السلام علیکم
میری
پیاری بہنوں اور اچھے بھائیوں
آج
بہت دن سے چاہتے ہوئے بھی لیپ ٹاپ کی ناراضگی کے وجہہ سے اپنے سفر کا حال لکھ نہ
سکی تھی آج ممکن ہوا تو سارے کام پس پشت ڈال کر لکھنے لگی
ہوں
پچھلے دنوں میں اور میرے صاحب آٹھ دن کی کوشش کے بعد پاکستان کا
ویزہ سعودیہ میں لگواکر چوبیس ڈسمبر تاریک رات میں دو بجے کے قریب ایر پورٹ پرپہچے
۔ بچوں نے بہت ہی اداس چہروں کے ساتھ ہم سے ملکر ہمیں جاتا ہوا دیکھکر ہاتھ ہلاتے
رہے ۔
ہمیں پندرہ دن کا ویزہ ملا تھا ۔ سامان چیک کروا کر سامان دے کر
پاسپورٹ اور بوڈنگ پاس لئے اور اندر داخل ہوگئے تب تک بھی بچے کھڑے باہر سے ہمیں
دیکھ رہے تھے ۔پھر پچیس کی صبح پاکستان پہچ گئے ۔
ایمیگریشن کی لائن میں کھڑے تھے کہ آدھی لائن تک پہچنے پر ہماری
نظر انڈین مسافروں کے لئے مخصوص تختی پر پڑی تو ہم اس لائن میں لگ گئے کچھ ہی دیر
میں ہمارا بھی نمبر آ ہی گیا میرے صاحب نے پاسپورٹ آگے بڑھیا تو وہ ویزہ وغیرہ کے
مزید پیپرز کا مطالبہ کرنے لگے ہم اس بات سے بے خبر تھے کہ پاسپورٹ پر ویزہ لگنے کے
باوجود ساری کاروائی پھر چیک کی جائے گی ۔ میاں نے وہ پیپرز سامان میں رکھ دیئے
تھے۔مجھے سیٹ پر بیٹھاکر میاں نے اسے نکلا ۔ پھربتلایا گیا ۔ کئی سوالات ہوئے کس
لئے آئے ہیں؟ کس نے بلایا ہے؟ بلانے والے کا نام ؟ پتہ ؟ شناختی کارڈ کی فوٹو کاپی
ِ؟ کہاں قیام ہے ؟ کہاں سے ویزہ لگا ہے؟ کتنے دن کا ہے ؟۔یہ سب ان پیپر میں لکھا
تھا مگر ہم سے بھی پوچھا گیا ۔ جب تشفی ہوگئی تو ہمیں اندر جانے کی اجازات ملی اور
ہم سامان لے کر باہر آئے جہاں ہمارے رشتہ دار بہت دیر سے منتظر تھے
۔
سب
سے ملے خوب دلی خوشی ہوئی اور دوسروں کے آنکھوں اور زبان سے اپنی آمد کی خوشی دیکھ
کر تو مزید خوشی دوبالا ہوگئی ۔
ہم
سفر سے تھک گئے تھے جی توچاہتا تھا کہ آرام کرلیں مگر چوبیس گھنٹہ کے اندر رجسڑیسن
آفس میں آنے کی اطلاع کرنی تھی میرا بدن سستانا چاہتا تھا اس لئے میرا جانا ضروری
ہےکیا پوچھا صاحب چلے جائیں تو نہیں چلے گا؟ تو سب نے مجھے بھی جانا ضروری ہے جتنا
جلدی نپٹا لیں یہ کام بہتر رہے گابولے تو بادل ناخوستہ جانا پڑا
۔
بہن
کے بیٹے اور دماد ساتھ تھے سب پیپربنانا فوٹو کاپی نکلنا دینا لینے سب بھنجے نے
کرلیا اب ڈی سی پی کے کمرہ میں جانا بذات خودملنا تھا مگر وہ اس وقت دروزہ لگا کر
تناول طعام فرما رہے تھے ہم باہر رکھی کرسیوں پر سایہ میں ٹھنڈی ہوا میں جہاں اور
بھی لوگ اپنے اپنے باہر سے آئےعزیز و اقارب کے ساتھ بیٹھےتھے ۔ سب ہی کےچہرے اپنوں
سے دیرینہ ملاقات سے چمکتے دمکتے مسکرارہے تھے اور دھیمی دھیمی سرگوشیاں ماحول
کوخوش گوار کررہی تھی ۔ میں سب کو بغور دیکھ رہی تھی میاں بھی باتوں میں محو
تھے۔
پھر
ہماری حاضری کا وقت آگیا ہمیں اند بلایا گیا سامنے ہمارے عزیز اور ہم دونوں پیچھے
تھے قریب جانے پر ڈی سی پی نے بڑے رعب سے زوردار آواز میں دور ہٹنے اور دیوار سے
لگے صوفوں پر بیٹھنے کہا ۔ پھر ہمارے عزیزوں سے کس نے بلایا کیوں بلایا کہاں رہتے
ہوشناختی کارڈ وغیرہ کے بارے میں پوچھاجب کہ انہیں معلومات کے پیپرز پہلے ہی ملاحظہ
کرنے اور ریکاڈ رکھنے دے دیے تھے پھرہمارے طرف توجہ فرما کرنرم لہجہ میں وہ ہی ساری
باتیں دوہرا کر پوچھے اور سعودیہ کے قیام کی مدت، جاب،پڑھائی،انڈیا سے کہاں سے تعلق
ہے سولات پوچھے جب حیدرآباد شہر کے رہنے والے ہیں بتایا تو مسکرا کر حیدرآبادی
بریانی مرجیوں کا سالن وہاں کے بارے میں بڑی خوشی سے باتیں دریافت کرنے لگے ۔میں نے
دل ہی دل میں سوچا کہ میرے پیارے شہر یہ تو تیرے نام کا اثر ہے کہ مشکل وقت کو بھی
آسان بنا دیتا ہے جس طرح حضرت علی کے چاہنے والے حیدرکرار پکارتے ہیں اور مدد پہچ
جاتی ہے۔
اب
کیا تری دیوار کے سائے کا بیاں ہو
کوچے کی ترے دھوپ بھی سایا سا لگے
ہے
میں
نے چپکے سے دل میں یہ شعر پڑھا اوروہاں سے واپس گھر آنے تک مغرب
ہونے لگی تھی۔
جاری
ہے
بلاگ
پر آنے کا شکریہ