Saturday, September 15, 2012

رنگ بدلتی دنیا




میرے عزیز بھائیوں و پیاری بہنوں

آج کل میں حیرانگی سے اس رنگ بدلتے دنیا و حالات کی تیز گامی دیکھ کر پریشان ہوں کہ کیسے اور کیوں کر اتنی جلدی ماحول میں تبدیلی آرہی ہے ایک طوفانِ ِ بد تمیزی و بد تہذیبی ہے جو ہر سمت سے نئی نسل کے فرد کو گھیر رہی ہے ۔ شاید اس میں ہمارا بھی قصور ہے کہ ہم اپنے بچوں کو بے جا لاڈو پیار اور ڈھیل دے رہے ہیں اور دینی علم کی کمی،عریاں فلم، ،نیٹ کا غلط استمعال ، مخلوط تعلیمی نظام ، میڈیا جس پر چھچھوری باتیں ،خاکہ ،ڈرامہ ،اشتہارات اور نیوز دیکھائی جاتی ہیں ۔ اگر اپنے تجربہ ، معلومات ، بڑے پن یا اپنائیت سے کوئی بات کہی جائے توسامنے سے فوراً انکار میں جواب آئے گا ۔ اگر سمجھانے کی مزید کوشش کی جائے توپھر بھی اپنی بات پر اڑیل بنے رہنگے اور اپنی بات چاھے غلط ہو تلے رہنے کو فخر سمجھے گے ۔ دوسروں کی بات ماننا تو دور کی بات سنا بھی پسند نہیں کیا جاتا ہے اکثر ۔۔۔۔۔

کل ہی کا ایک واقعہ میں شیئر کررہی ہوں اس سے آپ کو باخوبی اندازہ ہوجائے گا کہ کیسے ہماری قوم نشیب کے راستہ کی طرف رواں ہیں ۔۔ ایک صاحب کی بیوی کو کوئی پوشیدہ مرض لا حق ہوا۔ انہیں وہ بتانے کے لئے دواخانہ پہچی تو وہاں میل ڈاکٹر تھا جو دو گھنٹہ کے انتظار کے بعد آنے والا تھا ساتھ جانے والے جو تھے انہوں نے دوسرے دواخانے چلنے کہا جہاں لیڈی ڈاکٹر بھی موجود تھی اور انتظار کی زحمت بھی نہ اٹھانی پڑتی، تو مریضہ صاحبہ نے ناراضگی کا چہرہ بنایا اور بہت کہنے پر پس و پیش کرنے لگی یہ دیکھ کر مریضہ کے میاں نے بیوئی کا ساتھ دیا اور کہنے لگے۔مرد اور عورت ڈاکٹر میں کوئی فرق نہیں ہوتا انکی نظر میں پیشنٹ پیشنٹ ہوتا ہے۔ یہ سب سن کر میں تو حیران ہوگئی کہ کل کی ہونے والی ماں ،ماں بنے سے پہلے ایسی ہو تو ، ان کی زیر تربیت اولاد کا کیا ہوگا۔ وہ کیا تعلیم دے گی آنے والے نسل کو جب کہ پہلا مکتب ماں کے گود کو کہا جاتا ہے ۔ آج کی عورت اتنی بے حیا کیسے ہوگئی کیونکر ہو گئی اوروہ مرد کی غیرت کہاں چلی گئی آخر ۔ کیا خوب اکبر الہ آبادی نے ایسے ہی لوگوں کے لئے اپنا اظہار خیال کیا ہے ۔


بے پردہ کل جو آئیں نظر چند بیبیاں
اکبر زمیں میں غیرت قومی سے گڑگیا


پوچھا جو ان سے آپ کا پردہ وہ کیا ہوا
بولیں کہ جاکے عقل پہ مردوں کے پڑگیا



اللہ تعالیٰ سب سے زیادہ غیور ہے۔اور وہ شرم و حیا کا حکم ہمیں دیتا ہے ۔

جس کو آج کی عورتیں قید کہتی ہیں کاش انہیں معلوم ہوجائے کہ وہ حصار ہے جو ان کے لئے بہہہت ضروری ہے ۔ میرے بابا کہتے تھے "باندی بن کر بی بی بن جا "۔۔۔۔

شاید آپ میں سے چند لوگ میری باتوں کو سچ سمجھ رہے ہیں اور کچھ تو دقیانوسی بھی سوچ رہے ہوں مگر پلیز کل اور آج کے معاشی، معاشرتی حالات مد مقابل رکھکر دیکھ کر غور کرکے مجھے بتائے گا کہ کتنی ہماری قوم نشیب کی رہ پر گامزان ہے اوراس کی وجہہ کیا ہے؟

میری بلاگ پر آنے اور بے ترتیب باتیں پڑھنے کا شکریہ ۔اللہ پاک آپکو خوش رکھے۔۔۔



۔

4 comments:

افتخار اجمل بھوپال said...

ایسی پاگلوں والی باتیں تو میں کیا کرتا ہوں ۔ آپ نے بھی شروع کر دیں

کوثر بیگ said...

ایسے نہ کہیے بھائی آپ لوگوں کی طرح سوچ و عمل رکھنے والوں ہی کی وجہہ سے یہ دنیا قائم ہے ۔ رہی میری بات تو بعض باتیں ایسی دیکھنے میں آتی ہیں کہ چپ رہنا ناممکن ہو جاتا ہے ۔بہت شکریہ بھائی کمنٹ کے لئے

ڈاکٹر جواد احمد خان said...

یہ ایسا مسئلہ ہے جس کی وجہ سے ہر درد رکھنے والا شخص پریشان رہتا ہے۔ آپ نے ایک نہایت اچھا کام کیا ہے جو اس موضوع پر قلم اٹھایا ہے۔

کوثر بیگ said...

یہ تحریر کا وجود آپ کی تحریر کو دیکھکر ہوا ۔ بہت غور طلب اور فوراً روگ تھام کرنے کی ضرورت ہے ۔اللہ ہمیں اور آنے والی نسل کو سیدھے راستہ پر رکھے۔۔۔

Post a Comment

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔