Monday, January 20, 2014

ایک عظیم الشان تاریخی مسجد (مکہ مسجد)

مکہ مسجد کی بہت پرانی ایک تصویر


بارہ ربیع اول پر  لی گئی تصویر









 آصف جاہی بادشاہوں کی قبریں










السلام علیکم

میری پیاری بہنوں اور محترم بھائیوں
آج میں آپ سب کو اپنے حیدرآباد شہر کی ایک بہت ہی خوبصورت بڑی اور اہم مکہ مسجد کے بارے میں بتانا چاہتی ہوں امید ہے کہ آپ لوگ اس سے
متاثر ضرور ہوگے۔

مکہ مسجد ہندوستان کے شہرحیدرآباد دکن کی ایک عظیم الشان مسجد ہے ۔ جس کی تعمیرسلطنت حیدرآباد کے چھٹے سلطان محمد قطب شاہ  نے 1027ھ عسوی1617 میں زیر نگرانی میرفیض اللہ بیگ دروغہ و رنگیا عرف ہنر مند خان چودھری سے شروع کرائی اور آٹھ ہزار مزدروں نے 77سال تک لگاتار تعمیری کام انجام دیا ۔

 سلطان عبداللہ قطب شاہ سابع اور سلطان ابوالحسن قطب شاہ ثامن کے عہد تک اس کی تعمیر کا سلسلہ بصرفہ آٹھ لاکھ روپیہ جاری رہا اور شہنشاہ اورنگ زیب کے زمانہ میں اس کی تعمیر اختتام کو پہچی،مسجد کی مزید آرائش کے لئے جب باشاہ عالمگیر سے عرض کیا گیا تو ارشاد ہوا کہ
کار دنیا کسے تمام نہ کرو
ہرچہ گیرید مختصر گیرید

اس مسجد کی تعمیر کے سلسلہ میں ایک دل چسپ واقعہ مشہور ہے کہ جب اس  مسجد کی بنیاد کا پتھر رکھنے کا وقت آیا تو شاہی نقیب نےعلما ؑ و فضلاِ شہر
کو دعوت دے کرفرمایا کہ یہاں موجود افراد میں سے وہ فرد آگے بڑھے جس شخص کی بارہ سال سے نماز قضاٗ نہ ہوئی ہو وہ اس خانہ خدا کا سنگ بنیاد اپنے ہاتھ سے رکھے ۔ لیکن حاضرین سے کوئی سامنے نہ آیا۔ اس پر بادشاہ محمد قطب شاہ آگے بڑھے اور قسم کھا کر اعلان کیا کہ  بارہ سال کی عمر سے اس وقت تک میری کوئی نماز قضا نہیں ہوئی اور میری تہجد کی نماز بھی قضا نہیں ہوئی  ہے محمد قلی قطب شاہ نے اپنے ہاتھوں سےاس مسجد کا سنگ بنیاد رکھکر مسجد کی تعمیر کا آغاز کیا۔

بلحاظ رفعت و شان دکن میں یہ اس قدر بڑی مسجد ہے کہ بوقت واحد اس میں دس ہزار مصلی بخوبی نماز اد کرسکتے ہیں۔ مسجد کی عمارت 225فٹ طویل 180فٹ چوڑائی ہے اور اونچائی75فیٹ ہے۔ بیرونی احاطہ مستطیل وضع کا ہےجس کا چبوترا 360فٹ مربع ہے ۔ چھت کے نیچے تین قطاریں پندرہ پندرہ کمانوں کی ہے ۔اور ہر قطار کے آخر میں شمالی جنوبی گوشوں پر سو سو فٹ کے بلند گنبد ہیں ۔ مسجد تین تین دالان در دالان پر مشتمل ہے ۔ جن کے اندر پندرہ اور باہر پانچ کمانیں ہیں سامنے کے رخ کے دو مینارصحن مسجد میں سنگ موسی کی دھوپ گھڑی اور صدر دروازہ عہد عالمگیر کی یادگار ہیں ۔

مسجد  کے صحن میں کنارہ پر جس کے پاس آٹھ آٹھ فٹ کی لانبی سلیں رکھی ہیں جن پر مصلی بیٹھ کر وضو کرتے ہیں ۔ کہاجاتا ہے کہ یہ سلیں میسرم کے
محل میں پہلے نصب تھیں جو اب منہدم ہوچکا ہے ۔اس مسجدکےبلند ستون ایک ڈال پتھر کے تراشیدہ ہیں ۔
اور مو سیو تھنیو کا بیان ہے کہ:پچاس برس ہوئے کہ جب سے یہاں ایک عظیم الشان معبد بن رہا ہے اگر یہ پورا بن گیا تو تمام   ہندوستان کے معبدوں سے بڑا ہوگا ۔اس میں ایسے بڑے بڑے پتھر لگاتے ہیں کہ دیکھنے سے حیرت ہوتی ہےخاص کر وہ محراب جہاں وہ نماز پڑھتے ہیں سب سے زیادہ تعجب انگیز ہےوہ ایک ہی عظیم الشان پتھر کی بنی ہوئی ہے جس کو پانچ چھ سو آدمیوں نے علی التواتر پانچ برس کام کرکے کان سے بنا کرنکالا ہے اور اس کو اس معبد تک لانےمیں اس سے بھی زیادہ مدت لگی ہے ۔لوگ بیان کرتے تھے کہ اسے ایک ہزار چار سو بیل کھیچ کر لاءے ہیں( 25جے بی ٹیور نیر فرانسیسی تاجر کا سفرنامہ)۔

سلطان محمد قطب شاہ اس مسجد کا تاریخی نام بیت العیق رکھے تھے لیکن بادشاہ اورنگ زیب کے زمانہ میں اس کا نام ،،مکہ مسجد،،مشہور ہوگیا۔اس مسجد کی تعمیر پر تیس لاکھ ہُون صرف ہو ئےتھے۔ایک شاعر نے مکہ مسجد کی تعریف میں حسب ذیل بیت نظم کرکے گزرانی تھی

طواف کعبہٗ اشرف میسرت گر نیست
یابہ کعبہ ئ ملک دکن عبادت ُکن

اس کی وجہ تسمیہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ سلطان محمد قطب شاہ نے مکہ معظمہ سے مٹی منگوا کر اس کی اینٹیں بنوا کر اس میں نصب کرائی تھیں چنانچہ
وسطی کمان کے اوپر یہ اینٹیں اس وقت تک موجود ہیں (تاریخ ماثر دکن مولف سید علی اصغربلگرامی)۔
برآمدے کے ایک کونے میں آصف جاہی بادشاہوں کے مزار بھی ہیں۔
یہ مسجد قدیم شہر کے قلب میں واقع ہے اس کے روبرو سڑک کے دوسرے حصہ میں عثمانیہ دواخانہ ہےاور یہ چارمینار کے جنوب مغرب میں سو گز دور واقع ہے۔
دوسری طرف لاڈ بازار اور چومحلہ پیلس ہیں۔
یہ ہمیشہ نمازیوں سے پر رہتی ہے جمعہ ،عیدین اور رمضان میں  تو اس کی رونق قابل دید ہوا کرتی ہے ۔ ان خاص موقعوں پرمسجد سے نکل کر نمازی سڑک پرسے ہوتے ہوئےچارمینار سے آگے پتھر گٹی تک صفیں آجاتی ہیں۔ اور سیاح بھی کثیر تعداد میں دیکھنے کے لئےآتے ہیں اللہ اس مسجد کو ہمیشہ آباد رکھے۔آمین
 
------------------------------------------------------