آج صبح جب میں نے فیس بک کھولا تو دیکھا کہ شعیب صفدر بھائی کا مسیج انتظار کررہا تھا پہلے تو حیران ہوئی کہ کبھی نہیں سو بھائی نے کیسے یاد کیا۔ جب پڑھا تو بے اختیار مسکراہٹ آگئی لکھا تھا "آپ کو اپنی تحریر میں ٹیگ کیا ہے مطلب آپ کو ایک تحریر بچپن کے روزوں پر لکھنی ہے " مجھے لگا صفدر بھائی جج کی کرسی پر بیٹھے حکم صادر فرما رہے ہیں اور تحریر نہ لکھنے کی صورت میں ہتھوڑا ہمارے سر پر نہ لگ جائیں اس لئے اپنی پہلی فرصت میں فائل اوہ سوری تحریر تیار کردی ہے ۔ میری زبانی میرے پہلے روزہ کا حال کچھ یوں عرص ہے۔
بچپن کی باتیں بچپن کی طرح ہی سہانے ہوتے ہیں ۔ بچپن میں ہم، ہم نہیں ہوتے بلکہ ایک انجمن ہوتے ہیں جہاں امی بابا اور بہنوں بھائیوں کی نصیحت مشورے پیار محبت ڈانٹ ہمارے ہر قدم کو ناپنے تالنے کے بعدبھی تیار ملتے تھے ۔ میں خود کو ایک گڑیا کی طرح محسوس کیاکرتی تھی کیا کرنا ہے کب کھانا ہے کہاں جانا ہے بیٹھنا ہے بڑے کہتے اور ہم بنا سوچے سمجھے ایک بے جان گڑیا کی طرح تعمیل کیا کرتے ۔
جب میں پانچ سال کی تھی اب کی طرح گرمیوں میں رمضان آیا تھا ۔ ایک دن میں نے امی بابا کی باتیں سنی بابا میرے روزہ رکھانے کی بات کررہے تھے۔ امی میرے بہت چھوٹے ہونے کی بات کی تو بابا نے فرمایا کہ چھوٹی تم کو دیکھ رہی ہے ،ہمارے سارے بچے پانچ سال میں روزہ رکھے ۔امی نے گرمی کا بہانہ بنایا تو بابا مان گئے ۔ کیوں کہ میں گھر کی سب سے چھوٹی فرد ہونے سے بہت لاڈ دلار ہواکرتے تھے ۔اس لئے آیندہ سال پر بات ٹل گئی مگر مجھے یاد ہے میں نے بابا کے سامنے امی سے روزہ رہنے کی ضد پکڑ لی امی انکار کرتی رہیں تو بابا نے مجھے سمجھایا کہ رات میں اٹھکر کھانا ہوگا پھر سارا دن کوئی بھی چیز حلق سے نہیں اترنی ہوتی ہے پانی تک بھی نہیں ۔ میرے ہاں ہاں کہنے کے بعد سحر کی تیاری کی گئی مجھے سحر کا بالکل یاد نہیں مگر امی کہتی تھی کہ ہمارے پڑوس میں ایک نورانساء آپا ہوا کرتی تھی جو سحر میں آکر امی کے بعد انہوں نے کھلانے کی آخری کسر پوری کی تھی ۔ فجر کی نماز کے بعد سب قرآن پڑھنے بیٹھے تو ہم نے بھی اپنا قاعدہ پڑھا ایسا لگ رہا تھا کہ اب میں بھی سب کی طرح بہت بڑی ہوگئی ہوں ۔کچھ دیر سونے کے بعد امی نے ظہر کی نماز کو اٹھا یا پھر امی تو افطار کی تیاری میں لگ گئی مگر ساتھ ہی ساتھ ہم پر نظر بھی رکھی رہتی کہ ہم کچھ کھا نہ لیں یہاں تک کہ ہم باتھ روم جانا چاہتے تو پہلے سمجھاتے کہ پانی بھی پینا نہیں ہے ۔جب باہر آتے تو سب غور سے دیکھتے منہ پر پانی کی تری تو نہیں مگر ہم تو بہت ہی شریف سی بچی تھے ان کی نظروں سے ہڑ بڑا جاتی ۔
جوں توں کرکے وقت گزار رہا تھا ۔ آہستہ آہستہ سے ہوتے ہوتے زور سے چوہے پیٹ میں اچھلنے کودنے لگے تھے ۔ہونٹ سوکھ کر پپڑی آگئی تھی باربار زبان پھیرنے سے بھی کچھ نہیں ہورہا تھا زبان خود سوکھکر کانٹا ہوگئی تھی ۔امی یہ کیفیت دیکھ رہی تھی کام کے ساتھ مجھے دوسرے بہنوں بھائیوں کے روزے کے صبر کے قصے سناتی رہی مگر میری توجہ امی کی باتوں سے زیادہ امی کے کام پر زیادہ تھی جہاں افطار کی دال ، فالودہ نہ جانے کیا کیا بنا رہی تھی ۔ ساتھ یہ بھی بیچ بیچ میں کہتی کہ تم روزہ ہے بول کے اتنی ساری چیریں بن رہی ہیں ۔ امی کا یہ جملہ بڑا تسلی بخش ہوتا۔
پھر بابا اسکول سے آئے ( ٹیچر تھے) آتے ہی مجھے تیار ہونے کہا اور خود فرش ہوکر مجھے باہر لے آئے سب سے پہلے ہم نے سیکل رکشا میں بیٹھ کر چارمینار پہچے وہاں سے ٹیکسی کرکے سکندرآباد گئے سکندرآباد میں ڈبل بس تھی اس میں بیٹھا کر ریلوے استیشن لے آئے پھر ہم نے ریل گاڑی میں سفر کرکے نامپلی اسٹیشن پر اترے نامپلی میں معظم جاہی مارکٹ پہچےوہاں سے قسم قسم کےبہت سارے میوے خریدے گئے ۔ پھر رکشا کرکے گھر واپس آئے اس عرصہ میں کبھی ہمیں ڈبل بس کی خوشی رہتی تو کبھی ٹرین میں پہلی بار بیٹھنے کا مزہ آتا رہا سارے چھاڑ مکان اتنی تیزی سے گزرتے رہے اور اسی رفتار سے ہمارے دماغ سے روزے کا خیال بھی جاتا رہا پھلوں کی مارکٹ میں بار بار بابا ہم سے پوچھتے یہ لینا ہے وہ لیں تو ہمیں لگتا ہم کوئی کہانی کی شہزادی ہیں جس کی پسند پر ہر چیز لینے سے پہلے پوچھ رہے ہیں ۔
بہت سارا وقت بڑے اچھے سے گزار گیا ۔پھر بھی مغرب کو باقی تھا ، مجھے لگتا جیسے وقت سے پہلےمیری آنکھوں کے آگے آندھیرا ہوگیا ہے ۔ اب پوچھنے لگی تھی کتنا وقت باقی ہے ۔۔۔ بس ابھی ہوگیا سمجھو ہر بار اسی طرح کا کوئی جواب ملتا ۔ بابا نے جب یہ حال میرا دیکھا تو ہمیں کام لگانے لگے چلو اب ہم چاٹ بناتے ہیں امی کے پاس سے یہ لے آو یہ دے آو ،یہ سیب ادھر دینا وہ کیلا یہاں رکھیں چاٹ بنتے بنتے وقت کوچاٹ گیا ۔ پڑوس کو حصے بھجوائے گئے وہاں بھی ہمیں ساتھ جانے کہا ۔پڑوس سے واپس آنے پر دیکھا کہ لمبا چوڑا لال دستر لگایا گیا ہے اس پہ مختلف پکوان اور پھل رکھے ہیں انہیں دیکھ کر جان میں جان آئی ۔ایک ایک کرکے سب آکر بیٹھتے گئے مجھے بھی سب کے بیچوں بیچ چگہ دی گئی مگر وقت تھا کہ تھما ہوا تھا کچھ دیر میں زور کی سیرنگ کی آواز آئی تو سب ہی بہت خوش ہوگئے ہر ایک نے میرے صبر کی تعریف کرتے دعائیں دینے لگے ۔اس دن جو افطار پہ خوشی ہوئی وہ ابھی تک یاد رہ گئی ہے۔
جب بھی میں وہ حدیث پڑھتی یا سنتی ہوں جس میں کہا گیا ہے کہ روزے دار کو دوخوشیاں ملتی ہیں جن سے وہ خوش ہوتا ہے ۔ایک تو وہ اپنے افطار سے خوش ہوتا ہے دوسرا وہ اس وقت خوش ہوگا جب وہ اپنے روزے کے سبب اپنے پرور دگار سے ملے گا (صحیح)
اللہ پاک ہمیں دوسری خوشی کا موقع بھی عطا فرمائے ۔