Monday, September 18, 2017

تدارک

تدارک  

چند دنوں  سےمجھے بخار سردرد نے عجیب بے چین و بے قرار کر رکھا تھا۔ جسے دیکھکر صاحب نے چند ادویات دیے جس سے خاطر خواہ فائدہ نہ ہوا اور ہوتا بھی کیسے ایک ہی دن میں ۔۔۔ جب طبعیت میں بہتری نہ آئی تو بچے فون کرکے ڈاکٹر کے پاس جانے  مجبور کرنے لگے میں کہنے لگی ابھی تو وقت ہوچکا کل دیکھتے ہیں ۔ ٹھیک ہے مگر کل ضرور جائیں وہ تاکد کرنے لگے اور میں سوچنے لگی کہ انسان کی نظر ظاہر پر ہی رہتی ہے ہم اپنے جسم کو صاف سترا رکھتے ہیں اچھےکپڑے زیب تن کرتے ہیں ۔ بیمار ہوں تو جلد سے جلد دواخانے جاتے ہیں ۔لمبی لائن میں تکلیف کی حالات میں ڈاکٹر کی ملاقات کےلئے انتظار برداشت کرتے ہیں ۔ پھر وہ جو دوا تجویز کرے اس کے بتائے ہوئے وقت اور طریقہ پر عمل پیرا ہوتےہیں ۔ 
مگر کیا ہم اپنے باطن کی صفائی کے بارے میں کبھی سوچتے ہیں ؟ کیا ایک دوسرے کو باطنی برائی سے روکھتے ہیں ؟ کیا ہم کوئی اپنے کو روحانی بیماری میں مبتلا دیکھیں تو ٹوکتے ہیں ۔ علاج کے راستہ دیکھاتے اور علاج کےلئے مجبور کرتے ہیں ۔ ہم باطنی تکلیف کو روحانی بیماریوں  کو محسوس نہیں کرتے کیونکہ ہم پہلے تو سمجھتے ہی نہیں پھر اس کے نتائج دیر سے ظاہر ہوتے ہیں ۔ ہم تو صرف آج اور سامنے نظر آنے والی باتوں کو ہی دیکھتے ہیں ۔ کبھی باطن پر نگاہ نہیں کرتے اگر دیکھا جائے تو جسم کی بیماری سے زیادہ خطرناک روح کی بیماریاں ہوتی ہیں جیسے بد نگاہی،بے جا غیظ و غصب، غصہ و بد اخلاقی،بے حیائی ، نا شکرگزار ی ،حرص و ہوس ، تکبر ، حسد ، کینہ،تہمت ، بد گمانی، دکھاوا ، کذب ، گالی دینا ۔ یہ ساری بیماریاں ہماری دنیا کے ساتھ  آخرت بھی برباد کرتی ہیں ۔ نہ صرف ہماری بلکہ کبھی دوسرے انسانوں کو بھی نقصان اٹھانا پڑتا ہے ۔ بہت بڑھ جائے  تو یہ وبائی امراض میں تبدیل ہوکر معاشرے کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کرتی ہے ۔جسمانی کی طرح ہمیں روحانی امراض کا تدارک کرنا ہوگا ۔ جسم سے زیادہ روح کی پاکیزگی صحت ضروری ہے جسم تو ایک دن مٹ ہی جانے والا ہے مگر روح کو موت نہیں اپنی روح کو پاکیزہ بنا کر خود بھی امن سے رہیں دوسروں کو بھی امان  سے رہنے دیں۔۔

مجھے ابھی اپنے بابا  حضرت کا ایک واقعہ یاد آرہا ہے ۔ تحریر لمبی ہوگئی ہے مگر سن لیجئے ویسے بڑوں کا ذکر خیر ہوتا ہے تو عزیزو ! امی سے ملنے ایک محترمہ آئیں وہ آکر کہنے لگی آج بڑی مشکل سے میاں نے آپ کے پاس آنے کی اجازات دی ہے مجھے وہ میرے والدین سے ملنے نہیں دیتا شراپ پیتا ہے مارتا ہے وغیرہ وہ کہنے لگی تو امی مجھے بابا کے کمرے میں بتانے بھیجے کہ فلاں آئی ہیں انکے ساتھ یہ یہ ہورہا ہے ۔ کیا کریں بتادیں ۔ بابا اٹھے ایک پیپر پن لے کر اس پر إن معي ربي سيهدين لکھے اپنے اماں کو دو اسے فرصت میں خوب پڑھکر گھر کے پانی میں دم کرنےانکو دیکر کہو اور  پھر لیٹ گئے ۔ وہ محترمہ جانے کے کچھ دیر بعد بابا باہر آئے اور مجھ سے فرمائے "مظلوم کا ظلم کے بارے میں کہنا ٹھیک ہے" پھر کچھ دیر چپ رہے پھر بولے آؤ ہم استغفار کرتے ہیں ۔ پھر بلند آواز سے (جسے میں امی بھی سن سکتے تھے ) استغفر الله العظيم الذي لا اله الا هو الحي القيوم وأتوب اليه پڑھنے لگے ۔ آج سوچتی ہوں تو بابا کی وہ حکمت عملی کہوں یا تربیت نفس یا پھر تدارک جو بھی ہو بہت بھلی لگتی ہے ۔


تحریر ؛ کوثر بیگ

2 comments:

Anonymous said...

Everyone loves what you guys tend to be up too. Such clever work
and reporting! Keep up the good works guys I've included you guys to my own blogroll.

Anonymous said...

Excellent blog you have got here.. It's difficult to find high quality writing like yours nowadays.
I seriously appreciate individuals like you! Take care!!

Post a Comment

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔