Monday, October 10, 2022
میری چاہ
میری چاہ
——-——————
میرا شوق چائے ، میری پسند چائے میری کمزوری چائے ، میری طاقت چائے ۔ اکیلے پن کی رفیق ،غم کی ساتھی۔، دکھ کا مداوا کرنے والی، درد میں باعث راحت ہوتی ہے تو خوشیوں کو دوبالا کرتی ہے چائے ۔
تصٓور میں سوچوں تو مُصطرب ہونے لگوں ۔ تصویر میں دیکھوں تو جی مچل اٹھے ۔ آپ یقین نہیں کرینگےجب بھی کسی سیریل میں چائے پیتے دیکھتی ہوں تو خود کو سمجھاتی ہوں کہ یہ تو اداکاری کررہے ہیں بھلا ان کی پیالیوں میں چائے کہاں ہوتی ہوگی ۔ ہاہاہا
اتنی شوقین چائے کی ہونے کے باوجود میں دو سے زیادہ چائے دن میں نہیں پیتی ۔ مجھے لگتا ہے کہ جیسے اس کی بہتات کہیں مجھ سے اسکی وقعت نہ چھین لے ۔
اللہ نے اس چائے میں میرے لئے اتنی کشش رکھی ہے کہ جس کا صرف نام سنکر ہی طبعیت نہال ہوجاتی ہے ۔
اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ میرے ہر محبت کے رشتہ نے میری اس پسند کا ہمیشہ خیال بہت رکھا ہے ۔
امی کے گھر میں سب ہی چائے پیتے اور اکثر میں ہی بنا کردیا کرتی ۔ کسی دن زیادہ بنا کر بچ رہنے کا بہانہ کرتی تو امی کہتیں اسے رہنے دو تم پیوگی تو جائے کی عادت ہوجائے گی یہ کوئی اچھی عادت نہیں ، ہم خود پچھتارہے ہیں آپ اسے رکھ دو ،کوئی مہمان آئے تو دینے کام آجائیگی اور امی کے گھر لوگوں کا آنا جانا لگا ہی رہتا تھا ۔ جب اپنی نیت سے بنائی ہوئی چائے کسی کو پیش کرتی تو لگتا اپنی عزیز قیمتی چیز کسی کو مفت میں دے رہی ہو ں ۔
امی مہینے میں ایک بار میلاد کی محفل سجاتی اس دن پچاس یا اس سے اوپر چائے اور پان بنانا ہوتا ، بس اسی دن سب کو چائے، پان دیکر ہم بہنوں کو پان کھانے اور چائے پینے کی اجازات ملی ہوئی تھی ۔ اُس دن کا انتظار میں دوسرے دن سے شروع کردیتی پھر کچھ عرصہ بعد میرا رسم ہوگیا میں امی کی چھوٹی بیٹی تھی ۔ امی میری رخصتی کے خیال سے اداس رہتی اور مجھے کہتی ،سب کو چائے بنابنا کر پلاتی ہو خود بھی آدھی پیالی پی لیا کرو، میں امی کی بات انہیں سے کہتی چائے سے تو کالے ہوجاتے ہیں ناں ؟ تو امی کہتی چلو تمہارے لئے دودھ زیادہ لیا کرونگی رات سونے سے پہلے پی لیا کرو رنگ اجلا رہے گا ۔ تو اس طرح ہمارا چائے کا شوق عادت میں تبدیل ہوگیا۔وہ دن ہے اور آج کا دن چائے نے مجھے نہیں چھوڑا ہاں یہ الگ بات ہے کہ میں نے اس سے ناطہ توڑنے کی بہت بار کوشش کی مگر کبھی سر کے درد کی دوا بنکر لپٹ گئی تو کبھی خراب موڈ کی وجہ بن کر چمٹ گئی اور کبھی میرے ہمدردوں نے پیار سے ایسے ایسے پیارے جملے کہہ کر صلح کروائی کہ انکار ہو نہ سکا۔
شادی کے بعد میرے صاحب کو ہمیں منانے کا بہترین ہتھیار ہاتھ لگ گیا ۔ کسی دن طبعیت خراب ہو کچھ کھانا نہ چاہو تو پہلے چائے آگے کرتے اور پھر آہستہ سے بسکٹ یا ڈبل روٹی کھانے مجبور کرتے ۔ گھر کی شفٹنگ ہو یا سفر ہو ہر جگہ میری چائے کا سب سے پہلے بندوبست کیا کرتے۔ کسی کام سے باہر چلنے کہتے اور میں جانے سے منع کرتی تو کسی اچھی جگہ کی چائے کا لالچ دیتے اور میری نہ ہاں میں بدل جاتی ۔اکثر تو اپنے ہاتھوں بنا لاتے جس کو دیکھ کر سب مجھے قسمت والی بیوی کہتے ۔
اللہ ان کو کروٹ کروٹ راحت دے وہ میری چائے کا بہت خیال رکھا کرتے تھے۔
بڑی بیٹی کا شادی تک یہ معمول تھا کہ روز اُٹھتے ہی میری چائے بناتی ۔ بہن کے گھر جاتی ہوں تو وہ سب سے پہلے میرے لئےچائے بنانے کا حکم دیتی ہیں۔بڑا بیٹا ہر ہفتہ ملنے آتا ہے تو بہو گھر سے تھرماس لاتی ہے اور بیٹا بیچ میں رک کر ہوٹل سے چائے بھر لاتا ہے ۔
سبھی قریبی لوگ میری چائے کا بہت خیال رکھتے ہیں الحمدللہ ۔
امی کے انتقال سے چند ماہ پہلے ہاسپتل میں ایڈمٹ ہیں سنکر انڈیا گئی تو وارڈ میں ایک گیارہ بارہ سال کا لڑکا چائے لایا کرتا تھا ہم باتیں بھی کرتے رہتے تو امی اس کی آواز پر ہمیں متوجہ کرکے بلانے کہتیں جب تک چائے دوسری بار میری پیالی میں فل نہ کرواتی اسے جانے نہ دیتی اور اپنے پرس سے خود پیسے نکل کردیتی ۔ اس پیار سے لبریز چائے کے کپ کو دل آج بھی یاد کرکے تڑپتا ہے ۔چائے کے ساتھ میرے یادوں کے خوشگوار مضبوط تار ایسے جوڑیں ہوئے ہیں جو شاید زندگی کی ڈور کے ساتھ ہی ٹوٹ پائینگے ۔
ہمارے حیدرآباد میں اگر کسی وجہہ سے مہمان کی تواضع نہ کر سکے تو چائے تو لازم ہی پیش کی جاتی ہے ۔اگر وقت کی کمی یا کسی وجہ سے نہ پوچھو تو برا مان کر بولا جاتا ہے کہ “وہ تو ہمیں چائے تک کو نہیں پوچھے “ ایک طرح سے یہ رشتوں کو جوڑے رکھتی ہے ۔غریب کی بھوک مٹاتی ہے تو امیر کی شان بڑھاتی ہے ۔ کم قیمت میں عیش کراتی ہے ۔بغیر بھید بھاؤ کے سبھی کے کام آتی ہے ۔ بچے بڑے سب کی پسند ہوتی ہے چائے۔دنیا بھر میں مقبول ہے چائے۔ جسم سےتھکاوٹ بھگاتی اورجستی لاتی ہے چائے ۔میزبانی کو آسان بناتی ہے تو یہ اکثر کی ضرورت بھی ہوتی ہے چائے۔ یہ ایک بار منہ کو لگے تو بار بار پینے کی تمنا جاگے۔ اسے پینے کے بعد پھر کچھ مزید پینے کی طلب باقی نہ رہے ۔ کہنے والے اسے ایک بری لت بھی کہتے ہیں ۔ کوئی کچھ بھی کہ لیں ہاں یہ میری عادت میری طلب اور میری چاہ ہے چائے ۔۔۔۔۔
ایک چائے کی تصویر پر نظر پڑی وہیں آنکھیں منجمد ہوگئی اور دماغ چلنے لگا دل نے ہاتھوں کو متحرک کردیا اور دیکھیں اس نے مجھ سے کیا کیا لکھوا دیا یہ ہی میری چائے سے محبت کا کھلا ثبوت ہے ۔
(تحریر ؛کوثر بیگ)
Wednesday, December 15, 2021
کل اور آج
کل تک میں سوچا کرتی تھی کاش میرا بچپن لڑکپن پھر لوٹ آئے میں معصوم سی بچی بن جاؤں جیسے سب پیار کرتے تھے جس کی چھوٹی چھوٹی باتوں کا خیال رکھا جاتا سنا جاتا ۔ رتی بھر بھی بد تمیزی پر اپنےپرائے اصلاح کےلئے سمجھاتے پرائے بھی کب پرائے ہوتے یہ تو میں آج کے نظریہ کے حساب سے کہہ رہی ہوں مجھے یاد ہے ایک بار میں بھکارن جو روز ہمارے گھرآیا کرتیں تھیں جسے امی کچھ نہ کچھ دےدیتی تھی وہ بی بی کی آواز لگائی تو میں امی کو اطلاع کردنے کہنے لگی امی بڈھی آئی ہے کیا دینا ہے؟ تو امی نے منہ پر ہاتھ رکھ کر چپ رہنے کے اشارے کے ساتھ کہا تھا ایسا نہیں بولتے بڑی بی آئیں ہیں کہو بڈھی وڈی نہیں بولنا ۔ مجھے یاد ہے ہمارے گھر ہندو دھوبن تھی ایک دو بار کپڑے الٹے دیکھ کر مجھے تیز آواز میں اپنے الٹے کپڑے سیدھے کرنے کہا تو میں امی سے شکایت کرنے لگی امی مسکرا کر مجھے سیدھے کرنے اور آگے سے خیال رکھنے کی تاکید کی ۔ امی کے گھر لکشمی نامی گولن آتی اسے بچی ہوئی تو اپنی منی سی بچی بھی پلو میں بندھکر جگہ جگہ دودھ ڈالتی میں گھر کی چھوٹی تھی اس منی سی بچی کو دیکھتی تو اسے گود میں لے لیتی گود سے اتارنا دل ہی نہیں چاہتا گولن کو دودھ ڈالنے دوسری طرف جانے دیر ہونے لگتی امی گولن سے کہتی تم دوسری ساری جگہ دودھ ڈالنے کے بعد آکر لےجاؤ کہاں صبح صبح سردی میں ساتھ لیے پھروگی پھر ہر دن ایسا ہی ہونے لگا میں بچی کا منہ ہاتھ دھولاتی پاوڈر لگاتی اسے گود میں بیٹھائے رکھتی گولن کی واپسی تک ۔۔۔۔۔ میرے بتانے کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے بچپن میں بھید بھاؤ کچھ نہیں تھا بس ایک محبت کی بولی سنی اور کہی جاتی مسلم اور انڈین ہونے پر ہمیں فخر ہوتا سب عزت کی نگاہ سے دیکھا کرتے ۔ ہم سب سے بہترین سلوک کرکے دل جیتے اور عزت پاتے ۔آج کی طرح نظر انداز نہیں ہوتے ۔ ٹھکرائے نہیں جاتے ۔ نا گردہ گناہ کی سزا ہونے سے گھبرائے سہمے ہوئے نہ ہوتے ۔
آج کے حالات پڑھکر جانکر دل الامان الحفیظ کہنے لگتا ہے ۔ اب نہیں ہوتی پھر سے بچپن لوٹ آنے کی خواہش جیسی تیسی بھی ہے باقی عمر ،اللہ ایمان و امن سے گزار دے ۔اپنے آنے والی نسلوں کی فکر پھر بھی دامن گیر رہتی ہے ۔ان آنے والے مزید خیالوں کی یلغار کو روک کر خود کو تسلی کےلئےکہتی ہوں ۔ مایوسی کفر ہے ۔ اللہ سے اچھی امید رکھنا چاہئے وہ خالق جو قدرت والا ہے وہ مسلمانوں کو پھر سےعزت ،وقار اور ان کے حقوق واپس ضرور دلائے گا ان شاءاللہ ۔۔۔۔۔
Subscribe to:
Posts (Atom)