انسان جب
سے پیدا ہوا ہے تب سے اس کی فطرت میں اللہ پاک نے سوچ و بچار کی عادت،جستجو
اورخواہشات بھردیے ہیں۔ ان ہی تینوں چیزوں نے اس پر علم کے دروازے کھول دیے ۔ وہ
حسب ضرورت ہر چیز کی تحقیق کرنے لگا۔ وہ ہر وقت اپنی صلاحیت و قابلیت سے ہمیشہ آگے
ہی آگے پڑھتے رہا ۔ حضرتِ انسان نے جدھر بھی نظر ڈالی اس پر غور و غوص سے معلومات
کا خزانہ اکٹھا کرتا رہا۔ قسم قسم کے معلومات سے خود کو اشرف المخلوقات ثابت کرتا
گیا ۔ دنیا بے انتہا علوم سے بھری پڑی ہے جن میں سے چند ایک کے نام یہ ہیں جیسے
علمِ تاریخ ، علم ہندسہ ،علم فلکیات ،علمِ جغرافیہ ،علم طب ،علمِ لسانیات ،علمِ
معاشیات , علم طبیعییات ، علم حیوانات ، علم باطنی و مذہبی وغیرہ پھرمختلف صنعت و
عرفت کے معلومات کا علم ۔
علم ہمیں
جینے کا ڈھنگ سکھاتا ہے۔علم وہ دولت ہے جو کوئی لوٹ نہیں سکتااور یہ دینے سے مزید
پھیلاتا ہے ۔ علم سے عزت ملتی ہے ۔ علم ہی تہذ یب و اخلاق سیکھاتا ہے ۔امیر غریب کا
فرق مٹاتا ہےتعلیم کو ہرملک اور مذہب نے اہمیت دی ہے ۔ تعلیم و تربیت ہی سے انسان
خود کی اور دوسروں کی اصلاح کرتا ہے۔مستقبل کیلئے نئی
راہیں کھلتی ہیں ۔علم ہی کی وجہہ سے آپ اپنا بہت سا وقت بچالیتے ہیں اور مختصر عرصے میں زیادہ آگے بڑھتے
ہیں۔علم حاصل کرنا ہر انسان کا پیدائشی حق ہے ۔ علم ہتھیار ہے ۔ علم کامیابی کی
کنجی ہے ۔ علم زندگی ہے ۔علم روشنی ہے۔۔علم سمندر کی طرح لا محدود ہے۔ جتنا کھوجتے
جاؤ اتنا گہرا ہے ۔ پیدائش سے مرنے تک انسان کسی نہ کسی علم و تجربہ کو حاصل کرتا
ہی رہتا ہےاور یہ علوم کا سلسلہ
نسل انسانی میں منتقل ہوتے رہتا ہے۔اور اس میں وقت کے ساتھ اضافہ ہوتے رہتا ہے
۔
ایک ایک
فرد سے ملکر معاشرہ بنتا ہے اور جس ملک میں جتنے علم کے ماہرین و ہنرمندوں کی تعداد زیادہ ہوگی اتنا ہی ملک ترقی پذیر ہوگا۔
ہمیں اپنے ملک کی ترقی کے لئے پسماندہ طبقہ کو علم و ہنر سے آراستہ کرناہوگا۔ تب
ہی سب ملکر ملک اور قوم کی ترقی کا باعث بنے گے ۔
والدین کو
چاہیے کہ بچوں کو دیکھ بھال کر اچھے اسکول میں داخل کروائیں جہاں با اخلاق ٹیچرس
ہوں اور مدرسہ کے قائدہ قانون بہتر ہوں۔ ا ور کوشش کریں کہ بچوں کو ایک ہی اسکول
میں پڑھائیں کیونکہ بچوں کے بار بار اسکول کے بدلنے سے بچوں پر منفی اثرات مرتب نہ
ہوں ۔ان کی پڑھائی میں خود بھی دلچسپی ظاہر کریں ۔ انہیں اچھے نمبرات لانے کے لئے
تعریف ،دعا کے ساتھ ساتھ چھوٹے چھوٹےتحفہ دے کرحوصلہ آفزائی کرے دوسرے بچوں سے
موازنہ ہرگز نہ کریں اس سے بچے کی دل آزاری ہوگی ۔ کبھی حوصلہ شکنی نہ کریں ہمیشہ
آگے بڑھنے کی تحریک دیں۔انہیں ہمیشہ پڑھتے رہنے نہ کہیے کھیل کے لئے بھی مہلت دیں۔
بچوں کوفائدہ مند، صاف سھتری ، تازہ ان کے پسند کی غذا دیا کریں۔ ذہنی
وجسمانی نشوونما بھی بچے کے لئے بہت ضروری ہوتی ہے ۔ ۔بچے
کی تحمل اور محبت سے بات سنے ۔اپنے بچون کو تحفظ کا احساس دیجئے تاکہ وہ اعتماد کے
ساتھ آگے کی طرف گامزان ہوں ۔ آپ اپنے بچے کے ساتھ جیسا رہو گے آگے جاکر بچے کا
رویہ بھی ویسے ہی ہوگا ۔ ماں کا گودبچے کی پہلی درس گاہ ہوتی ہے آپ بچے سے جن
الفاظ اور لہجہ سے بات کرینگے، بچا بھی ویسے ہی سیکھے گا۔ تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت
کا خیال رکھنا بھی والدین کا فرض ہے۔
مُدّرس ایک
عظیم پیشہ ہے کیونکہ یہی افراد نوجوان نسل کو ایک بہتر شہری بنانے کے علاوہ بہتر
سماج تعمیر کرسکتے ہیں .یہ ٹیچر کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ بچوں کو اچھی سے اچھی
تعلیم دیتے ہوئے انہیں اعلیٰ مقام تک پہنچائیں اور بچوں کو عصری تعلیم کے ساتھ
اخلاقی اقدار ‘ انسانی اقدار کی تعلیم بھی ضرور دیں ۔ ایک مدرس اپنی طریقہ تعلیم کی
ایسی راہ متعین کرنے کی کوشش کریں جس سے ایک زندہ اور جاندار قوم کی تخلیق کا باعث
بن سکے۔ اپنے فرص کو جانے ۔ کوئی بھی بچہ پیدائشی ذہین نہیں ہوتا ‘ سخت محنت اور
جستجوسے ہی وہ آگے بڑھتاہے۔ انٹرنیٹ کے اس دور میں بچے اپنی قابلیت کا بے انتہا
جوہر دکھارہے ہیں ان شاءاللہ ٹیچرس کی تربیت میں دلچسپی سے ضرور اچھے نتائج برآمد
ہوگے
حکومت بھی
اگراپنی امداد سے کچھ موقعہ فرہم کرےتو ایک اچھا شہری پا سکتے ہیں جیسے اسکولوں کی
تعداد بڑھائی جائےتو کلاس میں زیادہ بچوں کی وجہ سے استاد کے عدم توجہ سے پڑھائی پر
اثر نہیں پڑے گا۔اساتذہ کی لا پرواہی پر سختی کریں اور طلبہ کی زیادہ دنوں تک غیر
حاضری پر جرمانہ رکھا جائے اور پیشہ ورانہ تربیت فراہم کرنے والے مختلف قسم کے
اسکول بھی کھولے جائے۔ مفید نصابِ تعلیم منتخب کریں ۔ مالی طور پرکمزور خاندانوں کے
بچوں کی مدد کی جائے ۔اور بڑے کلاسس کے بچوں کو پارٹ ٹائم جاب میں آسانی کے لئے
تعاون کرے تو آنے والی نسل کی تعلیم و تربیت میں بہت مثبت اثرات مرتب ہونے کی امید
کی جا سکتی ہے۔ والدین کے بعد ٹیچرس کا بنانے بگڑنے میں بہت بڑا ہاتھ ہوتا ہے ۔ اس
لئے آپ کسی بھی مشہور شخصیت کے بارے میں پڑھے تو ان کے استاد کے بارے میں بھی لکھا
ہوگا۔۔۔۔۔۔۔۔آج کے دور میں ٹیچرس کو چاہیے کہ موٹی موٹی تنخواہ کے عوض بچوں کو
اچھےقابل شہری بنایں۔ تاکہ شاگرد کے ساتھ خود ان کا نام بھی سنہری حروف میں پڑھا
جائے ۔ اس طرح والدین ،بچے ہمار ے،اساتذہ اور حکومت کی مدد و تعاون سے صورتحال میں
بہت بہترتبدیلی ہو سکتی ہے
ہماری نئی
نسل ہمارا سرمایا ہے ۔ان کے دم سے ہماری ترقی ممکن ہے ۔ انکی کی سپورٹ کرنا ہمارا
فرص ہے ۔ آج ہم ان کی اچھی تعلیم و تربیت کرینگے تو کل وہ ہمارے زورِبازو بنے
گےاور وہ اپنے ملک ، شہر ،استاد اور والدین کا نام دنیا روشن کر سکے
گے۔
بے حد نوازش جو آپ نے پڑھنے کے لئے وقت نکا لا۔۔۔۔
4 comments:
بہت ہی شاندار تحریر ہے سسٹر۔
شاد و آباد رہیں۔
پسندیدگی کے لئے دلی شکریہ ۔اللہ پاک آپ کو بھی سدا خوش و خرم اور آباد رکھے۔۔
Acha likha
پسندیدگی کا شکریہ
Post a Comment
اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔