تذكرة
القرأن
رمضان کا بابرکت مہینہ ہم سب پر سایہ
فگن ہے ہمیں چاہیے کہ اس مبارک ماہ میں اپنے پیدائش کے مقصد کو یاد رکھے اور زیادہ
سے زیادہ عبادت کی کوشش کرے ۔ کیوں نہ ہم ایسی عبادت کریں جس میں وقت کم لگے اور
ثواب زیادہ ملی کیوں نہ ہم ایسی عبادت کو پسند کریں جس کوہمارے پیارے رسول صلی اللہ علیہ و سلم اور
اصحاب رسول نے پسند فرمایا ۔آج میں آپ کی توجہ ایک ایسی آسمانی کتاب کے طرف
مبادلہ کرنا چاہتی ہوں جو ہمارے آخری رسول محمدﷺ پر نازل ہوئی جس کو ہم قرآن مجید
کہتے ہیں جس کے پڑھنے اور پڑھانے کا اللہ پاک نے خود حکم فرمایا
ہے۔
صیحح بخاری میں حضرت عثمان غنی رضی
اللہ تعایٰی عنہ سے مروی ہے کہ رسولﷺ نے فرمایا؛ تم میں بہتر وہ شخض ہے جو قرآن
سیکھے اور سکھائے۔۔۔۔
خود سیکھنا اور دوسروں کو سیکھانا
دونوں ہی کے لئے مستقیل خیر و بہتری ہےاور کیوں نہ ہو یہ اللہ پاک کا کلام ہے ۔اللہ
پاک قرآن مجید میں خود فرماتا ہے ۔ قُل لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ
الْإِنسُ وَالْجِنُّ عَلَىٰ أَن يَأْتُوا بِمِثْلِ هَٰذَا الْقُرْآنِ لَا يَأْتُونَ
بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيرًا اے رسول کہدیجئے کہ
اگر سب انسان اور جن بھی مجتمع ہو جائئیں اور ایک دوسرے کی مدد و اعانت بھی کریں
اور پھر بھی وہ اس قرآن جیسی کوئی کتاب بنانا چاہیں تو ہرگز ہرگز ایسا نہ کر سکیں
گے ۔
اس دعویٰ کے الفاظ کی شوکت اور قوت
پر غور کرنے سے بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ یہ قرآن کلام اللہ کا ہے
۔
صحیح مسلم میں حضرت عمر رضی اللہ
تعالٰی عنہ سے مروی ہےکہ رسول اللہ تعاٰلٰی علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعاٰلٰی اس
کتاب سے بہت لوگوں کو بلند کرتا ہے اور بہتوں کو پست کرتا ہے یعنی جو اس پر ایمان
لاتے اور عمل کرتے ہیں اُن کے لئے بلندی ہے اور دوسروں کے لئے پستی پس ہم خود پر
لازم کرلیے کہ اپنے درجات کی بلندی کے لئے تلاوت کلام پاک میں مشغول ہوجائے اور
اپنی بہتری کا سامان کرلیں
کیونکہ ترمذی و الدارمی میں ابو سعید رضی اللہ عنہ سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد منقول ہے کہ حق سبحان وتقدس کا فرمان ہے کہ جس شخض کو قرآن شریف کی مشغولی کی وجہہ سے ذکر کرنے دعائیں مانگنے کی فرصت نہیں ملتی میں اس کو سب دعائیں والوں سے زیادہ عطا کرتا ہوں اور اللہ تعالٰی شانہُ کے کلام کو سب کلاموں پر ہی فضیلت ہے جیسی کہ خود حق تعالٰی کو تمام مخلوق پر ۔ جب کوئی شخض اس کی تالیف کا اہتمام کیا کرتا ہے تو فطرتاً اس کی طرف التفات اور توجہ ہوا کرتی ہے اس لئے حق تعالٰی کے کلام کا ورد رکھنے والے کی طرف حق سبحان وتقدس کی زیادتی توجہ بھی بدیہی اور
یقینی ہے جو قرب کا سبب ہوتی ہے۔
کیونکہ ترمذی و الدارمی میں ابو سعید رضی اللہ عنہ سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد منقول ہے کہ حق سبحان وتقدس کا فرمان ہے کہ جس شخض کو قرآن شریف کی مشغولی کی وجہہ سے ذکر کرنے دعائیں مانگنے کی فرصت نہیں ملتی میں اس کو سب دعائیں والوں سے زیادہ عطا کرتا ہوں اور اللہ تعالٰی شانہُ کے کلام کو سب کلاموں پر ہی فضیلت ہے جیسی کہ خود حق تعالٰی کو تمام مخلوق پر ۔ جب کوئی شخض اس کی تالیف کا اہتمام کیا کرتا ہے تو فطرتاً اس کی طرف التفات اور توجہ ہوا کرتی ہے اس لئے حق تعالٰی کے کلام کا ورد رکھنے والے کی طرف حق سبحان وتقدس کی زیادتی توجہ بھی بدیہی اور
یقینی ہے جو قرب کا سبب ہوتی ہے۔
نسائی و ابن ماجہ میں انس رضی اللہ عنہ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد نقل کیا ہے کہ حق تعالٰی کے لئے لوگوں میں سے بعض لوگ خاص گھر کے لوگ ہیں ،صحابہ نےعرض کیا کہ وہ کون لوگ ہیں فرمایا کہ قرآن شریف والے کہ وہ اللہ کے اہل ہیں اور خواص ہیں ۔
اب ہمیں غور کرنا چاہیے کے اللہ پاک کی یہ مہربانی ہے کہ ہمیں اللہ کی قربت ونظر عنایت پانے کے لئےکتنا آسان و سہل طریقہ سے اللہ پاک کا تقرب ومقرب بنے کا کیا اچھا موقعہ عنایت فرمایا گیا ہے۔بس ذرا سی توجہ اور محنت سے اللہ کےاہل اور اس کے خواص میں شمار کئے جاتے ہیں اور اللہ کے پاس خاص شمار ہونا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔
اورایک بار پھر ترمذی و دارمی ہی سے
نقل ہے کہ عبداللہ بن مسعود نے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے
فرمایا جو شخض کتاب اللہ کا ایک حرف پڑھے گا اُس کو ایک نیکی ملے گی جو دس کے برابر
ہوگی میں نہیں کہتا الم ایک حروف ہے بلکہ الف ایک حرف لام دوسرا حرف ہے میم تیسرا
حرف ہے۔ آپ لوگ خود ہی اس حدیث سے اندازہ کرلیجئے کہ قرآن کے ہر ہر حروف کے بدلہ
ہم کو کتنی نیکیاں مل رہی ہیں پھر کیوں نہ ہم اس کو زیادہ سے زیادہ پڑھکر نیکیوں کو
حاصل کرنے کی کوشش میں لگ جائے ۔
امام احمد و ترمذی و ابو داود ونسائی نے عمر رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے
کہ رسول اللہ نے فرمایا صاحب قرآن سے کہا جائے گاکہ پڑھ اورچڑھ اورترتیل کے ساتھ پڑھ جس طرح دنیا میں ترتیل کے ساتھ پڑھتا تھا تیری منزل آخر آیت جو تو پڑھے گا وہاں ہے
شرح احیاء میں لکھا ہے کہ ہر آیت ایک درجہ ہے جنت میں پس قاری سے کہا جاوے گا کہ جنت کے درجات پر تلاوت کے بقدر چڑھتے جاوے ۔ جو شخض قرآن پاک تمام پورا کرلے گا وہ جنت کے اعلٰی درجے پر پہچےگا ،اور جو شخض کچھ حصّہ پڑھا ہوا ہوگا وہ اس کی بقدر درجات پر پہنچے گا ۔ بالجملہ منتہاے ترقی منتہائے قرآت ہوگی۔
معاذجہنی رضی اللہ عنہ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد نقل کیا ہے کہ جو شخض قرآن پڑھے اور اس پر عمل کرے اس کے والدین کو قیامت کے دن ایک تاج پہنایا جاوے گا جس کی روشنی آفتاب سے بھی زیادہ ہوگی ۔ اگر وہ آفتاب تمہارے گھروں میں ہو ۔ پس کیا گمان ہے تمہارا اس شخض کے متعلق جو خود عامل ہو ۔۔(رواہ احمد ابوداود و صححہ الحاکم)۔
فضائل قرآن مجید میں حضرت محمد زکریا صاحبؒ اس حدیث کی تشریح میں فرماتے ہیں قرآن پاک کے پڑھنے اور اس پر عمل کرنے کی برکت یہ ہےکہ اس کے پڑھنے والے کے والدین کو ایسا تاج پہنایا جاوے گا جس کی روشنی آفتاب کی روشنی سے بہت زیادہ ہواگر وہ آفتاب تمہارے گھروں میں ہو ،یعنی آفتاب اتنی دور سے اس قدر روشنی پھیلاتا ہے اگر وہ گھر کے اندر آجا ئے تو یقیناً بہت زیادہ روشنی اور چمک کا سبب ہوگا تو پڑھنے والے کے والدین کو جو تاج پہنایا جاویگا اس کی روشنی اس روشنی سے زیادہ ہوگی جس کو گھر میں طلوع ہونے والا آفتاب پھیلا رہا ہے اور جب کہ والدین کےلئے یہ ذخیرہ ہے تو خود پڑھنے والے کے اجر کا خود اندازہ کر لیا جاوے کہ کس قدر ہوگا کہ اس کے طفیلیوں کا یہ حال ہے تو اصل کا حال بدرجہا زیادہ ہوگا۔ کہ والدین کو یہ اجر صرف اس وجہہ سے ہوا ہے کہ وہ اس کے وجود یا تعلیم کا سبب ہوئے ہیں ۔
آفتاب کے گھر میں ہونے سے جو تشبیہہ دی گئی ہے اس میں علاوہ ازیں کہ قرب میں روشنی زیادہ محسوس ہوتی ہے ایک اور لطیف امر کی طرف بھی اشارہ ہے وہ یہ کہ جو چیز ہر وقت پاس رہتی ہے اس سے انس و الفت زیادہ ہوتی ہے اس لئے آفتاب کی دوری کی وجہ سے جو اس سے بیگانگی ہے وہ ہر وقت کے قرب کی وجہ سے مُبدّل بہ انس ہو جاوے گی تو اس صورت میں روشنی کے علاوہ اس کے ساتھ موانست کی طرف بھی اشارہ ہے اور اس طرف بھی وہ اپنی ہوگی کہ آفتاب سے اگرچہ ہر شخض نفع اٹھا تا ہے لیکن اگر وہ کسی کو ہبہ کردیا جاوے تو اس کے لئے کس قدر افتخار کی چیز ہو ۔
آپ دیکھے کہ قرآن کو حفظ کرنے کی کیا فضیلت و برکت ہے کہ شرح احیاء میں ان لوگوں کی فہرست میں جو قیامت کے ہولناک اور وحشت اثر دن میں اللہ کے سائے کے نیچے رہیں گے ۔حضرت علی رضی اللہ عنہ کی حدیث سے بروایت نقل کیا ہے کہ حاملنِ قرآن یعنی حفاظ اللہ کے سائے کے نیچے انبیاء اور برگزیدہ لوگوں کے ساتھ ہونگے.
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضور اقدس ﷺ کا ارشاد نقل کیا ہے کہ جس شخض نے قرآن پڑھا،پھر اس کو حفظ یاد کیا حلال کو حلال جانا حرام کو حرام ۔حق تعالٰی اس کو جنت میں داخل فرمادیں گے اورر اس کے گھرانے میں سے ایسے دس آدمیوں کے بارے میں اس کی شفاعت قبول فرمایں گے جن کے لئے جہنم واجب ہوچکی ہو ۔(ترمذی وابن ماجہ )۔
ان ہی کتابوں میں ایک اور حدیث سے قرآن مجید کے پڑھنے کے تاکید اور یاد کرنے والوں کی توصیف یوں بیان ہوتی ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی سےروایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قرآن سیکھو اور پڑھو کہ جس نے قرآن سیکھا اور پڑھا اور اس کے ساتھ قیام کیااُس کی مثال یہ ہے جیسے مشک سے تھیلی بھری ہوئی ہے جس کی خوشبو ہر جگہ پیھلی ہوئی ہے اور سیکھا اورسوگیا یعنی قیام اللیل نہیں کیا اس کی مثال وہ تھیلی ہے جس میں مشک بھری ہوئی ہے اوراس کا مونھ باندھ دیا گیا ہے
بخاری ومسلم کی ایک حدیث میں ابو موسٰی رضی اللہ عنہ نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ سلم کا ارشاد نقل کیاہے کہ جو مسلمان قرآن پڑھتا ہے،اس کی مثال ترنج کی سی ہے کہ اس کی خوشبو بھی عمدہ ہوتی ہے اور مزہ بھی لذیز ۔ اور جو مومن قرآن شریف نہ پڑھے اس کی مثال کھجور کی سی ہے کہ خوشبو کچھ نہیں مگرمزہ شیریں ہوتا ہے ۔ اور جو منافق قرآن شریف نہیں پڑھتا اس کی مثال حنظل کے پھول کی سی ہےکہ مزہ بھی کڑوا اور خوشبو کچھ نہیں اور جو منافق قرآن پڑھتا ہے اس کی مثال خوشبو دار پھول کی سی ہے کہ خوشبو عمدہ اور مزہ کڑوا۔
اس حدیث کے بارے میں مولانا زکریاؒ فرماتے ہیں۔
مقصوداس حدیث سے غیر محسوس شے کو
محسوس کے ساتھ تشبیہہ دینا ہے تاکہ ذہن میں فرق کلام پاک کے پڑھنے اور نہ پڑھنے میں
سہولت سے آجاوے ورنہ ظاہرہے کہ کلام پاک کی حلاوت و مہک سے کیا نسبت،ترنج و کھجور
کو اگرچہ ان اشیاء کے ساتھ تشبیہہ میں خاص نکات بھی ہیں جوعلوم نبویہ سے تعلق رکھتے
ہیں اورنبی کریمﷺ کے علوم کی وسعت کی طرف مشیر ہیں ۔
مثلاً ترنج ہی کو لے لیجئے منھ میں خوشبو پیدا کرتا ہے ،معدہ کو صاف کرتا ہے ،ہضم میں قوت دیتا ہےوغیرہ وغیرہ یہ منافع ایسے ہیں قراتِ قرآن شریف کے ساتھ خاص مناسبت رکھتے ہیں مثلاً منھ کاخوشبودارہونا،باطن کاصاف کرنا،روحانیت میں قوت پیدا کرنا۔ یہ منافع تلاوت میں ہیں جو پہلے منافع کے ساتھ بہت مشابہت رکھتے ہیں ۔ ایک خاص اثر ترنج میں یہ بھی بتلایا جاتا ہے کہ جس گھر میں ترنج ہو وہاں جن نہیں جاسکتا۔ اگر یہ صحیح ہے تو پھر کلام پاک کے ساتھ خاص مشابہت ہے معض اطباء سے میں نے سنا ہے کہ ترنج سے حافظ بھی قوی ہوتا ہے اور حضرت علی کرم اللہ وجہ سے احیاء میں نقل کیا ہے کہ تین چیزیں حافظ کو بڑھاتی ہیں ایک مسواک دوسرا روزہ اور تیسرا تلاوت کلام اللہ شریف ۔۔۔۔
مثلاً ترنج ہی کو لے لیجئے منھ میں خوشبو پیدا کرتا ہے ،معدہ کو صاف کرتا ہے ،ہضم میں قوت دیتا ہےوغیرہ وغیرہ یہ منافع ایسے ہیں قراتِ قرآن شریف کے ساتھ خاص مناسبت رکھتے ہیں مثلاً منھ کاخوشبودارہونا،باطن کاصاف کرنا،روحانیت میں قوت پیدا کرنا۔ یہ منافع تلاوت میں ہیں جو پہلے منافع کے ساتھ بہت مشابہت رکھتے ہیں ۔ ایک خاص اثر ترنج میں یہ بھی بتلایا جاتا ہے کہ جس گھر میں ترنج ہو وہاں جن نہیں جاسکتا۔ اگر یہ صحیح ہے تو پھر کلام پاک کے ساتھ خاص مشابہت ہے معض اطباء سے میں نے سنا ہے کہ ترنج سے حافظ بھی قوی ہوتا ہے اور حضرت علی کرم اللہ وجہ سے احیاء میں نقل کیا ہے کہ تین چیزیں حافظ کو بڑھاتی ہیں ایک مسواک دوسرا روزہ اور تیسرا تلاوت کلام اللہ شریف ۔۔۔۔
ابو داود کی روایت میں اس حدیث کے ختم پر ایک اور مضمون نہایت ہی مفید ہے کہ بہتر ہمنشین کی مثال مشک والے آدمی کی سی ہےاگر تجھے مشک نہ مل سکا تو خوشبو تو کہیں گئی نہیں ،اور بد تر ہمنشین کی مثال آگ کی بھٹی والے کی طرح سے ہے کہ اگر سیاہی نہ پہچے تب بھی دھواں تو کہیں گیا ہی نہیں ۔نہایت ہی اہم بات ہے ۔آدمی کو اپنے ہم نشینوں پر بھی نظر کرنا چاہیے کہ کس قسم کے لوگوں میں ہر وقت نشست و بر خاست ہے
بیہقی نے شعب الایمان میں ابن عمر رضی اللہ عنہماسے رویت کی ہےکہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا ان دلوں میں بھی زنگ لگ جاتی ہے جس طرح لوہے میں پانی لگنے سے زنگ لگتی ہے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اس کی جلا کس چیز سے ہوگی فرمایا کثرت سے موت کو یاد کرنے اور تلاوت قرآنِ مجید۔۔
قارئین اکرام اب ہم سب کو قرآن پاک کے پڑھنے کی فصیلت اور ثواب سے خوب آگاہ ہوگئے ہیں موت کا کوئی وقت معین نہیں ہم سستی کو چھوڑ کر اس مبارک ماہ جس میں اس کا نزول ہوا ہے اس میں کثرت سے تلاوت کا اہتمام کریگےاور کیوں نہ کرے جس وقت جب کوئی رشتہ ناتہ کام نہیں آتا سب کو اپنی پڑی ہوگی اس دن قرآن اپنے پڑھنے والے کے لئے جھگڑا کرے گا اور اللہ پاک قبول کرلے گا قرآن پاک کا دیکھنا چھونا پڑھنا سب عبادت ہے حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ نے حضور سے وصیت فرمانے کہا تو حضور نے وصیت میں ایک یہ بھی فرمایا کہ تلاوت قرآن کا اہتمام کرو کہ دنیا میں نور ہے اور آخرت میں ذخیرہ ۔
بس حضور محمدصلی اللہ علیہ و سلم کی اس وصیت پر میں اس مضمون کو ختم کرتی ہوں اور دعا کرتی ہوں کہ اللہ تعالٰی مجھکو آپ کو ہماری اولاد و متعلقین اور سب مسلمانوں کوزیادہ سے زیادہ تلاوتِ کلام اللہ کی تو فیق عطا فرمائے۔آمین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
..
2 comments:
بے شک اللہ کریم ہمیں توفیق عطا فرمائے. آمین
بہت بہت مشکور ہوں آپ کے کمنٹ کے لئے اللہ خوش رکهے .
Post a Comment
اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔