السلام علیکم
نام سید احمد حسین امجد تخلض16فروری 1886 کو حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئے ۔ ان کےوالد صوفی سید رحیم علی بڑےنیک اور خدا رسیدہ بزرگ تھے ۔ پالنے میں ہی سایہ پدری سے محروم ہوگئے۔ امجد نے ابتدائی تعلیم جامعہ نظامیہ میں حاصل کی اور پنجاب یونیورسٹی سے منشی فاضل کا امتحان کامیاب کیا۔ان کی ماں نے نامساعد حالات میں ان کی پرورش کی اورشخصی دلچسپی سے انہیں تعلیم دلائی۔ جس طرح بی اماں نے مولانامحمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی کو خلافت تحریک پر جان دینے کو کہا ۔اسی طرح امجد کی ماں صوفیہ صاحبہ نے انہیں کہا بیٹا "اگر جینا ہو تو کچھ ہو کر جیو"ورنہ بہتر یہی ہے کہ مرجاو۔ ہر کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے اسی طرح یہ بات امجد پر صادق آتی ہے کہ ان کی کامیابی میں ان کی ماں کا بہت بڑا ہاتھ تھا۔
منشی فاضل کا امتحان کامیاب ہونے کے بعد کچھ دنوں امجد نے بنگلور میں ملازمت کی پھر حیدرآباد آکر دارالعلوم کی اسکول میں مدرس ہوئےبعد ازاں دفتر صدرمحاسبی میں ملازم ہوئے اور ترقی کرتے ہوئے مددگار صدر محاسب کے عہدے سے وظیفہ حسن خدمت پر سبکدوش ہوئے ۔شاعری کی ابتداءدیوان ناسخ کے مطالعہ کے دوران ہوئی کئ اساتذہ کو اصلاح کے لئے کلام دکھایا ۔1907 میں اپنے دوست مولوی ظفریاب خان کی فرمائش پر اپنا اولین مجموعہ"رباعیات "امجد شمسی پریس آگرہ سے شائع کروایا۔ جو اردو ،فارسی کلام پر مشتمل ہے اس مجموے میں جملہ 125رباعیاں ہیں ۔اس دیوان کی اشاعت سے 3یا4سال قبل جبکہ ان کی عمر سترہ اٹھارہ سال کی تھی شیخ میراں صٓحب کی دختر محبوب النساء سے ان کی شادی ہوئی جن سے ایک بیٹی اعظم النساء پیدا ہوئیں1908میں موسیٰ ندی کی طغیانی کا حادثہ پیش آیا ۔جس میں آپ کی والدہ صوفیہ صاحبہ،بیوی محبوب النساء اور بیٹی اعظم النساءسیلاب کی نذر ہوگئے۔ لیکن امجد معجزاتی طور پر بچ گئے ۔ اس طغیانی کا آپ کے دل پر نہایت گہرا اثر ہوا۔اور ایک عرصہ دراز تک مجرد زندگی گزارتے رہے ۔آپ کے خاندان کے ساتھ رباعیات امجد کا نسخہ بھی سیلاب کی نذر ہوگیا،صرف ایک نسخہ ادارہ ادبیات اردو پنچہ گٹہ کے کتب خانے میں موجود ہے۔
منشی فاضل کا امتحان کامیاب ہونے کے بعد کچھ دنوں امجد نے بنگلور میں ملازمت کی پھر حیدرآباد آکر دارالعلوم کی اسکول میں مدرس ہوئےبعد ازاں دفتر صدرمحاسبی میں ملازم ہوئے اور ترقی کرتے ہوئے مددگار صدر محاسب کے عہدے سے وظیفہ حسن خدمت پر سبکدوش ہوئے ۔شاعری کی ابتداءدیوان ناسخ کے مطالعہ کے دوران ہوئی کئ اساتذہ کو اصلاح کے لئے کلام دکھایا ۔1907 میں اپنے دوست مولوی ظفریاب خان کی فرمائش پر اپنا اولین مجموعہ"رباعیات "امجد شمسی پریس آگرہ سے شائع کروایا۔ جو اردو ،فارسی کلام پر مشتمل ہے اس مجموے میں جملہ 125رباعیاں ہیں ۔اس دیوان کی اشاعت سے 3یا4سال قبل جبکہ ان کی عمر سترہ اٹھارہ سال کی تھی شیخ میراں صٓحب کی دختر محبوب النساء سے ان کی شادی ہوئی جن سے ایک بیٹی اعظم النساء پیدا ہوئیں1908میں موسیٰ ندی کی طغیانی کا حادثہ پیش آیا ۔جس میں آپ کی والدہ صوفیہ صاحبہ،بیوی محبوب النساء اور بیٹی اعظم النساءسیلاب کی نذر ہوگئے۔ لیکن امجد معجزاتی طور پر بچ گئے ۔ اس طغیانی کا آپ کے دل پر نہایت گہرا اثر ہوا۔اور ایک عرصہ دراز تک مجرد زندگی گزارتے رہے ۔آپ کے خاندان کے ساتھ رباعیات امجد کا نسخہ بھی سیلاب کی نذر ہوگیا،صرف ایک نسخہ ادارہ ادبیات اردو پنچہ گٹہ کے کتب خانے میں موجود ہے۔
امجد حیدرآبادی ایک صوفی منشی انسان تھے۔
ان کی شاعری وجدانی کیفیت کی حامل تھی۔امجد کے کلام کی عظمت اور اس کی وقعت اور ادبی حثیت کا اندازہ ہم ان اکابرین ودنشواران ادب کے خیالات سے لگا سکتے ہیں۔
ان کی شاعری وجدانی کیفیت کی حامل تھی۔امجد کے کلام کی عظمت اور اس کی وقعت اور ادبی حثیت کا اندازہ ہم ان اکابرین ودنشواران ادب کے خیالات سے لگا سکتے ہیں۔
علامہ سلیمان ندوی لکھتے ہیں:"حکیم الشعراء(سعدی دکن)اورسعدی شیرازی کا مقابلہ کرتے ہوئےکیا"کہنے کو تویہ سعدی کی گلستان کا ترجمہ ہے مگر حقیقت میں امجد کی تصنیف ہے اس میں امجد نے سعدی کے خزانہ پر اس طرح قبضہ کیاکہ وہ قابض ہوگیا"۔
ڈاکٹر سر محمد اقبال نے کہا:ہررباعی قابل داد ہے ان رباعیات کو پڑھنے سے روحانی مسرت حاصل ہوتی ہے"۔
مولوی عبدالماجد دریابادی نے لکھا:"رباعیات امجد زندگی کے اعلٰی ترین رخ کی تفسیر ہے اور بہ لحاظِ ادب خیال کا بہترین نمونہ ہے"۔
مولوی وحیدالدین سلیم کا کہنا ہے :"امجد صاحب قدرتی شاعر ہیں"۔
مولوی علی حیدرنظم طباطبائی نے لکھا:"امجد کی داد دینا سخن شناسی کا مقتضا ہے"۔
پروفیسر عبدالواسع کہتے ہیں:"ان کی ہر سباعی مضامین کا ایک دفتر ہے اور ہر مصرعہ دلکشی کا ایک بہاگوہر"۔
پروفیسر مناظر احسن گیلانی نے لکھا:"حضرت امجد ہندوستان کے ان شعراء میں ہیں جن کو زمانہ صدیوں کے بعد پیدا کرتا ہے"۔
رودِموسی کی طغیانی کے چھ سال بعد امجد کا عقد ثانی سیدنادرالدین کی بیٹی جمال النساء سے ہوا۔ وہ اردو کے علاوہ عربی و فارسی کا بھی اعلی ذوق رکھتی تھیں۔امجد نے ان کا نام جمال سلٰمی رکھا۔آپ کی روحانی ترقی میں جمال سلٰمی نے تحریک کا کام کیا۔ جمال سلٰمی کا بھی انتقال بہت جلد ہوا تو امجد نے"جمال امجد"کے نام سے ایک کتاب لکھی جس کے ابتدائی حصے میں اپنی زندگی کے سوانح بھی تحریر کی۔ ۔ رودِموسٰی کی طغیانی میں امجد کا کلام رباعیات امجد بھی بہہ گیا۔اس کے بعد تقریباً20سال کا عرصہ لگ گیااوراس وقت دوبارہ رباعیات امجد اول کے نام سے نئی رباعیات شائع کیں اور حصہ اول کی اشاعت کے دس سال بعد"رباعیات امجد"حصہ دوم شائع ہوا۔ وفات سے پانچ چھ سال قبل رباعیات حسن بلال کے عنوان سے محمد اکبرالدین صدیق نے 1962 میں حیدرآباد سے شائع کیا۔ امجد کی دیگر نثری اور منظوم تصانیف میں اردو فارسی رباعیات کثرت سے موجود ہیں ۔۔مسلم الاخلاق کے نام سے"اخلاق جلالی" کے لامعہ سوم کا اردو ترجمہ کیا "گلستانِ سعدی"کا گلستانِ امجد کے نام سے ترجمہ کیا۔ جمال امجد،حکایاتِ امجد،پیامِ امجد،ایوب کی کہانی،میاں بیوی کی کہانی،حج امجدآپ کے نثری کارنامے ہیں۔ منظوم تخلیقات میں رباعیات کے علاوہ ریاض امجدحصہ اول اور دوم خرقہءامجد، نذرامجد وغیرہ آپ کی یادگار ہیں۔آپکے فن اور شخصیت پر
بھی کئ کتابیں شائع ہوئیں اور ہورہی ہیں۔
ان کی کوئی اولاد نہیں رہی
دوسرے حصہ میں کلام ملاحظہ فرمائے گا۔۔۔۔
بہت شکریہ بلاگ پر آنے کے لئے
۔
4 comments:
واہ بہت خوب
خوش آمدید ،خوش آمدید
مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا ہے کہ آپ میرے بلاگ پر تشریف لے آئے ہیں ۔بے حد شکریہ بلاگ پر تشریف لانے کے لئے ۔جزاک اللہ خیر
جی بہت شکریہ آپ کا۔
امجد حیدرآبادی پر ٓآپ نے بہت قیمتی معلومات پیش کیں۔
Post a Comment
اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔