Friday, November 20, 2015

افسانہ ۔۔۔۔ کفارہ

۔





" کَفٌارہ''


مسافروں کی آمد اب کم ہوگئی تھی ۔  وجے کام کرتے کرتے اوب سا گیا ۔ میز کے سہارے کرسی کو دھکیل کرایر پورٹ کا چکر لگانے وہ نکل پڑا۔ گھومتے پھرتے رمیش سے ملنے آیا تو یہاں جانے والے مسافروں کی قطاریں لگی تھیں اور وہ اس مصروفیت سے جھنجلائے ہوا تھا ۔ وہ وہی کھڑے کھڑے سارے لوگوں کو بغور دیکھتا رہا کوئی جلد سے جلد پلین میں بیٹھنےکے لیے بے چین تھا تو کوئی سامان اور بچوں سے بے حال نظر آرہے تھے۔ کسی کا چہرہ خوشی سے تمتما رہا تھا تو کوئی اطمینان کا مظاہرہ کررہے تھے ۔ ان سب سے الگ تھلک قریب چوبیس سال کاایک لڑکا خاموش ہر تاثر سے خالی چہرہ لئے گم صم کرسی کے سامنے کے حصہ پر ٹیک لگاکر بیھٹا ہوا تھا جب بہت دیر تک اس کو یوں ہی دیکھتے رہنے کے بعد وجے سے رہا نہ گیا وہ قریب جاکر اس سے پوچھنے لگا 
۔

کیا ہوا تم پردیس پہلی بار جاریے ہو ؟
جی ہاں اس نے مختصر سا جواب دیا۔
وجے نے پھر پوچھا ،جاب کے لئے جارہے ہو یا کسی کے بلانے پر؟
"جی جی سر" اس بار تو اس نے حد ہی کردی صرف جی جی کرکے جان بچانا چائی ۔
"عیجب آدمی ہو یہ جی جی کا کیا مطلب ہے ۔ بلایا ہے تو بلایا ہے جاب کے لئے تو جاب کے لئے کہنا چاہئے نا "اس نے ناراضگی سے کہا ۔
نوجوان نے اس کی خفگی کو دیکھتے ہوئے لب کشائی کی" وہ سر بہن نے نوکری کے لئے بلایا ہے "۔
وجے "اچھاااا "کہا اورسوچنے لگا کہ اب وہ آگے کیا بات کرے اس سے اس کی اداسی کا سبب کیسےپوچھے۔ جب کہ اس عمر کےنوجوانوں میں جوش ولولہ شوخی تیزی طراری ہوا کرتی ہے یہ اتنا بجھا بجھا سا کیوں ہے؟
وجےپھر دریافت کرنے لگا ، " کیا ٹائم پر ہے تمہارا پلین؟"
وقت تو ہوچکا مگر اور تین گھنٹہ لیٹ ہے 
۔ وجے نے مشورہ دیا " تم سامان ڈالو اور بوڈنگ کارڈ لے کر اندر بیٹھ جاو ۔"
" نہیں سر وہ لوگ بہت رش ہونے سے منع کردیے ہیں ایک گھنٹے کے بعد آنے کہا ہے ۔"اس کی آنکھوں میں رنج کے سایے منڈلا رہے تھے وجے کی متجسس طبعیت نے پھر اسےجاننے کے لئے مجبور کردیا۔ وجے نے اس کی پیٹھ پر آہستہ سے ہاتھ رکھکر اسے اپنے حصار میں لیتے ہوئے کہا کہ کیا بات ہے نوجوان میں تمہاری آنکھوں میں عمیق غم چھپا دیکھ رہا ہوں ۔ یہ ہی بات مجھے تم تک کھینچ لائی ہے۔ کبھی کسی سے دل کی بات کہنے سےٖدکھ دور تو نہیں ہوتا مگراحساس کم ضرور ہوتا ہے میں تمہارے لئے انجان ہوں تم مجھےکچھ بھی بے جھجھک کہہ سکتے ہو پھر ہم اپنے اپنے راستے چلے جائیں گے ۔


نوجوان کو زندگی میں پہلی بار کسی نے اپنے قریب کیا تھا ۔ نرمی و محبت کا احساس دیا تھا ۔ وہ جذبات سے مغلوب ہوگیا ۔ زندگی کی دوڑ سے تھکا ہارا تھا ایک اجنبی کے لمس سے اپنائیت کا احساس ہوا اور وہ بے اختیار کہنے لگا آپ نے ٹھیک اندازہ لگایا سر میرا ماضی ،حال ،میری یادیں، میری سوچیں سب دکھ کی کالی سیاہی سے لکھی گئی ہیں ۔
میری ماں ہم بہن بھائیوں کی ہمدرد ،مدد گار۔ ہر کام ہر بات میں معاونت کرنے والی نیک خاتون تھی ۔ بڑی بہن مجھ سے کافی بڑی تھی میں بارہ سال کا اور چھوٹا بھائی نو کا ہوگا ۔ایک دن ہمیشہ کی طرح امی ابو کے کمرے سے ابو کی زور زور سے چیخنےکی آوازیں آنے لگیں۔ آج پہلی بار امی کی بھی آواز آئی تھی ہم دونوں بھائی، بہن کے بازوں سے لپٹ گئے۔امی کی چیخ کے ساتھ آواز بند ہوگئی اور امی دیوار کے سہارے باہر آئی وہ حمل سے تھی اور کچھ دیر میں خالہ بھی ہمارے گھر آئیں اور امی کو ہاسپٹل لے کر گئیں پھر صبح خالہ نے ہمیں فون کرکے وہاں بلالیا جہاں امی کی میت رکھی ہوئی تھی ۔اس دن کے بعد ابو نےبزنس پر کم اور اوباش دوستوں کے ساتھ کو زیادہ اہمیت دی ۔امی کے بعد بغیرشرم و حیا کے لڑکیوں کو گھر لاتے سیل فون مسلسل استمعال کرتے خالہ نے یہ بگڑتے حالات دیکھے تو بہن کی شادی کوششوں سے ایک اچھی جگہ کروادی۔ بہن بھی ہم کو چھوڑ کر پردیس سدھاری ۔ ابو کی یہ دنیا پرستی اور عیش نے جنگل کی آگ کی طرح پھیل کر تباہی کے دہانے کھول دیے بزنس کے ٹھپ ہوتے ہوتے سب دوست احباب نے بھی منہ موڑ لیا اور ابو کی صحت کرنے لگی ۔ہماری پڑھائی کھانے پینے کے لالے پڑ گئے ایسے میں بہن کچھ چوری چھپی ہمیں فیس اور غذا کے انتظام کے لئے پیسوں کا بندو بست کرتی رہی آج اسی کی مدد سے یہاں کھڑا ہوں ۔ اس نے سوٹ کیس کے ساتھ رکھا ایک بڑا ڈبہ بتا کر کہا اس میں کچھ چیزیں اپنی بہن کی فرمائش کی ہیں بہن کی ساس کی میڈیسن بھی ہے جس کو دیکھ کر اس کا میاں خوش ہوجائے گا ۔ یہ کہتے اس کی آنکھوں میں امید کے دیے جگمگا نے لگے پہلی بار زندگی کی رمق دیکھکر وجے کو اطمینان ہوا اس نے گھڑی دیکھی ابھی تک رپورٹ کرکے گھرلوٹ  جانا چائیے تھا نوجوان سے 
ہاتھ ملاکروہ چل پڑا ۔ پھر نوجوان بھی لائن میں کھڑا ہو گیا ۔


وجے جب ڈیوٹی سے واپس ہونے لگا توجاتے جاتے  پھر ایک بار وہ نوجوان کو دیکھنے چلے آیا ۔ وہ یہ دیکھکر حیران ہوگیا وہ نوجوان سامان کا وزن زیادہ ہونے سے کاونٹر پر بیٹھے آفیسر سے منت سماجت کررہا تھا وجے کو معلوم تھا یہ آفیسر بہت ہی سخت ہے کوئی اور ہوتا تو وہ مدد کردیتا۔ وہ آفیسر نوجوان سے کہہ رہا تھا بارہ ہزار ویٹ کے نکالو نہیں تو پھر کچرے میں ڈالدویہ ڈبہ ،  جلدی بولو،  ٹائم کم ہے ۔ تم ایک نہیں ہو، دیکھو پوری لائن باقی ہے وہ پریشان نوجوان اس سفاک آفیسر کی خوشامد کئے جارہا تھا ۔"پلیز سر پلیز سر۔" آفیسر نے پلین جانے کی دھمکی کے ساتھ بازو ہٹو کہا تونوجوان بے چارگی سےانکساری سے کہنے لگا" نہیں ہے نا سر پیسے باہر بھی کوئی نہیں ہے میرا سامان کس کو دوں ؟ اب کیا کروں سر؟ "تو آفیسرنے اکتائی ہوئی شکل بناکر صرف سوٹ کیس وزن کر کے کارٹن اس کے حوالے کر دیا اس نے جلدی جلدی پیچھے کے سارے لوگوں سےایک کے بعد دیگر مدد کی درخواست کی اگر آپ کا سامان کم ہوتو یہ اپنے سامان میں ویٹ کروالیں مگر سب بے حسی سے انجان ہوتے رہے پھر اس نے بھائی کو فون کرکے آکر لے جانےکے لیے کہا۔ ایر پورٹ کا عملہ اسے بار بار اندر جانے کا کہنے لگا تو وہ کارٹن ایک جگہ رکھنے لگا جس پر عملہ کے لوگ سختی سے کہنے لگے"اسے یا تو کچرے میں ڈالو یا باہر رکھ آءو۔" وجے نے بڑھ کروہ کارٹن لینا چاہا تو اس کے سینئر آفیسر نے غصہ سے گھورتے ہوئے اسے ہاتھ سے منع کرتے ہوئے کہا کہ دن بھر میں ایسے ڈرامے ہوتے رہتے ہیں ۔ تم اپنے کام سے کام رکھو سالے یہ لوگ الٹا پھر ہمارے گلے پڑجاتے ہیں ہمارا سامان اِنہوں نے لیا اُنہوں نے لیا کہکر ۔ ہم نے کوئی ٹھیکا لیا ہے کیا ان کا ؟ وجے کو بھی اپنی نوکری عزیز تھی نہ چاہتے چپ ہورہا ۔ نوجوان کا بورڈنگ کارڈ لے کر اسے سامان دینے باہر جانے کہا گھر بہت دور ہے بھائی کا جلدی آنا مشکل ہے اس نے یہ سوچتےہوئے چارونہ چا ر ایک کونہ میں لے جاکر قریب ہی پڑا اخبار اٹھا کراس پر ڈال دیا اور انگلی کو کارٹن کے اطراف گھما کر حصار بندھا کرسراسیمگی کے عالم میں چلتا آرہا تھا ۔وجے چوکیدار کے قریب یہ سب کھڑا دیکھتا رہا۔  پھر وہ نوجوان بنا رکے بنا کسی سے کچھ کہے بورڈنگ کارڈ اور ہینڈ کیری لے کر جانے لگا وجے اس کی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا جہاں گہرے کالے بادل سمٹ آئے تھے۔


وجے گھر جانے ائیر پورٹ سے باہر آیا تو یہ دیکھ کر حیران ہوگیا اس کارٹن کولے کر دو آدمی خود کا ثابت کرنے ایڑی چوٹی کا زور لگارہے تھے ۔ وجے نے ان کے قریب جاکر غصہ سے کہا کہ یہ نہ تمہارا ہے نہ تو تمہارا یہ میرا ہے ابھی تو رکھا تھا ۔ اس کی یہ بات سن کر وہ دونوں سر جھکا کر چل دیے اور وجے اس کارٹن کو لے کر گھر آگیا۔


گھر آتے ہی وجے کی ہاتھ میں کارٹن دیکھکر اس کی بیوی شانتی خوشی سے اچھل پڑی وجے نے مسافر کا ہےکہہ کر ہاتھ لگانے سے منع کردیا تو شانتی کچھ توقف کے بعد کہنے لگی کسی بھائی بندو کا ہے یہ ؟ نہیں پھر دوست کا؟ "نہیں" شانتی نے اپنے گداز بازوں کو لہرا کر وجے کے کندھے پر رکھے اور آنکھوں کے اشارے سے پھر سوال کر دیا تو وجے کو سب بتانا پڑا ۔ ساتھ ہی کہدیا کہ میں اس لڑکے کو انٹر نیشنل کال کرکے یہاں اس کے بھائی  کا پتہ لے کر سامان دے دونگا ۔ شانتی کی آنکھوں میں لالچ سمٹ آیا تھا ۔ ارے واہ پیسے ڈال کر تم فون کروگے وہ طنزیہ ہنسی اب تم اتنے بھی سیدھے نہ بنو، زمانےکےساتھ چلوپتی دیو۔  نہیں وہ بے چارا مجبور تھا اس کے ساتھ ہم برا نہیں کرینگےوجے نے دوٹوک بات کہی ۔۔۔۔ تمہیں تو سوائے میرے سب ہی بے چارے مجبور لگتے ہیں ۔ ہائے ہائے اماں نے تمہاری نوکری دیکھ کر تھوڑی ہی لگن (شادی ) کیا تھا وہ تو یہ سوچے تھے کہ ایک کسٹم آفیسر کو تنخواہ سے کئی گنا زیادہ تو اوپر کی آمدنی ہوتی ہے۔ ہےبھگوان! یہ تو گھر آئی لکشمی کو لات مار رہے ہیں۔  پھروجے بیزارگی سے بات کاٹتے ہوئے"پاپ لگے گا تم کوپاپ ""کہتے ہوئےبیڈ روم میں چلا گیا  


شانتی نے جلدی جلدی کارٹن کھولا اس میں سے ایک کھلونوں کا پلین اور گڑیا تھی ایک کوکر دوئی کردا بیلن کچھ کشن اور میڈسن اور کپڑے رکھے تھے شانتی نے ساری چیزیں جگہ پر رکھدی کھلونے بیٹی کو دیے او ر میڈیسن کے لئےمیڈیکل ہال والے سے فون پر بات کرلی کچھ قیمت کم لگا کر پیسے دینے وہ تیار ہوگیا وجے کو کہہ دیا کہ پہلی فرصت میں دوا واپس کر آئیں ۔ ان کی بیٹی کملا نے ماں سے پڑوس جا نے کی ضد کی تو شانتی نے کہا کہ ڈیڈی ناراض ہیں تم انہیں بلالو اور دروازے سے پکار کروہ ہی بلا لائی دونوں بچیاں کھیل رہے تھے ۔ شانتی کمرے میں خوش خوش بیٹھی کنگنا رہی تھی اور وجے چپ چاپ بیٹھا سوچ رہا تھا کہ زورسے کسی چیزکے ٹوٹنے کی آواز آئی شانتی اور وجے آگے پیچھے بھاگ کر گئے تو شانتی کی دادی کی پلیٹ جو اس نے بڑی احتیاط سے سجا کررکھی تھی وہ پلین اڑانے سے گر کر چکنا چور ہوگئی تھی شانتی کا پارہ چڑگیا ۔ چیخ کر پوچھنے لگی کس نے کیا یہ؟  کملا نے رتنا کی طرف ہاتھ سےبتلایا تو شانتی کو اور غصہ آیا ۔ یہ پلین اڑانے کا ہے؟ اتنی مہنگی چیز سے کبھی کھیلا نہیں نا۔ وجےنے "شانتی" کہہ کر ٹوکا  اور کہا اسے تو تمہاری زبان سمجھ میں بھی نہیں آرہی ہے ۔ تو وہ اور جوش میں آگئی ننھی سی بچی کا بازو تھام کر نی اماں مکولا تھوکو( یہ تلگو میں گالی ہے جس کا مطلب ہے تمہاری اماں کی ناک میں چھٹنی) وجے نے رتنا کا ہاتھ چھڑا کر اماں پلستوندی(اماں بلارہے ہیں) کہتا باہر تک لے گیا ۔ شانتی کا موڈ خراب ہوگیا تھا۔ اسے پوو پوو یعنی جاو جاو کہتے رہی ۔


وجے دوسرے دن آفس سے واپس ہوا تو شانتی ویسے ہی منہ پھولائے بیٹھی تھی ۔ "او ہو، شانتی کب تک تم ماتم مناو گی آخر" وہ آتے ہی  شانتی کو اداس دیکھکر مخاطب ہوا۔ تو اس نے وضاحت کرتے ہوئے کہا "اجی میں کل کی بات پہ دکھی نہیں ۔ مکان کا کرایہ لینے گئی تھی ان لوگوں نے نہیں دیا عدالت سے آڈر لے کر آو اب یہ گھر ہمارا ہےکہتے ہیں ۔ اماں کی نشانی ہے  وہ گھر۔  شانتی یہ کہتے ہوئےزار و قطار رونے لگی۔  وجے نے سوچا کہ یہ تو سچ میں بہت بڑی پریشانی ہے ۔ واپس ملنے کا یقین دیلا کرچھوٹی تسلی دی تب جاکر شانتی کوسکون ملا ۔


آج وجے  شانتی کے بگڑے موڈ کے خیال سے باہر جاکر کھانے کا پروگرم بنایا تھا آفس سے آنے تک تیار رہنے کی ہدایت کے تھی ۔  شانتی خوب اچھے سے تیار ہوکربیٹی کے ساتھ دہلیز پر کھڑے وجے کا انتظار کر تی رہی ۔ وجے کے آتے ہی شانتی نے گھر کو تالا لگا کر پلٹتے ہی ان دونوں کی نظرایک ساتھ کملا پر گئی تو جیسے دونوں ہی کی جان نکل گئی ۔ کملا سڑک پر تھی اور دوسری طرف سے کار آرہی تھی وجے  دیوانہ وار بھاگ کر کملا کو پکڑ کراپنی طرف کھچ لیا ۔ کملا بال بال بچ کئی دونوں کو کہیں کہیں ہلکے زخم آئے ۔۔۔۔۔ وجے کملا کو گود میں لے کر گھر کا تالا کھول کر گھر میں داخل ہوتے ہی بیٹی کو بیڈ پر بیٹھا دیا اور پھر غصہ اور تیزی سے اپنے بیڈ روم میں پڑے اس نوجوان کے کارٹن میں میڈسن رکھے ،  کپڑے الماری سے نکال کرکار ٹن میں ڈالدیے۔ پلین، گڑیا بیٹی کے کمرے سے لا کر کارٹن میں رکھے پھر کچن سے کوکر بیلن دوئی اور دوسری چیزیں لاکرکار ٹن میں بھرنے کے بعد ٹیپ سے چپکا کر کارٹن پر لکھے فون نمبر پر بات کرکے پتہ کنفرم کیا اور بتایا کہ میں آپ کو آپ کے پاس وہاں کارگو کردونگا ۔۔۔۔۔ نہیں نہیں تکلیف کی کوئی بات نہیں آپ کے ساتھ ہوئی زیادتی کا کفارہ سمجھے ۔


شانتی کملا کے زخم پر دوا لگا تے یہ سب خاموش نادم نادم سی دیکھ رہی تھی ۔ وجے کے زخم صاف کرنےوہ جب آگے بڑھی تو وجے نے شانتی کے ہاتھ کو جھٹک کر کملا کو گود میں بیٹھا لیا اور کہنے لگا کہ نام شانتی ہے مگر اس کے بالکل الٹ ہو۔ تم پاپی ہو ۔ یہ سب تمہاری وجہ سے ہوا ہے ۔ جب سے تم نے اس نوجوان کے سامان پر قبضہ کیا ہے تب سے کچھ نہ کچھ ہو رہا ہے پہلے دن پشتینی پلیٹ پھوٹی دوسرے دن کرایہ داروں نے دھمکی دی اور آج تو حد ہی ہوگی میری بیٹی ۔۔۔۔۔۔اور شانتی نے آگے بڑھکر اس کے منہ پر ہاتھ رکھ کر کہا " ہماری بیٹی" اب کچھ نہیں ہوگا اسے۔

0 comments:

Post a Comment

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔