Tuesday, October 01, 2013

دعوت

 
 
 
السلام علیکم
 
حضرت خواجہ عثمان ہارونی رحمتہ اللہ کا قوال یاد آرہا ہے .اتنا کهاو کہ زندگی کے لوازمات پورے ہوں .اتنا مت کهاو کہ بے صبری و ناشکری اور غفلت پروان جڑهے.
آج کل شادیوں کا موسم چلا ہوا ہے .کل مجهے بهی ولیمہ کی دعوت میں شرکت کا موقعہ ہوا .لوگوں کا میز لگنے سے پہلے کهانے کے کمرے سے قریب جاکر بیٹه جانا اور میز کے تیار ہونے کی بات سنتے ہیں جانے میں سبقت کرنا عجب بے صبری کا اظہار لگا.

اور کهاتے وقت تو ایسا ...
لگتا ہے کہ گویا یہ ان کی زندگی کا آخری کهانا ہو یا پهر زمانے میں اب یہ آخری دستر ہو اس کے بعد رزاق آسمان پرا ٹها لیا جائے گا.نہ سامنے بیٹهے رشتے دار کا خیال نہ دیکهنے والوں کی پرواہ.بس سارا دهیان کهانے میں مصروف ، مصروف بهی ایسے کہ جیسے کسی دشمن پر ٹوٹ پڑے ہو اور پوری توجہ سے جنگ میں مصروف ہو.

میزبان بهی ہما قسم کے کهانے بنا کر ہرس میں مزید اضافہ کردیتے ہیں.پهر دعوت اڑانے کے بعد نام رکهنے کے بارے میں تو پوچهو ہی مت اتنی باتیں بنائی جاتی ہیں ک میں بتاتے جاو تو آپ تهک جائیں گے.

اتنے بڑے میز پر میں نے کسی کو اللہ کا شکر ادا کرتے نہیں دیکها اور نہ میزبان کا شکر گزار دیکها ..

ایک اور بات کهانا کهاتے وقت میزبان دیکه دیکه کر کهانا نکلے گے .کهانے کی دعوت دو تو سمجه لینا چاہئے کہ کهانے بلایا ہے تو پیٹ بهر کهلائیں اور کهانے آدمی کو بلایا جارہا ہے تواس حساب سے پکوان کیا ہی جاتا ہے .ظاہر ہے کہ ایسا کرنے سے کهانا بچ جائے گا. اگر سمجهدار ہو تو جلدی سےتقسیم کردینگے.اور تمام وہ لوگ ہی جاننے والے ہونگے جو کهاچکے ہیں.کوئی باسی کهانے سے کتراتے ہیں تو کوئی اتنا وصول کرلینگے کہ کها نہ سکے گے.اور اگر میزبان سست یا بخل ہو تو سارے کا سارا ضائع ہو جائے گا. پہلے تو دعوت میں مہمان اتنی دیر سے آتے ہیں پهر کهانا دیر سے کهاتے ہیں اور گهر واپس ہونے تک تو بہت دیر ہوجاتی ہے پیٹ بهرا ہو تو نیند مست آتی ہے دوسرا اتنی دیر تک جاگنا اور بیٹهے بیٹهے تهکن الگ ہوجاتی گهر آکر خواب غفلت میں پڑے سو رہتے ہیں.

ہم یہ بهول جاتے ہیں کہ ہم کو رزق اس لئے دیا گیا ہے کہ ہم کو اللہ کی عبادت میں تقویت ملے .بزرگوں نے مختلف اقسام کے کهانوں سے ہمیں منع فرمایا ہے.اور کهانے کے بعد اللہ کا شکریہ ادا کرنے کہا ہے ...اللہ ہمیں بے صبری ، ناشکری اور غفلت سے بچاتا رکهے .

6 comments:

جوانی پِٹّا said...

ہماری طرف کے دیہاتوں میں کھانا بٹھا کر کھلایا جاتا ہے۔ اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ایک تو عوام آرام سے کھانا کھاتی ہے، کیونکہ کھانا سامنے ہی رکھا ہوتا ہے۔ اور دوسرا گند کم ڈالتی ہے کیونکہ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ سامنے اور آس پاس بھی لوگ بیٹھے دیکھ رہے ھیں۔

کوثر بیگ said...

جی ہمارے ہاں بھی تھوڑی تھوڑی دور پر ایک چوکور میز رکھا جاتا ہے جس کے ہر سائیٹ چار چار کرسیاں رہتی ہیں۔اب پاس لحاظ لوگ بہت کم کرنے لگے ہیں ۔ یا شیخ اپنا اپنا دیکھی والا معاملہ ہوگیا ہے ۔اسی طرح کی باتوں کا احساس دیلانے کی کوشش کی ہے میں نے۔

بہت شکریہ کمنٹ کے لئے

افتخار اجمل بھوپال said...

دنیا بے صبری ہو چکی ہے ۔ اللہ اپنا کرم کرے

کوثر بیگ said...

جی بهائی بے صبری کے ساته بد تہذیب بهی ہوگئی ہے
آپ بہت دنوں کے بعد میرے بلاگ پر تشریف لے آئے مجهے بہت خوشی ہوئی ..اللہ پاک آپ کو صحت کے ساته رکهے.

کوثر بیگ said...
This comment has been removed by the author.
noor said...

ہمارے گاؤں میں بھی کھانا بیٹھ کر ہی کھلایا جاتا ہے

ہمارے گاؤں میں پہلے تو صرف ولیمہ کے کھانے میں ہی پورا گاؤں شریک ہوتا تھا مگر اب بے شرمی اور ہوس کی تو انتہا ہو گئی ہے ۔ ۔ اب تو شادی سے ایک دن قبل ہی گاؤں کہ اکثر افراد کھانے میں آجاتے ہیں جبکہ ایک دن قبل کا نظم صرف خصوصی مہمانان کے لئے کیا جاتا ہے ۔ ۔

اور اگر کھانا ختم ہو جائے تو میزبان / جس کے گھر شادی ہو اسے دیگ مجبورا" پھر سے چڑھانی پڑتی ہے

لوگ تو بن بلائے اس طرح آ جاتے ہیں مانو کہ یہ تو ان کا پیدائشی حق ہے !!!

- اللہ ہمارے حال پر رحم کرے۔ آمین

Post a Comment

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔