Monday, January 26, 2015

پاکستان میں آخری شام


آخری قسط


جانے سے ایک دن پہلے پیاری کشور کا فون آیا کہ آپی 
آپ رات میرے گھر ڈینر کیجئے گا میں کیسے ہاں کرتی جب کے ایک دن پہلے بہن کےسب بچے بڑی بھانجی کے پاس جہاں میں ٹہری ہوئی تھی جمع ہونے کا پروگرام بنایا ہواتھا ۔ میں کشور کی والدہ محترمہ سے فون پر بات کرکے انہیں اپنی مصروفیت کے بارے میں بتایا کتنا وقت کم ہے اور بہت کام باقی ہیں وہ بہت ہی مخلص لگی بڑی متانت سے بات کی جب میں نےان سے کہا کہ اگر کشور ہی میرے پاس آجائے تو میرا بہت وقت بچ سکتا ہے وہ بڑی اچھی بی بی ہیں میری بات کو سمجھکر مغرب تک بھیجنے کا اردہ ظاہر کیا تو میں پھر ایک بار شش و پنچ میں آگئی پھر میں نے بلا وقفہ کہ انہیں بتایاکہ مجھے مغرب پر کہیں اور جانا ہے ۔وہ مغرب سے پہلے کشور کے ملاقات کا وقت طے ہوا اور ہم رجسٹریشن آفس سے نکل کرہم دونوں الگ رہ اختیار کی میں دونوں بھانجیوں کے ساتھ شاپنگ کو چلے گئی اور میاں اپنے آفس کے ساتھیوں سے ملاقاتوں کے لئے بڑی بھانجی اورانکےمیاں کے ساتھ چلے گئے ۔



جلدی جلدی سارے بچوں کے لئے کچھ نہ کچھ خریداری کی ابھی خرید ہی رہے تھے کہ صاحب کا فون آیا کہ تمہاری دوست گھر سے نکل چکی ہے جلدی سے تم بھی آجاؤں پھر ہمیں جانا بھی ہے ۔ ہم نے شاپنگ کو دی اینڈ کہا مگر اچانک ہماری فیملی کے نئے ممبر جو پانچ ماہ پہلے شامل ہوئےداماد کے لئے کچھ بھی تحفہ نہیں لینے کے خیال کے ساتھ ہی ہم نے فوراً فیصلہ کیا کہ گھر پر جانا ضروری ہے میری ایک بھانجی جوداماد کا کرتا خرید کر اپنی گاڑی میں واپس چلے جائے گی پھر رات میں آکر ملے گی اور چھوٹی بھانجی کے ساتھ میں نے پاکستان کے پندرہ دنوں میں پہلی بار آٹو میں بیٹھکر گھر کی رہ لی راستہ میں فون آیا کہ کشور آچکی ہیں ہم ویسے ہی اندر سے بے چین تھےپہلی بار کسی نیٹ کی سہیلی سے مل رہے تھے اس فون نے ہمارے سارے بند توڑ دیے اور میں بار بار ابھی کتنی دیر ہے پوچھ پوچھ کربھانجی کو بہت تنگ کیا ۔
 
بڑی دعاؤں ارمانوں اور تمناوں کے بعد کشور سے ملنے کی خواہش پوری ہونے والی تھی۔ پتہ نہیں ایک عجیب سی بے چینی تھی ناجانے کیسا لگے گا ملکر۔ صبح آٹھ بجے کے گھر سے نکلے تھکے ہوئے برقع نے اور ادھ مرا کردیا تھا۔ شوپنگ کا ٹنشن کمر توڑ گیا تھا، وقت کی کمی کا احساس کھایا جارہا تھا، پیکنگ کی فکرالگ تھی، لمبے سفر کی ذہنی تیاری اوربہن کی جدائی کا غم ،گھر اور بچوں سے ملنے کی مسرت کئی ملے جلے احساسات
میں، میں گھری ہوئے تھی ۔


اللہ اللہ کرکے گھر آگیا
برقع اتارکر ایک طرف رکھا شاپنگ بیگس دوسری طرف رکھے ابھی منہ پر تھوڑا پانی مارکر تازہ دم ہوجاؤں سوچا ہی تھا کہ میاں اور بہن نے کشور سے جاکر جلد ملو بے چاری تمہارا انتظار کررہی ہے کہا تو ویسے ہی میں نے ہینڈ بیگ ایک طرف ہٹا کررکھا اور کشور سے ملنے ڈرئنگ روم میں چلی آئی جہاں وہ اپنے بھائی کے ساتھ جلوہ آفروز تھی مجھے دیکھتے ہی کشور بہت پیار سے ملنے آگے بڑھے اور میں خود کو روک نہیں پائی انکو گلے سے لگا لیا ۔ان کے بھائی نے بھی بڑے ہی اخلاق کامظاہرہ کیا وہ سارا وقت کبھی مجھے دیکھتے تو کبھی کشور کو جب بھی میں نے بھائی کی طرف دیکھا وہ زیر لب مسکراتے نطر آئے ۔انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ ماشاءاللہ سے حافظ قرآن ہیں تعلیم میں وقت دینے سے قرآن کو دہرانے اور حفظ برقرار رہنے دعا کرنے بھی کہا اللہ انہیں اپنے مقصد میں کامیابی دے ۔

میری اور کشور کی خوشی مشترکہ تھی ہم دونوں اتنے خوش تھے کہ ہمیں بات کرنے الفاظ نہیں مل رہے تھے بس زیادہ تر ایک دوسرے کو دیکھے جارہے تھے ہنسے جارہے تھے خود کو یقین دیلانے بات کرنے کی کوشش کررہے تھے میں نے بعد میں سوچا تو سمجھ آیا کہ لوگ سچ ہی کہتے ہیں محبت کی کوئی زبان نہیں ہوتی


اس مختصر ملاقات میں میں کشور کو دیکھتی اور محظوظ ہوتی رہی کبھی ان کی ریشمی آواز میں گم ہوتی تو کبھی ذہین آنکھوں میں جھکتی اور کبھی موہنی صورت کو تکتی اور کبھی لباس کی پاکیزگی اور ڈوپٹہ کے بندھنے کے انداز سے متاثر ہوتی۔میں نے ایک بار انکے پڑھے لکھے قابل ہونے کی تعریف کرنے پر اور ایک بار انکی اچھی اچھی تحاریر کی تعریف کی تو وہ بہت عمدگی و انکساری سے ٹال گئی ۔ بہت ملنسار، سادگی پسند،ہنس مکھ نازک سی بہنا ہیں ۔میرے ساتھ ساتھ میاں بھی ان سے ملکر خوش تھے ایک وجہہ ان کی خوشی کی یہ تھی کہ وہ میری ساس کی ہم نامی ہیں دوسری وجہہ کشور کی بات چیت انداز تہذیب سے متاثر ہوئے۔

میں محسوس کررہی تھی کشورکے دل میں ایک ساتھ بہت سارے خیالات اور سوالات چھپے تھے میں نے دل ہی دل میں کہا میں سارے جوابات دہنا چاہتی ہوں میں ہر خیال پر تفصیلی بات کرنا چاہتی ہوں مگر وقت کم ہے ہم یہ سب نیٹ پر بھی شیئر کرسکتے ہیں مگر مل نہیں سکتے اس لئے ہم نے تصویر لے لی کہ یہ یاد زندہ رہے میں نے کشور کے قریب بیٹھ کر انہیں دیکھ کر اپنی آنکھیں ٹھنڈی کی مجھے لگا یہ میری ننھی منی سی بہنا ہے یہ میری بیٹی ہے جو کچھ دیر میں مجھے سے پھر دنیا کی بھیڑ میں جدا ہوجائیگی میں نے خود سےکہا جتنا ساتھ ہے غنیمت ہےجتنا وقت سمٹ سکتی ہوں سمٹ لوں

بعض بہت اچھی یادیں اور بہت قیمتی لمحے ہوتے ہیں کچھ ہماری زندگی میں جو گزار تو جاتے ہیں مگر وہ امر ہوجاتے ہیں ۔ جس کا جتنا بھی اللہ کا شکر کریں کم ہے اللہ میرے پیاروں پر ہمیشہ کرم فرماتے رہے انہیں ڈھیروں خوشیاں دے۔ ہمارے پاس وقت کم تھا مجھے پھر دوسری جگہ ملاقات کو جانا تھا نہ چاہتے ہوئے بھی ہمیں جدا ہونا تھا میں اندر ہی اندر بہت بے چین ہوئی کشور کو جاتا دیکھ کر دل کرتا تھا کہ دروزے سے نکل کر سیڑیوں سے نیچے تک چھوڑ آوں مگر کب تک ساتھ رہ سکتی تھی الگ تو ہونا ہی تھا جب تک نظر آئے دیکھتی رہی اور محسوس کرتی رہی کہ کشور ذہنی طور سےبہت دیر تک میرے ساتھ رہیں ہیں ۔۔۔۔۔

نیٹ کےکراچی میں رہنے والے اور بھی دوستوں سے ملنے کاخیال تھا جو پورا نہ ہوسکا جیسے ون اردو کی مانوگھر سے باہر تھی اسی لئےصرف فون پر بات ہوسکی۔ ون اردو کے امان بھائی ،بلاگروقار اعظم،بلاگرشعیب صفدر بھائی سے ملنے کو من تھا مگر ان سےربطہ قائم کرکے اجازات لینے کاسوچتی رہ گئی موقعہ ہی نہ ملابلاگر اسریٰ غوری کو میسج کیا تھا مگر جواب نہ ملاشاید وہ دیکھی نہیں ایک اور فیس بک کی اچھی سی دوست شاہدہ حق ان سے فون پر بات ہوئی اور ملاقات ہوتے ہوتے رہ گئی۔ جس سےملے اور جس سے نہ مل سکے اللہ ان سب کو شاد و آباد رکھے


مغرب کے وقت پر میرے سسرالی رشتہ دار وقت کی کمی کی وجہہ سے ایک جگہ جمع ہونے والے تھے ۔ تیار ہونے کا صبح ہی سے وقت نہیں مل رہا تھااسی حالت میں فوراً برقع پہن کرمیاں بہن اور انکے داماد کے ساتھ نکل پڑی وہاں بھی صاحب اور میزبانوں نے بچپن کی یادیں بزرگوں کی وفات کے تذکرہ وگزشتہ حالات کی باتیں کرتےرہے اور کئی چیزوں سے ضیافت کے بعد جانے کی اجازات ملی ۔


گھر آتے ہی ہم نے پیکنگ کی اسی دوران ایک کے بعد ایک بہن کے سب بچے آنے لگے سب نے ملکر کھایا پیا اور بہت دیر تک ہنستے بولتے بیٹھے باتیں کرتے رہے ۔ بہت یادگار بیٹھک رہی ہم نے کیمرے میں بھی کچھ باتیں ریکارڈ کرلیں تین بجنے پر سب اپنے اپنے گھر کی رہ لی کہ صبح آٹھ بجے ایر پورٹ بھی توجانا تھا ہم نے اپنی باقی پیکنگ پوری کرلی بستر پر لیٹے تو نیند کوسوں دور تھی کئی باتیں دماغ میں آنکھ مچولی کھیل رہی تھی میں نے سب کو چھٹک کرطبعیت صاف کی اور سو گئی ۔ صبح بہن کی آواز روح میں اترتی محسوس ہوئی وہ مجھے بیدار کررہی تھی۔ ایک لمحہ کو لگا تیس پیتیس سال پیچھے چلی گئی ہوں اور امی مجھے آواز لگا رہی ہیں ۔ جلدی جلدی بڑی بھانجی نے ناشتہ بنایا کھلایا ۔ بھانجے بھی آگئے وہ اوربہن کے بڑے داماداشفاق نے اپنی گاڑی میں ہمیں ایر پورٹ تک لاکرچھوڑا سامان کے ساتھ ہمیں اندر جاتے ہوئے دیکھتے رہے۔

ہم نے اپنا سامان ڈالا کلیر ہونے کے بعدجانے لگے تو بتایا گیا کہ پلین دو گھنٹہ دیر سے جائے گا ۔ ہم اندر جاکرانتظار کرنے لگے بے کارہی کبھی اس مسافرکو دیکھتی تو کبھی کسی دوسرے کا نظارہ کرتی بیٹھی رہی جب دو گھنٹہ ہونے کو آئے تو صاحب نے جاکر پھر دریافت کیا تو پتہ چلا کہ اور تین گھنٹے دیر سے جانا ہوگا ۔ سعودیہ سے کئی بار پرواز کیا ہے یہ پہلا اتفاق ہے کہ پلین اتنے گهنٹے لیٹ ہے .شاید کچه دیر اس سر زمین پر کهڑا رہنا ہے یہاں کی ہوا کهانی اور پانی پینا ہے سوچکرجانے کے منتظر رہے۔

بھوک اور تھکن محسوس ہونے لگی ایر لائن والوں نے لنچ کا انتظام کیا تھا ہم نے بھی نام لکھوایا اور کھانے کے بعد آگے سفر کے لئےکچھ تقویت پائی ۔اب کرسی پر برجمان اطراف نظریں دوڑتی رہی تو کبھی فون پر نیٹ سے دل بہلاتے رہے کبھی اِدھر اُدھربے مقصد چکر کاٹے تو کبھی آنکھیں بند کرکے کرسی پر آرام کرنےکی کوشش کرتی رہی غصہ بھی آتا کہ جب ہم اپنوں کے ساتھ تھے تووقت َپرلگا کر اُڑرہا تھااور اب وقت جیسے بھاگتے بھاگتے تھم سا گیا تھا۔ ُسستانے رکا ہوا تھا ۔ چاہتے ہوئے ہو یا نہ چاہتے ،وقت کے ساتھ تو چلنا ہی ہوتا ہے۔ بلاخر روانگی کا اعلان ہوا جسے سنتے ہی ہم نے پلین کی رہ لی سیٹ تک پہچتے پہچتے ہمیں خیرمعمولی طور پر دو بار چیک کیا گیا ۔ ہم تو سیٹ تک آنے میں پھرتی دیکھائے مگر دوسرے لوگوں کی چیکینگ ہوتے ہوتے ہمارا دم گھٹتامحسوس ہورہا تھا ۔ پلین پرواز کرنےلگا ۔ کچھ کم پانچ گھنٹہ میں دمام ایر پورٹ پہچ گئے۔

ساڑهے آٹه کے گهر سے نکلے تهکے ماندهے مسافر غروب ہوتے سورج کے ساته دمام ایر پورٹ پہنچ گئے۔ سورج توبہت آگےاپنی منزل کی رہ جاچکا ہم یہاں اپنے سفر کا راستہ تلاش کرتے رہے گئے.بس سمجهیں کہ ہاتھی نکل گیا دم اٹک گئی ۔ منزل کے قریب پہچ کرمسافراتنا تھک جاتا ہے کہ اس کو ہمت سمیٹنے کا اصل یہ ہی وقت ہوتا ہے۔ باہر آئے سامان لیا دوسری لائن میں کھڑے رہے کراچی سے پلین لیٹ ہونے سے پھر میاں نے دمام ٹو جدہ کی سیٹ کےلئےکوشش شروع کردی ایک گھنٹہ کے انتظار کے بعدہم پھر ہوا کے دوش پر سوارتھے۔ گھر بچوں سے ملنے کی خوشی لیے جدہ ایر پورٹ اترے۔

بچوں نے خوب خوب لپٹ کر محبت کا اظہار کیا گاڑی میں سے ہی پاکستان کے رشتہ دار اور وہاں کی ایک ایک چیز کے بارے میں دریافت کرنے لگے ۔ اب بھی کبھی کبھی کوئی بات پوچھ کر مجھے یاد دیلادیتے ہیں ، بہن کا وہ نورانی چہرہ اور پاکستان کی یادیں وہاں کے لوگوں کا پیار آنکھوں میں سما جاتا ہے۔ 

وقت رخصت جو مجھے پیار سے دیکھا تم نے

اس سے بڑھ کر مرا سامانِ سفر کیا ہو گا




۔

Sunday, January 25, 2015

پاکستان کے یادگار ایام

پاکستان کے قیام کا عرصہ بہت ہی خوشیوں شادمانی اور مصروفیت میں گزرا ۔
 
بھانجی کے بیٹے کی شادی میں خوب شریک رہی بہت اچھی معیاری شادی تھی ۔ ماشاءاللہ دلہا دلہن بہت پیارے تھےانتظام کپڑے لتے سجاوٹ سب ہی بہترین تھی اللہ انہیں خوش و خوش حال رکھے ۔


بڑی بھانجی کی ضد و اصرارپر ہم وہاں گئے تھے ۔انہوں نے ہی ساری کاروائی بلانے کی خوشی خوشی سے کی جس میں ان کے میاں بچوں نے بھی بہت ساتھ دیا۔ ہم انہیں کے گھر مقیم رہے ۔


میرے تیسرے بھانجےامجد نے بھی آنے سے لے کر جانے تک خوب خیال رکھااچھی میزبانی کی اور منا کرنے پربھی تحائف بھی دئے۔


دوسرے بھانجے قدیرانکی فیملی نےمہمان رکھا خوب سیر تفرح کرائی ہر وہ جگہ لے کر گئے جہاں امان بھائی اور ون اردو کے ممبرز نے بتائی تھی اور مجھے یاد رہیں ۔ مزیدارپکوان کھلائے گھر کی مویز دیکھکر انجوائے کیا اورہمیں کپڑے بنائے۔


دوسری اور تیسری بھانجی نے اپنے گھر بھی بلاکر رکھا ان کے میاں بچوں بہت خلوص سے ملے اور بہت کم وقت میں عمدہ چیزیں خریدنے میں میری مدد کی اورتحفے بھی دئیے ۔



بڑے بھانجے لاہورمیں رہتے ہیں ۔ شادی کے لئے آئے تھے۔ میں جہاں بھی رہی وہ آکر ملتے رہےاپنے دلچسپ باتوں سے محظوظ کرتے رہے۔اور بھی بہت سارے حضرات سے ملاقات ہوئی بعض تو ایسے بھی ملے جن سے ملنے کی تمنا دل کے نہاں خانہ میں بند پڑی تھی جس سے کبھی ملنے کی امید تک نہیں تھی جیسے میری چیچا زاد بہن عائشہ ،چیچازاد بھائیاں احد بھائی اور صمد بھائی اور پھوپی زاد بھائی حسین ان سے مل کر مجھے خوشی کے ساتھ حیرت اور تعجب ہوا کہ ہم ہیں تو ایک دادا کی اولاد مگر اتنے طویل عرصہ کے بعد ملاقات ہوئی ہے۔ میری بہن کی نندیں ،میری بہنوں کے سارے بچے میری بڑی بھانجی  کے دیور اور نند ،چھٹانی کے بھائی رضی اور ان کی بیگم ، ون اردو کی نیٹ کی پیاری سی بہن کم دوست کشور اور انکے بھائی نے آکر ملا اور گفٹ سے نوازا مرحوم بڑی بہن کے صاحب زادے مع محل  آکر بہن کی کمی پوری کی ۔ بہت سارے سسرالی اقارب اور میاں کے آفس کے دوست ، خاص طور سے اپنی بہن جن سے ملنے کی تمنا نے ان سب سے ملاقات کا موقعہ فراہم کیا اور بھی بہت سارے لوگوں سے ملاقات ہوئی بہت اچھا لگا دلی خوشی ہوئی

مگر ہر بار یہ ہی سوچتی رہ گئی کہ یہ سرحدیں یہ فاصلہ یہ دوریاں کیسی ہیں مجبوریاں اپنوں کےدرمیان حائل ہوکر ہمارے دل میں محبت ہونے کے باوجود ہم کو جدا رکھتی ہیں ۔


سب کو ہماری وہاں رہنے کی ُمعینہ مدت بہت کم لگی سب نے بڑھوانے کہا تو چار اور پانچ تاریخ ہمارا ویزہ بڑھانے کی چکر میں گزار گیا اتنے لوگوں نے بڑھانے اپنے اپنے لوگوں کی پہچان سے کوشش کرنے لگے ( وہ لوگ زیادہ لوگوں کی شفارش سے گھبرا گئےشاید یہ میرا خیال ہے ) پاسپورٹ پر سعودیہ سے ویزہ لگنے پر اسلام آباد سے کاروائی کروانا ہوتا ہے کہہ کر ویزہ نہیں بڑھایا اورمیرے ایک ایک بچے بہویں اور پوتا پوتیوں نے الگ الگ آواز ریکارڈ کرکے واپس آجانے پر مجبور کیا۔


ہم نے دوسرے دن پھر رجسڑیسن آفس جاکر اپنے جانے کا اسٹامپ لگانے جلوہ دیکھا نے چلے گئے۔ ساری کاروائی کرنے تک چار بچ گئے۔


ہم ابھی تک رتی بھرشاپنگ بھی نہیں کرسکے تھے اورپھر اتنے لوگ ملنے کے باقی تھےاگر ہم اہم اہم لوگ بھی گنتے تو انگلیاں کی گرہ کم پڑجاتی۔ سب ہی بہت اداس تھے بعض نے تو اتنے کم وقت کے ویزہ سے خفا بھی ہوئے ہمارا دل بھی نہیں بھرا تھا ان سب کی ناراضگی پر ملال سا ہو رہا تھا پر کیا کرتے مجبوری تھی۔ سب کی محبت کو سمیٹ کر واپس جانا ہی تھا ۔


میں خود پہ اوڑھتا ہوں تیرے پیار کی ردا
تو خود پہ میری چاہ کا اُجلا لحاف کر
اس تلخیِ حیات کے لمحوں کا ہر قصور
میں نے معاف کر دیا ۔۔تو بھی معاف کر

جاری ہے


۔

Saturday, January 24, 2015

پاکستان میں پہلا دن




السلام علیکم

میری پیاری بہنوں اور اچھے بھائیوں

آج بہت دن سے چاہتے ہوئے بھی لیپ ٹاپ کی ناراضگی کے وجہہ سے اپنے سفر کا حال لکھ نہ سکی تھی آج ممکن ہوا تو سارے کام پس پشت ڈال کر لکھنے لگی ہوں


پچھلے دنوں میں اور میرے صاحب آٹھ دن کی کوشش کے بعد پاکستان کا ویزہ سعودیہ میں لگواکر چوبیس ڈسمبر تاریک رات میں دو بجے کے قریب ایر پورٹ پرپہچے ۔ بچوں نے بہت ہی اداس چہروں کے ساتھ ہم سے ملکر ہمیں جاتا ہوا دیکھکر ہاتھ ہلاتے رہے ۔


ہمیں پندرہ دن کا ویزہ ملا تھا ۔ سامان چیک کروا کر سامان دے کر پاسپورٹ اور بوڈنگ پاس لئے اور اندر داخل ہوگئے تب تک بھی بچے کھڑے باہر سے ہمیں دیکھ رہے تھے ۔پھر پچیس کی صبح پاکستان پہچ گئے ۔

ایمیگریشن کی لائن میں کھڑے تھے کہ آدھی لائن تک پہچنے پر ہماری نظر انڈین مسافروں کے لئے مخصوص تختی پر پڑی تو ہم اس لائن میں لگ گئے کچھ ہی دیر میں ہمارا بھی نمبر آ ہی گیا میرے صاحب نے پاسپورٹ آگے بڑھیا تو وہ ویزہ وغیرہ کے مزید پیپرز کا مطالبہ کرنے لگے ہم اس بات سے بے خبر تھے کہ پاسپورٹ پر ویزہ لگنے کے باوجود ساری کاروائی پھر چیک کی جائے گی ۔ میاں نے وہ پیپرز سامان میں رکھ دیئے تھے۔مجھے سیٹ پر بیٹھاکر میاں نے اسے نکلا ۔ پھربتلایا گیا ۔ کئی سوالات ہوئے کس لئے آئے ہیں؟ کس نے بلایا ہے؟ بلانے والے کا نام ؟ پتہ ؟ شناختی کارڈ کی فوٹو کاپی ِ؟ کہاں قیام ہے ؟ کہاں سے ویزہ لگا ہے؟ کتنے دن کا ہے ؟۔یہ سب ان پیپر میں لکھا تھا مگر ہم سے بھی پوچھا گیا ۔ جب تشفی ہوگئی تو ہمیں اندر جانے کی اجازات ملی اور ہم سامان لے کر باہر آئے جہاں ہمارے رشتہ دار بہت دیر سے منتظر تھے ۔



سب سے ملے خوب دلی خوشی ہوئی اور دوسروں کے آنکھوں اور زبان سے اپنی آمد کی خوشی دیکھ کر تو مزید خوشی دوبالا ہوگئی ۔


ہم سفر سے تھک گئے تھے جی توچاہتا تھا کہ آرام کرلیں مگر چوبیس گھنٹہ کے اندر رجسڑیسن آفس میں آنے کی اطلاع کرنی تھی میرا بدن سستانا چاہتا تھا اس لئے میرا جانا ضروری ہےکیا پوچھا صاحب چلے جائیں تو نہیں چلے گا؟ تو سب نے مجھے بھی جانا ضروری ہے جتنا جلدی نپٹا لیں یہ کام بہتر رہے گابولے تو بادل ناخوستہ جانا پڑا ۔


بہن کے بیٹے اور دماد ساتھ تھے سب پیپربنانا فوٹو کاپی نکلنا دینا لینے سب بھنجے نے کرلیا اب ڈی سی پی کے کمرہ میں جانا بذات خودملنا تھا مگر وہ اس وقت دروزہ لگا کر تناول طعام فرما رہے تھے ہم باہر رکھی کرسیوں پر سایہ میں ٹھنڈی ہوا میں جہاں اور بھی لوگ اپنے اپنے باہر سے آئےعزیز و اقارب کے ساتھ بیٹھےتھے ۔ سب ہی کےچہرے اپنوں سے دیرینہ ملاقات سے چمکتے دمکتے مسکرارہے تھے اور دھیمی دھیمی سرگوشیاں ماحول کوخوش گوار کررہی تھی ۔ میں سب کو بغور دیکھ رہی تھی میاں بھی باتوں میں محو تھے۔


پھر ہماری حاضری کا وقت آگیا ہمیں اند بلایا گیا سامنے ہمارے عزیز اور ہم دونوں پیچھے تھے قریب جانے پر ڈی سی پی نے بڑے رعب سے زوردار آواز میں دور ہٹنے اور دیوار سے لگے صوفوں پر بیٹھنے کہا ۔ پھر ہمارے عزیزوں سے کس نے بلایا کیوں بلایا کہاں رہتے ہوشناختی کارڈ وغیرہ کے بارے میں پوچھاجب کہ انہیں معلومات کے پیپرز پہلے ہی ملاحظہ کرنے اور ریکاڈ رکھنے دے دیے تھے پھرہمارے طرف توجہ فرما کرنرم لہجہ میں وہ ہی ساری باتیں دوہرا کر پوچھے اور سعودیہ کے قیام کی مدت، جاب،پڑھائی،انڈیا سے کہاں سے تعلق ہے سولات پوچھے جب حیدرآباد شہر کے رہنے والے ہیں بتایا تو مسکرا کر حیدرآبادی بریانی مرجیوں کا سالن وہاں کے بارے میں بڑی خوشی سے باتیں دریافت کرنے لگے ۔میں نے دل ہی دل میں سوچا کہ میرے پیارے شہر یہ تو تیرے نام کا اثر ہے کہ مشکل وقت کو بھی آسان بنا دیتا ہے جس طرح حضرت علی کے چاہنے والے حیدرکرار پکارتے ہیں اور مدد پہچ جاتی ہے۔


اب کیا تری دیوار کے سائے کا بیاں ہو
کوچے کی ترے دھوپ بھی سایا سا لگے ہے


میں نے چپکے سے دل میں یہ شعر پڑھا اوروہاں سے واپس گھر آنے تک مغرب ہونے لگی تھی۔


جاری ہے

 بلاگ پر آنے کا شکریہ

Friday, January 16, 2015

توجہ

السلام علیکم

میرے اچهے بهائیوں اور پیاری بہنوں

آج کسی کام سے صبح ہم باہر گئے تهےگاڑی میں میرا چار ماہ کا پوتا میرے گود میں بیٹها تها. میں اسے گاڑی کے باہر دیکهانے کی کوشش کر رہی تھی اور وہ گلاس  تک ہی دیکه پارہا تها .بہت  دیر تک طریقہ طریقہ سے بتلانے لگی مگر وہ ہے کہ آگےدیکه ہی نہ سکا پهر میں نے ڈور کے بہت قریب کرکے اپنی جدوجہد کو بریک لگا دی - کچه دیر تو وہ ڈور کو گهورتا رہا گهورتا رہا پهر اچانک بازو سے گاڑیاں گزارنے لگی تو اس کومتحرک گاڑیاں  نظر آنے لگی  اور وہ بڑی خوشی سے اب ہر جانے والی گاڑی کو دیکهتا اور مسکراتے جاتا میں بڑی اشتیاق سے یہ سب دیکه رہی تهی اور سوچ رہی تهی کہ کسی بهی علم کا عالم یا کسی ہنر کا ماہر یا سچا مرشد  کی بهی نظر ایسے ہی وسع ہوتی ہے جب وہ ہم کو اپنے علم کو بتانے یا سمجهانے کی کوشش کرتا ہے مگر ہماری کوتاہی کی وجہہ سے ہم  ان کی بات کو سمجه نہیں سکتے  اکثر انکار کرجاتے ہیں اور کچه اپنی جستجو اور توجہ سے کوشش کرتے ہیں  ان کی یہ کوشش رنگ لاتی ہے اوران کی کوشش اور توجہ کی  وجہہ سے محدود نظر کو وسعت مل جاتی ہے .

آپ دیکهے گے کہ چاہئے وہ کوئی بهی علم ہو' توجہ سے ایک معمولی انسان کہاں سے کہاں تک پہچ جاتا ہے کوئی بزرگ اللہ کی راہ پر چلکر اپنی توجہ کو اللہ کی اطاعت میں مرکوز کرکے بہت روحانی ترقی کرلیتے ہیں تو کوئی شکر کو نمک میں تبدیل کرتے ہیں تو کوئی سمندر پرجانماز پچها کر نماز پڑهتے ہیں . آپ نے  ان جادوگروں کو بهی دیکهے ہوگے کہ توجہ کی وجہہ سے ہی وہ کیا کیا کرتب کر جاتے ہیں .

 تلاش معاش  والوں میں بهی انہیں کو منتخب کیا جاتا ہے جن کے نمبرات اچهے ہوں جو مزید وقت و توجہ دے کر تجربہ حاصل کریگے .رشتوں میں بهی ہم ان کا خیال زیادہ رکهتے ہیں جو ہم کو زیادہ توجہ اور محبت دینگے .اسی طرح ہمیں آخرت کے لئے بهی توجہ اور محنت کی ضرورت ہوتی  ہے اسی لئے  دنیا کو دارالعمل کہتے ہیں  ..تهوڑا وقت اور توجہ دیکر نماز پڑهیں اور آخرت کےبڑے عذاب سے بچ جائیں .اسی  طرح دوسرے نیک کاموں کے لئے بهی توجہ اور کوشش سے دنیا کی حقیر چیزوں کے بدلہ اللہ پاک ہم کو عظیم نعمت عطا فرمائے گا -ان شاءا للہ 
بس چاہے وہ دنیا کا کام ہو یا آخرت کا نیک ہو یا بد  توجہ کا محتاج ہے  اچهے کام پر توجہ دینگے تو  اچها ہوگا خراب کام پر توجہ دینگے تو نقصان میں رہوگے . اللہ ہم کو سیدهی راہ پر چلائے .آمین ے .