور سے دیکھتے منہ پر پانی کی تری تو نہیں مگر ہم تو بہت ہی شریف سی بچی تھے ان کی نظروں سے ہڑ بڑا جاتی  ۔

 جوں توں کرکے وقت گزار رہا تھا ۔ آہستہ آہستہ سے ہوتے ہوتے  زور سے چوہے پیٹ میں اچھلنے کودنے لگے تھے ۔ہونٹ سوکھ کر پپڑی آگئی تھی باربار زبان پھیرنے سے بھی کچھ نہیں ہورہا تھا زبان خود سوکھکر کانٹا ہوگئی تھی ۔امی یہ کیفیت دیکھ رہی تھی کام کے ساتھ مجھے دوسرے بہنوں بھائیوں کے روزے کے صبر کے قصے سناتی رہی مگر میری توجہ امی کی باتوں سے زیادہ امی کے کام پر زیادہ تھی جہاں افطار کی دال ، فالودہ نہ جانے کیا کیا بنا رہی تھی ۔ ساتھ یہ بھی بیچ بیچ میں کہتی کہ تم روزہ ہے بول کے اتنی ساری چیریں بن رہی ہیں ۔ امی کا یہ جملہ بڑا تسلی بخش ہوتا۔

پھر بابا اسکول سے آئے ( ٹیچر تھے) آتے ہی  مجھے  تیار ہونے کہا اور خود فرش ہوکر مجھے باہر لے آئے سب سے پہلے ہم نے سیکل رکشا میں بیٹھ کر چارمینار پہچے وہاں سے ٹیکسی کرکے  سکندرآباد  گئے  سکندرآباد میں ڈبل بس تھی اس میں بیٹھا کر ریلوے استیشن لے آئے پھر ہم نے  ریل گاڑی میں سفر کرکے نامپلی اسٹیشن پر اترے نامپلی میں معظم جاہی مارکٹ  پہچےوہاں سے  قسم قسم کےبہت سارے میوے خریدے گئے ۔  پھر رکشا کرکے گھر واپس آئے اس عرصہ میں کبھی ہمیں ڈبل بس کی خوشی رہتی تو کبھی ٹرین میں پہلی بار بیٹھنے کا مزہ آتا رہا سارے چھاڑ مکان اتنی تیزی سے گزرتے رہے اور اسی رفتار سے ہمارے دماغ سے روزے کا خیال بھی جاتا رہا پھلوں کی مارکٹ میں بار بار بابا ہم سے پوچھتے یہ لینا ہے  وہ لیں  تو ہمیں لگتا ہم کوئی کہانی کی شہزادی ہیں جس کی پسند پر ہر چیز لینے سے پہلے پوچھ رہے ہیں ۔

بہت سارا وقت بڑے اچھے سے گزار گیا ۔پھر بھی  مغرب کو باقی تھا ، مجھے لگتا جیسے وقت سے پہلےمیری آنکھوں کے آگے  آندھیرا ہوگیا ہے ۔ اب پوچھنے لگی تھی کتنا وقت باقی ہے ۔۔۔ بس ابھی ہوگیا سمجھو ہر بار اسی طرح کا کوئی جواب ملتا ۔ بابا نے جب یہ حال میرا دیکھا تو ہمیں کام لگانے لگے چلو اب ہم چاٹ بناتے ہیں امی کے پاس سے یہ لے آو یہ دے آو ،یہ سیب ادھر دینا وہ کیلا یہاں رکھیں چاٹ بنتے بنتے وقت کوچاٹ گیا ۔ پڑوس کو حصے  بھجوائے گئے وہاں بھی ہمیں ساتھ جانے کہا ۔پڑوس سے واپس آنے پر دیکھا کہ لمبا چوڑا  لال دستر لگایا گیا ہے اس پہ مختلف پکوان اور  پھل رکھے ہیں انہیں دیکھ کر جان میں جان آئی ۔ایک ایک کرکے سب آکر بیٹھتے گئے مجھے بھی  سب کے بیچوں بیچ چگہ دی گئی  مگر وقت تھا کہ تھما ہوا تھا کچھ دیر میں  زور کی سیرنگ کی آواز آئی تو سب ہی بہت خوش ہوگئے ہر ایک نے میرے صبر کی تعریف کرتے دعائیں  دینے لگے ۔اس دن جو افطار پہ خوشی ہوئی  وہ ابھی تک یاد رہ گئی ہے۔ 

 جب بھی میں وہ حدیث پڑھتی یا سنتی ہوں جس میں کہا گیا ہے کہ روزے دار کو دوخوشیاں ملتی ہیں  جن سے وہ خوش ہوتا ہے ۔ایک تو وہ اپنے  افطار سے خوش ہوتا ہے دوسرا وہ اس وقت خوش ہوگا جب وہ اپنے روزے کے سبب اپنے پرور دگار سے ملے گا (صحیح)

اللہ پاک ہمیں دوسری خوشی کا موقع بھی عطا فرمائے ۔        

Wednesday, June 24, 2015

محبت اور نظر

محبت اور نظر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


کل رات  افطار کے بعد مجھے بہو کے ساتھ ہاسپٹل جانے کا اتفاق ہوا  وہاں پر ویسے تو بہت سارے جوڑے ڈاکٹر کے منتظر  نظر آرہے تھے مگر ان میں ایک  بہت ہی نمایا سا جوڑا تھا ۔یا مجھے لگ رہا تھا  ۔ جو نو بیاہتا  معلوم ہوتا تھا  جب وہ لوگ نام لکھانے لائن میں کھڑے تھے ۔ میں دور بیٹھی انہیں پہلی بار دیکھی تھی تب میاں اپنی بیوی کے بہت ہی قریب کھڑا جھک کر سر سے سر لگا کر سرگوشی کرتا تو کبھی جھک کر کانا پھوسی کرتا رہا اور جب کرسیوں پر ہم آکر بیٹھے تووہ سامنے کی کرسیوں پر بیٹھے شوہرنامدار بیوی کی کرسی کے پیچھے ہاتھ رکھےنہ جانے کس بات پر  ہنس رہے تھے اور بیوی خاموش سیل کو دیکھے جارہی تھی۔ پھر میاں نے کمر کی قریب ہاتھ سرکاتے  بیگم کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مسکراتے کچھ کہا ہمارے درمیان کچھ فاصلہ  تھا اور آواز دھیمی تھی سنے تو کچھ نہیں آیا مگر میں انہیں دیکھ کر محظوظ ہوتی رہی اور سوچتی رہی کہ اس طرح جائز محبت کو دیکھنے سے بھی دل میں خوشی و پاکیزگی کا احساس رہتا ہے اس کی جگہ اگر کوئی نامحرم ہونے کا شبہ بھی ہو ،تو دیکھ کر کوفت سی ہونے لگتے  ہے یہ لڑکی شاید پپلیک کی جگہ ہونے سےمیاں سے انجان ہے یا ان کے درمیان کہا سنا تو نہیں ہوگیا ؟یاپھر یہ لڑکی اس لڑکے کو پسند نہیں کرتی ؟ نہیں نہیں یہ تو اس لڑکی سے بھی زیادہ خوبرو گورا سجیلا نوجوان ہے پھر پھر  ۔۔۔۔۔۔  ان سوچوں میں گم تھی کہ مجھے یوں دیکھتا اور سوچتا دیکھ کر میری بہو نے خود  ہی بتایا کہ امی جب یہ لڑکی میرے ساتھ لائن میں کھڑی تھی نا تب فون پر بتا رہی تھی کہ مما میرے پاس کوئی 
     خوشخبری نہیں ،ہم ڈاکٹر سے مل کر آنے تک دیر ہوجائے گی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس سے آگے میں کچھ نہ سنی پھر خیالوں کی دنیا میں لوٹ آئی ۔

میں سوچنے لگی محبت تیرا ہر رنگ خوبصورت ہے تو دکھ میں بھی اچھی 
 لگتی ہے اور سکھ میں بھی، تیری بے رخی بھی پرکشش ہے اور اظہار بھی 
اچھا لگتا ہے ۔ دیکھنے میں اور کرنے اور پانے میں بھی تیرا جواب نہیں ۔

زند ہ باد، زندہ باد اے محبت تو زندہ باد



Sunday, June 21, 2015

مفید ماہ


رمضان کا مہینہ بڑا برکتوں کا ہے 
پیغام مومنون کے لئے رحمتوں کا ہے



رمضان المبارک عبادتو ں اور برکتوں والا مہینہ ہے۔ دنیا کے ہر مسلمانوں کے
 لئے یہ خاص مہینہ روحانی قوت مہیا کرتا ہے. رات کی نیند کی قربانی دے کر سحری کی جاتی ہے ۔دن کے اوقات پر کھانے پینے سے خود کو اللہ کی خوشنودی کے لئے روکتے ہیں اس سے غریب مسلمان کی تکلیف کو محسوس کرتے ہیں ہمدردی اور انسانیت کے جزبہ کو ترقی ہوتی ہے ۔خود ہماری صحت کے لئے بھی فائدہ مند ہے ۔رمضان میں ہر نیک کام کا اجر اللہ پاک بڑاکر دیتے ہیں روزہ کا اجر تو اللہ ہی دینے والا ہے اور وہ سب سے زیادہ دینے والا ملکِ حقیقی ہے ۔ خوب اس سے سوال کریں اللہ کو دعا کرنا پسند ہے ۔ ہمیں چاہئے کہ بنا کسی وجہہ کے روزہ نہ چھوڑیں ۔اس کی قضا بھی کردیں تو بھی خسارہ پورہ نہ کرسکے گے ۔رمضان کے اس برکاتوں رحمتوں والے مہینہ میں خوب خوب مستفید ہوں۔اس ناچیز کو بھی اپنی دعا میں یاد رکھیں

Tuesday, June 16, 2015

پیدائشی مقصد




ہم بچپن سے یہ سنتے اور پڑهتےآئے ہیں کے ہماری پیدائش کا مقصد اللہ کی
 عبادت کر نا ہے ہم کماتے ہیں کهانے پہنے ضرورت زندگی کی تکمیل کے لئے اور کهاتے ہیں تو بدن کی طاقت قوت ، تندرستی وتشو نما کے واسطے .اب ہم کو چائیے کہ اس طاقت قوت کا صحیح استعمال کریں .جس نے اس جسم کو پیدا کیا اس کو ناتواں سے توانائی دی تو ہم پر فرض ہے کہ سب سے پہلے ہم اللہ کا حق ادا کریں پهر اللہ کی بنائی ہوئی مخلوق کے حقوق جو ہم پر اللہ نے لاگو کئے ہیں ان کوادا کرنے کی کوشش کریں

مولانا عبدالقدیر صدیقی رحمتہ علیہ فرماتے تهے
تم اللہ کا کام کرو وہ بهی تمہارا کام کردے گا . ومن یتوکل علی اللہ فهو حسبہ (الطاق، آیت 3) ترجمہ : اور جو اللہ پر
بھروسہ کرتا ہے تو اللہ اس کے لئے کافی ہو جاتا ہے .


کیا ہی اچهی بات کہی ہے جس کا اللہ ہوجاے پهر اسے کسی غیر اللہ  کی کیا ضرورت .اللہ کو راضی کرنا ہے تو ہمیں اس کے احکام کو بجا لانا ہوگا . ہم غور کریں تو معلوم ہوگا کہ آج مسلمان اللہ کے حکم کی پاسداری نہیں کرتا  دنیا میں مشغول ہوگیا ہے اسی لئے ہم جگہ جگہ ظلم کا شکار ہورہے ہیں .جب تک ہم اپنی حالت نہیں بدلتے تب تک عزت و امان سے رہنا دشوار ہے .اس لئے میرے اچهے بهائیوں اور بہنوں ہم اپنا پیدائش کا مقصد یاد رکهے  .اللہ کی بندگی میں سر خم  کرینگے تب ہی ہمیںہر کام میں کامیابی ملے گی  

کچه یاد خدا کر لے بابا 
جو بهول گئے پچھتائو رے