Monday, December 10, 2012

مولانا محمد علی جوہر

   
 
السلام علیکم
 
مولانا محمد علی جوہر کی آج دس ڈسمبر کو 134ویں یوم پیدائش ہے اس موقعہ پرآپ کے ساتھ کچھ باتیں انکے بارے  ہم ملکریاد کریں  اور ان کے درجات کی بلندی کی دعا کریں ۔
 
 
یہ مضمون ویکیپیڈیا سے لیا گیا



مولانا محمد علی جوہر
 

پیدائش: 1878ء

انتقال: 1931ء

ہندوستانی مسلمانوں کے عظیم رہنما۔ جوہر تخلص۔ ریاست رام پور میں پیدا ہوئے۔ دو سال کے تھے کہ والد کا انتقال ہوگیا۔ والدہ مذہبی خصوصیات کا مرقع تھیں، اس لیے بچپن ہی سے تعلیمات اسلامی سے گہرا شغف تھا۔ ابتدائی تعلیم رام پور اور بریلی میں پائی۔ اعلی تعلیم کے لیے علی گڑھ چلے گئے۔ بی اے کا امتحان اس شاندار کامیابی سے پاس کیا کہ آلہ آباد یونیورسٹی میں اول آئے۔ آئی سی ایس کی تکمیل آکسفورڈ یونیورسٹی میں کی۔ واپسی پر رام پور اور بڑودہ کی ریاستوں میں ملازمت کی مگر جلد ہی ملازمت سے دل بھر گیا۔ اور کلکتے جا کر انگریزی اخبار کامریڈ جاری کیا۔ مولانا کی لاجواب انشاء پردازی اور ذہانت طبع کی بدولت نہ صرف ہندوستان بلکہ بیرون ہند بھی کامریڈ بڑے شوق سے پڑھا جاتا جاتا تھا۔

انگریزی زبان پر عبور کے علاوہ مولانا کی اردو دانی بھی مسلم تھی۔ انھوں نے ایک اردو روزنامہ ہمدرد بھی جاری کیا جو بے باکی اور بے خوفی کے ساتھ اظہار خیال کا کامیاب نمونہ تھا۔ جدوجہد آزادی میں سرگرم حصہ لینے کے جرم میں مولانا کی زندگی کا کافی حصہ قید و بند میں بسر ہوا۔ تحریک عدم تعاون کی پاداش میں کئی سال جیل میں رہے۔ 1919ء کی تحریک خلافت کے بانی آپ ہی تھے۔ ترک موالات کی تحریک میں گاندھی جی کے برابر شریک تھے۔ جامعہ ملیہ دہلی آپ ہی کی کوششوں سے قائم ہوا۔ آپ جنوری 1931ء میں گول میز کانفرنس میں شرکت کی غرض سے انگلستان گئے۔ یہاں آپ نے آزادیء وطن کا مطالبہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر تم انگریز میرے ملک کو آزاد نہ کرو گے تو میں واپس نہیں جاؤں گا اور تمہیں میری قبر بھی یہیں بنانا ہوگی۔ اس کے کچھ عرصہ بعد آپ نے لندن میں انتقال فرمایا۔ تدفین کی غرض سے نعش بیت المقدس لے جائی گئی۔ مولانا کو اردو شعر و ادب سے بھی دلی شغف تھا۔ بے شمار غزلیں اور نظمیں لکھیں جو مجاہدانہ رنگ سے بھرپور ہیں۔ مثلاً


دورِ حیات آئے گا قاتل، قضا کے بعد
ہے ابتدا ہماری تری انتہا کے بع
د
 
 
جینا وہ کیا کہ دل میں نہ ہو تیری آرزو
باقی ہے موت ہی دلِ بے مدّعا کے بعد
 
 
تجھ سے مقابلے کی کسے تاب ہے ولے
میرا لہو بھی خوب ہے تیری حنا کے  بعد

 

لذّت ہنوز مائدہٴ عشق میں نہیں
آتا ہے لطفِ جرمِ تمنّا، سزا کے بعد
 

قتلِ حُسین اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
 


 
ایک بار اردو پوائنٹ پر ادبی لطیفوں میں مولانا جوہر کی خوش مزاجی کا ایک واقعہ پڑھی تھی وہ بھی یہاں نقل کرتی ہوں ۔۔۔
 
 
 مولانا محمد علی جوہر رام پور کے رہنے والے تھے۔ایک دفعہ سیتا پور گئے تو کھانے کے بعد میزبانوں نے پوچھا کہ آپ میٹھا تو نہیں کھائیں گے؟کیونکہ مولانا شوگر کے مریض تھے۔
مولانا بولے: بھئی کیوں نہیں لوں گا؟ میرے سسرال کا کھانا ہے کیسے انکار کروں؟
یہ سن کر سب لوگ حیران ہوئے اور پوچھا کہ سیتا پور میں آپ کے سسرال کیسے ہوئے ؟
تو مولانا بولے: سیدھی سی بات ہے کہ میں رام پور کا رہنے والا ہوں۔ظاہر ہے سیتا پور میرا سسرال ہوا۔
 
 
آپ کے بارے میں مزید معلومات اردو مجلس میں بھی پڑھی جاسکتی ہیں اس کا لنک یہ ہے ،http://www.urduvb.com/forum/showthread.php?t=8748
 
 
 

6 comments:

کائنات بشیر said...

اسلام علیکم، کوثر جی،
بہت عمدہ مضمون بر محل لکھا۔ پڑھ کر بہت اچھا لگا۔ شکریہ

افتخار اجمل بھوپال said...

شکر ہے اُس رب ذوالجلال کا جو میری یادوں کو تازہ کرنے کا سامان کرتا رہتا ہے
اللہ آپ کو جزائے خیر دے
میں سکول کے زمانہ سے ہی مولانا محمد علی جوہر صاحب کے متعلق پڑھا کرتا تھا ۔ ان کے مزاح کا معیار بھی بہت بلند تھا

کوثر بیگ said...

وعلیکم السلام میری پیاری پیاری بہنا
کیسی ہیں آپ افف کتنے دنوں بعد آپ سے ملاقات ہوئی۔۔۔۔۔
ویکیپیڈیا سے لیا اور اپنے پاس سے اشعار نکلے اور پوسٹ کردیا ۔آج کے دن کی خضوضیت ہی کی وجہہ سے،بہت شکریہ پسند کرنے کے لئے بہنا

کوثر بیگ said...

سچ کہوں تو اجمل بھائی اصل ہیرو تو یہ لوگ ہی ہیں اور ہمارے ملکوں کی آزادی میں انہوں نے مدد کر کے ہم پر احسان کیا ہے اب ہم کچھ کر تو نہیں سکتے یاد کرکے ان کے حق میی دعا تو کر سکتے ہیں نا ۔۔۔ بہہہت بہت شکریہ بھائی اس حوصلہ آفزائی کے لئے۔

noor said...

کیا شخصیت تھی مولانا کی ۔ ۔
گذشتہ صدی میں اللہ تعالی نے ہمیں عظیم ہستیوں سے نوازا جن کی قربانیوں کی بدولت آج ہم اس خطے میں زندہ ہیں ۔ ۔ ۔ وگرنہ پتہ نہیں ہمارا نام و نشان مٹ جاتا۔ ۔ ۔

بہت بہت شکریہ ۔

کوثر بیگ said...

بہہہت بہت خوش آمدید نور

جی صحیح کہا آپ نے بہت زبردست ہوا کرتے تھے اُس دور کے لوگ ۔بے حد شکریہ بلاگ پر تشریف آوری کے لئے

Post a Comment

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔