حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمتہ اللہ
کی ایک غزل
کی ایک غزل
آپ
بہت صاحبِ حال بزرگ گزرے ہیں جن کاظاہر شریعیت سے مزین اور باطن طریقت و
معرفت سے لبریز ہے بالفاظ دیگر ظاہر،باطن اور باطن، ظاہرکا نورہی نور تھا
۔دنیا میں ان کا فیض ہمیشہ جاری ہے ۔ان کی شاعری بناوٹ،تصنع،دکھاوا وغیرہ
سے پاک رہی ۔ وہ شاعری شاعری نہیں بلکہ سب اسرار و رموزالہی کا بیان ہے ۔رب
تعالی سے ملنے کے لئے راہ سلوک کی منزلوں کو بیان کیا ہے ۔
خواجہ
صاحب قدس سرہ کاسلوک چشتیہ "اسم ِذات" اور اس کے ذکر اور" تصور اسم ذات"
سے مربوط ہے آپ کی شاعری کا رنگ سب سے الگ اور ممتاز ہےآپ کی غزلیات سے
یہاں پر ایک حمدیہ غزل پیش کی جاتی ہےجس کا ہر ایک شعرآپکی جلالت علمی اور
ذکر حق میں کمال استغراق کی داد دیتا ہےاردو ترجمہ ہفت مراحل سلوک
اورانگریزی ترجمہ
"per-pughal persian in Hindustan"
سے لیا ہے۔
"per-pughal persian in Hindustan"
سے لیا ہے۔
ربود جان ودلم را،جمال ِنام خدا
نو اخت تشنہ لباںرا، زلال نام خدا
نو اخت تشنہ لباںرا، زلال نام خدا
وصال حق طلبی، ہمنشین ِنامش باش
بہ بین وصال خدا، دروصال ِنامِ خدا
بہ بین وصال خدا، دروصال ِنامِ خدا
میاںِ اسم ومسمئ، چو نیست فرق بہ مین
تو درتجلئ اسماء ،کمال ِناِم خدا
تو درتجلئ اسماء ،کمال ِناِم خدا
یقین بدان کہ تو باحق نشستہ ای شب وروز
چو ہمنشین تو باشد، خیال نامِ خدا
چو ہمنشین تو باشد، خیال نامِ خدا
تُراسزوِطیران ورفضائی عالم قدس
بہ شرط آنلہ بہ پری، بہ بال ِنامِ خدا
بہ شرط آنلہ بہ پری، بہ بال ِنامِ خدا
چو نامِ اوشنوم، گربودمرا صدجان
فدای اوست، بہ عزوجلال نامِ خدا
فدای اوست، بہ عزوجلال نامِ خدا
معین زگفتنِ نامش ملول کئ گرود
کہ ازخدا است ملالت، ملال نامِ خدا
کہ ازخدا است ملالت، ملال نامِ خدا
اردو ترجمہ
خداکے نام کاجمال میرے دل وجان کو اڑالے گیا
خدا کے نام تشنہ لبوں کو آب زلال (پاک پانی) سے نوازا
خدا کے نام تشنہ لبوں کو آب زلال (پاک پانی) سے نوازا
اگر تو حق کےوصال کا طالب ہے تو اس کے نام کا
ہمنشین بن جا( اور )خداکے نام کے وصال میں خداکا وصال دیکھ لے
ہمنشین بن جا( اور )خداکے نام کے وصال میں خداکا وصال دیکھ لے
جب نام اور صاحبِ نام میں کوئی فرق نہیں ہے تو
اسم ذاتِ الہی میں تمام اسمائےصفاتی کی کامل تجلیات دیکھ لے ۔
اسم ذاتِ الہی میں تمام اسمائےصفاتی کی کامل تجلیات دیکھ لے ۔
یقین جان کہ، تو شب وروز حق کے ساتھ بیٹھاہوا ہے
جب بھی خدا کے نام کے خیال کا ہمنشین ہے
جب بھی خدا کے نام کے خیال کا ہمنشین ہے
عالم قدس کی فضاوں میں پرواز کرنا تجھے سزاوار ہے
بشرطیکہ تو خدا کے نام کے بازووں سے پرواز کرلے
بشرطیکہ تو خدا کے نام کے بازووں سے پرواز کرلے
جب بھی میں اس کا نام سنوں اور مجھے سو جانیں مل جائیں تو خدا کے نام کی عزت وجلال کی قسم، اس نام پر تمام جانین قربان ہیں
معین اس( خدا) کے نام کا ذکر کرنے سے کب ملول
بیزار) ہو کیوں کی خدا کے نام کے ذکرسے بیزار ہونا( دراصل) خدا سے بیزارہونا ہے.
بیزار) ہو کیوں کی خدا کے نام کے ذکرسے بیزار ہونا( دراصل) خدا سے بیزارہونا ہے.
مسئلہ شرعی یہی ہے کہ خدا کے نام کاذکر ہی خداہے اور اس کے ذکر سے بیزاری خدا سے بیزاری ہے اور خدا سے بیزاری کفر ہے ۔
English Translation
The beauty of the name of God (ALLAH) has robbed me of my heart and soul.
The pure water of His name quenched the thirsty lips.
The pure water of His name quenched the thirsty lips.
If you desire His Union, be an associate of His name.
Realise the Union with God in the recitation of His name.
Realise the Union with God in the recitation of His name.
When there is no difference in the name and the Named, see in the glorification of His name the perfection of the same.
Believe that you are sitting in the company of God, day and night.
When your companion is the reminiscence of His name.
When your companion is the reminiscence of His name.
It is befitting for you to fly in the air of the celetial world, If only you fill in with the winds of His name..
When I hear His name, if there be a hundred lives in me, I swear by the glory of His name that I would sacrifice them all..
When does Mu'in grudge the repetition of His name?
Since that grudge implies a grudge against Him.
Since that grudge implies a grudge against Him.
آپ
کی اس ساری غزل میں واذکراسم ربک وتبتل الیہ تبتیلا(مزمل ۷۳۔۸)اور اپنے رب
کے نام کا ذکر کرو سب سے ٹوٹ کر اسی کے ہورہو اور وللہ الاسماءالحسنی
فادعوہ بھا(اعراف ۔۱۸۰)"اور اللہ ہی کے ہیں بہت اچھے نام تو ان سے پکارو"
۔ کا بیان ملے گا۔ اور یہ عتماد اخبار سے لیا گیا ہے ۔
آپ سب نے ٹائم دیا ممنون ہوں ۔اب کوثر کو اجازت دیے
4 comments:
بہت عمدہ انتخاب ہے۔۔۔برصغیر کے صوفیائے کرام خواجہء خواجگان معین الدین چشتی رح کا ایک خاص مقام ہے۔
سورۃ مزمل کی ویسے بھی سلسلئہ چشتیہ میں ایک خاص اہمیت ہے۔ شاید اسی اہمیت نے خواجہ معین الدین چشتی رح کو اس کو اپنے الفاظ و کیفیات میں ڈھالنے پر مجبور کیا ہو۔
اس میں حیرت کا بھی ایک پہلو ہے کہ بزرگان دین کی زندگیوں میں جو مرکز مائل قوت رہی ہے یعنی تعلق باالللہ اسے تو عوام الناس نے بالکل فراموش کردیا اور انکی زندگیوں اور ساری زندگی کی جدوجہد کو ایسے فراموش کردیا کہ جیسے تھے ہی نہیں اور ان سب کو بدل دیا کرامات اور خرق عادت کے طویل قصوں سے۔۔۔
آپ نے بہت مناسب بات کہی ہے میں اس سے سو فیصد اتفاق کرتی ہوں لوگ مزرگوں کے کرامت کو قصہ کی طرح بیان کرکے خوش ہوتے ہیں مگر یہ نہیں سوچتے کے ان کو یہ مقام کیسے ملا ۔انکی تعلیمات کیا ہے اور ہم کو اس پر عمل کرنا چاھیے ۔اللہ کے مقرب بنے کے لئے انہوں نے کتنی عبادت و ریاضت کی ہے انہیوں نے ہمیں کونسا راستے پر چلنے کہا ہے ان باتوں کی طرف تو بالکل دھیان ہی نیں دیتے۔۔
بہہہت بہت شکریہ بھائی بلاگ پر آنے اور مفید رائے دینے کے لئے ،جزاک اللہ
very nice... umda intkhab kausar ji,
بہت بہت مہربانی بہنا جی پسند فرمانے کے لئے
Post a Comment
اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔