Wednesday, January 13, 2016

دوہرے جذبات


السلام علیکم 

کل دواخانہ کے انتظار گاہ کی رکھی کرسی پر بیٹھی وقتاً فوقتاً اپنے فون کو کھولتی دیکھتی پھر بےچینی سے آپریشن تھیٹر سے ہر آنے جانے والے پر چونک کر نظر ڈالتی رہی اپنے آنے والے نومولود پوتے کی آمد کی سرتا پا منتظر تھی کہ سیل فون نے فیملی گروپ پر اطلاع دی کہ میرے ایک بہت ہی عزیز رشتہ دار نے داعی اجل کو لبیک کہا ہے تو میں ایک عجب تجریدی کیفیت میں گرفتار ہوگئی کبھی آنے والے بچے کے لئے پیار اور آمد کی خوشی ہوتی تو کبھی اپنے عزیز کی رحلت کا غم امڈ آتا ان کی یادیں نظر کے سامنے محسوس ہوتی ہمارا ان سے ایک نہیں تین تین رشتے تھے پھر میرے والدین کے اور انکے والدین میں بلا کا میل ملاپ خلوص تھا ہم ان کے گھر پچپن سے جاتے ان کی وہ بچپن کی سمجھداری سے کی گئی شراتیں لطیفہ گوئی مختلف آوازیں نکلنا ہنسنا باتیں کرنا پھر بڑے ہوکر بہت ہی بردبار مہذب بے حد با اخلاق ملنسار اپنے والدین کے نقش قدم پرچلنے والے انسان کی زندگی گزارتے دیکھنا پھر ایک طویل عرصہ موت سے لڑنا اور ایک 
لفظ بھی شکایت نہ کرنا سب کچھ یاد آتے اور دل کو مغموم کرتا رہا ۔۔۔


 مجھے احساس ہوا کہ یہ دنیا ایک راستہ ہے ہر انسان ایک پلیٹ فورم  سے آتا ہے زندگی کا سفرگزار کر دوسرے پلیٹ فورم پر انتطار کے لئے چلے جاتا ہے کوئی اس سفر میں زیادہ عرصہ ساتھ رہتا ہے تو کوئی جلدی چلا جاتا ہے بس ہماری نظر تو اس منزل پر مرکوز ہونی چاہئے جہاں ہمیں مستقل رہنا ہے۔ نومولود کو گود میں لے کر میرے دل سے یہ ہی دعا نکلی کہ اللہ اسے نیک اور صالح بنا دنیا کی سختی اور آزمائیش سے بچائے دونوں جہاں کی کامیابی عطا کر ۔۔۔۔    


یہ تو سنا اور دیکھا تھا کہ انسان دوہرے چہرہ اور رہن سہن رکھتے ہیں مگر اپنے اندر اٹھنے والی خوشی اور غم کے احساس و خیالات کو محسوس کر کے  اپنی خود کی حالت پر حیرت ہوئی کہ اللہ نے انسان کو کیا بنایا ہے وہ ایک وقت میں الگ الگ جذبات خود میں بہت خوبی سے سما سکتا ہے ۔ تمام تر تعریف کے قابل اللہ واحدکی 
ہمیشہ قائم رہنے والی ذات پاک  ہے ۔

۔

Thursday, January 07, 2016

دھبہ اور زخم ۔۔ منی افسانے





السلام علیکم

یہ چھوٹے چھوٹے دو افسانہ میں نے اردو افسانہ فورم کے اردو فلیش فکشن2015 کے لئے لکھے تھے۔



دھبہ


جب سے مالکن میکہ گئی ہیں مجھے  پرہی گھر کے سارے کام آن پڑے ہیں  یہ صبح صبح صاحب کو اٹھانے کا کام تو سب سے زیادہ مشکل ہوتا ہے ۔ بھگوان کرے کے مالکن جلد سے جلد واپس آجائے اور میری جان چھوٹے ۔۔۔۔۔ رامو منہ ہی منہ بڑ بڑاتا ہوا پھر  بیڈ روم کا دروازہ کٹکٹانے لگا  ۔  اندر  سے صاحب نے نیند سے بھرے لہجہ میں" ہاں ہاں رامو " کی آواز لگائی تو رامو جواب پاکر اطمینان کی سانس لی

ناشتہ کی میز پر بیٹھے بڑے صاحب نے لقمہ منہ میں لیتے  ہوئے اخبار دوسری طرف سرکاتے رامو سے کہنے لگے "ارے او رامو ذرا دیکھ تو آنا عبدل نے گاڑی تیار کی یا نہیں اورہاں  ڈرائیور کو بھی دیکھ لیں " 
رامو دوڑتے جاکر دوڑتا الٹے پاوں بھاگتا آیا اور اطلاع دی کہ صاحب عبدل تو بیمار ہے بھٹی بخار میں تپ رہا ہے آج وہ گاڑی کو صاف نہیں کرسکے گا ۔
رامو اس کا بیٹا اب کچھ بڑا ہوگیا ہے نا اس سے کہو کہ اپنے باپ کا کام آج وہ  انجام دے باہر اس سے چھوٹے بچوں کو بھی میں نے گاڑی صاف کرتے دیکھا ہے ۔
جی صاحب ابھی بول کر حاصر ہوتا ہوں
چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے عبدل کے بیٹے نے گاڑی خوب چمکائی آج وہ خوش تھا کہ اس نے اپنے بیمار باپ کی مدد کی تھی اور اسے یقین تھا کہ بڑے صاحب بھی دیکھ کر ضرور اس کے کام کو پسند کرینگے ہو سکتا ہے کہ اس پہلے کام کا انعام بھی دیں اسی آس میں وہ وہی کھڑا رہا 
 بڑے صاحب کو آتا دیکھا تو اس نے  آگے بڑ کر گاڑی کا دروازہ کھولنے لگا ۔بڑے صاحب نے کراہیت کے انداز سے اس کو دیکھا اور چھڑک کر  زور سے کہا "اے لڑکے دور رہے گاڑی سے ! دھبہ لگ جائیگا" اور پھر ہاتھ بڑھا کر ڈور لگا لیا ۔۔۔۔۔  لڑکا اپنے ہاتھوں کو غور سے دیکھتا رہ گیا 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔321
زخم



  رتنا ایک پڑھی لکھی آزاد خیال لڑکی تھی   سونے پر سہاگہ وہ اپنے گھر کی اکلوتی  بیٹی بھی تھی ۔ وہ  صنف مخالف کی زیادتی پر  مزحمت کے بعد خود کو پرسکون محسوس کررہی تھی ۔ آج کی عورت مجبور نہیں ۔ وہ پہلی ضرب پر ہی اپنی آواز بلند کرکے ظلم کو پنپنے نہیں دے گی وہ مظلومیت کی لپٹی چادر نکال کر ہمت کی عبا  پہنے لگی ہے وہ سارا راستہ ایسا ہی کچھ سوچنی رہی  ۔ 
رتنا اپنے باپ اور بھائیوں کے ساتھ سسرال سے اپنے میکے کے گھر میں داخل ہوئی تو بڑی خوش تھی اس نے زنانی بیٹھک میں جاکر اماں سے مل کر لپٹ گئی اور کہنے لگی ۔اماں بابا اور بھائیوں نے میاں اور سسرال والوں کا لڑ لڑ کر مزاج بحال کردیا پورا محلہ جمع ہونے لگا تھا ۔آخر میں وہ لوگ معافیاں چاہنے لگے تھے اور مجھے گھر سے نہ جانے سے منا کررہے تھے مگر بابا نے کہا کہ چار 
دن آرام کرنے کے بعد وہ مجھے واپس گھر بھیج دینگے اور مجھے لے کر آگئے وہ ایک سانس میں ساری روداد سنانے لگی ۔
ماں نے تیل میں ہلدی پکا کر برتن رتنا کے آگے بڑھا دیا ۔ ماں بابا تو ڈاکٹر بابو سے میرے یہاں آنے سے پہلے مرہم پٹی کروا چکے ہیں نا !۔وہ کہنے لگی
ماں نے خاموشی سے اپنی پیٹھ کی چادر ہٹائی اور بلوز کا بندھن کھول کر اس کے آگے کھڑی ہوگئی ۔ افف اماں ! رتنا مار کے زخم دیکھ کر مجسمِ حیران رہ گئی۔ آخر یہ کیا ہے اور کیسا ہوا ماں ۔ماں کی خاموشی اور بہتے آنسو اس سے ساری کہانی چپکے سے سنا گئے ۔ وہ بے اختیار گلا کرنے لگی ۔ یہ مرد ایسے کیوں ہوتے ہیں کیوں ہوتے ہیں وہ بار بار خود 
سے سوال کرتی رہی!!! اُسے اپنے دل اور جسم پر ایک اور کاری زخم کا احساس ہونے لگا ۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔