Saturday, March 30, 2013

نعت شریف

السلام علیکم
 
 
 

Monday, March 18, 2013

ہنسی کی اقسام

ہنسی کے اقسام
  
بچوں کی معصوم دلکش ہنسی 
السلام علیکم


آج رات میرے بچے سونے کے بعد میں بیٹھی سارے دن کاجائزہ لینے لگی تو اپنی سب سے چھوٹی بیٹی کا معصوم ہنستا چہرہ اور باتیں یاد آئیں تو وہ سوچکر مجھے بھی ہنسی آگئی مجھے ہنستا دیکھکر میاں حیران تھے انہیں حیران دیکھکر مجھے خیال آیا کے میری ہنسی ان کے لئے حیرانی اور تجسس کی وجہ بن گئی ہے۔

 
اور پھرایک بار میں تخیلات کی دنیا میں کھو گئی۔ ۔ غور کریں توہنستے ہوئے کو دیکھنے والے اور ہنسنے والے کے تاثرات کتنے مختلف ہوتے ہیں اور دیکھا جائے توکوئی ہنستا نظرآئے تو لگتا ہے وہ خوش ہے مگر ہر بارایسا نہیں ہوتا اس کی وجہہ الگ الگ رہتی ہے اس کے پیچھےچھپا جذبہ کا موجب جدا رہتا ہے ۔ کوئی میری طرح ماضی کی بات یاد کرکے ہنستے ہیں تو کبھی یہ خوشی کی انتہا کا سبب بھی ہو سکتی ہےاورکبھی یہ صرف اپنوں کو دیکھنے سے بھی میسر ہوجاتی ہےتو کبھی اپنوں کو خوش کرنے لائی جاتی ہے۔ کبھی تو ایک کی ہنسی دوسرے کی شرمندگی کا باعث بھی ہوتی ہے اور کبھی یہ ہی ہنسی کسی کی مجبوری بن کرنمایا بھی ہوتی ہےاور کبھی کسی ہنسی کے اندر صبر کا سمندر پنہاں ہوتا ہے اورتو کبھی اسے مصلحتاً ہونٹوں پرسجالیا جاتا ہے ۔ کبھی ہنسی، ہنسنے والے کی قوت برداشت کی عکاسی کرتی ہے ،کبھی دیوانوں کی آواز بن جاتی ہےاور کبھی ظالم کے نشترمیں تبدیل ہوجاتی ہے۔ بعض کوگھمنڈ سے ہنسی اڑانے میں مزہ آتا ہےاور بعض بزدل اور ڈرپوک خود کی ہی ہنسی اُڑوالیتے ہیں تو کبھی یہ ندامت میں ظاہر ہوتی ہے اور کبھی کبھی بھولے پن اور نادانی کو عیاں کرتی ہے۔اور کبھی ہنسی دل لگی اور کھیل ٹھٹھے کےلئے بھی کیا کرتے ہیں ۔

پتہ نہیں کیوں پھر بھی یہ ہنسی، خوشی ہی کی علامت سمجھی اور مانی جاتی ہے اس کو پانے کے لئے ہر ایک بے چین رہتا ہے مگر کسی کے پاس ٹک کر نہیں رہتی ۔ اللہ پاک ہم کو ایسی ہنسی عطا کر جواپنے اور دوسروں کی خوشیوں اور دلی سکون کاباعث بنے۔ ہنسی کو لیکر مجھے اس وقت مخدوم محی الدین کا ایک شعر یاد آرہا ہے پیش خدمت ہےاور اس کے ساتھ ہی اجازات بھی چاھتی ہوں ۔


ہم نے ہنس ہنس کے تری بزم میں اے پیکرِناز


کتنی آہوں کو چھپایا ہے تجھے کیا معلوم





آپکی مشکور ہوں میرے تخیلات کی دنیا میں تشریف لانے کے لئے۔

Tuesday, March 12, 2013

حیدرآبادی ثقافت کا ایک جز ۔۔ پان

 
 السلام علیکم
 
میرے معزز بھائیوں اور پیاری بہنوں
 
آج حیدرآباد کی باتیں اپنے پرانے شوق اور پسند کے بارے میں سوچا تو ذہن نے یادوں کے دریجہ سے کچھ  پان کی باتیں یادکروانے لگی اور میں نے سوچا کہ یہ ہی ٹاپک پر بلاگ میں بھی آپ سب کے ساتھ باتیں اور یادیں شیئر کرلو ۔
آپ سب کو تو پتہ ہے میں حیدرآبادی ہوں تو پان کے ٹسٹ کو نہ جانے یہ ہو ہی نہیں سکتا ہر حیدرآبادی یا حیدرآباد آیا ہوا مہمان میرے خیال سے ایک بار تو پان کبھی نہ کبھی کھایا ہی ہوتا ہے۔
 
کہتے ہیں کہ پان کھانا نور جہاں نے ایجاد کیا۔یہ دربار سے ہوتے ہوئے امیروں میں آیا اور پھر شاہانِ مغلیہ سے سلطنت ِآصفیہ کو ورثے میں ملا۔ یہاں کے امیروں سے پھر عام خاص میں بھی پھیل گیا۔


پان کے ساتھ ہی مجھے پہلے زمانے کے وہ گھر یاد آتے ہیں جس کا کشادہ سا دالان ہوا کرتا جس میں سفید چاندنی(سفید چادریں) کا فرش بچھا ہوتا اس کے بیچ میں سوجنی اوپر کے حصہ میں بیچھائی جاتی اور سوجنی پر دور دور دو یا تین گاو تکیہ لگے ہوتے ۔اور ایک کونے میں پاندان(جس میں سارے پان کے لوازمات ہوتے)،ناگردان(جس میں ایک صاف کپڑے میں پان لپٹ کر رکھا جاتا)،ایک ٹرے جواکثر پان ہی کہ واضع کی ہوتی جس کے اندر ایک چین رکھی جاتی جس سے متصل چھوٹی چھوٹی چین اور بھی جڑی ہوتی اس میں تھوڑی تھوڑی دور پرلونگ کی طرح بنے ہوئے کانٹے ہوتے جس میں پان کی گلوری کوچھو یاجاتا اور اسےمختلف ڈیزائن کی تھالیاں یا خاصدان میں رکھکر کھانے والوں کے سامنے پیش کیا جاتا ۔ سروطا جس سے چھالیہ کاٹی جاتی ، ساتھ میں اُگالدان بھی رہتا ۔ یہ پان کھانے کے بعد پیک کے لئے ہوتاتھا۔اس کی خاص وضع بنی ہوتی نیجے اور اوپر سے کھلا کھلا اور پیچ میں (خوبصورت حسینہ کی طرح) کمر تنگ بنا ہوتا ہےاس وضع سے فائدہ یہ ہوتاہے کہ پیک نظر نہیں آتی اور چھیٹے بھی اچھل کرکپڑوں پر نہیں آتے۔ پہلے زمانے میں نوابوں کے پاس ملازم خدمت میں مامور ہوتےتھے جہاں آنکھوں کا اشارہ اگلدان کی طرف کیا جاتا وہ دوڑ کر قریب لے آتا۔ غریب گھروں میں یہ فرض بیوی بھی اٹھا تی اور کبھی بیٹی کے بھی ذمہ رہتااور اکثر عادی حضرات کے بازو ہی اگالدان رکھ دیتے تھے کیوں کہ وہ اس کے بار بار حاجت مند رہتے ۔ پان مختلف وضع کے بنائے جاتے ہیں جیسے کون کیطرح اور چار کونی ،تین کونی سموسہ کی طرح بھی بنائے جاتے ہیں یہ بنانے کا بھی خاص طریقہ ہوتا جس کے بنے کے بعد بیڑا کھولتا بالکل نہیں ہےاور کھول نہ جائے احتیات کے خیال سے بیڑے کو لونگ لگا دیا کرتے ہیں ۔ شادی بیاہ یا دعوتوں میں پان پر چاندی کا ورق لگا کردیا جاتا ہے ۔ جس سے پان کی شان اور میزبان کےسلیقہ کا مظاہرہ ہواکرتا ہے۔
 
 پان مختلف طریقوں سے بنایا جاتا اور ہر طریقہ کو نام بھی دیا گیا ہے جیسے زعفرانی پان ،پودینہ کا پان ،سادہ پان ،زردہ کا پان ،قوام کا پان اور میٹھا پان جس میں گلقند کھوپرا ڈالا جاتا ۔

پاندان جہیز میں دینا لازمی ہوا کرتا۔ پاندان کے ساتھ خاصدان ،اگلدان ،پان کی ڈبہ یا تھالی بھی دیجاتی۔ یہ پاندان مختلف ساخت کے بنائے جاتے جو مختلف سائز کے ہوا کرتے اور مختلف دھات کے بنے ہوتے ۔ جرمن سلور کے پاندان مرادآباد کا بنا رہتا ہے اس لئے یہ مراد آبادی پان دان ہی کہلاتا جس میں منقش اور بغیر نقش کے بھی ہوتے ہیں اور بعض میں جالی بھی بنی ہوتی یہ بنے تو جست ،تابنہ یا پیتل کے بھی ہوتے ہیں اکثر ان کے اوپر چاندی کی پالش  چڑائی جاتی ہے ۔ اور امیرں کے گھروں میں چاندی ہی کے پاندان رہا کرتے تھے ۔ پچھلے بیس ،تیس سال سے اسٹیل کے بھی پاندان بنے لگے ہیں۔

پان کی گلوریاں یا بیڑے رہن سہن میں اتنا شامل ہوگئے تھے کہ ان کی ضیافت اور گھر میں بی بی سے باندی تک کھانا ایک عمومی عمل تھا۔ اس لئے یہ رسومات کا حصہ بھی بن گئے ۔

 جیسے گود بھراؤ کی رسم جس میں پہلے دلہن کو پان اور سپارہ چھپا کر گود میں دی جاتی ہے پھر سات یا گیارہ سہاگنوں کا گود بھرا جاتا ہے یعنی وہ پان اور سپیاری چھپا کر دی جاتی ہے ۔ پھر جب پھول پہنا کر منہ میٹھا کیا جاتا اس کے ساتھ ہی پان کا ورقی بیڑا دلہا دلہن کو کھلا دیا جاتا ۔ اور جب دلہن سسرال آنے کے بعد اگلے دن گھر کے تمام افراد کو گھونگٹ ڈال کر جہیز میں آئے ہوئے پاندان سے  پان بنا بناکر دیتی ہے ۔ گھر کی بہن وغیرہ ساتھ مدد کرنے کے لئے ہوتی تھی جو نام بنام رشتہ بتاتی اور چھوٹے اور بڑے ہونے اور آگے انہیں کیا پکارنا ہے بھی ساتھ سمجھاتے جاتی تھی۔ جس سے نئی دلہن کو افراد خاندان کے نام رشتوں کا اندازہ ہوجایا کرتا تھا۔ چھوٹے اگر ہوں تو قریب آکر پان لے کر سلام کرتےجاتے تھے اور بڑوں کے پاس دلہن کا ہاتھ پکڑ کر لے جایا جاتا تھاوہ دعا دیتے ہوئے پان لیتے۔



اگر دعوت دی جائے تو سب سے آخری چیز ضیافت میں پان پیش کی جاتی،اس سے میزبان کی طرف سے جب جانا چاہیے جانے کی اجازات سمجھی جاتی ہے۔

پان کھانے کے آداب بھی ہوا کرتے تھے چھوٹے بڑوں کے سامنے بنا اجازات کے پان کھانا بد تمیزی سمجھا جاتا،پان کی گلوری منہ میں ڈالتے وقت سیدھے ہاتھ سے کھانا اور دوسرا ہاتھ منہ کے اوپر رکھ کر کھانا، دینے والے اور گھر کے سب سے بڑی ہستی اگر سامنے ہوتو انکو بھی سلام کرنا ضروری سمجھا جاتا۔ لیڈیز میں اگر کوئی بڑے آنے پر پاندان ان کے اختیار میں دے دیتے اس کو عزت دینے میں شمار کیا جاتاتھا ۔ میری طرح بعض لوگ اپنے ہی ہاتھ کا بنا پان کھانا پسند کرتے تو وہ میزبان کی اجازات لے کر خود ہی بنا لیتےاورامانت کی طرح پاندان میزبان کی طرف بڑا دیتےتھے ۔ بغیر اجازات کے پاندان کو استمعال کرنا بد تمیزی سمجھا جاتا ۔

جب کسی کی تعریف کرنے دل کرے تو پان کھانے کے بعد جو ہونٹوں پر لالی آتی، وہ وقت تعریف کے لئے چنا جاتا اور کہا جاتا کہ چہرے پر پان کا لاکھا آیا ہے یا پان کا لاکھا نے تو رونق بڑھا دی ہے یا اہ دیکھو تو پان کی کیا خوب لالی آئی ہے وغیرہ کہا جاتا ۔
 
نوابوں کو جو جاگیر ملتی اسے اور میاں ،بیوی کو جو پاکٹ منی دیتا اس کوپانصدی کہا جاتا تھا۔
 
پیسے مانگنا اچھا نہیں لگتا اس لئے پان سپاری ختم ہوگئی کہنے پر پیسے مل جایا کرتے اور اس طرح پان کے خرچے کے بہانہ تحفتاً پیسے لیے اور دیے جاتےتھے ۔ داماد کو سلامی پان کی ڈبہ میں رکھ کر دی جاتی تھی۔
بی بیاں اپنے صاحب کو توشہ کے ساتھ گلوری بنا کر پان کی ڈبہ میں رکھکر دیا کرتی تھی۔
 
 
جب سے پان میں تمباکو کا استمعال شروع ہوا تب ہی سے پان میں خرابیاں نظرآنے لگی ہیں اور اسے مضر صحت ماننے لگےہیں اوراسی کی بنا پان کا عروج زوال کی طرف آنے لگا۔ تمباکو یعنی زردہ جب پان میں ڈالتے ہیں تو تھوکنا ضروری ہو جاتا ہے اور لوگ بازار میں جب سے کھانے لگے ہیں سڑک پرجہاں جی چاھا تھوک دینے لگے ہیں جس کی وجہہ سے کراہت کا باعث بن گیاہے ۔ اور تمباکو کے نقصاندہ نتائج نے  اسکی شہرت اور استمعال میں کمی کردی۔
 
جہاں پہلے بچے بڑے پان پر جان دیا کرتے تھے ۔بوڈھے پان چبا نہ سکنے پر پان کوٹ کر کھا تے جس کے لئے  ضعیف لوگوں کے لئے ایک چھوٹی پانکوٹنی  بھی رکھا کرتے ۔سب ہی اس کے بے شمارفائدے بتایا کرتے پان کے پتے ہزار سال سے طبی ضروریات میں استمعال کیا جاتا رہا ۔اس میں ڈالے جانے والے اجزاء  لونگ ،الائچی ،سونف،سکھ مکھ،گلقند،نرملی ،چکنی سپیاری ، چھالیہ ، جونا (جس کی تیزی کو کم کرنے) کتھا اور خود پان کی تعریف کرتے سب  ہی نہیں تھکتے ۔   یہاں تک کہ اس کے جبانے کو تک ہاضمہ کے لئے بہتر مانا جاتا اب پان کی جگہ پیپسی نے لے رکھی ہے۔
 
 
آج کے موجودہ دور کی پان سے متعلق صورت حال دیکھے تو بہت افسوس ہوتا ہے۔ پہلے کا الٹ معاملہ ہے اب گھر سے اٹھکر پاندان بازار میں چلے آیا ہے۔ پہلے کی گھر میں پان بنانے والی بیبیاں بھی باہر سے پان منگواکر کھاتی ہیں پہلے وظیفہ خوار کوخود کو خوار نہ سمجھنےانکی اہمیت قائم رہنے کے احساس کے لئے پان کا بیڑا پیش کیا جاتا تھا۔آج کا بزرگ صحت وخرچہ کے مد نظرپان کی عادت کو ترک کر دیے ہیں اور نوجوان لڑکے پان کے ڈبہ پر کھڑے ہوکر پان کھاتے اور جہاں دل چاہا پیک تھوکتے پھرتےہیں،اکثر پٹاری کی دوکانوں پر بد اخلاق لوگ آتےہیں جن کا آمنا سامنا بچوں کوہوتے رہتا ہے اور پھر ملاقات دوستی میں بدل جاتی پھر دوستی اپنا اثر دیکھانے لگتی ہے۔
پان بنا نا بھی ایک فن ہے یہ ہر ایک کے ہاتھ سے الگ الگ مزہ کا بنتا ہے اس کو مزیدار بنانے میں مسالوں کے استمعال کی ٹھیک معلومات اور مقدار اہمیت رکھتی ہے ۔ کسی ماہر کے ہاتھ کا کھاکر دیکھیے یاد رہ جائے گا
۔
کچھ قدیم چیزیں دیکھنے میں بہت اچھی لگتی ہیں اس لئے آج کل اسے سجاوٹی سامان کی طرح بھی رکھا جانے لگا ہے۔
پان پر شاعروں نے شاعری کی ، فلموں میں حیدرآبادی رول میں جان ڈالنے پان کھاتے دیکھایا گیا ،اس پر پہلیاں بھی بنائی گئی۔
 
مجھے بھی بچپن سے پان کا شوق تھا مگر کبھی عادت نہیں بنائی ۔ میری پسند کویاد رکھتے ہوئے میری غیر موجودگی کے باوجود بہن بھائیوں نے ترکہ کے وقت مرادآبادی پاندان جو دعوتوں میں نکلا جاتا وہ اور عام دنوں والا اور اسٹیل کا سفری جو چھوٹا سا ہوا کرتا ہے امی کا مجھے دے دیا  ۔
 
میں نے بھی یہ ساری رسمیں نبھائیں ہیں بہت سارے پان بنائیں اور کھلائے ہیں اور کھائے بھی ہیں ۔ میاں جی آج بھی پان کے شوقین ہے بیٹیوں اور بہوں کو سیکھا دیا ہے اور اب تو کھانے کے ساتھ بنانا بھی چھوڑا ہوا ہے۔


بہت شکریہ میری باتوں کو پڑھنے کی زحمت کے لئے
 


 پاندان اندر سے
 

چاندی کے پاندان کی دوکان جس میں ناگردان ،خاصدان اورتھالیاں دیکھی جاسکتی ہیں

  پان کے پتے
 
پان کے مسالہ