Monday, May 06, 2019

ایک جائزہ


کچھ لوگ خود کو اہمیت دیتے ہیں ۔ مجھے دیکھو  مجھے چاہو مجھے سے بات کرو میرے آرام کا خیال رکھو  پہلے میری نیند پوری ہو ، میری عزت کرو اور کروالو  ،  میں یہ پہنو میں یہ کھاؤں ،فلاں کے ساتھ رہنا پسند ہے ، کون گھر آئے ، کہاں جائے ، کس کو بلائیں نہ بلائیں  یہاں تک کہ اپنی فیملی بھی انہیں کی مرضی سے رہیں اور ایسا ہوتا بھی ہے ان کے تیکھےتیور انکی خود پسندی و خود غرضی، رعب و دبدبہ ، لڑائی و جھگڑے سے متاثر اور مجبور ہوکر ہر بات چپ چاپ سہتے سنتے مانتےجاتے ہیں ۔ 
مگر ایک دوسری قسم  اس کے الٹ بھی ہوتی ہے ۔ ہر بات دوسروں کی نہ چاہتے ہوئے بھی سنتے مانتے رہتے ہیں اپنی پسند نہ پسند کو دبا کر دوسروں کو فوقیت دیتے ہیں ۔انہیں اپنے آرام و راحت کی پروا نہیں ہوتی۔ ان کے کپڑے ہر ضرورتیں دوسروں کی مرضی کے ہوتے ہیں ۔ ہر طنز و بدسلوک پر صبر کرتے ہیں  ۔ اپنی وجہ سے دوسروں کی دل آزاری نہ ہو ،کوئی ان کے ہوتے بے آرام نہ رہے۔تن من دھن سے خدمت کےلئے ہر وقت تیار رہتے ہیں . انہیں پتہ ہوتا ہے کہ انہیں بیوقوف سمجھا جارہا ہے انہیں استعمال کیا جارہا ہے ان کی ناقدری کی جارہی ہے یہ سب جانتے ہوئے انجان بنے صبر کے گھو نٹ پیتے زندگی گزارتے رہتے ہے۔ وہ اذیت میں بھی لطف لینے لگتے ہیں۔

بے قراری میں  لطف آتا ہے
آرزوئے قرار کون کرے

ان کے اس رویہ ،خدمت  ،احساس ،جذبات ،پسند  ،مرضی اور خوشی کا کبھی کسی کو خیال نہیں آتا وہ ایسا چراغ ہوتے ہیں جو جلتے رہتے ہیں اور جلنے تک ان کے وجود کا کسی کو احساس نہیں ہوتا ۔جب چراغ بجھ جاتا ہے تو تاریکی اورپچھتاؤے کے سوا باقی کچھ نہیں رہ جاتا ہے ۔۔۔آخر  ایسا کیوں ہوتا ہے ؟

(کوثر بیگ)