Thursday, August 22, 2013

زبانِ مقال

 

 
السلام علیکم
میرے عزیز بھائیوں اور بہنوں
 
آج میں نے جو موضوع منتخب کیا ہے اس کاتعلق بچے ہو کہ عمر رسیدہ، خواتین ہو کہ مرد، چاہے کسی بھی قوم سے تعلق ہو اور کوئی بھی پیشہ اختیار کرتےہواور دنیا کے کسی بھی قطعہ میں رہتے ہوں ہر وقت ہر گھڑی ان کا تعلق اس سے بنے ہی رہتا ہے یہ آپ کی شخصیت کی پہچان کراتی ہے یہ آپ کے باطن کو عیاں کرتی ہے یہ آپ کی تربیت اور ماحول کی عکسی کرتی ہے ۔کہنے کو تو چار حرف سے بنا یہ ایک لفظ" زبان" ہے۔
 
 یہ ہوتی تو چھوٹی سی نرم و نازک، بغیر ہڈی کی دو جبڑوں کے بیچ میں چھپی ہمیں اچھے ذائقہ دینے کے ساتھ ساتھ وہی بڑے بڑے فتنے فساد قتل و لوٹ مار اور محاذ آرائی کی وجہہ بھی بن جاتی ہے ۔اوراچھی بنی تو کبھی خیر خواہی ،ذکر اللہ ، تلاوت کلام ِ پاک صدقہ جاریہ ،بیمار کی عیادت، یتیم پر شفقت،غریب کی کفالت بھی اسی کے طفیل ممکن ہوا کرتی ہے ۔ دیکھا جائے تو یہ اچھی تو جگ اچھا یہ بگھڑے تو دنیا کو دشمن بنا دے ۔ اس کے دم سے دنیا تو دنیا آخرت کی بھلائی برائی بھی منسلک رہتی ہے۔ اس ہی لئے کہتے ہیں زبان شیریں تو ملک گیری ،زبان ٹیڑھی تو ملک بانکا ۔ نرم زبانی سے بہت سے کام نکل جاتے ہیں سخت کلامی سب کو دشمن بنا دیتی ہے ۔درحقیقت ہر ایک پر اسکا تصرف اور قبضہ ہے
 
ہر شخص کی یہ ہی خوہش رہتی ہے کہ لوگ مجھے چاہیں ، مجھ سے بلا غرض ملے میری ہر بات کا جواب دیے مجھے اپنا دوست بنالیں ،مجھے اچھا مانے وغیرہ۔۔تو ہم یہ سب حاصل کیسے کرے اس کے لئے ہم اللہ اور اس کے رسول کے بتائےہوئے احکام میں اس کا حل تلاش کرتے ہیں آقائے کائناتﷺ کی جلوہ گیری کی وجہہ سے ہماری دنیا اور آخرت کی بہتری کا راستہ وضع ہوا ہے ہمیں ا للہ کا پسند یدہ عمل کیا ہے اور اس کے بندوں سے کیسا معاملہ روا رکھنا چاہیے ہم کو آپﷺ نےکیاسیکھایا ہے آئیے ہم قرآن اور آپﷺ کی تعلیمات کی روشنی میں اس کی برائی اور بھلائی کے بارے میں جاننے کی کوشش کرتے ہیں ۔ باتیں کرنے کی حرص ،فحش کلامی ،جھوٹ ،غیبت،غمازی،چغل خوری،، غصّہ ،حسد، ہجو کرنا،لعنت کرنا ،سخن چینی کرنا،زبان درازی کرنا ، جھگڑے کرنا وغیرہ یہ سب زبان کی برائیاں ہیں اور ان سب سےبچے رہنا بھلائی ہے۔
 
قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ۝الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ۝وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ۝
بےشک ایمان والے رستگار ہوگئے۔جو نماز میں عجزو نیاز کرتے ہیںاور جو بیہودہ باتوں سے منہ موڑے رہتے ہیں۔سورة المؤمنون ۱ ، ۲، ۳ ۔
  
وَقُل لِّعِبَادِي يَقُولُوا الَّتِي هِيَ أَحْسَنُ ۚ إِنَّ الشَّيْطَانَ يَنزَغُ بَيْنَهُمْ ۚ إِنَّ الشَّيْطَانَ كَانَ لِلْإِنسَانِ عَدُوًّا مُّبِينًا۝
اور میرے بندوں سے کہہ دو کہ (لوگوں سے) ایسی باتیں کہا کریں جو بہت پسندیدہ ہوں۔ کیونکہ شیطان (بری باتوں سے) ان میں فساد ڈلوا دیتا ہے۔ کچھ شک نہیں کہ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے ۔ - سورة الإسراء ۵۳۔
 
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِّنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ ۖ وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا يَغْتَب بَّعْضُكُم بَعْضًا ۚ أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَن يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ تَوَّابٌ رَّحِيمٌ۝
اے اہل ایمان! بہت گمان کرنے سے احتراز کرو کہ بعض گمان گناہ ہیں۔ اور ایک دوسرے کے حال کا تجسس نہ کیا کرو اور نہ کوئی کسی کی غیبت کرے۔ کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرے گا کہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے؟ اس سے تو تم ضرور نفرت کرو گے۔ (تو غیبت نہ کرو) اور خدا کا ڈر رکھو بےشک خدا توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔ - سورة الحجرات ۱۲۔
 
وَالَّذِينَ لَا يَشْهَدُونَ الزُّورَ وَإِذَا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا كِرَامًا۝
اور وہ جو جھوٹی گواہی نہیں دیتے اور جب ان کو بیہودہ چیزوں کے پاس سے گزرنے کا اتفاق ہو تو بزرگانہ انداز سے گزرتے ہیں۔سورة الفرقان ۷۲۔
 
 
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ۝
اے اہل ایمان! خدا سے ڈرتے رہو اور راست بازوں کے ساتھ رہو ۔ سورة التوبة ۱۱۹ ۔
 
إِذْ يَتَلَقَّى الْمُتَلَقِّيَانِ عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمَالِ قَعِيدٌ ۝ مَّا يَلْفِظُ مِن قَوْلٍ إِلَّا لَدَيْهِ رَقِيبٌ عَتِيد۝
 
جب (وہ کوئی کام کرتا ہے تو) دو لکھنے والے جو دائیں بائیں بیٹھے ہیں، لکھ لیتے ہیں ۔ کوئی بات اس کی زبان پر نہیں آتی مگر ایک نگہبان اس کے پاس تیار رہتا ہے۔
۱۷ ، ۱۸۔ سورة ق
 
وَإِذَا رَأَيْتَ الَّذِينَ يَخُوضُونَ فِي آيَاتِنَا فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ حَتَّىٰ يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ ۚ وَإِمَّا يُنسِيَنَّكَ الشَّيْطَانُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرَىٰ مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ
 
اور جب تم ایسے لوگوں کو دیکھو جو ہماری آیتوں کے بارے میں بیہودہ بکواس کر رہے ہوں تو ان سے الگ ہوجاؤ یہاں تک کہ اور باتوں میں مصروف ہوجائیں۔ اور اگر (یہ بات) شیطان تمہیں بھلا دے تو یاد آنے پر ظالم لوگوں کے ساتھ نہ بیٹھو - سورة الأنعام ۶۸۔
  
الَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبَائِرَ الْإِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ إِلَّا اللَّمَمَ ۚ إِنَّ رَبَّكَ وَاسِعُ الْمَغْفِرَةِ ۚ هُوَ أَعْلَمُ بِكُمْ إِذْ أَنشَأَكُم مِّنَ الْأَرْضِ وَإِذْ أَنتُمْ أَجِنَّةٌ فِي بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ ۖ فَلَا تُزَكُّوا أَنفُسَكُمْ ۖ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقَىٰ۝
جو صغیرہ گناہوں کے سوا بڑے بڑے گناہوں اور بےحیائی کی باتوں سے اجتناب کرتے ہیں۔ بےشک تمہارا پروردگار بڑی بخشش والا ہے۔ وہ تم کو خوب جانتا ہے۔ جب اس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا اور جب تم اپنی ماؤں کے پیٹ میں بچّے تھے۔ تو اپنے آپ کو پاک صاف نہ جتاؤ۔ جو پرہیزگار ہے وہ اس سے خوب واقف ہے۔ سورة النجم ۳۲۔
 
وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ بِغَيْرِ مَا اكْتَسَبُوا فَقَدِ احْتَمَلُوا بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُّبِينًا۝
اور جو لوگ مومن مردوں اور مومن عورتوں کو ایسے کام (کی تہمت سے) جو انہوں نے نہ کیا ہو ایذا دیں تو انہوں نے بہتان اور صریح گناہ کا بوجھ اپنے سر پر رکھا ۔سورة الأحزاب ۵۸۔
 
وَيْلٌ لِّكُلِّ هُمَزَةٍ لُّمَزَةٍ۝
ہر طعن آمیز اشارتیں کرنے والے چغل خور کی خرابی ہے ۔ سورة الهمزة ۱۔
صحیح بخاری میں سہل بن سعد رضی اللہ تعالی سے مروی ہے کی رسول اللہ صلی اللہ تعالی نے فرمایا جو شخص میرے لئے اُس چیز کاضامن ہوجائے جو اُس کے جبڑوں کے درمیان میں ہے یعنی زبان کا اور اُس کا جو اس کے دونوں پاؤں کے درمیان میں ہے یعنی شرمگاہ کا میں اُس کے لئے جنت کا ضامن ہوں یعنی زبان اور شرمگاہ کو ممنوعات سے بچانے پر جنت کا وعدہ ہے۔
 
حضرت ابوہرہرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ بندہ اللہ تعالٰی کی خوش نودی کی بات بولتا ہے اور اس کی طرف توجہ بھی نہیں کرتا یعنے یہ خیال بھی نہیں کرتا کہ اللہ تعالٰی اتنا خوش ہوگا ۔ اللہ تعالٰی اُس کے درجوں کو بلند کرتا ہے اور بندہ اللہ تعالٰی کی ناخوشی کی بات بولتا ہے اور اُس کی طرف دھیان نہیں دھرتا یعنی اس کے ذہین میں یہ بات نہیں ہوتی کہ اللہ تعالٰی اس سے اتنا ناراض ہوگا اُس کلمہ کی وجہہ سے جہنم میں گرتا ہے اور بخاری و مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ جہنم کی اتنی گہرائی میں گرتا ہے جو مشرق و مغرب کے فاصلہ سے بھی زیادہ ہے ۔
  
امام احمد وترمذی و دارمی و بیہقی نے عبد اللہ بن عمر و رضی اللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو چپ رہا اُسے نجات ہے ۔
 
اور ایک جگہ امام احمدو ترمذی نے عقبی بن عامر رضی اللہ تعالٰی سے روایت کی ہے کہتے ہیں میں حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عوض کی نجات کیا ہےارشاد فرمایا اپنی زبان پر قابو رکھو اور تمہارا گھرتمہارے لئے گنجائش رکھے( یعنے بیکار اِدھر اُدھر نہ جاؤ) اور اپنی خطا پہ گریہ کرو۔
 
ترمذی نے ابو سعید خذری رضی اللہ سے روایت کی کہ حضور نے فرمایا ابن آدم جب صبح کرتا ہے تو تمام اعضا زبان کے سامنے عاجزانہ یہ کہتے ہیں کہ خدا سے ڈر کہ ہم سب تیرے ساتھ وابستہ ہیں اگر تو سیدھی رہی تو ہم سب سیدھے رہیں گے اور تو ٹیڑھی ہوگئی تو ہم سب ٹیڑھے ہوجائیں گے ۔
 
ترمذی نے سفیان بن عبداللہ ثقفی رضی اللہ سے روایت کی ہے کہتے ہیں میں نے عرض کی یارسول اللہﷺ سب سے زیادہ کس چیز کا مجھ پر خوف ہے یعنی کس چیز کےضرر کا زیادہ اندہشہ ہے حضور نے اپنی زبان پکڑ کر فرمایا یہ ہے ۔
رسول اللہ ﷺ کی یہ ہے ہدایت
کرو اپنی زبان کی تم حفاظت
 
ترمذی نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی سے روایت کی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ مومن نہ طعن کرنے والا ہوتا ہے نہ لعنت کرنے والا نہ فحش بکنے والا نہ بیہودہ ہوتا ہے
 
صحیح مسلم میں جابر رضی اللہ تعالٰی سے روایت ہے کہ ایک شخص نےاپنی سواری کے جانوار پر لعنت کی رسول اللہﷺ نے فرمایا اُس سے اُتر جاؤ ہمارے ساتھ میں ملعون چیز کو لے کر نہ چلو اپنے اوپر اور اپنی اولاد و اموال پر بد دعا نہ کرؤ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ بد دعا اُس ساعت میں ہو جو دعا خدا سے کی جائے قبول ہوتی ہے ۔
 
صحیح بخاری میں ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا جو شخص کسی کو کافر کہہ کر بلائے یادشمن خدا کہے اور وہ ایسا نہیں ہے تواسی کہنے والے پر لوٹے گا۔
 
صحیح مسلم میں انس رضی اللہ وابوہریرہ رضی اللہ اللہ تعالٰی سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا دو شخص گالی گلوج کرنے والے انھوں نے جو کچھ کہا سب کا وبال اُس کے ذمہّ ہے جس نے شروع کیا ہے جب تک مظلوم تجاوز نہ کرے یعنی جتنا پہلے نے کہا اُس سے زیادہ نہ کہے ۔
 
درمی نے عمار بن یاسر رضٰ اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا جو شخص دنیا میں دو رخا ہوگا قیامت کے دن آگ کی زبان اُس کےلئے ہوگی ابو داؤد کی روایت میں ہے کہ اُس کے لئے دو زبانیں آگ کی ہوگی ۔
 
صحیح بخاری و مسلم میں حذیفہ رضی اللہ سے مروی ہے کہتے ہیں کہ رسول اللہ کو میں نے کہتے سنا کہ جنت میں چغل خور نہیں جائے گا ۔
 
بیہقی نے شعب الایمان میں عبدالرحمن بن غنم و اسما بنت یزید رضی اللہ عنہماسے روایت کی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ پاک کے نیک بندے وہ ہیں کہ ُان کے دیکھے سےخدا یاد آئے اور اللہ کےبُرےبندے وہ ہیں ُجو چغلی کھاتے ہیں دوستوں میں ُجدائی ڈالتے ہیں اور جو شخص جرم سے بَری ہے اُس کو تکلیف ڈالنا چاہتے ہیں ۔
 
بیہقی نے ابن عباس رضی اللہ تعالٰی سے روایت کی دو شخصوں نے ظہر یاعصر کی نماز پڑھی اور وہ دونوں روزہ دار تھے جب نماز پڑھ چکے نبی کریم صلی اللہ تعالٰی نے فرمایا تم دونوں وضو کرو اور نماز کا اعادہ کرو اور روزہ پورا کرو اور دوسرے دن اس روزہ کی قضا کرنا ۔ انھوں نے عرض کی یا رسول اللہﷺ یہ حکم کس لئے ادچاد فرمایا تم نے فلاں شخص کی غیبت کی ہے ۔
 
ترمذی نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت کی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا میں اس کو پسند نہیں کرتا کہ کسی کی نقل کروں اگرچہ اتنا اتنا ہو یعنی نقل کرنا دنیا کی کسی چیز کے مقابل میں درست نہیں ہو سکتا۔
 
امام احمد و نسائی و ابن ماجہ و حاکم نے اسامہ بن شریک رضی اللہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا اے اللہ کے بندو اللہ نے حرج اٹھا لیا ہے مگر جو شخص کسی مرد کی بطور ظلم آبروریزی کرے وہ حرج میں ہے اور ہلاک ہوا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
بہت بہت شکریہ بلاگ پر تشریف لانے کے لئے 
 
 

4 comments:

منصور مکرم said...

بہت زبردست مضمون ۔

میرے لئے کافی مفید ثابت ہوا۔

کوثر بیگ said...

اس پسندیدگی کے لئے ممنون و مشکور ہوں

کائناتِ تخیل said...

جزاک اللہ ،قران وسُنت کی روشنی میں آپ نے بہت وضاحت اور صراحت کے ساتھـ اس حساس موضوع پر قلم اٹھایا، اللہ آپ کی محنت قبول فرمائے ۔آمین

کوثر بیگ said...

آمین.پسند فرمانے کا بے حد شکریہ.اللہ آپ کو بهی جزائے خیر عطا کرئے .

Post a Comment

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔