Saturday, January 24, 2015

پاکستان میں پہلا دن




السلام علیکم

میری پیاری بہنوں اور اچھے بھائیوں

آج بہت دن سے چاہتے ہوئے بھی لیپ ٹاپ کی ناراضگی کے وجہہ سے اپنے سفر کا حال لکھ نہ سکی تھی آج ممکن ہوا تو سارے کام پس پشت ڈال کر لکھنے لگی ہوں


پچھلے دنوں میں اور میرے صاحب آٹھ دن کی کوشش کے بعد پاکستان کا ویزہ سعودیہ میں لگواکر چوبیس ڈسمبر تاریک رات میں دو بجے کے قریب ایر پورٹ پرپہچے ۔ بچوں نے بہت ہی اداس چہروں کے ساتھ ہم سے ملکر ہمیں جاتا ہوا دیکھکر ہاتھ ہلاتے رہے ۔


ہمیں پندرہ دن کا ویزہ ملا تھا ۔ سامان چیک کروا کر سامان دے کر پاسپورٹ اور بوڈنگ پاس لئے اور اندر داخل ہوگئے تب تک بھی بچے کھڑے باہر سے ہمیں دیکھ رہے تھے ۔پھر پچیس کی صبح پاکستان پہچ گئے ۔

ایمیگریشن کی لائن میں کھڑے تھے کہ آدھی لائن تک پہچنے پر ہماری نظر انڈین مسافروں کے لئے مخصوص تختی پر پڑی تو ہم اس لائن میں لگ گئے کچھ ہی دیر میں ہمارا بھی نمبر آ ہی گیا میرے صاحب نے پاسپورٹ آگے بڑھیا تو وہ ویزہ وغیرہ کے مزید پیپرز کا مطالبہ کرنے لگے ہم اس بات سے بے خبر تھے کہ پاسپورٹ پر ویزہ لگنے کے باوجود ساری کاروائی پھر چیک کی جائے گی ۔ میاں نے وہ پیپرز سامان میں رکھ دیئے تھے۔مجھے سیٹ پر بیٹھاکر میاں نے اسے نکلا ۔ پھربتلایا گیا ۔ کئی سوالات ہوئے کس لئے آئے ہیں؟ کس نے بلایا ہے؟ بلانے والے کا نام ؟ پتہ ؟ شناختی کارڈ کی فوٹو کاپی ِ؟ کہاں قیام ہے ؟ کہاں سے ویزہ لگا ہے؟ کتنے دن کا ہے ؟۔یہ سب ان پیپر میں لکھا تھا مگر ہم سے بھی پوچھا گیا ۔ جب تشفی ہوگئی تو ہمیں اندر جانے کی اجازات ملی اور ہم سامان لے کر باہر آئے جہاں ہمارے رشتہ دار بہت دیر سے منتظر تھے ۔



سب سے ملے خوب دلی خوشی ہوئی اور دوسروں کے آنکھوں اور زبان سے اپنی آمد کی خوشی دیکھ کر تو مزید خوشی دوبالا ہوگئی ۔


ہم سفر سے تھک گئے تھے جی توچاہتا تھا کہ آرام کرلیں مگر چوبیس گھنٹہ کے اندر رجسڑیسن آفس میں آنے کی اطلاع کرنی تھی میرا بدن سستانا چاہتا تھا اس لئے میرا جانا ضروری ہےکیا پوچھا صاحب چلے جائیں تو نہیں چلے گا؟ تو سب نے مجھے بھی جانا ضروری ہے جتنا جلدی نپٹا لیں یہ کام بہتر رہے گابولے تو بادل ناخوستہ جانا پڑا ۔


بہن کے بیٹے اور دماد ساتھ تھے سب پیپربنانا فوٹو کاپی نکلنا دینا لینے سب بھنجے نے کرلیا اب ڈی سی پی کے کمرہ میں جانا بذات خودملنا تھا مگر وہ اس وقت دروزہ لگا کر تناول طعام فرما رہے تھے ہم باہر رکھی کرسیوں پر سایہ میں ٹھنڈی ہوا میں جہاں اور بھی لوگ اپنے اپنے باہر سے آئےعزیز و اقارب کے ساتھ بیٹھےتھے ۔ سب ہی کےچہرے اپنوں سے دیرینہ ملاقات سے چمکتے دمکتے مسکرارہے تھے اور دھیمی دھیمی سرگوشیاں ماحول کوخوش گوار کررہی تھی ۔ میں سب کو بغور دیکھ رہی تھی میاں بھی باتوں میں محو تھے۔


پھر ہماری حاضری کا وقت آگیا ہمیں اند بلایا گیا سامنے ہمارے عزیز اور ہم دونوں پیچھے تھے قریب جانے پر ڈی سی پی نے بڑے رعب سے زوردار آواز میں دور ہٹنے اور دیوار سے لگے صوفوں پر بیٹھنے کہا ۔ پھر ہمارے عزیزوں سے کس نے بلایا کیوں بلایا کہاں رہتے ہوشناختی کارڈ وغیرہ کے بارے میں پوچھاجب کہ انہیں معلومات کے پیپرز پہلے ہی ملاحظہ کرنے اور ریکاڈ رکھنے دے دیے تھے پھرہمارے طرف توجہ فرما کرنرم لہجہ میں وہ ہی ساری باتیں دوہرا کر پوچھے اور سعودیہ کے قیام کی مدت، جاب،پڑھائی،انڈیا سے کہاں سے تعلق ہے سولات پوچھے جب حیدرآباد شہر کے رہنے والے ہیں بتایا تو مسکرا کر حیدرآبادی بریانی مرجیوں کا سالن وہاں کے بارے میں بڑی خوشی سے باتیں دریافت کرنے لگے ۔میں نے دل ہی دل میں سوچا کہ میرے پیارے شہر یہ تو تیرے نام کا اثر ہے کہ مشکل وقت کو بھی آسان بنا دیتا ہے جس طرح حضرت علی کے چاہنے والے حیدرکرار پکارتے ہیں اور مدد پہچ جاتی ہے۔


اب کیا تری دیوار کے سائے کا بیاں ہو
کوچے کی ترے دھوپ بھی سایا سا لگے ہے


میں نے چپکے سے دل میں یہ شعر پڑھا اوروہاں سے واپس گھر آنے تک مغرب ہونے لگی تھی۔


جاری ہے

 بلاگ پر آنے کا شکریہ

12 comments:

کائناتِ تخیل said...

پاکستان آئی تھیں تو ایک ہندوستانی شہری ہونے کی بنا پر یہ پوچھ گچھ تو ہونا ہی تھی۔ اور ہم بھی اگر کبھی جانا چاہیں تو یہ سب بھی ہمارے ایک ایک خوفناک مسئلے سے کم نہیں آپ بہادر ہیں بلکہ بہت سے انڈیا سے آنے والے ہمارے رشتہ دار کہ سال بہ سال یا چند سال بعد آ جاتے ہیں۔ ہم تو ایسا سوچنا بھی " آ بیل مجھے مار" کے مصداق سمجھتے ہیں، معذرت کہ یہ آپ کے وطن کی تضحیک نہیں بلکہ شاید ہمارے اپنے ملک میں ہمارے لیے اتنا عدم تحفظ ہے کہ اپنے شہر سے باہر جاتے ہوئے بھی خواہ مخواہ کے واہمے ستاتے ہیں۔ بہرحال آپ کےواسطے سے آپ کا وطن۔۔۔ ہمدوستان ہمیشہ جگمگاتا رہے۔ اور ہمارا پاکستان ۔۔۔۔۔۔ زندہ باد
اور میری اور آپ کی سرحد کی قید سے آزاد محبت ۔۔۔ پائندہ باد

کوثر بیگ said...

میری اور آپ کی سرحد کی قید سے آزاد محبت ۔۔۔۔۔واہ کیا بات کہی ،

ہاں میں جانتی ہوں انڈیا میں اس سے بھی زیادہ تفتیش ہوتی ہے۔ ان بٹے ہوئے خاندان ایک آدھ پشت کے بعد یہ محرومی کا احساس یہ ناملنے کی بے چینی ۔ داستان پارینہ بن جائے گی یہ دوریاں کب تک رشتہ داریاں نبہا پائی گئی دل تو یہ ہی دعا کرتا رہتا ہے کہ اس پار اور اس پار کے لوگوں کو ایمان و امان کے ساتھ رکھے ۔

منصور مکرم said...

پیاری روؤداد
میرے خیال میں جب ایک ہی محلے میں رہنے والے دو ہمسائیوں کے تعلقات اس قدر خراب ہوں تو وہ معمولی باتوں پر بھی بچوں سے تفتیش کرنے لگتے ہیں۔

چی جائیکے یہ تو دو ملک ہیں، لیکن واقعی نورین تبسم صاحبہ کی بات کہ یہ سرحدیں ان رشتوں کو روکنے والی نہیں ہیں۔
مشکل جھیل کر اپنوں سے ملنے کا الگ مزہ ہوتا ہے۔

اسی حوالے سے ایک لطیفہ یاد آگیا کہ میرا ایک دوست(جسکے آباواجداد ہندوستان سے تقسیم کے وقت آئے تھے) دو تین سال قبل جب حج کیلئے گیا تو وہاں ایک ہندوستانی سے ملا ۔
خوب گپشپ کے بعد جب رکصت ہونے لگے تو میرے دوست نے دعاء کی کہ اللہ دونوں ملکوں کو پھر ایک کردئے۔

یہ کہنا تھا کہ ہندوستانی دوست نے ایک چیخ ماری کہ
نہیں نہیں
پھر ہماے ہاں بھی بم پھٹیں گے۔
اور میرا دوست اپنا سا منہ لیکر رہ گیا۔

اس وقعے کو صرف ایک مزاحیہ واقعہ ہی لینا چاہئے۔

Anonymous said...

بہت اچھا لگا پڑھ کے۔ مزید اقساط کا انتظار رہے گا


سعید، سہارن پور، یوپی

کوثر بیگ said...

منصور مکرم بھائی بہت شکریہ

آپ نے سچ کہا پڑوسی ہوں تو اونچ نیچ چلتے رہتی ہے ۔اس تحریر کو پڑھنے کے بعد ایک نیٹ کی بہن نے مجھے لکھا کہ "سرحدیں جدا ہو گئیں تو کیا ہوا ہمارے دل جدا نہیں ہوئے "۔ اللہ آپ کو خوش رکھے ۔

کوثر بیگ said...

سعید صاحب بہت مشکور ہوں آپ نے کمنٹ سے نوازکر پسندیدگی کا اظہار فرمایا ۔دوسری قسط پوسٹ کردی ہوں کہ دیکھ چکے ہوگے۔

Anonymous said...

آگے کی تحریر کا بے صبری سے انتظارہے۔

کوثر بیگ said...

http://kauserbaig.blogspot.in/2015/01/blog-post_68.html?m=1

بلاگ پر آمد کا شکریہ آپ میسج کے آخر میں نام لکه دیا کریں تو میں بهی آپ کے بارے میں جان سکتی.
جی دوسری قسط کا لنک دے رہی ہوں پڑهکر ضرور بتائیے گا کیسی لگی .
.آخری بهی بہت جلد پوسٹ کر دونگی .ان شاءاللہ

علی said...

ارے ہمارے پاک و ہند میں یہی رواج ہے کبھی میرے بلاگ پر نہیں پڑھا کہ خود ہمارے ساتھ کیا ہوتا ہے ہوائی اڈوں پر
:)

harfe arzoo said...

بہت دنوں سے انتظار تھا کہ آپ کچھ لکھیں
کہتے ہیں
First Impression is the last :)

کوثر بیگ said...

جی جناب مگر مجهے اس بات سے کوفت ہورہی تهی کہ ایک ہی بات بار بار پوچها جارہی تهی جب کے وہ ہی سب لکهکر بهی دیا گیا .اللہ جا نے ہمارے ملک کب ترقی کرینگے کب جدید انداز اپنائنگے .
اب دیکهے سعودی عرب میں کمپیوٹر میں سب تفصیلات رہتی ہیں پاسپورٹ کے ساته ہی کمپیوٹر پر ایک نظر ماری کمرے کے سامنے کهڑے رہے بس نکل لیے ایک آده ہی سے سوال پوچهتے ہونگے بس..بہت شکریہ کمنٹ کےلئے میں آپکی تحاریر اکثر پڑهتی ہوں اللہ خوش رکهے

کوثر بیگ said...

آپ کی ذرہ نوازی ہے
تہہ دل سے کمنٹ کا شکریہ ادا کرتی ہوں .اللہ خوش و خرم رکهے آپکو

Post a Comment

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔