Tuesday, May 29, 2012

چھوٹی سی آشا







السلام علیکم


معزز بھائیوں اور پیاری بہنوں


یہ جو بھی لکھنے کی کوشش کرتی ہوں نا آپ جیسے مہربانوں کی وجہہ سے ہی ہے۔ ابھی تو بنا کوئی تیاری کے لکھ رہی ہوں صرف اچھی سی دو بہنوں کے کہنے پردیر ہی سے سہی مگر اولاً فرصت پر اپنے خیالات شئیر کر رہی ہوں اور دل سے اس بات کی قائل ہوں کہ کچھ لوگ بلوانے کی وجہ بن جاتے ہیں

کہتے ہیں زندگی چار دیواری میں نہیں بلکہ باہر نکل کر معاشرے کو دیکھئے یا آپ کی مطلوبہ پسند کی چیز دیکھے اس کے بارے میں جانئے اسے محسوس کرئیے اور اس کے بعد کے نتائج جو بر آمد ہو یا تو وہ بے انتہا خوشی دےگے یا مایوس کرے گے۔اور پھر حضرتِ انسان کے دل میں دوسری خواہش کے ابھارنے پر ایک اور تلاش میں محو ہوجائگے ایسے ہی گردشِ عمل ہوتے رہتا ہے اسی کا نام زندگی ہے انسان کو بس ابتدا میں ہی غور کرنا چاہیے کہ کیا وہ ٹھیک رہ پر ہے کیا وہ صحیح سمت کو منتخب کر رہا ہے اس کے انجام ہر کیا فائدہ کی امید ہے اور کیا اس میں اپنا یا دوسروں کا نقصان کا امکان تو نہیں جیسے وقت کی مال کی جان کی اعمال کی کیونکہ آگے ہمیں ان سب چیزوں کا حساب بھی تو دینا ہے ۔ افف فو میں یہ کیا راگ الاپنے لگی بقول میرے بچوں کے امی جی آپ توایک بات کہنے پر نہ جانے کیا کیا کہہ جاتی ہیں اور ہر بات کا آخر نصیحت ہی ہوتا ہے ۔ بس یہ اکتاہٹ آپ بھی محسوس کرنے سے پہلے میں اپنی بات ختم کرتی ہوں ۔ مگر یہ ایک بات اور کہنا چاہتی ہوں کبھی ایسا کچھ نہ کرے کہ سرجھکا کر جیئے یاشرمندگی یا پریشانی کا سامنا کرنا پڑ

خواہش، آرزو،تمنا،آشا اور شوق پورے ہونا یہ ہمارے حوصلوں اور امیدوں پر منحصر ہوتے ہیں اگر ہم بلند حوصلہ رہے اور استطاعت کے لحاظ سے امیدیں رکھے بس، کوشش و استقلال ہواور قسمت بھی مہربان ہو تو ہم منزل پاہی لیتے ہیں۔ کبھی کبھی استطاعت سے زیادہ کی امید ہوتو سہی مگر حوصلہ و استقلال اس سے بھی کئی گنا زیادہ ہوتو بھی پوراہونا ممکن ہوجاتا ہے ۔ اپنےخواہش یا شوق پورا کرنا اور اس سے لطف اندوز ہونا سب کی قسمت میں نہیں ہوتا بہت بہت مبارکباد کے قابل ہیں وہ جو چاہتے ہیں انھیں مل جاتا ہے اورانجام بھی خیر پر مبنی ہوتو آپ کو یہ احساس و سکون ہی آپ کے کامیاب سفر ہونے کاضامن ہے اسی بات سے ظاہر ہو تا ہے کہ آپ کا خود کےلئے کیاگیا فیصلہ صحیح تھا تواپنا مقصد اور خودکو پہچان جانا ہی بہت بڑی بات ہے پھر آگے کا سفر آسان ہی آسان رہے گا۔ان شاءاللہ

زمانہ ایک، حیات ایک، کائنات بھی ایک
دلیل کم فطری قصہ جدید و قدیم



اصل بات تو یہ ہے کہ نہ مسائل جدید ہیں اور نہ ان مسائل کے حل کےلئے کلیدی جدید کی ضرورت ہے،کیونکہ زمانہ ایک ہے ۔

بس ضرورت ہے تو ہمارے اردہ کا ہماری خواہشات کو تکمیل تک پہچانے کااس کو پانے کی عملی کوشش کےلئے خود تیار ہونے کا اسے حاصل کرنے کی جستجو کا اور مجھے اسی لئے منزل سے زیادہ تلاشِ منزل پسندہے کیونکہ زندگی متحرک رہنے کا نام ہے۔ اور زندگی کا اختتام ظاہری موت ہے ۔ اور ہر موت پر کچھ چیزوں کاکام اور اختیار ہم سے ختم ہوجاتا ہےمیں بڑی بڑی امیدیں کبھی نہیں رکھتی میں تو زندگی کی چھوٹی چھوٹی آرزوں کو پورا کرکے انجوئے کرتی ہوں ۔مجھے تو بے اردہ جینا زیادہ اچھا لگتا ہے۔میں حال میں خوش رہنے کو بہتر سمجھتی ہوں جو ہوتا رہتا ہے اسی کو ٹھیک رکھنے کی کامیاب کوشش کرتی ہوں اس کوشش میں میرا مستقبل بھی خودبخود بہتر ہوہی جاتا ہے اور جو ہو چکااس کے تجربہ کی روشنی کے ساتھ اسکی خوش گوار باتوں کو سوچ سوچ کر ہی آگے کے سفر کےلئے تمازت اکٹھا کر لیتی ہوں

جیسے کوئی مجھے ایک شکریہ کا لفظ بھی کہہ دے تو میں بے انتہا خوش ہوجاونگی کوئی مجھے دیکھ کر مسکرا ہی دے یا جیسےیادوں کی کچھ ایسی باتیں چند ایک مختصراً شئیرکرتی ہوں آپ کو اندازہ ہوجائیگا۔ایک بار میرے بھائی کے گاوں قیام کے زمانہ میں نظام ساگر جانے میں اور بابابس میں سوار تھے میدک پر گاڑی رکی بابا نے مجھے سے پوچھا بیٹی کیا تم میدک چلنا پسند کروگی یہ میری ملازمت کی ابتدائی جگہ ہے اور میں نے خوشی سے ہاں کہاتھا جب کہ ہمارا ٹکٹ آگے کا تھا ہم اتر گئے اورپھر بابا ایک ایسے دوست کے گھر لے گئےجن سے پچاس سال کے بعد ملاقات ہوئی تھی ان کی محبت اور وہاں کے لوگوں اور جہگوں کو بابا کی یادوں کے ساتھ ملنےاور دیکھنے کا احساس میں الفاظ میں بیان نہیں کرسکتی، میرے بچپن میں ایک بار میرے اصرار اور امی کی عدم فرصت پر مجھ سے تین سال بڑی بہن کاپہلی بار(ان کی زندگی) میں میری گڑیا کے لئے کپڑےسینا،پہلی بار سعودیہ کے سفر کی روانگی میں سسر کا بمبئی تک آنا اور ٹرین میں میرا الٹی کےلئے دوڑکر جانا اور سسرقبلہ کا اپنایت سے لوٹا لیےبھاگ کر پیچھے آنا،اکثر میرے بچوں کا مجھے سب سے اچھا کہنا(جو کے میں ہوں نہیں مگر پھر بھی)اور کبھی بڑی محبت سے لپٹ جانامیرے امی کی محبت کا ہر ہر پل اور میاں کا بنا کہے میری ضروریات کا پورا کرنا،اور زندگی کے ہر موڑ پر ساتھی سمجھنااور آپ سب دوستوں کابنا دیکھے خلوص اپنا پن ۔اور بھی بہتوں کی محبت، قدر، حوصلہ دینا، یادیں اور کئی گزری باتوں اور آنے والے نیک توقعات سے بنی یہ سب ہی میری زندگی میں شامل ہیں اہم ہیں یہ سب مجھے بھرپور جینے میں مدد کرتے ہے۔ایک طرح سے یہ سب ہی میری زندگی ہیں اور ایسے ہی چھوٹی چھوٹی باتوں کی متمنی رہتی ہوں



حیات لے کے چلو کائنات لےکے چلو
چلو تو سارے زمانے کو ساتھ لے کے چلو



اور اب اپنی بات اس تمناوخواہش اوردعا پر ختم کرتی ہوں۔ اے اللہ پاک کریم میرے اور میرے چاہنے والوں کو اپنی بڑی سی رحمت کےطفیل ہم سے عفو درگزار کامعاملہ فرما۔

آپ سب میرے ان بے سروپا کی باتوں کو پڑھا اور برداشت کیا بہت  شکریہ

Monday, May 28, 2012

ہم مسلمان ایک جسم ایک جان




السلام علیکم

 
ہیں جذب باہمی سے قائم نظام سارے
 
پوشیدہ ہے یہ نکتہ تاروں کی زندگی میں

میرے معزز بھائیوں اور پیاری بہنوں :۔۔ ہم سب اللہ کے بندے ہیں اور آپس میں بھائی بھائی ہیں ایک ساتھ دنیا میں رہتے ہیں تو کیوں نہ ہم خوش گوار ماحول بنائیں کیوں نہ ہم ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں ایک دوسرے کے شریک رہیں آج آپ کسی کی تکلیف میں ساتھ دیگے تو کل دوسرے اللہ نہ کرے کبھی ایسا وقت آئے تو وہ بھی آپ کی تکلیف میں خود کو بے چین و بے قرار محسوس کریں گے اور آپ کا شریک غم اور اس کو دور کرنے کی کوشش میں شامل ہوگے ۔ ِاس ہاتھ دے ُاس ہاتھ لے یہ ہی قانونِ دنیا ہے ۔ اگر آپ غور کریں تو محسوس ہوگا کہ ہمیں مل جل کر رہنے کی اشدی ضرورت ہے ہم ملکر رہیں تو بڑے سے بڑا معرکہ سر کر سکتے ہیں.


 شاید آج ہم مسلمانوں کے زوال کی وجہ بھی یہ ہی ہے ہم اپنوں کو دور کررہے ہیں ہم اپنے مسلمان بھائی کو تکلیف ،دھوکا ،فریب دےکر سمجھتے ہیں کے ہم خوش رہیں گے ایسا سوچتے ہیں تو ہم غلط ہیں ہم اپنے جڑ خود کاٹ رہے ہیں۔ اتحاد ہمارے وقت کی شدید ضرورت ہےاب ہمیں مان لینا چاہیے کہ اتحاد میں برکت ہےمتحد رہنے ہی میں ہماری بقا ہے پھر ہمارے بڑوں نے بھی ہمیں ایسا ہی سکھایا ہے جو ہمیں نہیں بھولنا چاہیے اور پھر ہمارا دین ِفطرت یعنٰی اسلام کی تعلیمات بھی ہمیں یہ ہی سکھاتی ہے
آئیے دیکھے اس مسئلہ پر ہمارے پیارے محمد صلی اللہ علیہ و سلم کیا فرماتے ہیں ۔


عن النُّعْمَانَ بْنَ بَشِيرٍ يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهم عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : تَرَى الْمُؤْمِنِينَ فِي تَرَاحُمِهِمْ وَتَوَادِّهِمْ وَتَعَاطُفِهِمْ كَمَثَلِ الْجَسَدِ إِذَا اشْتَكَى عُضْوًا تَدَاعَى لَهُ سَائِرُ جَسَدِهِ بِالسَّهَرِ وَالْحُمَّى))
. رواه البخاري (5665)، ومسلم(2586)، وأحمد، واللفظ لمسلم.



رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ :تم مسلمانوں کو آپس کی رحمت،آپس کی محبت،آپس کی مہربانی میں ایک جسم کی طرح دیکھوگے ،جب ایک عضو بیمار ہو جائے تو سارے جسم کے اعضاءبے خوابی اوربخار کی طرف ایک دوسرے کو بلاتے ہیں۔



اس ارشاد مبارکہ سےمسلمانوں کے باہمی ربط وتعلق،انس ومحبت اخوت وبھائی چارگی،رحم ومروت اور شفقت اور مہربانی کے موثر حقائق معلوم ہوتے ہیں ۔ لیکن بحثیت مجموعی ایک جسم سے تشبہہ دی گئی ہے اور اس کے ذریعہ واضح فرمایا گیا کہ جس طرح بدن کا ایک حصہ بیمار ہوجائے تو سارے جسم پر اس کا اثر پڑتا ہے،دیگر اعضائے بدن بھی بیماری کے اس اثر کو قبول کرتے ہوئے بے خوابی اضطراب اور بے آرامی محسوس کرنے لگتے ہیں قوم مسلم کا یہ ہی حال ہے اگرکوئی ایک مسلمان تکلیف میں مبتلا ہوجائے تو پوری قوم اس کا درد محسوس کرتی ہے ۔ یہ درحقیقت ان کے آپسی رحم وہمدردی،انس ومحبت اور مہربانی کا لازمی اور فطری نتیجہ ہے ۔



اسی طرح ایک اور روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مسلمان ایک شخص کی طرح ہیں، اگر اس کی آنکھ دکھے تو سارا جسم بیمار ہو جائے اور اگر اسکا سر درد کرے تو جسم بیمار یو جاوے ۔
اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم نے مسلمانوں کی وحدت واجتماعیت کو ایک عمارت کی مانند قرار دیا۔


حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلاَءِ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنْ بُرَيْدٍ عَنْ أَبِى بُرْدَةَ عَنْ أَبِى مُوسَى- رضى الله عنه - عَنِ النَّبِىِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ الْمُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِ كَالْبُنْيَانِ يَشُدُّ بَعْضُهُ بَعْضًا . وَشَبَّكَ بَيْنَ أَصَابِعِهِ
البخاري المظالم والغصب 2314
رسول کریم کا ارشاد ہےکہ “مسلمان مسلمان کےلئے دیوار کی طرح ہیں کہ اس کا بعض سے بعض مضبوط ہوتا ہےاور اپنی انگلیوں کو گتھا دیا
دیکھو ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں کیا اچھی طرح سمجھا تے ہیں ہم کو متحد رہنا اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ گھر کی تعمیر کے لئے ایک اینٹ کا دوسری اینٹ سے ملکر رہنا ۔ ہم اپنی عبادت بھی اجتماعی کرتے ہیں جیساپانچ وقت نماز، عیدین کی نماز جمعہ کی نماز اور حج اور خوشی بھی ملکر مناتے ہیں جیسے شادی،عیدین وغیرہ۔جب ہم آپس میں ملاقات کریگے تو اخلاص بڑھے گا اور باہم محبت قائم ہوگی اور ایک دوسرے کے خیر خواہ رہنگے



ایک اور حدیث شریف میں ہے کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب سے بعیت لیتے کے وہ ،مسلمانوں کی خیر خواہی کریں گے
فعن جرير بن عبد الله ـ رضي الله عنه ـ قال: ((بَايَعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ـ صلى الله عليه وسلم ـ عَلَى إِقَامِ الصَّلاةِ، وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ، وَالنُّصْحِ لِكُلِّ مُسْلِمٍ)). [البخاري باب البيعة على إقام الصلاة501].



نماز زکات جیسے فرائض کے ساتھ خیرخواہی کوشامل رکھ کر اس کی ضرورت اور اہمیت اس حدیث سے ظاہر ہوتی ہے۔ خیر خواہی دلوں میں انس پیدا کرتی ہے محبت بڑھا تی ہے اور اتحاد قائم رکھتی ہے۔
سارے مسلمان آپس میں اسلام، اخلاق،ایثار ومروت ومحبت ومودت میں ایک جسم کے مانند ہیں ۔ وہ ایک دوسرے سے اس قدر متعلق ومربوط ہیں جس طرح دیوار ہوتی ہے کہ اسکے مختلف حصےایک دوسرے کے لئے قوت واستحکام کا باعث ہوتے ہیں ۔

 
حضرت عبداللہ ابن عمر فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا "تم لوگ جماعت میں رہنے کی کوشش کرو اور فرقہ بندی سے بچو" اس لئے کہ شیطان تنہا آدمی کو بہکا دیتا ہے ۔ اور ایک سے زیادہ لوگوں کو بہکانا اس کے لئے مشکل ہوتا ہے ۔اگر تم جنت کے خواہشمند ہو تو شیرازہ بندی اور جماعت کو لازمی جانو ۔اور مومن وہ ہے جسے نیک کاموں سے خوشی اور گناہوں سے تکلف ہوتی ہے 

روئے زمین پر مذہبِ اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جس نے دنیا کے ہر مسائل کی یکسوئی کے لئے رہنمائی کی ہے چاہے وہ کوئی بھی مسئلہ ہوقرآن و حدیث کے مطالعہ کے بعد پتہ چلتا ہے کہ دنیا کا کوئی مسئلہ ایسا نہیں جس کا حل قرآن و حدیث نے نہ پیش کیا ہو۔آج ہم سب کو ایک ہونے کی سخت ضرورت ہے آئیے ہم بھی عہد کرتے ہیں کے ہم اپنے دوسرے بھائی کی ہر کمی پیشی،خامی و کمزوری کو بھولا کر ایک ہو جائیگے اور نہ صرف کہیں گے بلکہ دل وجان سے مانیں گے بھی کہ ہم سب ایک جسم ایک جان ہیں ۔۔۔۔

 

فرد قائم ربط ملت سے ہے، تنہا کچھ نہیں
 
موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں

 

میرے بلاگ پر تشریف فرمانے کا شکریہ