Sunday, December 15, 2019

لوٹ پیچھے کی طرف اے گردشِ ایام تو



کل تک میں سوچا کرتی تھی کاش میرا بچپن لڑکپن پھر لوٹ آئے میں معصوم سی بچی بن جاؤں جسے سب پیار کرتے تھے جس کی چھوٹی چھوٹی باتوں کا خیال رکھا جاتا سنا جاتا ۔ رتی بھر بھی بد تمیزی پر اپنےپرائے اصلاح کےلئے سمجھاتے  پرائے بھی کب پرائے ہوتے یہ تو میں آج کے نظریہ کے حساب سے کہہ رہی ہوں  مجھے یاد ہے ایک بار میں بھکارن جو روز ہمارے گھرآیا کرتیں تھی جسے امی کچھ نہ کچھ دےدیتی تھی  وہ بی بی کی آواز لگائی تو میں امی کو اطلاع کردنے کہنے لگی امی بڈھی آئی ہے کیا دینا ہے؟ تو امی نے منہ پر ہاتھ رکھ کر چپ رہنے کے اشارے کے ساتھ کہا تھا ایسا نہیں بولتے بڑی بی آئیں  ہیں کہو بڈھی وڈی نہیں بولنا  ۔ مجھے یاد ہے ہمارے گھر ہندو دھوبن تھی ایک دو بار کپڑے الٹے دیکھ کر مجھے تیز آواز میں اپنے الٹے کپڑے سیدھے کرنے کہا تو میں امی سے شکایت کرنے لگی امی مسکرا کر مجھے سیدھے کرنے اور آگے سے خیال رکھنے کی تاکید کی  ۔ امی کے گھر لکشمی نامی  گولن آتی اسے بچی ہوئی تو اپنی منی سی بچی بھی پلو میں بندھکر جگہ جگہ دودھ ڈالتی میں گھر کی چھوٹی تھی  اس منی سی بچی کو دیکھتی تو اسے گود میں لے لیتی گود سے اتارنا دل ہی نہیں چاہتا گولن کو دودھ ڈالنے دوسری طرف جانے دیر ہونے لگتی امی گولن سے کہتی تم دوسری ساری جگہ دودھ ڈالنے کے بعد آکر لےجاؤ کہاں صبح صبح سردی میں ساتھ لیے پھروگی پھر ہر دن ایسا ہی ہونے لگا  میں بچی کا منہ ہاتھ دھولاتی پاوڈر لگاتی اسے گود میں بیٹھائے رکھتی گولن کی واپسی تک ۔۔۔۔۔ میرے بتانے کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے بچپن میں بھید بھاؤ  کچھ نہیں تھا بس ایک محبت کی بولی سنی اور کہی جاتی   مسلم اور انڈین ہونے پر ہمیں فخر ہوتا سب عزت کی نگاہ سے دیکھا کرتے  ۔ ہم سب سے بہترین سلوک کرکے دل جیتے اور عزت پاتے ۔آج کی طرح نظر انداز نہیں ہوتے ۔ ٹھکرائے نہیں جاتے ۔ نا گردہ گناہ کی سزا ہونے سے گھبرائے سہمے ہوئے نہ ہوتے ۔

آج کے حالات پڑھکر جانکر  دل الامان الحفیظ کہنے لگتا ہے ۔ اب نہیں ہوتی پھر سے بچپن لوٹ آنے کی خواہش جیسی تیسی بھی ہے باقی عمر ،اللہ ایمان و امن سے گزار دے ۔اپنے آنے والی نسلوں کی فکر پھر بھی دامن گیر رہتی ہے ۔ان آنے والے مزید خیالوں کی یلغار   کو روک کر خود کو تسلی کےلئےکہتی ہوں  ۔ مایوسی کفر ہے ۔ اللہ سے اچھی امید رکھنا چاہئے وہ خالق جو قدرت والا ہے وہ مسلمانوں کو پھر سےعزت ،وقار  اور ان کے حقوق واپس ضرور دلائے گا ان شاءاللہ ۔۔۔۔۔

Monday, December 09, 2019

کیا خبر تھی کہ خزاں ہوگی مقدر اپنا


 میں خاموش نگاہیں لیے آسمان کو تکے جارہی ہوں کبھی کبھی کوئی پرندہ پھڑپھڑاتا ہواپرواز بھرتا ، تب میں چونکاٹھتی ہوں۔کچھ ساعتیں بوجھل سایہ تلے گزر جاتے ہیں ۔۔۔ دوبارہ سوچوں کی وادی میں کھو  جاتی ہوں ۔ 

سنیں ! آپ کو یاد ہے ناں۔۔۔۔ ؟
جب ہمارا بیاہ ہوا تھا۔ ہم پر چند پابندیاں عائد تھیں۔۔۔  والدہ کے حکم کے مطابق  رات جب سیاہ گھونگھٹ اوڑھ لے۔۔۔تبہمیں اپنی خواب گاہ میں جانے کی اجازت ہوتی۔۔۔تب تک میں رسوئی گھر میں مصروف اور آپ ڈرئینگ روم میں بیٹھےاونگھ رہے ہوتے۔۔۔یا پھر سب کی نظریں بچاتے ہوئے میرے آگے پیچھے کسی نا  کسی  بہانے سے گھوما کرتے ۔   امی آپکو تیز نگاہوں سے دیکھتیں اور ٹوک دیا کرتیں۔  آپ بہت ڈھیٹ سب کی نظر  بچا کر مجھے چھوتے ہوئے گزار جاتے ۔ میںشرما جاتی۔۔۔اور آپ ڈھٹائی سے مسکرا اٹھتے۔آپ کا چھونا میرے تن بدن میں محبت کی آگ سلگھا دیتا۔۔۔۔وجود میںلہراتے  شعلے میرے رخسار سرخ کردیتے  ۔اس طرح جب بھی موقع ملتا ہم  نظروں ہی نظروں میں باتیں کیے جاتے۔۔۔محفل ہو یا تنہائی، ہر جگہ  مجھے آپ ہی  محسوس ہوتے۔۔۔ آپ کی نظروں کی تپش مجھے موم کی طرح پگھلا دیتی۔ آپ  دور بھی ہوں تو مجھے آپ کی موجودگی کا احساس ہر پل خود کی سانسوں  کے  قریب محسوس ہونے لگتا اور یہ یقیندلاتا کہ آپ میری سانسوں میں ۔۔۔دھڑکنوں میں۔۔۔وجود میں سمائے ہوئے ہیں۔

چہار سو  بہار ہی بہار محسوس ہوتی۔ جیسے ہمارے اطراف ہریالی کی مخملی چادر سی بچھی ہوئی ہو اور موتیاچمیلی گلاب کے پھول قریب ہی بکھرے پڑے ہوں ،جس کی مہک ہمیں مدہوش کئے جارہی ہوتی ۔ زمین کے مسحور کنقدرتی مناظر سے نظریں  اٹھتیں تو شفق کی سرخی افقِ آسمان پر نمودار ہوتی جو ہمارے اندر جذبات کا تلاطم برپاکردیتی ۔ آپ کی نظریں ان سنہری کرنوں کے آسمان پر غائب ہونے تک  میرا تعاقب کرتی رہتی اور میں گھبرائی  ہوئی  امی پر نظر جمائے رکھتی کہ کہیں وہ آپ کی چوری نا پکڑ لیں۔۔۔  میں دل ہی دل میں امی کے حکم کی منتظر رہتی کہحکم ملے اور میں اپنی خواب گاہ میں چلی جاوں۔۔۔ خود کو  پرسکون  دکھانے کی کوشش کرتی ۔ امی اندازِ بے نیازیسے کہتیں
 “جاؤ شام ہوگئی بستر ٹھیک کرو ، اب کمر بھی سیدھی کرلو “اور میں چپ چاپ کمرے میں چلی آتی اور آپ دروازے کےپیچھے چھپے ہوئے مجھے بھوں کہتے ہوئے پیچھے سے پکڑ لیتے ۔
مجھے  اس بات کا علم ہوتا مگر جھوٹ موٹ  ڈرنے لگتی ۔تب آپ دیوانگی کی عالم میں مجھے بانہوں میں تھام کر ہنسنےلگتے۔

 وقت گزرنے لگا ۔  امی ہم سے دور چلی گئیں۔۔۔لیکن  ہم  دونوں نے ان اصولوں کی پاسداری کی اور وہ یادیں اور جذباتکی شدت و حدت کو ہر روز  ڈھلتے سورج کے ساتھ تازہ کرتے رہے۔ شفق کی سنہری لالی دیکھکر ہم سہاگ رات کےسرخ جوڑے  ، مہکتا بستر اور سرخ گلابوں کی خوشبو کی باتیں یاد کرتے اور لطف اندوز ہوتے ہوئے زندگی مہکاتے چلےجاتے۔۔۔اس طرح ایک دوسرے میں گم ہوجاتے۔
 بہت حسین تھے  زندگی کے وہ دن !!

ایک طویل عرصہ  ساتھ رہنے کے بعد بھی لگتا  تھا کہ ہم ابھی ابھی ملے ہیں۔۔۔جنون اور دیوانگی اول روز جیسی ہیہوتی۔ وقت پر لگا کر اڑتا چلاگیا۔ 
ڈوبتے سورج  کی کرنیں جب آسمان پر پھیلی ہوئی ہمارے عشق کی داستاں لکھ رہی تھیں۔۔۔اچانک وقت تھم گیا۔۔۔سانسیں دھڑکنوں سے جدا ہوگئیں۔۔۔ موت نے آپ کی سانسیں مجھ سے چھین کر انجان جہاں میں پرواز کرگئیں ۔ 
میرے وجود کے تئیں  پُرخزاں  ویرانی  چھا گئی ۔ اس دن سے میری تمام خوشیاں ارمان اور بہار کا موسم ہمیشہ ہمیشہکے لئے زوال پزیر ہوگیا۔

میں تنہا ایک سوکھے پیڑ کی طرح کھڑی ہوں جس کے سارے پتے خزاں کی نذر ہوچکے۔۔۔تاعمر کے لیےپت جھڑ کا موسمبنی۔۔۔تنہائی کی چادر اوڑے  ہر روز  ڈوبتے سورج کو تکتی رہتی ہوں۔جب   شفق سرخی کے ردا اوڑ لیتا ہے تب میرےوجود میں آگ  لگا دیتا  ہے جس کے تئیں ہر پل میرا وجود جلتا رہتا ہے دل چاک ہوا جاتا ہے۔ایک دن ایسی ہی ملگجی شام۔۔۔۔۔ میں بھی کسی پت جھڑ کے پتوں کی طرح مٹی میں مل جاؤنگی کیونکہ کیا خبر تھی کہ خزاں ہوگی مقدر اپنا.......