Sunday, October 11, 2015

تشنگی


  • رات گہری ہو چلی تھی حویلی کی رنگینیوں نے اپنے لئے کہیں اور جگہ ڈھونڈ لی تھی ۔ سب ملازم اپنے اپنے ٹھکانوں پر پہنچ چکے تھے ۔ شہزادی بیگم صاحبہ اپنی تسلی کے لئے وسعی و عریض عمارت پہ مشتمل حویلی میں موجود کمروں کے دروازوں پہ لگے تالوں کا معائنہ کرتی ہوئی راہ داری میں جب داخل ہوئیں تو بہو رانی کو بیگم صاحبہ نے اپنی آرام گاہ کی طرف جاتے دیکھا تو آواز دی "بہو " جی، امی جان "آپ ابھی تک نہیں سوئیں ' شہزادی بیگم نے تشویش بھرے لہجے میں پوچھا ۔ جی میں پانی لینے آئی تھی سوکھے حلق سے تھوک نگلتے ہوۓ بہو رانی نے جواب دیا.."کل سے خادمہ کو کہہ کر اپنے کمرے میں پانی کا بندوبست مغرب سے پہلے کر لیا کریں. جی بہتر'' وہ اتنا کہہ کر تیزی سے اپنی خوابگاہ کو ھولی۔
    شہزادی بیگم نے چند قدم آگے بڑھائے تھے کہ انہیں لگا جیسے بائیں طرف کھڑکی پر پڑا پردہ ہلنے لگا ہے۔ جب رک کر دیکھا توپردہ ساکت تھا پھر وہ پردے کے قریب آئیں اور پردے کو اٹھانے لگی تو پردے کے پیچھے سے بوا نصیبن نکلی بوا کی تین پشتیں اس حویلی میں کام کرتی چلی آرہیں تھیں.. چھوٹے نواب انہیں کے گود مین کھیل کر جوان ہوئے تھے ۔ "یہ کیا ہے، آپ یہاں کیوں تھی عیجب حرکتیں کرتی ہیں آپ ! ہماری تو جان ہی نکلے جارہی تھی ۔ تکلیف کے معذرت شہزادی بیگم صاحبہ . مجھے آپ کو ایک خاص بات بتانی ہے آپ میرے کمرہ میں چلیں بتاتی ہوں ۔ "ہم آپ کے کمرے میں چلیں گے ہوش تو ہے آپکو شہزادی بیگم نے رعب کیساتھ متکبرانہ لہجے میں بوا سے کہا ۔ جی بیگم صاحبہ معافی چاھتی ہوں..بیگم صاحبہ نے تنبیع کرتے ھوۓ نصیبین سے کہا اچھا ٹھیک ھے آئندہ اپنی حیثیت مت بھولا کریں' حویلی کے مہمان خانے میں چلواسے رات میں بھی کھولا رکھا جاتا ہے..نصیبین آگے آگے ھو لی ۔راستے میں پڑنے والے مد ھم روشنی کی جگہ تیر روشنی کے سبھی بند بلبوں کے بٹن کھولتی جاتی..شہزادی بیگم نصیبن کے پیچھے پیچھے چلتی ہوئی مہمان خانے تک پہنچی..
    مخملی ریشم سے ملبوس تخت و تاج جیسی معلوم ہوتیں کرسیاں ترتیب سے رکھی گئیں تھیں.. دیوار میں نصب قدِآدم بڑے نواب صاحب کی تصویر پر نگاہ ڈالتے ہوئے ایک کرسی کو شہزادی بیگم نے اپنی طرف موڑ کر برجمان ہوتے ہوۓ بوا کو مخاطب کرتے ہوۓ کہا ہاں بولو نصیبین.. بوا نے قریب اکر دھیمی سی اواز میں شہزادی بیگم سے کہنے لگی ۔اللہ اپ کے گھر کو ہمیشہ رونق بخشے میں کہوں تو چھوٹا منہ بڑی بات ہوگی آپ سے پہلے معذرت کی درخوست ہے ۔ تھوڑی دیر چپ رہنے کے بعد شہزادی بیگم حیرانگی اور غصے کے لہجے میں بولی کچھ بولو گی ؟ آپ تو ہمارے گھر پیدا ہوئی، امی حضور کے زیر سایہ بڑی ہوئی ہیں ۔ پھر کہنے میں جھجک کیسی بوا نے خوشامدی لہجے میں بیگم صاحبہ سے کہا. بات یہ ہے بیگم صاحبہ ابھی بہو رانی کو حویلی میں بیاہ کر آۓ صرف دس مہنے ہوۓ ہیں روز چھوٹے نواب صاحب رات میں باہر جانے لگتے ہیں تو وہ ہر دن سینہ سپرہوکر روکنے کھڑی ہوجاتی ھے..طرح طرح سے منتیں کرتی ہیں دہائیاں دیتی ہیں.. میں ہر روز چپ چاپ یہ معاملہ دیکھتی رہتی ہوں اور چھوٹےنواب صاحب ٹس سے مس نہیں ہوتے۔ کئی بار آپ سے کہنے کا ارادا بھی کیا مگر آپ کے رعب و دبدبے نے ہمت پست کردی ۔ " نصیبن بوا آپ نے تو ہمیں پریشان کردیا نوابوں کی زندگی میں یہ سب تو ہوتا ہی رہتا ہے آپ کو نہیں معلوم کیا؟ ہمارے ساتھ بھی تو ایسا ہوتا رہا تھا پھر ایک وقت کے بعد نواب صاحب کے دوستوں کی بیٹھک حویلی میں لگنے لگی ..ایک وقت آیا سبھی دوست ایک ایک کرکے غیر حاضر ہونے لگ گئے آہستہ آہستہ نواب صاحب کے دوستوں کی بیٹھک ختم ہو گئی۔ آپ دروازے اور لائیٹ بند کرکے آرام کرلیں " یہ کہہ کر شہزادی بیگم تیز تیز قدموں سے اپنی آرام گاہ کیطرف چل دی.
    بہت ہی بڑا کمرہ جس کو بہت ماہرانہ انداز سے سجایا گیا تھا موتیاں کے پھولوں کی مہک چاروں طرف بکھری تھی کمرے میں پڑی آرامدہ مسہری پر لیٹی بہت دیر تک پریشانی کے عالم میں شہزادی بیگم سوچتی رہیں.. کب نیند نے اپنے پر پھیلا کر آغوش میں لیا خبر بھی نہ ہوئی ۔ صبح ہوتے ہی ناشتہ کرنے کے بعد شہزادی بیگم نے بوا کو بھیج کر بہو رانی کو بلوایا. بہو رانی حیرانی اور پریشانی کے عالم میں سوچتی رہی آخرکار کیونکر مجھے بیگم صاحبہ نے بلوایا ھے.. یوں اچانک آج کیسے ؟ اس سے پہلے تو مجھے کبھی نہ بلوایا، آخر کچھ نہ کچھ بات ضرور ۔ کہیں بیگم صاحبہ کو چھوٹے نواب کی خبر تو نہیں لگ گئی اور میرا روکنا انکو ناگوارتو نہیں گزرا ہو گا. وہ ہیں ہی ایسی سخت مزاج.. روایتی نواب زادی .. کیا بات ہوگی وہ سوچتی رہی.. جبکہ دسترخوان پر مختلف انواع اقسام کے پکوان رکھے ہونے کے باوجود تھوڑا سا لیکر زہر مار کرلیا اور نعمت خانہ کیطرف چل دی " آئیں یہاں تخت پر ہمارے قریب آ جائیں" یہ کہتے ہوئےکئی تختوں میں سے ایک تخت پر بیٹھی شہزادی بیگم نے گاوتکیہ (لمبا اور گول ہوتا ہے) سے ٹیک لگاتے ہوۓ کہا. اس کشادہ اور خوبصورت نعمت خوانے میں تھوڑے تھوڑے وقفے پرتخت بچھے تھے جن پہ مخملی سفید اور سرخ رنگ کی چادریں چڑھیں تھی.. سب تختوں کے بیچ میں دبیزلال قالین ڈالی گئی تھی تختوں پر سرخ گاو تکیے اور کشن سلیقے سے رکھے گئے تھے دیواروں پر دیوارگری لگائی گئی تھی دروازوں پر چھت سے لٹکتے ریشمی پردےجو فرش تک لٹک رہے تھے ۔ چھوٹی بہو نے سارے کمرہ کا طائرنہ جائزہ لیا اور بیگم صاحبہ کے ساتھ والے تخت پر براجمان ہوگئی ۔
    آپ گھبرا کیوں رہی ہیں آپ ہمارے اکلوتا بیٹے کی بیوی ہیں ۔ اس گھر کی مالکہ ہونے کیساتھ ہماری بیٹی جیسی ہیں ۔ بہت امیدیں وابستہ ہیں ہمیں آپ سے۔۔۔۔۔ بہو رانی نے بولنے کے لیۓ ابھی آدھا منہ ہی کھولا تھا کہ شہزادی بیگم نے ٹوکتے ہوۓ کہا ہماری پوری بات سن لی جیۓ. آپ کی شادی ہوۓ سال ہونے کو ہے.. ھمیں اپنی حویلی میں بچے کی گلکاریاں اور اٹھکھیلیاں دیکھنےکے لئےدل بےچینی سے منتظر ہے ۔ بہو رانی کا چہرہ گلنار کی طرح سرخ ہوگیا جو اس کے دل کی آرزو خوشی بنکر چہرہ پر واضع نظر آرہی تھی اور شرم و حیا کی لالی الگ تھی یا پھر کچھ اور .. شہزادی بیگم کی بات پوری ہونے سے پہلے چھوٹی بہورانی نے امی جان " کہہ کر لپٹ گئی ۔شہزادی بیگم نے پیار سے سر سہلایا پھر کہنے لگی میری اچھی بہو رانی مجھے سب معلوم ہے چھوٹے نواب روز باہر دوستوں کی محفل سجانے چلے جاتے ہیں بس ہمارے نور نظر کو آجانے دیں ہم ان کی خبر لیں گے آپکو فکرمند ھونے کی ضرورت نہیں..آپ کسی کچے دھاگے سے نہیں بندھیں ۔ آپ کے سر پر ہاتھ رکھ کر لے آئیں ہیں ۔ ہم نے حویلی کا ملازم آپ کی والدہ کو بلوانے بھیج دیا ہے ۔ ان سے ملکر آپ کو یقینا مسرت ہو گی ۔ شہزادی بیگم خود کو بہو رانی سے الگ کرتے ھوۓ نرمی سے بولیں..آپ روز روز چھوٹے نواب کو تنگ نہ کیا کریں یہ حویلی آپ کی ہے اور ہم وعدہ کرتے ہیں اس حویلی میں آپ کی جگہہ کوئی اور بہو نہیں آ سکتی ۔ خوش رہیں اور اپنی والدہ کے آنے سے پہلے ملازموں سے کہہ کر دعوت کا پرتکلف اھتممام کروا لیجیۓ..
    ماں کو دیکھ کر جیسے بہو رانی کے دل کو بہت عرصے بعد سکون ملا مایوس اور شکستہ دل کو تسلی ہوئی چہرے پہ رونق لوٹ آئی..جتنی دیر ماں رہی بہو رانی کسی نہ کسی بہانہ سے مہمان خانہ میں رات کے وقت بھی چکر لگاتی رہتی.۔ایک دن اماں جی نے بہو رانی کو خانہ باغ چلنے کے لیۓ کہا.. بہو رانی نے شہزادی بیگم سے اجازت چاہی کہ ہم امی جان کے ساتھ اپنے گھر کا باغ دیکھنے چلی جائیں آجکل وہاں بہت سارے رنگ برنگے پھول لگے ہیں عرصہ دراز سے باغیچے میں پھول کھلتے نہیں دیکھے تازہ ہوا نہیں لی..انہیں دیکھ آئیں ۔ ہاں چلی جائیں مگر جلدی آئیے گا..اجازات ملتے ہی ماں بیٹی باغ کی طرف چل دیں جہاں نہ حویلی کے ملازم تھے نہ کوئی اور وہاں پہنچ کر خوب دکھ سکھ بانٹے ، گھر کی بہنوں بھائیوں کی باتیں کرتی رہیں .اماں نے پوچھا کہ آپ تو بی بی خوش ہیں ناں ؟ اس سے پہلے کے بیٹی جواب دیتی ماں پھر بولی اتنا اچھا سسرال تو قسمت والوں کوملتا ہے ، نہ آگے کوئی نہ پیچھے کوئی حصہ دار ۔ "امی جان دھن دولت سب کچھ نہیں ہوتی اگر میاں کی محبت نہ ملے تو یہ سب بیکار اور بے معنی ہے پھر ایسی جائیداد کا کرنا کیا ؟ اماں نے منہ پر حیرت سے ہاتھ رکھتے ہوۓ کہا. آپ ہماری بیٹی ہیں لال حویلی کی غزالہ خانم کی، نواب سرفراز جنگ بہادرکی بیوی اور سر ہدایت اللہ خان کی بیٹی ہیں ہم! ہمیں سب بتادیا گیا ہے چھوٹے نواب کی بے اعتنائی لاپرواہی کے متعلق ، آپ کے والد نواب ہونے کے باوجود ہم سے رشتہ ازواج قائم ہونے کے بعد دوستوں کی محافل سے یوں دور ہوۓ کہ آج تک پلٹ کرادھر دیکھا تک نہیں.۔ سنو بٹیا رانی آپ کو ایسے گر سکھاتی ہوں کہ جمائی راجہ مٹھی میں بند نظر آئیں گے.
    چوڑی ، کنگن ، مالے ، بالے لچھے ، جھمکے ، پازیب صرف پہنا نہیں جاتا ۔ آو میں آپ کو سکھاتی ہوں کہ کیسے پازیب پہن کر چھم چھم چلنا اور کھڑے ہوکرکب چھن چھن کی آواز نکلنی چاہئے .ترچھی نگاہوں کے تیرکب چلا کر مرٖغِ بسمل کی طرح تڑپایا جاۓ۔ چوڑیوں کی کھنک کیسے من کو بھاتی ہے ۔ مہندی سولہ سنگھار کرنا کیوں سہاگن کو ضروری ہے ۔ عطرو خوشبو کی دھونی سے کیسے مدہوش کیا جاسکتا ہے ۔ باورچی سے من پسند چیزیں بنوا کر اپنے نام سے پیش کرکے نزاکت سے اپنے ہاتھوں نوالا دیا جاتا ھے سنو اپنی عزت پہلے خود کرنا سیکھو۔ خود کو حقیر و ذلیل کبھی مت سمجھو ایسا کرو گی تو دوسروں کو ذلیل کرنے کا موقعہ مل جائے گا ۔ کبھی کمزور نہ ہونا کامیاب وہی ہوتے ہیں جو آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہیں۔ آپ بھی کسی سے کم نہیں ہیں گوری ایسی کے ہاتھ لگانے سے میل لگے ۔اونچی ناک ،غلافی آنکھیں ،پتلے ہونٹ جاذب نظر سراپا ۔متانت سے بھرا لب و لہجہ ۔ اس شہر کی سب سے بڑی حویلی کی مستقبل قریب میں اکلوتی مالکن ہو ۔ آٹھ دن میں اماں جی صاحبہ نے اتنی باتیں سمجھائیں کہ بیٹی ماں کی زبان بولنے لگی..ماں چلی گئی لیکن بہو رانی نے ان نصیحتوں کو پلو سے باندھے عمل پیرا ہوتی رہیں ۔ تھوڑے ہی عرصے میں حویلی کا ماحول بدل گیا۔ اب دونوں ہنستے مسکراتے ساتھ ساتھ رہتے انہیں دیکھ کر سب خاص و عام خوش ہوتے دعائیں دیتے مگر چھوٹے نواب دس سال بعد بھی محافل میں رونق افروز ہوتے رہے بہو رانی کے دل میں کھٹک برقرار رہی ۔ ویسے بھی صبر کرتے کرتے عادی ہوچکی تھی. اس طویل عرصہ میں گھر کے چراغ کی امید کی جوت جگاۓ شہزادی بیگم نہیں تھکی تھیں۔ البتہ اس گھڑی کو کوستی جب بہو رانی کو وعدہ دے بیٹھیں تھی کہ کسی اور کو بہو بنا کر نہ لایا جاۓ گا..
    اچانک ایک دن بہو رانی کے پیٹ میں شدید تکلیف شروع ہوگئی لال حویلی سے اماں جی بھی آ گئیں شہزادی بیگم اور انہوں نے مل کر بہو رانی سے کئی سوال کر ڈالے جب ان کو یقین ہوگیا تو پھولیں نہ سمائیں. دونوں نے مزید سات مہینوں کی مدت کا حساب لگایا.. خواہشوں کی منڈیر پر تڑپتی مچلتی خوشی ایسی کہ اپنی مانی ہوئی منتیں مرادیں گننے لگیں.. پھر ایک دوسرے کو خوشی سے دیکھتیں گلے لگاتیں اور کہتیں سب ادا ہو جائیں گی.. پہلے بہو بیگم کی تکلیف ختم ہونا ضروری ہے ۔ ڈرئیوار سے کہہ کر گاڑی نکالی گئی سب گاڑی میں بیٹھ کر ہسپتال ہو لیۓ۔ شہزادی بیگم نے پہنچنے سے پہلے لیڈی ڈاکٹر کو فون پہ اطلاع دے رکھی تھی۔ ڈاکٹر ایسی جس سے بات کرنے کے لیۓ بھی مہنوں پہلے وقت لینا پڑتا تھا عام شہریوں کو . ڈاکٹر کے روم میں پہچے دو تین ٹیسٹ کروائے پھر مریض کا چیک اپ کرنے لگی ایک دو سوال کرکے پھر چیک کرنے لگی ۔ بہو رانی کو بیڈ پر جا کے لیٹنے کو کہا ۔۔۔۔ کچھ دیر بعد لیڈی ڈاکٹر اپنی میز پر آ کر بیٹھ گئی ۔ مضطرب نظروں سے سب دیکھنے لگے ۔ آپ دونوں میں ان کی ماں کون ہیں ۔ "جی یہ" شہزادی بیگم نے اشارے سے بتایا ۔ ان کی عمر کیا ہے ؟ "جی بتیس سال " آپ لوگ عجیب ہوتے ہیں اتنا سارا پیسہ ہونے کے باوجود اپنی کنواری لڑکیوں کو بوڑھی کر دیتے ہیں۔ "کیا " دونوں کی انکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں ۔
  • Kauser Baig

2 comments:

Anonymous said...

بہت خوب۔ آپکے لکھنے میں بہت بہتری آئی ہے، بے انتہا مبارکباد قبول فرمائیے۔
پر وہی پرانی درخواست قومی مسائل پر بھی لکھنے کی کوشش کیجئے جیسے مہنگائی، غربت، کرپشن وغیرہ
:)
میم عین

کوثر بیگ said...

اس ستائش کےلئے آپ کی بہت ممنون ہوں آپ جیسے مہربانوں کی نظر کرم رہی تو انشاءاللہ آگے بھی بہتری کی کوشش ہوگی ۔آپ کی مفید رائے کا شکریہ ۔۔۔اللہ آپ کوسدا خوش و خرم رکھے ۔

Post a Comment

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔