چوتھی قسط
جمرات جاتے ہوئے ایک تو ریگستان کی دھوپ اوپر سے کھڑا سورج لگتا تھا آگ برس رہی ہے ۔ ہم عورتوں کو بال رکھنے سر ڈھانپے کا حکم اس وقت ایک نعمت سے کم نہیں لگ رہا تھا۔ مرد حضرات کے سر اس شدید گرمی میں منڈوائے ہوئے تھے میرے بیٹے کی تالو گہری سرخ ہوگئی تھی ۔ ہم سب نے دوسروں کی طرح اپنے سر پر چھتری تان لی مگر ہونٹوں پر پپڑی جمتی اور جسم جلنے لگتا ۔ زبان پر کانٹے پڑ تےایسے وقت میں سڑک کے دونوں کناروں پر کچھ فاصلوں پر لگے کولر اس تبتے صحرا میں پانی کی نعمت سے سیراب کرتے رہے ہم ٹہرتے جاتے پانی پیتے اپنے ساتھ کا بوتل بھرتے منہ ہاتھ بھگوتے آگے چلتے جاتے ۔ مجھے یہ پانی کا انتظام دیکھکر بے اختیار نہر زبیدہ کا خیال آگیا۔ جمرات کے سارے راستہ پر دو جانب بڑے بڑے اونچے کھمبے تھوڑی تھوڑی دور پر نصب کئے گئے ہیں جس سے حجاج اکرام پر ٹھنڈے پانی کی پھوہار برستی رہتی ہے اندھے کو اور کیا چاہئے دو آنکھ گرمی کی شدت میں کمی اور آگے بڑنے کی ہمت دلاتے یہ ننھے سے پانی کے بوند بہہت بڑا سہارا بنے اپنا کام کررہے تھے ۔ ہم ان کھمبوں کے قریب پہنچتے تو اپنی چھتری سرکا دیتے اور پانی سے لطف اندوز ہوتے ۔ جہاں یہ پانی کے کھمبے نہیں ہوتے وہاں حج سکیورٹی فورس کے جوان ایک بوتل میں چھوٹے چھوٹے چھید کرکے پیچھے سے بوتل دبا دبا کر سر و چہرے پر پانی کا چھڑکاؤ کرتے جاتے۔ صرف جمرات ہی نہیں سکیورٹی کے جوان عرفات مزدلفہ حرم ہر سڑک ہر کوچہ میں بہت ہی احسن طریقہ سے اپنی ڈیوٹی کو ڈیوٹی سمجھکر انجام دے رہے تھے ۔
راستہ بتانے سکیورٹی فورس کے جوان ہر موڑ اور راستہ میں کھڑے بڑی مستعدی سے رہنمائی کررہے تھے ۔
ہر چند قدم کے بعد حکومت کے کارندے بڑے بڑے تھیلے پکڑے کھڑے تھے تاکہ کچرا نیچے نہ ڈالیں زمیں گندی نہ ہو سڑک پر کچرے کا ڈھیر نہ لگ جائے ۔ اتنی صفائی ستھرائی کے انتظام ہی کی وجہ تھی کہ حج کے لئے لاکھوں لوگ آنے کے باوجود کچرے سے پاک صاف راہیں اور قیام کی جگہ نظر آرہی تھی ۔
جمرات سے حرم اور حرم سے جمرات کےلئے بسوں کی سہولت تھی جو بہتر طور پرکام کررہی تھی مگر آخری دن مکہ میں واجب طواف وداع ادا کرنے منی سے معلم کی بس مکہ لے جا کر ایک وسع پارکنگ کی مقام پر ہمیں ڈرئیوار نے اتار کر سمجھایا کہ قریب ہی سیبکو بس اسٹینڈ ہے آپ کو وہاں سے بس سیدھے حرم لے جائے گی ۔ ہم واپس پھر یہیں ملے گے ۔ کسی وجہ سے ضرورت پڑے تو فون کرلیں وہ نمبر دے کر چلا گیا ۔ ہم بس اسٹینڈ کا پتہ پوچھے جو بہت دور تھا وہاں تک جانے ٹیکسی کرلی گئی ۔پھرسیبکو بس اسٹینڈ پر پہنچے ۔ ایک سوڈانی ٹائپ کا آدمی ٹکٹ بیچ رہا تھا (جو پندرہ ریال کا تھا ہم پانچ افراد تھے ۔)اس سے ٹکٹس خرید کر بس دیکھنے لگے ۔ بس تو بہت آرہی تھیں مگر اس کے آتے ہی اس پر ایک جم غفیر ٹوٹ پڑتا اور پھر وہ پہلے ہی سے بھری رہتی اللہ جانے کیسے لوگ چڑھ اور اتر رہے تھے ہم ایک نہیں انکنت بسوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے آتے جاتے دیکھتے رہےجس کے ٹھرتے ہی لوگ دوڑ لگا کر راستے کھولنے سے پہلے بس کے سامنے بھیڑ کی شکل میں جمع ہوجاتے ۔بیٹے نے ایک دو بار کوشش کی مگر دھکم پیل میں پھنس جانے کے خوف اور مارا ماری ہوتے دیکھ کر بس سے جانے کا ارادہ ترک کرتے ہوئے ٹکٹ واپس کرنا چاہا مگر جس نے ہمیں ٹکٹ بیچا تھا اس آ دمی نے دوسروں کو فروخت کرنے کہہ دیا ہمارے پاس سے کوئی دوسرا شخص لینے راضی نہیں تھے ۔ٹکٹ نقلی سمجھ رہے تھے ۔ کاش حکومت اس طرف توجہ دیتی ایک منٹ کی جگہ منٹ میں دو بسوں کا انتظام کرتی اس مشکل سے بجا جاتا ۔ میں سوچ ہی رہی تھی کہ بیٹے نے کہا ہمیں وقت کھوٹا کرنا نہیں ہے بس کی چکر میں ایک گھنٹہ سے زیادہ ضائع ہو گیا تھا ۔ مقررہ وقت میں طواف سے فارغ ہوکر معلم کی گاڑی سے جدہ پہنچنا ہے ۔
ہم ٹیکسی کی تک و دو کرنے لگے عام دنوں میں جہاں پچیس تیس ریال لیتے ہونگے اب موقعہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے تین سو ریال سے کوئی نیچے نہیں اتر رہے تھے ۔ کئی ٹیکسیوں کے بعد ایک ڈرئیوار دو سو ریال کےلئے بڑی مشکل سے راضی ہوا ۔ ہم اللہ اللہ کرکے مسجد ِحرم پہنچے جلدی سے طواف کیا عشاء کی نماز جماعت سے ادا کی اور پھر سے واپسی کےلئے ٹیکسی اور بس کی الجھن شروع ہوگئی کچھ جدوجہد کے بعد ہم معلم کی بس تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے جو ہمارے ہی انتظار میں تھی ۔
گھر آتے آتے آدھی رات ہوگئی بیٹا گاڑی لیے تیار کھڑا تھا بس سے سامان نکلنے تک ہم سب سیٹوں پر بیٹھ گئے اورپھر گھر واپسی پر سب کے چمکتے دمکتے چہکتے چہرے ہم سے باری باری لپٹ کر مبارکباد و اظہارِ محبت کرنے لگے تو دل بے اختیار اللہ کا شکر ادا کرنے لگا۔
۔۔۔۔۔
جمرات جاتے ہوئے ایک تو ریگستان کی دھوپ اوپر سے کھڑا سورج لگتا تھا آگ برس رہی ہے ۔ ہم عورتوں کو بال رکھنے سر ڈھانپے کا حکم اس وقت ایک نعمت سے کم نہیں لگ رہا تھا۔ مرد حضرات کے سر اس شدید گرمی میں منڈوائے ہوئے تھے میرے بیٹے کی تالو گہری سرخ ہوگئی تھی ۔ ہم سب نے دوسروں کی طرح اپنے سر پر چھتری تان لی مگر ہونٹوں پر پپڑی جمتی اور جسم جلنے لگتا ۔ زبان پر کانٹے پڑ تےایسے وقت میں سڑک کے دونوں کناروں پر کچھ فاصلوں پر لگے کولر اس تبتے صحرا میں پانی کی نعمت سے سیراب کرتے رہے ہم ٹہرتے جاتے پانی پیتے اپنے ساتھ کا بوتل بھرتے منہ ہاتھ بھگوتے آگے چلتے جاتے ۔ مجھے یہ پانی کا انتظام دیکھکر بے اختیار نہر زبیدہ کا خیال آگیا۔ جمرات کے سارے راستہ پر دو جانب بڑے بڑے اونچے کھمبے تھوڑی تھوڑی دور پر نصب کئے گئے ہیں جس سے حجاج اکرام پر ٹھنڈے پانی کی پھوہار برستی رہتی ہے اندھے کو اور کیا چاہئے دو آنکھ گرمی کی شدت میں کمی اور آگے بڑنے کی ہمت دلاتے یہ ننھے سے پانی کے بوند بہہت بڑا سہارا بنے اپنا کام کررہے تھے ۔ ہم ان کھمبوں کے قریب پہنچتے تو اپنی چھتری سرکا دیتے اور پانی سے لطف اندوز ہوتے ۔ جہاں یہ پانی کے کھمبے نہیں ہوتے وہاں حج سکیورٹی فورس کے جوان ایک بوتل میں چھوٹے چھوٹے چھید کرکے پیچھے سے بوتل دبا دبا کر سر و چہرے پر پانی کا چھڑکاؤ کرتے جاتے۔ صرف جمرات ہی نہیں سکیورٹی کے جوان عرفات مزدلفہ حرم ہر سڑک ہر کوچہ میں بہت ہی احسن طریقہ سے اپنی ڈیوٹی کو ڈیوٹی سمجھکر انجام دے رہے تھے ۔
راستہ بتانے سکیورٹی فورس کے جوان ہر موڑ اور راستہ میں کھڑے بڑی مستعدی سے رہنمائی کررہے تھے ۔
ہر چند قدم کے بعد حکومت کے کارندے بڑے بڑے تھیلے پکڑے کھڑے تھے تاکہ کچرا نیچے نہ ڈالیں زمیں گندی نہ ہو سڑک پر کچرے کا ڈھیر نہ لگ جائے ۔ اتنی صفائی ستھرائی کے انتظام ہی کی وجہ تھی کہ حج کے لئے لاکھوں لوگ آنے کے باوجود کچرے سے پاک صاف راہیں اور قیام کی جگہ نظر آرہی تھی ۔
جمرات سے حرم اور حرم سے جمرات کےلئے بسوں کی سہولت تھی جو بہتر طور پرکام کررہی تھی مگر آخری دن مکہ میں واجب طواف وداع ادا کرنے منی سے معلم کی بس مکہ لے جا کر ایک وسع پارکنگ کی مقام پر ہمیں ڈرئیوار نے اتار کر سمجھایا کہ قریب ہی سیبکو بس اسٹینڈ ہے آپ کو وہاں سے بس سیدھے حرم لے جائے گی ۔ ہم واپس پھر یہیں ملے گے ۔ کسی وجہ سے ضرورت پڑے تو فون کرلیں وہ نمبر دے کر چلا گیا ۔ ہم بس اسٹینڈ کا پتہ پوچھے جو بہت دور تھا وہاں تک جانے ٹیکسی کرلی گئی ۔پھرسیبکو بس اسٹینڈ پر پہنچے ۔ ایک سوڈانی ٹائپ کا آدمی ٹکٹ بیچ رہا تھا (جو پندرہ ریال کا تھا ہم پانچ افراد تھے ۔)اس سے ٹکٹس خرید کر بس دیکھنے لگے ۔ بس تو بہت آرہی تھیں مگر اس کے آتے ہی اس پر ایک جم غفیر ٹوٹ پڑتا اور پھر وہ پہلے ہی سے بھری رہتی اللہ جانے کیسے لوگ چڑھ اور اتر رہے تھے ہم ایک نہیں انکنت بسوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے آتے جاتے دیکھتے رہےجس کے ٹھرتے ہی لوگ دوڑ لگا کر راستے کھولنے سے پہلے بس کے سامنے بھیڑ کی شکل میں جمع ہوجاتے ۔بیٹے نے ایک دو بار کوشش کی مگر دھکم پیل میں پھنس جانے کے خوف اور مارا ماری ہوتے دیکھ کر بس سے جانے کا ارادہ ترک کرتے ہوئے ٹکٹ واپس کرنا چاہا مگر جس نے ہمیں ٹکٹ بیچا تھا اس آ دمی نے دوسروں کو فروخت کرنے کہہ دیا ہمارے پاس سے کوئی دوسرا شخص لینے راضی نہیں تھے ۔ٹکٹ نقلی سمجھ رہے تھے ۔ کاش حکومت اس طرف توجہ دیتی ایک منٹ کی جگہ منٹ میں دو بسوں کا انتظام کرتی اس مشکل سے بجا جاتا ۔ میں سوچ ہی رہی تھی کہ بیٹے نے کہا ہمیں وقت کھوٹا کرنا نہیں ہے بس کی چکر میں ایک گھنٹہ سے زیادہ ضائع ہو گیا تھا ۔ مقررہ وقت میں طواف سے فارغ ہوکر معلم کی گاڑی سے جدہ پہنچنا ہے ۔
ہم ٹیکسی کی تک و دو کرنے لگے عام دنوں میں جہاں پچیس تیس ریال لیتے ہونگے اب موقعہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے تین سو ریال سے کوئی نیچے نہیں اتر رہے تھے ۔ کئی ٹیکسیوں کے بعد ایک ڈرئیوار دو سو ریال کےلئے بڑی مشکل سے راضی ہوا ۔ ہم اللہ اللہ کرکے مسجد ِحرم پہنچے جلدی سے طواف کیا عشاء کی نماز جماعت سے ادا کی اور پھر سے واپسی کےلئے ٹیکسی اور بس کی الجھن شروع ہوگئی کچھ جدوجہد کے بعد ہم معلم کی بس تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے جو ہمارے ہی انتظار میں تھی ۔
گھر آتے آتے آدھی رات ہوگئی بیٹا گاڑی لیے تیار کھڑا تھا بس سے سامان نکلنے تک ہم سب سیٹوں پر بیٹھ گئے اورپھر گھر واپسی پر سب کے چمکتے دمکتے چہکتے چہرے ہم سے باری باری لپٹ کر مبارکباد و اظہارِ محبت کرنے لگے تو دل بے اختیار اللہ کا شکر ادا کرنے لگا۔
۔۔۔۔۔
0 comments:
Post a Comment
اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔