نوید
عید
نسیم زندگی پیغام لائی ،صبح
خنداں کا
ایسا لگتا ہے جیسے یہ کل ہی کی بات ہے جب ہم آمد رمضان کی
خوشیاں منارہے تھے ایک دوسرے کو مبارک باد دے رہے تھے ۔استقبالِ رمضان اس کی تیاری
اور آمد کی خوشی عبادت و اطاعت کے لئے مستعد ہونے کی کوشش ،بندگان خدا کے ساتھ حسن
سلوک پرآمدہ رہنے کاجتن ،پڑوس رشتہ دارں کی دعوتوں کی گہماگہمی ،غریبوں لاچار
مجبوروں کی امداد کرنے کی حتی المقدار کوشش اور ساتھ ہی صیام،تراویح،اعتکاف اور
قرآن مجید کی تلاوت کاخاص اہتمعام کی لگن ہر دم رہتی اور پھر۔
دل و دماغ اور جسم ہر وقت کی مصروفیت میں
لگے رہنے کے بعد اچانک ایک دم اس مبارک ماہ کی راونگی کا خیال کتنا تکلیف دہ ہوتا
ذرا سوچئے ہم کتنے اداس ہوجاتے مگر اللہ پاک کااحسان ہے کہ اس نے اس مبارک ماہ کے
رحمتوں برکتوں کے اختتام کی محرومی کے ملال کرنے کا موقعہ دیے بغیرمغفرت کی رات اور
عیدالفطر کےدن کی نوید سناکربچے بڑے مرد و خواتین کوایک نئی خوشی و مسرت سے سرشار
کردیا ۔
افق پر ہلال عید کے ساتھ ہی ماحول میں خوشگوار تبدیلی رونما ہو جاتی ہے صبر
کے دنوں کے فوراً بعد شکر کا دن نمودار ہوجاتا ہے ۔ہر ایک کے چہرے پر رونق چھائی
رہتی ہے مساجد و قیام گاہ پررنگ و نور کی برسات ہوتی ہے بازار و دوکان سج دھج کر
سجائی جاتی ہے ۔ عید کے دن ہر ایک امیر غریب کا دل خوشی و مسرت سے معمور رہتا ہے ۔ میں
پردیس میں وطن سے دور رہتی ہوں اپنوں کی یاد و خیال زبان پر دعاوں کی صورت میں ظاہر
ہوتا ہے ۔ وہ کہتے ہیں نا کچھ کھو کر کچھ پایا جاتا ہے اور اللہ پاک اپنے بندوں کو
ہمیشہ اچھا ہی بدلا مرحمت فرماتا ہے ۔ ہر خوشی کے وقت ضرور وطن یاد آتا ہےاور پھر
وہاں یہاں کا مقابلہ کرتی اور سوچتی ہوں ۔ حیدرآباد میں عید کے موقعہ پر جب وہاں
رہتی تھی تو چار دن پہلے گھر کے کونہ کونہ صاف کرتے در و دیوار کی دھول چھٹکتے اور
یہاں حرم جانے کے لئے سفرکرتے راستہ میں مٹی اوڑتے جاتے ۔ وہاں ہوتے تو عید سے دو
دن پہلے چار مینار کے اطراف شوپنگ کے لئےنکل پڑتےتھے۔جہاں حد نظر تک ضرورت زندگی کے
اشیاء اور تماشے نظر آتےتھے تو یہاں کوسوں چل کر حرم پہچتے ہیں۔ جہاں مدنظر اللہ
کا گھرہے اور تمنائے دلی کا نظارہ ہے ۔عید کے دن وہاں میکہ جانے اپنوں کی ملاقات کی
آس ہے اور یہاں عید کے دن روضہ رسول ﷺکی زیارت پاس ہے،الحمدللہ۔۔۔۔۔۔۔
یہ تو تھا میری وطن اور پردیس کی عید کا احوال۔اب آپ سب کو
میری جانب سے پیشگی بہہت بہت عید مبارک ہو۔
میں ایک گزارش بھی عرض کرنا چاہتی ہوں
ہم نے اس ماہ میں مشکل سے نفس کو قابومیں کیا ہےہم اپنے
عبادتوں کی عادت کوراسخ کرنے کے بعد اس پر سارا سال کار بند رہنگے۔ مساجد کو ایسے
ہی آباد رکھے گے ۔ گھر کو تلاوت و سماعت اور نماز سے پرنور بنائے گے ۔ رضائے الہی
ہمارے ہر عمل سے پہلے پیش نظر ہوگی ۔ جب ہم اس پرہمشہ عمل پیرا رہے تو سمجھو کہ
رمضان کے فیض و برکات ہمیں حاصل ہوگئے۔ ہم کامیاب ہوگئے۔قابل مبارک باد
ہوگئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
0 comments:
Post a Comment
اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔