Sunday, January 25, 2015

پاکستان کے یادگار ایام

پاکستان کے قیام کا عرصہ بہت ہی خوشیوں شادمانی اور مصروفیت میں گزرا ۔
 
بھانجی کے بیٹے کی شادی میں خوب شریک رہی بہت اچھی معیاری شادی تھی ۔ ماشاءاللہ دلہا دلہن بہت پیارے تھےانتظام کپڑے لتے سجاوٹ سب ہی بہترین تھی اللہ انہیں خوش و خوش حال رکھے ۔


بڑی بھانجی کی ضد و اصرارپر ہم وہاں گئے تھے ۔انہوں نے ہی ساری کاروائی بلانے کی خوشی خوشی سے کی جس میں ان کے میاں بچوں نے بھی بہت ساتھ دیا۔ ہم انہیں کے گھر مقیم رہے ۔


میرے تیسرے بھانجےامجد نے بھی آنے سے لے کر جانے تک خوب خیال رکھااچھی میزبانی کی اور منا کرنے پربھی تحائف بھی دئے۔


دوسرے بھانجے قدیرانکی فیملی نےمہمان رکھا خوب سیر تفرح کرائی ہر وہ جگہ لے کر گئے جہاں امان بھائی اور ون اردو کے ممبرز نے بتائی تھی اور مجھے یاد رہیں ۔ مزیدارپکوان کھلائے گھر کی مویز دیکھکر انجوائے کیا اورہمیں کپڑے بنائے۔


دوسری اور تیسری بھانجی نے اپنے گھر بھی بلاکر رکھا ان کے میاں بچوں بہت خلوص سے ملے اور بہت کم وقت میں عمدہ چیزیں خریدنے میں میری مدد کی اورتحفے بھی دئیے ۔



بڑے بھانجے لاہورمیں رہتے ہیں ۔ شادی کے لئے آئے تھے۔ میں جہاں بھی رہی وہ آکر ملتے رہےاپنے دلچسپ باتوں سے محظوظ کرتے رہے۔اور بھی بہت سارے حضرات سے ملاقات ہوئی بعض تو ایسے بھی ملے جن سے ملنے کی تمنا دل کے نہاں خانہ میں بند پڑی تھی جس سے کبھی ملنے کی امید تک نہیں تھی جیسے میری چیچا زاد بہن عائشہ ،چیچازاد بھائیاں احد بھائی اور صمد بھائی اور پھوپی زاد بھائی حسین ان سے مل کر مجھے خوشی کے ساتھ حیرت اور تعجب ہوا کہ ہم ہیں تو ایک دادا کی اولاد مگر اتنے طویل عرصہ کے بعد ملاقات ہوئی ہے۔ میری بہن کی نندیں ،میری بہنوں کے سارے بچے میری بڑی بھانجی  کے دیور اور نند ،چھٹانی کے بھائی رضی اور ان کی بیگم ، ون اردو کی نیٹ کی پیاری سی بہن کم دوست کشور اور انکے بھائی نے آکر ملا اور گفٹ سے نوازا مرحوم بڑی بہن کے صاحب زادے مع محل  آکر بہن کی کمی پوری کی ۔ بہت سارے سسرالی اقارب اور میاں کے آفس کے دوست ، خاص طور سے اپنی بہن جن سے ملنے کی تمنا نے ان سب سے ملاقات کا موقعہ فراہم کیا اور بھی بہت سارے لوگوں سے ملاقات ہوئی بہت اچھا لگا دلی خوشی ہوئی

مگر ہر بار یہ ہی سوچتی رہ گئی کہ یہ سرحدیں یہ فاصلہ یہ دوریاں کیسی ہیں مجبوریاں اپنوں کےدرمیان حائل ہوکر ہمارے دل میں محبت ہونے کے باوجود ہم کو جدا رکھتی ہیں ۔


سب کو ہماری وہاں رہنے کی ُمعینہ مدت بہت کم لگی سب نے بڑھوانے کہا تو چار اور پانچ تاریخ ہمارا ویزہ بڑھانے کی چکر میں گزار گیا اتنے لوگوں نے بڑھانے اپنے اپنے لوگوں کی پہچان سے کوشش کرنے لگے ( وہ لوگ زیادہ لوگوں کی شفارش سے گھبرا گئےشاید یہ میرا خیال ہے ) پاسپورٹ پر سعودیہ سے ویزہ لگنے پر اسلام آباد سے کاروائی کروانا ہوتا ہے کہہ کر ویزہ نہیں بڑھایا اورمیرے ایک ایک بچے بہویں اور پوتا پوتیوں نے الگ الگ آواز ریکارڈ کرکے واپس آجانے پر مجبور کیا۔


ہم نے دوسرے دن پھر رجسڑیسن آفس جاکر اپنے جانے کا اسٹامپ لگانے جلوہ دیکھا نے چلے گئے۔ ساری کاروائی کرنے تک چار بچ گئے۔


ہم ابھی تک رتی بھرشاپنگ بھی نہیں کرسکے تھے اورپھر اتنے لوگ ملنے کے باقی تھےاگر ہم اہم اہم لوگ بھی گنتے تو انگلیاں کی گرہ کم پڑجاتی۔ سب ہی بہت اداس تھے بعض نے تو اتنے کم وقت کے ویزہ سے خفا بھی ہوئے ہمارا دل بھی نہیں بھرا تھا ان سب کی ناراضگی پر ملال سا ہو رہا تھا پر کیا کرتے مجبوری تھی۔ سب کی محبت کو سمیٹ کر واپس جانا ہی تھا ۔


میں خود پہ اوڑھتا ہوں تیرے پیار کی ردا
تو خود پہ میری چاہ کا اُجلا لحاف کر
اس تلخیِ حیات کے لمحوں کا ہر قصور
میں نے معاف کر دیا ۔۔تو بھی معاف کر

جاری ہے


۔

4 comments:

sheikho said...

بہت اعلی ۔۔۔ اپنے پھر اپنے ہی ہوتے ہیں ، جہاں بھی ہوں ، جیسے بھی ہوں

کوثر بیگ said...

بہت شکریہ سرہانے کے لئے

جی صیحیح کہا آپ نے اپنے تو پھر اپنے ہوتے ہیں اور جب دوری درمیان میں آجائے تو اور بھی محبت میں اضافہ ہو جاتا ہے ۔شاد رہیں

عمیر said...

بہت اچها لگا یہ جان کر کہ آپ حیدرآباد سے ہیں. میرا ایک دوست ہے یہاں جرمنی میں جو حیدرآباد دکن سے ہے. بہت ہی نفیس لوگ ہیں حیدرآباد کے، یہاں جن سے ملاقات ہوئی، بہت اچهے لگے. خاص طور پہ اردو بولنے کا انداز بڑا الگ ہے. :)
میں شاید پہلی بار ہی آپکے بلاگ پہ آیا ہوں. پڑھ کے اچها لگا.

کوثر بیگ said...

خوش آمدید
ذرہ نوازی کا شکریہ
ان شاءاللہ ایک مضمون حیدرآبادی میں لکهوگی وقت ملنے پر
اللہ خوشیاں دے سدا

Post a Comment

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔