Tuesday, June 10, 2014

ماں کا دل



السلام علیکم

میرے اچھے بھائیوں اور پیاری بہنوں

عورت کے دل کو اللہ نے لگتا ہے خاص مٹی سے گھڑا ہوگا اور خاص طور سے جب وہ ایک ماں بھی ہو ۔اور میں نے اپنے تجربہ سے دیکھا ہے کہ ایک عورت کی جب اللہ سنتا ہے تو اس کی اولاد کے حق میں کی گئی دعائیں فوراً قبول کرتا ہے اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ اللہ پاک عورت کو آزماءش میں ڈالنا چاہتا ہے تو بھی اولاد کی وجہہ سے ہی آزماتا ہے اور میں سمجھتی ہوں کہ عورت کی اس سے سخت سزا ہوہی نہیں سکتی ۔ماں کے دل کا حال اور احساس اس تازہ بہ تازہ خود پر گزرے اس واقعہ سے شایدآپ کو معلوم ہو۔

آٹھ تاریخ کو بیٹے نے ایک ماہ کی چھٹی گزارنے اپنے سسرال امریکہ کا پروگرام بنایا ۔اس کو جانے کے لئے چھوڑنے ہم سب ایر پوارٹ فیملی کے ساتھ گئے۔ سامان ویٹ کیا اور بوڈینگ کارڈ لیا گیا ۔کچھ دیر ساتھ بیٹھنے کے بعد ایک گھنٹے کا ٹائم ابھی باقی رہنے کے باوجود والدین اور دوسرے رشتہ دار کو تکلیف نہ دینے کے خیال سے وہ اندر چلے جانے کا اردہ کیا اور سب سے مل ملا کر وہ بیوی بچوں کے ساتھ اندر چلے گئے ۔

 ماں کے دل نے اپنے احساس کا اظہار باوجود ضبط کہ آنکھوں سے کردیا اور چپکے سے اپنےآپ سے بیٹے کی جدائی کی شکایت کرلی اور اللہ کی مرضی پر راضامندی میں سر جھکا کر سب کے ہمراہ گھر واپس آگئے ۔مغموم ماں بستر پر لیٹے خالی خالی نظروں سے چھت دیکھنے لگی اور پھرکچھ دیر بعد فون کی بیل نے بیدلی کی کیفیت کوفراموش کردیا ۔ عمرہ کے رش کی زیادتی نے چیکنگ میں دیر کردی اور پلین مس  ہوگیا، رات زیادہ ہوگئی، بچوں کا ساتھ ہے آکر لے جائیں بیٹے نے فون پر کہا ۔ ہم جلدی سے ایر پورٹ بھاگے بھاگے گئے پھرواپسی میں بیٹے نے راستہ بھربہت افسوس کیا اپنے اور اپنے بچوں کی تھکن کا ذکر کیا سیٹ آگے بڑھانے پر اضافہ فیس دینے کا بتایا ۔

 ماں کا دل پھرایک بار تڑپ اٹھا اور دل ہی دل میں خود کو الزام دینے لگی کہ دل میں بھی تو نے ایسا کیوں سوچا تو ہی نے اپنے بیٹے کا دل دکھا یا ہے  کیوں اس کا نہیں سوچا اپنی خوشی کیوں چاہی ۔ وہ شہ رگ سے قریب رہنے والے نے تیری یہ بات سن لی اور مان لی ۔ نہیں نہیں ایسا نہیں ہونا چاہئے تھا  ۔ میں اسی سے معروضہ کرونگی جس کے ہاتھ میں ساری دنیا کی بھاگ ڈور ہے ۔پھر دعائیں من ہی من مانگنے لگی ہے ۔ اے اللہ پاک اس کو سیٹ آسانی سے بنا پیسے بھرے مل جائے جب بغیر تجھ سے مانگے تو نے مجھے بیٹے کا ساتھ دیا میں ہر ہر پل کے لئے تیری شکر گزار ہوں اب تو تیرے کرم سے اتنی آسانیاں ہوگئی ہیں دور رہ کر بھی ایک انسان قریب سے بھی زیادہ قریب تر لگنے لگاتا ہے بس انسان کو دل سے قریب ہونا چاہئے ایک ماں اپنے بچے کو پریشاں نہیں دیکھ سکتی بدلہ میں اس پر مصبت کے پہاڑ ہی کیوں نہ ٹوٹ جائیں ۔

دل سے مانگی دعا رد نہیں ہوتی اللہ نے بنا اضافہ پیسوں کے اسی وقت کی دوسرے دن کی سیٹ دیلادی اور پھر ماں نے اپنے دل کو منا لیا کہ اب تو چپ ہی رہ کبھی یہ کبھی وہ کہنے کی ضرورت نہیں اور پھر ایر پورٹ سے باہر ہی باہر چھوڑ آئے بہانہ بنادیا کہ کہیں پھر دیر نہ ہوجائے۔اصل میں تو خود پر اعتبار نہیں تھا کیا پتہ پھر یہ بیٹے کے قرب کے لئے مچل جائے ایک ماں کے دل کا کوئی بھروسہ نہیں ۔

بیٹا لمحہ بہ لمحہ دور ہوتا رہا اور ماں کو لگتا رہا کہ وہ اس سے قریب سے قریب تر ہورہا ہے پہلے ساتھ رہتے اس کا خیال یوں ہر پل نہیں ہواکرتا تھا مگراب ہر ساعت اسی کا دھیان لگا رہتا ہے ۔۔
اللہ پاک ؛ جتنا دل ،زبان ،خیال، محبت رضا اور محویت ایک ماں کو اولاد کے لئے ہر دم  رہتی ہے۔اس سے کئی گنا زیادہ ہم تیرے لئے کیا کریں ۔ 
 
بلاگ  پر تشریف لانے کا شکریہ

13 comments:

asma said...

ماں جِسکا کا کوئی نعم البدل نہیں ہے

Dohra Hai said...

رب نے ماں ورگی شے ہور نہیں کوئی بنائی

کوثر بیگ said...

آپ دونوں پہلی بار میرے بلاگ پر تشریف لائے ہی .خوش آمدیداللہ جزائے خیر دے.
آپ لوگوں نے سچ کہا ماں کے دل میں جتنی محبت ہوتی ہے اتنی کس اور انسان کے دل میں رہ ہی نہیں سکتے .ہمارے حیدرآباد دکن میں ایک محاورہ ہے .ماں سے بڑ کر چاہئے پاپی کٹنی کہلائے.
بہت شکریہ کمنٹس کےلئے آپ دونوں کا

rdugardening.blogspot.com said...

اسی لئے تو کہتے ہیں " ماواں ٹھنڈیاں چھاواں"

عمران اقبال said...

ماں کے لیے میرے جو تاثرات ہیں۔۔۔ وہ بیان سے باہر ہیں۔۔۔ سوائے اس بات کے کہ آج کچھ بھی ہوں، ماں باپ کی دعاووں کی بدولت ہوں۔۔۔ الحمدللہ۔

کوثر بیگ said...

مصطفیٰ ملک بهائی سچ میں ما ں کا بدل تو کوئی ہو ہی نہیں سکتا. بے حد شکریہ بهائی کمنٹ کےلئے ..اللہ خوشیاں دے آپکو

کوثر بیگ said...

عمران بهائی ، مجهے امی کے بغیر سوچنے سے ہی زندگی محال لگتی تهی مگر شادی کے بعد گزارا کرنا پڑا اور جب خود ماں بنی تو یہ خوش فہمی دور ہوئی کہ امی سے بڑهکر میں امی کو چاہنی ہوں ..اللہ جن کے والدین ہیں ان کی اولادوں کو خدمت ، عزت کرنے کی توفیق دے..
ممنون ہوں بهائی آپکے مسیج کےلئے

افتخار اجمل بھوپال said...

ماں کا نعلم البدل شاید اللہ نے پیدا نہیں کیا ۔ میں نے اپنی ماں کو 1980ء تک دیکھا اور اپنے بچوں کی ماں کو 1971ء سے دیکھ ریا ہوں ۔ میری ماں اور بیوی میں ایک اور قدرِ مشترک نھی ہے ”بطور دادی“۔ پوتی پوتے کی اپنے بچوں سے بھی بڑھ کر فکر

کوثر بیگ said...

جی اجمل بھائی آپ ٹھیک فرما رہے ہیں ۔دادی بنے کے بعد تو لگتا ہے ایک پیار کا دریا ہے جو رواں ہوجاتا ہے شاید عمر کی زیادتی اور تجربہ سے طبیعت میں نرمی اور تربیت کے انداز میں محبت شامل ہوجاتی ہے تو ضدی سے ضدی نالائق سے نالائق بھی بات مان لیتے ۔۔اللہ کا کرم ہے کہ اس نے ہر رشتہ میں ایک الگ تعلق اور محبت رکھا ہے

مشکور ہوں بھائی میں آپ کی ، بلاگ پر آپ جب بھی آتے ہیں مجھے بے انتہاء خوشی ہوتی ہے ۔اللہ سلامت رکھے

Anonymous said...

خوبصورت لکھا۔ مائیں تو سب کی اچھی ہوتی ہیں، لیکن انسان کی توجہ اس طرف سے ہٹ جاتی ہے کہ وہ خود کیسی ماں یا کیسا باپ ہونا چاہیئے۔
باپ اور بالخصوص ماؤں کو اولاد کے معاملے میں ہر لفظ سوچ کر بولنا چاہیے کہ نجانے کونسی قبولیت کی گھڑی ہو اور آپ کی اولاد کے حق میں کوئی ایسی دعا قبول ہو جائے جو آپ نے وقتی برہمی میں کی ہو ۔
لہٰذا ماں باپ بننے کے ساتھ سب سے پہلے اپنی ذمہ داری اور مقام کی قدر کریں۔ اپنی دعاؤں سے اولاد کو مالا مال کریں، ہدایت مانگیں۔

کوثر بیگ said...

بہت خوب اآپ نے اچھی بات کے طرف توجہ دیلائی جب کوئی منصب ملتا ہے تو اس کی ذمہ داریاں میں بھی اضافہ ہوتا ہے اس کے کچھ تقاضہ بھی ہوتے ہیں ۔خود کو بہتر والدین بنےکے بعد خود کو بہتر بنانا ہوگا ان اپنے اعمال سے افعال سے ہمیشہ باعمل بنکر راستہ دیکھانا ہوگا۔
آپ کی یہ بات پڑھنے کے بعد مجھے بابا کی ایک نضیحت یاد آئی ۔کہتے تھے جب بھی ہماری اماں جان کو ہم بچے ستایا کرتے تو آپ ان کے حق میں دعائیں شروع کردیتی اللہ تم کو ہدایت دے بزرگ بنائے امام و رہبر بنائے ،راتوں میں نماز پڑھنے والا اور حاجی بنے ۔وغیرہ اور آپ یقین کرے سب اولاد میں یہ سارے گن میں نےخود باتمام دیکھےہیں ۔اللہ ہمیں اولاد ہی کیا ہر ایک کی بہتری چاہنے والا بنا دے۔۔

Unknown said...

بہت خوبصورت پوسٹ اور اتنے ھی خوبصورت کمنٹس

کوثر بیگ said...

خوش آمدید اشفاق بھائی

پسندیدگی کا بے حد شکریہ

اللہ آپکو خوش و خرم رکھے۔

Post a Comment

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔