Sunday, October 21, 2012

حضرت علی کے اقوالِ زریں

 
 
السلام علیکم
 
 
آج میں آپ سے حضرت علیؓ کے زرین اقوال شیئر کرنا چاھتی ہوں امید کہ پسند فرمائیں گے۔
 
 
انسان زبان کے پردے میں چھپا ہے۔

ادب بہترین کمال ہے،اور خیرات افضل ترین عبادت ہے ۔

جو چیز اپنے لئے پسند کرو وہ دوسروں کے لئے بھی پسند کرو ۔

بھوکے شریف اور پیٹ بھرے کمینہ سے بچو ۔

گناہ پرندامت گناہ کو مٹا دیتی ہے ۔  نیکی پر غرور نیکی کو تباہ کردیتا ہے ۔

سب سے بہترین لقمہ وہ ہے جو اپنی محنت سے حاصل کیا جائے ۔

جو پاک دامن پر تہمت لگاتا ہے اُسے سلام مت کرو
۔
موت کو ہمیشہ یاد رکھو مگر موت کی آرزو کبھی نہ کرو۔


اگر توکل سیکھنا ہے تو پرندوں سے سیکھو کہ جب شام کو واپس گھر جاتےہیں تو ان کی چونچ میں کل کے لئے کوئی دانہ نہیں ہوتا ہیں ۔
 

سب سے بڑا گناہ وہ ہے جو کرنے والے کی نظر میں چھوٹا۔
 
 
اس شخض کو کبھی موت نہیں آتی جو علم کو زندگی بخشتا ہے ۔
 
 
دو طرح سے چیزیں دیکھنے میں چھوٹی نظر آتی ہیں ایک دور سے دوسرا غرور سے۔
 
کسی کو اس کی ذات اور لباس کی وجہہ سے حقیر نہ سمجھنا کیونکہ تم کو دینے والا اور اس کو دینے والا ایک ہی ہے اللہ ۔ وہ یہ اُسے عطا اور آپ سے لے بھی سکتا ہے ۔
 

دوست کو دولت کی نگاہ سے مت دیکھو ، وفا کرنے والے دوست اکثر غریب ہوتے ہیں ۔
 

پریشانی حالات سے نہیں خیالات سے پیدا ہوتی ہے ۔
 

بہترین آنکھ وہ ہے جو حقیقت کا سامنا کرے ۔
 
 
دنیا میں سب سے مشکل کام اپنی اصلاح کرنا اور آسان کام دوسروں پر تنقید کرنا ہے ۔
 
 
نفرت دل کا پاگل پن ہے ۔

انسان زندگی سے مایوس  ہوتو کامیابی بھی ناکامی نظر آتی ہے ۔
 
 
اگر کوئی تم کو صرف اپنی ضرورت کے وقت یاد کرتا ہے تو پریشان مت ہونا بلکہ فخر کرنا کے اُس کو اندھیروں میں روشنی کی ضرورت ہے اور وہ تم ہو ۔
 
 
 
 

Saturday, October 13, 2012

ہمیشہ مسکرائے

السلام علیکم

معزز بھائیوں اور پیاری بہنوں :

امید کہ آپ لوگ میری اس تحریرسے متفق اور مستفید ہوگے۔


ہمیشہ مسکرائے



انسان کا موڈ خراب اور خوشگوار ہونا ایک فطری امر ہے۔ خود کو اور دوسروں کو پرسکون اور نارمل رکھنے کے لئے مسکراہٹ کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیں اور دیکھیں کہ آپ کا اور دوسروں کا مزاج کس طرح بہتر ہوتا ہے۔

گھر ہو یا دفتر،کالج ہو یا سڑک، میلہ ہو یا کوئی تقریب ہر جگہ آپ اپنی مسکراہٹ سے ایک خوش کن یاد گار لمحہ بنا سکیں گے۔
شوہر ہو یا بیوی، دوست ہو یا بھائی، اپنے ہو یا اجنبی، بچے ہو یا بڑے اگر ہم مسکرا کر ایک نظر دیکھیں تو وہ ایک نظر کا اثر بہت دیرپا رہے گا۔

اگر کوئی آپ کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے یا تحفہ دے تو اسے جواب میں مسکراہٹ کے ساتھ شکریہ کہیں تو سامنے والے کو دلی مسرت ہو گی۔

آپ اپنے دشمن سے بھی مسکرا کر بات کریں تو وہ آپ کے لئے مثبت سوچنے لگیں گے۔

اگر آپ خوشگوار زندگی کے متمنی ہیں تو ہمیں چاہیئے کہ خوشگوار زندگی کے لئے آپس میں خوشگوار تعلقات رکھیں تو یہ جب ہی ممکن ہے جب ہم ہنستے بولتے اور ہلکے پھلکے انداز میں مسکرا کر آپس میں گفتگو کرتے ہوئے زندگی گزاریں۔

ہمارے دین کے رہبر محمد صلی اللہ علیہ و سلم بھی ہمیں سمجھاتے ہیں کہ اپنے بھائی کے لئے مسکرانا بھی صدقہ ہے۔
مسکرانے کے بہت فائدہ ہیں آپ مسکرائیے خود آپ کو پتہ چل جائے گا۔

اسی لئے پہلے زمانے میں تفریح کے لئے اور موڈ کو ٹھیک رکھنے ہر فلم میں کامیڈین ایکٹر ہوا کرتا تھا اور سرکس میں بھی پہلے جوکر کو بہت اہمیت ہوا کرتی تھی۔

ہنسنے مسکرانے سے ہماری شخصیت اور خوشگوار رویوں کا دوسروں پر خوشگوار اثر پڑتا ہے آپ کے لئے ان کے دل میں مثبت خیال پیدا ہونے کے زیادہ امکان ہونگے۔
دوسروں کی چھوڑیئے ہمیں خود اپنی صحت ہی کی خاطر رویوں میں تبدیلی لانی چایئے مسکرانا ایک بہترین دوا ہے۔ اس پر جتنا عمل کر سکتے ہیں کریں ایسے باتیں سوچیں جو آپ کے بگڑے موڈ کو ٹھیک کر دیں۔

جرمن ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ مسکرانا یا ہنسنا جسم اور روح دونوں کے لئے نہایت ضروری ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ انسان کی جسمانی اور ذہنی کیفیت کا اندازہ اس کے چہرے پر پائے جانے والے تاثر سے ہوتا ہے۔ اس لئے جرمن کے Deister weser clinicماہر نفسیات اور ڈاریکٹر ڈیٹر بوٹس ایک نہایت آسان تجربہ کا مشورہ دیتے ہیں۔ آپ آئینے کے سامنے کھڑ ے ہوں اور بھرپور طریقے سے مسکرائیں بلکہ منہ کھول کر بنسیں یہاں تک کہ دانت نظر آئیں۔ چند لمحوں کے اندر آپ محسوس کریں گے کہ آپ کا موڈ اچھا ہوگیا ہے آپ کی طبیعت پر خوشگوار اثر ات مرتب ہوئے ہیں۔

جب آپ دوسروں اور اپنی خوشی کے لئے مسکراہٹ کو اپنی پہچان بنا لیں تو سب آپ کی مسکراہٹ کو اپنی جان سمجھنے لگے گے انہیں آپ کی مسکراہٹ ہی زندگی کا سرمایہ لگے گی۔ اور وہ آپ کی شان میں قصیدے پڑھتے نہیں تھکیں گے۔

آپ سب کےمیرے بلاگ پر تشریف لانے کا دلی شکریہ

Tuesday, October 02, 2012

دو اکٹوبر





السلام علیکم
میرے عزیز بھائیوں اور بہنوں:۔
آج دو اکٹوبر کے دن مجھے ہمیشہ اپنے اسکول کے دورکی یاد آنے لگتی ہے کیونکہ ہندوستان کے دو بڑے نیتا نے اس دن جنم لیا جس کی خوشی میں ہمیں پڑھنے پڑھانے سے چھٹی ہوتی ،خوب سارے پروگرام کا انعقاد ہوا کرتا ۔ سب ہی خوب انجوئے کیا کرتے۔

اب سوچتی ہوں کہ وہ دن بھی کتنے عجب تھے یوں دھوم مستی کرنے کی جگہ ہمیں ان کے اصول اور وطن کی محبت اور قوم کی خدمت کا جذبہ پیدا کرنا چاھیے ان کی سچائی اور پیغام کو سمجھنا خود عمل کرنا اور پھیلانا چاہئے ۔ اور یہ ہی بات ہمارے ذہین نشین کرنے ہنستے ہنساتے دماغ میں محفوظ کی جاتی تھی ۔ آج غور سے دیکھتی ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ آج ان آزادی کے متوالوں کا صرف نام ہی زندہ رہ گیا ہے ان کے اصول اور کار نامہ تو کہی کھو گئے ہیں اب پہلے جیسی ٹیچرز بھی نہیں رہے ۔ آج اسکول کو چھٹی دے دی جاتی ہے تاکہ بچے گھر ٹی وی
دیکھے یا کمپوٹر پر کیم کھیلے یا پھر خواب ِ خر گوش کے مزہ لے آج پہلے کی طرح سبق کوسبق کی طرح نہیں پڑھیا جاتا بس ایک مصمون کی طرح پڑھا دیا جاتا ہے پھر نمبر مل جاتے ہیں اور ترقی ہوتے جاتی ہے پھر بہت ساری کمائی کی رہ کھول جاتی ہے خیر چھوڑیئے ان تلخ باتوں کو چلیں میں ان کو محو کرنے اپنے یادوں میں سے ایک اسکول کے دور کا ایک واقعہ شیئر کرتی ہوں ہمارے اسکول میں میوزک سیکھانے کے لئے ٹیچر تھیں ، میں نے کبھی ریگولر کلاس تو نہیں لی تھی ان سے مگر وہ ہی ڈرامہ اور پروگرام کرنے میں سب کی مدد کیا کرتی تھی ۔ ہمارے سکول میں تین میڈیم تھے تلگو،انگلش اور اردو ۔ روز ایک میڈم کے بچے اپنی زبان میں حمد یا بھجن اسمبلی میں قومی ترانہ سے پہلے گاتےتو ان کی ذمہ داری بھی میوزک ٹیچر ہی کی ہوتی مجھے یاد ہے میری بڑی بہن نائتھ میں تھی اور میں ابھی ہائی سکول میں پاؤں رکھے ہی تھے۔میری بہن اکثر اسمبلی میں پہلے سے حمد پڑھتی ر ہی تھی ۔ میرے بڑے اسکول میں آنے کے بعد ایک دن انہوں نے میری موجودگی کومحسوس کیا اور ٹیچر کی صلاح سے دونوں ملکر ہمارے دادا کی حمد پڑھنے کی ٹھانی ۔ میں نے لاکھ منا کیا پر وہ نہ مانی ان کو مجھ پر مجھ سے بھی زیادہ یقین تھا کیونکہ ہمارے گھر میں اکثر بابا حمد اور نعت کی محفل رکھتے اور ہم سب کو اس میں شامل رہنا ضروری بھی رہتا ۔ بابا دھن اور اتار چھڑاو سے واقف کرواتےاور اس طرح ہم تھوڑا بہت ترنم سے پڑھنے کے لایق ہوگئے تھے۔ اس بات سے آپا کو یقین تھا کے ہم اچھا پرفورم کریگےاور ٹیچر نے اسٹاف روم میں ہمیں سنا تو انہیں لگا کےجیسے پکا پکایا ہوا پھل مل گیا ہو ۔ دوسرے ہی دن ہم کو پڑھنے کا موقعہ مل گیا ۔ وہسے میں نے چھوٹی رہنے مسجد کے سالانہ جلسے میں کئی بار پڑھا بھی تھا مگراسکول آنے کے بعد یہ میرا پہلا موقعہ تھا اتنے زیادہ لوگوں کے سامنے گانے کا ۔ ہم دونوں اسمبلی میں اپنی اپنی کلاس کی لائن سے نکل کر سیڑیوں کو عبور کر کے اوپر آئیے اورحمدترنم میں پڑھنے لگے ابھی دو اشعار ہی پڑھے تھے کے میری آواز حلق میں گھٹنے لگی اور سارے ٹیچرز جھانک جھانک کر دیکھنے لگے میری تو اور حالت بری ہونے لگی۔ ۔ ۔ ۔ چند دنوں کے بعد میں بھی ڈرامہ میں حصہ لینے والی تھی جس میں میری سہیلی باپو جی یعنی گاندھی جی اور میں لال بہادر شاستری بنے والی تھی جس میں چند مکالمہ کے بعد جوش سےسلیٹ مار کر ہمیں نعرہ لگانا تھا اس کے بعد ہماری ٹیچر اتنی خوف زدہ ہوئی کے یہ ایٹم سرے سے نکلنا چاہتی تھی مگر میری بہن کے تین ڈراموں کی دست برداری سےڈر کر صرف ہم کو اسٹیچ پر کھڑا کرکے فل آواز میں گانا لگا دیا ۔“آج ہے دو اکٹوبر کا دن آج کا دن ہے بڑا مہان آج کے دن دو پھول کھلے تھے جس سے مہکا ہندوستان”کیونکہ دوسرے اسکول کے بچے اور ٹیچرز آئے ہوئے تھےاس لئے ریسک نہیں لیا جاسکتا تھا پھر اس کے بعد میراخوف بھی نکل گیا
ہم بہنیں بعد میں تو جب بھی کوئی اسمبلی میں پڑھنے نہ ہو تو ٹیچر ہمیں بلالیا کرتی یہاں تک کہ تلگو میڈم کی گانے والی لڑکیاں نہ آیے تو بھی ان کی جگہ ہم  بھی گالیا کرتے تھے ۔
 

میرے بلاگ پر آنے اور عجب طرح کی باتیں برداشت کرنے کا بے حد شکریہ ۔۔آپ سب ہی بہت خوش رہیں



۔