Tuesday, August 25, 2015

سڑک


سڑک



السلام عیلکم

سڑک کئی قسم کی ہوتی ہے  چمکتی دلکش سڑک ، ہموار سڑک ،کشادہ سڑک ،خالی سڑک ،  پتلی سڑک  ، چوڑی سڑک  ، بڑی سڑک ، قدیم سڑک ، نئی سڑک ، پتھریلی سڑک ،بل کھاتی سڑک ،کچی سڑک ،اوپر چڑھتی سڑک ،ڈھلوان کی طرف جاتی سڑک ،ٹامر والی سڑک ، سنسان سڑک ،خطرناک سڑک ،ٹھنڈی سڑک ۔میں ان میں سے کسی بھی سڑک کا ذکر نہیں کرنا چاہتی اور نہ تاریخ پر روشنی ڈالنے کا اردہ ہے جیسا کہ شیر شاہ سوری جس کو ہندوستان کا نپولن کہتے ہیں ان کی تعمیر کردہ ایک ہزار پانچ سو کوس کی لمبی یاد گار جرنیلی سڑک بنائی وغیرہ نہیں سنانا ہے ۔ سڑک تو لوگوں کی آمد و رفت کے لئے بنائی جاتی ہے چاہے وہ کیسی بھی رہے ۔

 ابھی ابھی انڈیا سے آئی ہوں تو کہیں یہ تو نہیں سمجھ رہے ہیں کہ سڑک پر جگہ جگہ گڑھے ہونے یا سڑک  کھنڈرات میں تبدیل ہونے کی شکایت کرونگی یا پھرپانی کی لائن پھٹ پڑنے سے سڑک پر گڑھے پڑگئے ہیں اور نہ یہ بتانا چاہتی ہوں کہ سڑک کی توسع کی آڑ میں ٹھکیدار کیسے اچھے میٹریل کے پیسے لے کر خراب مال استعمال کرتے ہیں اورسڑک کچھ ماہ کے بعد خراب ہوجاتی ہے  یہ بات تو اب شہر کا بچا بچا جان گیا ہے کہنا ہی فضول ہے۔  بزرگ بچے مریضوں کا خیال کئےبناعوام ٹولیوں کی شکل میں کوئی نہ کوئی بات منوانے احتجاج کے لئے سڑک پر نکل پڑتی ہے  اب یہ سب تو ہوتا ہی رہتا ہے اس میں کہنے والی کیا بات ہے

اور یہ بھی سب دیکھتے ہی  ہیں کہ اپنے ہی شہر میں کیسے شہری سڑک پر کچرا پھینک دیتے ہیں جب کہ صفائی آدھا ایمان ہے اور صحت پر بھی اس کا بہت برا اثر پڑتا ہے ۔اس تعلق سے آج ہی میں نے اخبار میں پڑھا ہے کہ کامرس  کے دو گریجویٹ پراتیک اگروال اور راج ڈیسائی دونوں نے اپنے خرچ پر بنگلور ،کولکتہ اوردہلی کی صفائی کے لئے ایک پروگرام بنایا ہے جو دہلی کے ہفتہ وار میوزک فیسٹول میں  وائی فائی کوڑے دان نصب کرکے متعارف کیے ۔اگروال کا کہنا ہے کہ جب کوئی کوڑے دان میں کچرا پھنکتا ہے تو کوڑے دان  ایک کوڈ بھیجتا ہے جس سے مفت وائی فائی  حاصل کرنے استعمال کیا جاسکتا ہے جو بہت کامیاب آئیڈیا رہا ۔ اکثر لوگوں کو کچرا اٹھا کر ڈالتے دیکھا گیا ہے واہ کیا دکھتی رگ پکڑی ہے ان لڑکوں نے

 یہ بھی بتانا بیکار ہے کہ سڑک میں لگی کنکریٹ سیلیں اکھاڑ لی جاتی ہیں یا مین ہول کے ڈھکن چوری کرلئے جاتے ہیں ۔ اور کبھی تو سڑک پر دلھا دلہن اور براتیوں کے ساتھ باچے والے رک رک کر ایسا چلتے ہیں کہ کوئی مصبت کا مارا   دم تک نہیں مار سکتا شادی کے باجے سے یاد آیا کچھ دن پہلے بی بی سی پر پڑھی تھی کہ بہار کے بروان کالا گاوں جو کیموا پہاڑیوں کے درمیان بسا ہے وہاں سڑک نہ ہونے کے باعث بنیادی سہولیات نہیں ہے جس کی وجہہ سے کوئی ان سے شادی  نہیں کرنا چاہتا  اب اس غیر شادی شدہ لوگوں کے گاوں کے مرد شادی کے لئے سڑک تعمیر کرنے کا اردا کئے ہیں اور کہتے ہیں کہ جو بھی ہو ہم تب تک نہیں رکیں گے جب تک پوری چھ کیلو میٹر کی سڑک تیار نہ ہوجاتی ہے ۔ پاپڑ بیلنا محاورہ سنا تھا یہ سڑک بنانے والی بات بھی  خوب ہے ۔  بے چاروں کو شادی کے لئے سڑک بنانی پڑگئی ۔

اس محنتی خبر سے یاد آیا پہلے ہمارے بچپن میں  دیکھا کرتے تھے کہ سڑک کے کمبے کے نیچے بعض لوگ علم کے حصول و جستجو میں بیٹھکر پڑھائی کیا کرتے تھے ۔ آج بچے سارے سہولت فراہم کرنے پر بھی پڑھائی نہیں کرتے ۔

آج کے د نوں میں سڑک پر لادینا ، سڑک پر اتر آنا ۔ سڑک چھاپ عاشقی کے قصہ ، سڑک کنارہ بم دھماکا ، نو مولود بچہ کا سڑک پر پڑا ملنا ،نامعلوم لاش سڑک پر سڑنا ، سڑک پر ٹرک کی ٹکر، سڑک کی خراب حالت کی وجہہ سے گہرے کھائی میں گرجانا ۔ گاڑی کے پنکچر ٹھیک کرنے حفاظتی پتھر رکھے تھے اسی حالت میں چھوڑ جانے سے حادثہ واقعہ ہونا ، نشہ یا فون کرنے کی  وجہہ سے گاڑیوں میں تصادم ،ہراس زدگی کی روداد ، سڑک بلاک کی  جانا ، اس طرح کی خبریں آئے دن اخبار کی سرخی بنی نظر آتے ہی رہتی ہے ۔
  
سڑک پر لگے اشارے یعنی سنگنل اور قوانین کی پروا نہیں کرتے اورہر مسافر سڑک مسافت کی عجلتوں میں گھرے ہوئے نظرآتے ہیں سب ہی کو جانے کی جلدی نظر آتی ہے اور اس چکر میں جو جیسا سڑک سے نکلنا ممکن ہو، نکل جاتا ہے اس سے نظام میں بے ترتیبی ہوجاتی ہے۔ وقت میں مزیداضافہ اور حادثہ کا  امکان بھی بڑجاتا ہے ۔ بائیک اور سائیکلیوں والے کم سے کم جگہ سے نکلنے میں اکثر کامیاب ہوجاتے ہیں اگر کبھی کسی گاڑی کا ہلکا سا دھکا بھی لگے تو اچھل کر دور چلے جاتے ہیں پھر الٹا گاڑی والوں سے لڑائی شروع کردیتے ہیں ۔ بس اور ٹرک والے اپنی بڑی گاڑی کے خمار میں چھوٹی گاڑی والوں کو پیچھے کرنا چاہتے ہیں مگر وہ  بھی آخر موٹر نشین ہیں کب پیچھے رہنے تیار ہوتے ہیں بھلا ۔  خیر ایسے تصادم توسڑک پر بے ضوابط کی وجہہ سے ہوتے ہی رہتے ہیں ۔

اب کے انڈیا کی چکر میں یہ دیکھکرسر چکرا گیا  اِدھر سڑک جم ہوئی یا لال بتی جلی اور ُادھر  بائیک والے  پاوں نیچے ٹیکا کر اور گاڑی والے اسٹیرنگ چھوڑ کر  فون پکڑے مصروف نطر ارہے تھے  ۔ میرے بازوسے کچھ آگے ایک بائیک پر دو آدمی براجمان تھے ان کی بلند آواز کی وجہہ سے غیر ارادی طور سے میری توجہ ان کی طرف ہوگئی  وہ فون پر کہہ رہے تھے ایک گھنٹہ سے زیادہ سے ٹریفک میں پھنسا ہوا ہوں( جب کہ پانچ منٹ سے زیادہ نہیں ہوئے تھے ) تم کھانا کھالو ابھی کتنی دیر ہوتی ہے نہیں معلوم  ۔ فون رکھنے  کے بعد دوسرا ادمی پوچھ رہاتھا تم نے بھابی سے چھوٹ کیوں بولا  ؟ارے جانے دو یارو پھر میرے کو بھی بریانی کا پارسل نہیں لائے ، نخرے شروع ہوجاتے ۔ سفید چوٹ میں نے دل میں  خود سے کہہ کر اپنے بازو کھڑی گاڑی کے طرف دیکھنے لگی ۔

ایک مہاشہ ڈرئیونگ سیٹ پر بیٹھے فون پرمحو گفتگو تھے ۔ نہیں نہیں ایک لاکھ کی چیز ہے میں ستر ہزار میں دیلانے راضی کروایا ہوں ۔  میرا نہیں ہے جی  یہ دوسروں کا بزنس ہے میرا رہتا تو کم کرتا اور آپ کو ان کے پاس سے ہی لینا ہے۔۔۔۔ میرے پاس وقت نہیں ہے ساتھ چلنے ۔۔۔ لکڑی کے پل سے آگے جاتے ہی وہ ملنے آجائنگے۔۔۔۔اچھا اچھا کہہ کر فون بند کرکے فوراً دوسرا فون ملانے لگے اورفون پر کہنے لگے وہ پارٹی تیار ہوگئی ، تم فلاں جگہ جاکرمال دے آو اور رات میں میرے پیسے تیار رکھو چالیس کا مال ستر میں نکال گیا ۔۔۔ افف یہ تو صریح ظلم ہوا ، جیب کترا منافع خور یہ سوچتے ہوئے میں میاں کی جانب دیکھنے لگی ۔

ان کی طرف بھی دو بائیک آگے بیچھے کھرے تھے پیچھے والی بائیک پرمیاں بیوی تین بچے بے زار سے کھڑے تھے تھوڑی آگے کو نکلی بائیک پر ایک نوجوان تھا جو بہت آہستہ سے بات کررہا تھا ۔ میں دل میں کہنے لگی دیکھو سب چلا چلا کر بات کررہے ہیں کتنا مہذب ہے ۔ اس نوجوان کا فون نیا ہے شاید نئی بیوی کی طرح شروع میں آہستہ سرگوشیاں ہوا کرتی ہیں اور بعد میں زور سے کہا سنا جاتا ہے فون کا بھی یہ ہی حال ہے پھر ٹریفک کھول چکی اس نے سڑک کھولتے ہی مارے جوش کے زور سے جاتے ہوئے ائی لو یوڈرلینگ (اس انداز سے کہا کہ معاملہ صاف سمجھ آگیا) کہہ کر فون بند کردیا اور تیزی سے نکل پڑا ۔

افف ! یا اللہ دنیا میں لوگ دوسروں کو بیوقف بنا رہے ہیں یا خود اپنے آپ کو دھوکا دے رہے ہیں ۔ مجھے اپنے اطراف ٹریفک کی  جگہ کسی  دوسری دنیا کے لہراتے سایہ محسوس ہونے لگے جس میں چھوٹ ، دھوکا  ،فریب ،مکر بھری دیکھائی دینے لگی  ۔     زمیں نہ بدلی ،سورج نہ بدلا، بدلا نہ آسمان کتنا بدل گیا انسان

Saturday, August 15, 2015

آزادی کا جشن مبارک ہو





السلام علیکم
کل صبح سے نیٹ پر آنا نہیں ہوا کئی بار سوچی کہ پاکستانی بہن بهائی کو مبارک با دوں مگر فرصت نہ ہو پائی ابهی جب آئی تو خیال آیا کہ کیوں نا ایک ساته ہی سب کو مبارک باد دے دی جائے .

میری طرف سے دل کی گہرائیوں سے ہندوستان و پاکستان دونوں کی عوام کے تمام بہنوں بهائیوں کو جشن آزادی بہت بہت مبارک ہو .

آج جب میں یہ لکه رہی ہوں تو مجهے میرے بچپن کے وہ دن یاد آرہے ہیں. ہمارے اسکول میں کئی دن پہلے سے کلاس کو سجانے کی تیاری کی جاتی تهی. گهر پر قومی ترانہ کی مشق ہوا کرتی لگتا جیسے ایک عید ہو جس کی تیاری اور انتظار بے چینی سے کیا جارہا ہے .

اب جب نیٹ اور اخبار میں آزادی پر کئی مضامین افسانہ پڑهے مبارک بادی سے پیشتر لکهے تحریر کردہ جملے پڑهے تو آزادی کی خوشی ولولہ وطن سے محبت کی جو تجدید ہوا کرتی تهی اس کی جگہ گلہ شکوہ برائیوں کا اظہار ناکامی کے قصہ محرومی کی باتیں پڑھ کر دکه و افسوس ہوتا رہا.


جو گزار گیا وہ گزار گیا آو اب ہم خود میں نئی توانائی پیدا کرتے ہیں نئے منصوبے بناتے ہیں ان سب سے پہلے ہم خود کو نیک اعمال سے آراستہ کرتے ہیں کیونکہ جو حق کے راستہ پر چلتے ہیں وہ ناکام و نامراد نہیں ہوتے جو اللہ کو صبح شام یاد کرتے ہیں اس سے مانگتے ہیں انہیں کسی سے ماگنے کی مدد کی ضرورت نہیں ہوتی وہ اللہ کو اپنا بنالیں تو پهر کسی کی ضرورت نہیں ہوتی یہ چوری یہ قتل و خون یہ بے آبرو کرنا سب خوف خدا کے نہ ہونے سے ہوتا ہے.


آئیں آگے بڑهیں اللہ کی رسی کو تهام لیں اس کی راہ میں پہلے ہم اکیلے ہوگے مگر ہر اچهے کام میں برکت ہوتی ہے اللہ سے جیسے جیسے قریب ہوتے جائیں گے ہم سب آپس میں مربوط ،مظبوط ،محفوظ ہوتے جائنگے .
آئیں آج ہم سب بهولا کر ایک بار جوش ولولہ اور نئے جذبہ کے ساته ہم سب ملکر کہتے ہیں .

آزادی کا جشن مبارک ہو