Sunday, May 26, 2013

ہوتا تو وہی ہے جو مقدر میں لکھا ہے۔


السلام علیکم

یہ افسانہ کیا ہے بہت سارے لوگوں پر بیتنے والا سچ ہے میں کافی عرصہ قبل اپنے بیٹے کے گھرگئی تھی وہاں ٹی وی پرڈاکو منٹری دیکھی جس میں ماں،بہن، بیوی،بچوں،والد اور دوسرے قریبی رشتہ داروں کے تاثرات کو دیکھا تھا،آج بھی لگتا ہے دل پر جیسے نقش ہوگئے ہیں ۔ بُرےحالات سے تنگ آکر کچھ نے خود کشی کرلی تھی اورجو زندہ رہے وہ زندگی ہی میں بار بار مر تے رہے ۔ میں نےبہت  ہی کم مسالہ کے ساتھ یہ افسانہ بنا کرآپ سب کے ساتھ شئیر کیا ہے امید کہ آپ کو پسند آئے گا۔



 


ہوتا تو وہی ہے جو مقدر میں لکھا ہے
 

رات کافی ہو چکی تھی افشاں اور ذیشاں لیٹ کر ماں کو سلائی کرتے دیکھتے اور سونے کی کوشش بھی کرتے رہےلیکن سلائی کی مشین کی آواز اس کوشش کو کامباب نہ ہونے دیتی ۔ دونوں ہی آنکھیں بند کیے اماں کو اس کا احساس نہ ہو سوچکرلیٹے رہے۔ رابعہ بیگم نے سلائی کی مشین سے اٹھ کر دونوں بچوں کو ٹھیک سے اوڑھا کر جانے لگی تو ذیشاں نے اماں کا پلو بکڑ لیا اور کہنے لگا۔
 
اماں اب آپ بھی سو جائیں بہت رات ہو چکی ہے۔
 
نہیں بیٹے کل ماموں مال لینے آنے والے ہیں نا۔
 
کیا میں آپ کی مدد کر دوں؟
 
نہیں نہیں اس کی ضرورت نہیں تقریباً سب تیار ہو گیا ہے۔
 
تو باقی صبح کر لینا اماں، اب آرام کر لو تھک گئی ہونگی۔
 
رابعہ بیگم نے ذیشاں کے سر پر ہاتھ پھیر کر سوچنے لگی تم ہی میرے جاگتی آنکھوں کے خواب ہو۔
  
شام کے چار بج رہے تھے افشاں اور ذیشان کالج سے آ کر کھانا کھا رہے تھےاور رابعہ بیگم دوسرے کمرہ میں پڑوسن سے محو گفتگو تھی۔ کال بیل کی آواز پر ذیشاں نے دروازہ کھولا تو ماموں نے اسے دھکیلتے ہوئے اندر داخل ہوتے ہی آپا جان آپاجان  باآواز بلند صدا لگانے لگے۔ یہ آوازیں سن کر رابعہ بیگم معذرت کرتے اٹھنے لگی تو پڑوسن نے بھی جانے کی اجازات مانگ لی۔
 
یہ کیا آپا جان جب دیکھو آپ کے گھر کوئی نہ کوئی مہمان بیھٹے رہتا ہے اور آپ سامنے نہ ہو تو ہمیں یہ افشاں کی بچی لوٹ لیتی ہے دیکھو ابھی ہمیں آئے کچھ ہی دیر ہوئی اور اس نے ہم سے نئے کپڑے بنانے کے لیے بارہ سو روپے وصول کر لیے ہیں اگر ہم کچھ دیر اور یہاں ٹہرے تو شاید کا سہء گدائی لے کر ہمیں اللہ کے نام پر بابا کہنا نہ پڑھ جائے۔ ان کی نظر ذیشاں پر پڑی تو کہنے لگے ذیشاں بیٹے ہم تمہارے بھی ماموں ہیں تم بھی کبھی ہم سے کچھ مانگ لیا کرو بیٹا۔
 
نہیں ماموں مجھے تو الٹا آپ کی اور امی کی خدمت کرنی چاہیے مگر اماں کی خواہش ہے میں ابھی اپنی پڑھائی پوری کروں، یہ ختم ہوتے ہی میں ان شاءاللہ اپنے بڑوں کی مدد کر سکو گا یہ ہی میرا خواب ہے ماموں۔ ماموں کو اس کی بات کا کوئی جواب نہ بن پڑا تو وہ اچھا اچھا جیتے رہو کہہ کر چپ ہو رہے۔ ماموں پرانے مال کے پیسے دے کر نیا مال لے کر جانے سے پہلے رابعہ بیگم سے کہنے لگے۔ وقتِ جوانی رو دھو کاٹو پیری میں آرام کرو ۔آپا جان اب آپ کو فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ان شاءاللہ آپکے اب مصیبت کے دن ختم ہونے کو ہیں افشاں کا رسم تو ہو گیا ہے اچھا خاندان ہے خوش رہیگی شادی کی تیاری بھی ہم اچھے سے کرلیگے جمع بندی تو کر رکھی ہے نا اور ذیشان تو بہت ہی سلجھا ہوا سمجھدار بچہ ہے ہر ایک اس کی تعریف کرتے تھکتے نہیں اور پھر اس نے آج تو اپنی باتوں سے میرا بھی دل بہت خوش کر دیا ہے وہ ہماری خوابوں کو سچ کر کے دکھائے گا آپا۔ ماموں ہمیشہ کی طرح تسلی دینے کے بعد مال لے کرچلے گئے۔
 
 
آج رابعہ بیگم بہت مطمئن نظر آ رہی تھی افشاں نے ان کو خوش دیکھ کر ان سے بھی پیسے مانگنے چاہے تو رابعہ بیگم پھٹ پڑی اے لڑکی تجھے ہو کیا گیا ہے ۔ ذرا لڑکیوں کی طرح رہاکر، جب دیکھو بے شرمی بے حیائی بدتمیزی پر آمادہ رہتی ہے ایسے ہی رہی نا تو اگلے گھر جائے گی تو میری تو ناک ہی کٹوا دےگی ۔۔مگر اماں میں نے ایسے کیا کر دیا افشاں نے معصوم سی صورت بنا کر پوچھا تو رابعہ بیگم نے چڑ کر کہا کوئی بھلا ایسے کرتا ہے گھر آئے مہمان کے ساتھ۔ اماں وہ کوئی نہیں ہیں ہمارے ماموں ہیں اور پھر وہ ہمیں کتنا چاہتے ہیں نا اماں، افشاں نے وضاحت دینا چاہی تو رابعہ بیگم نے چپ کرتے بولی ہاں ہاں معلوم ہے مگر ایسے تنگ کرتے ہیں کیا؟ وہ بے چارا برسوں سے ہماری مدد کر رہا ہے اگر وہ نہ رہتے تو نہ جانے میں تم دونوں کو لے کر پہاڑ سی بیوگی کی زندگی کیسے گزار پاتی رابعہ بیگم کہتے کہتے آبدیدہ ہوگئی اور جلدی سے دوسرے کمرہ میں چلی گئی۔
 
افشاں ماں کے باتیں گم سم بیھٹی سن رہی تھی ماں کے پیچھے جانے لگی۔ ذیشاں چاہتا تھا اماں اکیلے میں اپنا جی ہلکا کر لے اور افشاں کا بھی کچھ دل بہل جائے یہ سوچ کر اس نے افشاں کا راستہ روک کر کہا افشاں میں تجھ سے ایک پہیلی پوچھتا ہوں دیکھنا تم اب کی بار بھی بوجھ نہ سکو گی اور وہ جلدی سے کہنےلگا۔ بند آنکھوں نے وہ دکھلایا آنکھ کھلی تو کچھ نہ پایا۔
 
 افف فوہ ،بھائی کوئی کیسے بند آنکھوں میں دیکھے گا یہ پہیلی تو بڑی عجیب ہے ذیشاں پھر دوہرانے لگا تو افشاں نے کہا بھائی ہم تو بند آنکھوں میں کچھ دیکھتے ہی نہیں، جو دیکھتے ہیں سب کھلی آنکھوں میں۔ وہ سوچتے ہوئے بولی تو ذیشاں نے کہا اللہ تیرے سارے خواب کھلی آنکھوں میں ہی پورا کرے۔ افشاں چونک پڑی۔ خواب ،خواب میں سمجھ گئی دیکھا ٹھیک پہچان گئی نا۔ افشاں نے لہک کر کہا اب میں پوچھوں گی آپ سے، کالا سمندر پیلا پانی بیچ میں ناچے گڑیا رانی ۔۔ ارے پیٹوں تم تو جب سوچو کھانے کا ہی ۔۔ کڑاھی،تیل پکوڑا ذیشاں بول پڑا۔ بھائی آپ بھی نا،اب کے پوچھئےگا دیکھیں  میں جھٹ سے آپ سے بھی جلدی بتادونگی ۔ وہ ناراضگی چھپاتے بولی ۔ سوگھوڑے اور ایک لگام پیچھے چلیں تمام۔ چلو پہچانو۔۔ذیشان ابھی جملہ پورا بھی نہ کیا تھا کہ رابعہ بیگم نے آکرافشاں کی ہتھیلی پر ہزار روپے رکھتے ہوئے کہا آئندہ سے ماموں سے مت لینا جو بھی چاہئے مجھے سے کہا کر۔ وہ افشاں کو پیسے دیتے ہوئے نرمی سےکہا۔ افشاں کو کچھ کہنے کی ہمت ہی نہیں ہوئی۔ کالج کی فیس اور اتنے ہی پیسے بیٹے کو بھی دینا چاہا تو اس نے صرف فیس کے پیسے لے کر باقی اضافہ رقم واپس کر دی۔
 
ذیشاں ذیشاں باہر سے دو گھر بعد رہنے والے لڑکے کی آواز آنے پر وہ باہر جا کر جلدی ہی اندر آ کر رابعہ بیگم سے پوچھنے لگا کہ اماں گلی کے سب لڑکے مل کر کرکٹ کھیل رہے ہیں اگر آپ کی اجازات ہو تو میں بھی کھیلوں ۔ ہاں ہاں جاؤ بیٹے یہاں قریب ہی تو کھیل رہے ہو نا، جاؤ جاؤ رابعہ بیگم نے کہا۔۔
 
تھوڑی دیر بعد باہر سے پھر اسی لڑکے کی زور زور سے پکارنے کی آواز آئی۔ آنٹی جی، ذیشاں، ذیشاں، جلدی آئیے، ارے کوئی ہے اور پھر بہت سارے آوازیں ایک ساتھ آنے لگی۔ رابعہ بیگم دوڑ کر باہر بھاگی تو وہ یہ دیکھ کر حیران پریشان ہو گئی کہ پولس ذیشاں اورپڑوس کے ایک دوسرے بچے کو پکڑ کر گاڑی میں لیے جا رہے تھے وہ اندر آ کرفوراً اپنے بھائی کو فون کرنے لگی۔ پھر وہ ڈھوتے ہوئے باہر آئی تو  پتہ کرنے پر معلوم ہوا کہ مسجد میں بم رکھنے والوں میں یہ بھی شامل ہے اس لئے لے کر گئے ہیں۔ نہیں نہیں ایسا نہیں ہوسکتا وہ زیر لب بڑبڑائی ۔۔
 
 
 
یہ سچ نہیں ہے، رابعہ بیگم ہر ایک سے کہتی اور بیٹے کو گھر لانے کی کوشش کرتی رہی پھر دو دن بعد خبر ملی کہ اُس دوسرے لڑکے کو چھوڑ دیا گیا ہے اور ذیشاں کو جیل بھیج دیا گیا ہے ایک قیامت تھی جو رابعہ بیگم پر نازل ہوئی تھی افشاں کے سسرال خبر پہنچی تو سسرال والوں نے رسم توڑ دیا۔ ہر ملنے والوں نے منہ موڑ لیا۔ آج تو ماموں نے بھی فون پر کہہ دیا کہ میری بیوی آپ کے پاس جانے پر ناراض ہے میرے بچوں پر اس کا برا اثر پڑنے کے امکان ہیں آپ ایرانی ہوٹل پر آجائیں میں مال کہاں سے لیتے ہیں اور کہاں پہچانا ہے بتادونگا ۔یہ کام اب آپ خود ہی کرلیا کرے میں بس اتنا ہی کر   سکتا ہوں آپ کی مدد،ابھی دو گھنٹہ بعد آجانا۔ ٹھیک ہے ،بہت احسان ہے آپ کا بھائی ۔ یہ کہہ کر رابعہ بیگم فون رکھ کر رونے لگی۔
 
 
آج آٹھ ماہ ہو گئے رابعہ بیگم بیٹے کو واپس لانے کی کوشش کرتے ہوئے کہاں کہاں نہیں گئی وہ۔ پولس کے چھوٹے سےلے کر بڑے آدمی تک کا پاوں پکڑے۔ حکمرانوں کےآدمیوں کے آگے ہاتھ جوڑے۔ ہر جاننے والوں کا دروزہ کھٹکھٹایا مگر ہر ایک  انہیں دھتکارتے ہی رہے۔ آج مسلم ،غیر مسلم،تعلیم یافتہ اور ان پڑھ چھوٹے ،بڑے ،مرد ،عورتیں سب ہی ٹی وی،کھیل اور دوسرے لہولہب میں ایسے مصروف ہوگئے ہیں کہ انہیں اپنے اوپر عائد ذمہ داریوں کا لحاظ باقی نہیں رہا۔ اگر ان لوگوں پر بھی (خدا نہ کرے) ایسا وقت آئے توان کو پتہ چل جائے کہ پریشان حال ،بے قصور ،زبوں حال لوگوں کی طرف سے بے التفاتی اور بے عتنائی کا انجام اور نتیجہ کیا ہوتا ہے۔ کاش انہیں اس بات کا احساس ہو جائے ان کی انسانیت جاگ جائے تو  یہ لوگ اپنے کھانے، سونے تک کے لئے خود کو وقت نہیں دینا چائیں گے ۔
 
 
آج پھر رابعہ بیگم کو ایک آس بندھی ہے ۔ محلہ کےذیشان کے ساتھ پکڑے جانے والا لڑکا  چھوٹ گیا تھا ۔ اسی کے والد یں نےان کے حال پر رحم کھا کرکسی آدمی سے ملانے کا وعدہ کیے تھے اور وہ بے چینی سے انتظار کر رہی تھیں۔ پھر وہ ان صاحب کو ساتھ لے کر آئے۔ سارے باتیں سننے کے بعد انہوں نے بتایا کہ بات صرف پولس سے نکلنے کی نہیں ہے یہ معاملہ تو جیل تک پہنچ چکا ہے اور وہ بھی بم کا ہے پیسے بہت ہونگے تمہارے پاس تو کوئی کمانے والا بھی نہیں۔۔۔مگر میرا بیٹا بے قصور ہے رابعہ بیگم بے بسی سے بتانے لگی ۔۔ہاں مجھے پتہ ہے ۔ تم یہ بتائیں کہ تمہارا کام کرنا ہے یا نہیں ۔ پھررابعہ بیگم نے افشاں کی شادی والی جمع رقم اور پس انداز پیسوں کا تخمینا دماغ میں لگانے کے بعد سوچ کر ہاں کہہ دی۔۔ٹھیک ہے ہو جائے گا مگر میں پہلے بتا دو کہ اس میں ذرا وقت لگے گا۔ پہلے وکیل کرنا ہوگا کیس چلنے کی بعد رہائی کا بندوبست کرنا پڑے گا قریب ہفتہ سے دو مہینہ لگ سکتے ہیں وہ لوگ یہ کہہ کر چلے گئے
 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
ذیشاں بیٹے یہ کیا ہے۔  تمہیں گھر آئے اتنا عرصہ ہوگیا ہے ۔ مگر تم جب سے آئے ہو خود کو گھر میں قید کر لیا ہے۔ نا کبھی کالج جاتے ہو ۔ نہ کہی باہر دوستوں سے ملتے ہو۔ نہ گھر ہی میں بات کرتے ہو۔ یوں چھت کو ٹکٹی باندھے آخر کیا دیکھتے رہتے ہو ۔ سنبھالو بیٹا اپنے آپ کو، اب تم گھر آگئے ہو سب ٹھیک ہو جائے گا ۔ اب ہماری آس تو تم ہی سے بندھی ہے تم ہی کو تو ہمارے خوابوں کو پورا کرنا ہےرابعہ بیگم بغیر رکے کہنے لگی۔۔۔اماں آپ مجھ سے چھپا رہی ہیں مگر مجھے پتہ ہے میری وجہہ سے افشاں کی شادی کا خواب ٹوٹ گیا،ماموں نے بھی آپ سےرشتہ توڑ لیا۔ کوئی ہمارے گھر نہیں آتا۔ کوئی ہم سے بات تک کرنا نہیں چاہتا ۔ایسے ڈرتے ہیں جیسے دوسرے سیارہ سے آئیں ہیں میرے ساتھ کالج اور محلہ میں بھی سب ایسا ہی سلوک کرتے ہیں میں نے اپنے ساتھ آپ لوگوں کا جینا بھی دوبھر کردیا ہے،آپ لوگوں کے خواب بھی چکناچور کردیے اماں ۔اب اپنی اور آپ لوگوں کی توہین نہیں برداشت کرسکتا اماں ۔ ذلت کی نہ دکھائی دینے والی زنجیروں میں لپٹا ہوا ہوں میں ۔ میں مر جانا چاہتا ہوں آپ دونوں میرے جانے کے بعد خوش رہ سکے گے اماں ۔۔۔۔۔ ذیشاں زارو قطار روتے ہوئے کہنے لگا پھر اسنے زہر کی شیشی نکل لی۔ رابعہ بیگم نے ہاتھ سے زہر کی شیشی دور مار گرانے کے بعد بیٹے کو لپٹا لیا نہیں نہیں ایسا نہیں کرتے، ضرور ہمارے خواب پورے ہونگے وہ ہمت اور یقین سے بولی ہم تم اگر ساتھ رہے تو سب ممکن ہے میرے بچے ،قوت ارادی اور قوت فیصلہ سے انہوں نے دور اندیشی سے کام لیتے ہوئے کہا ہم یہ شہر چھوڑ کر دور کوئی اور شہر چلے جائیگے جہاں ہم اپنی دوسری پہچان بنائیگے ،جہاں ہم ایک نئی دنیا بسائے گے۔ ایسا اللہ کی رحمت سے نا امید نہیں ہوتے میرے بچے ہوتا تو وہی ہے جو مقدر میں لکھا ہے ۔

 مگر کیا ہم دوسری جگہ بھی بنا کسی اندشہ اور امن و امان کے ساتھ رہ سکے گے ؟ یہ سوال اک بارگی سب کے دماغ میں سمایا ہوا تھا اور خاموشی چاروں طرف چھائی ہوئی تھی۔
 
 
   
 
 

6 comments:

عمران اقبال said...

ایسی ہی کہانی میں انڈیا کے کسی چینل پر ایک ڈاکومنٹری میں دیکھی تھی۔۔۔ ہم جب بھی سنتے ہیں تو یہی کہ بھارت کے مسلمان پاکستانیوں کی نسبت زیادہ خوش ہیں۔۔۔ لیکن جب حقیقت پتا چلتی ہے تو بہت افسوس ہوتا ہے کہ واقعی مسلمانوں کا ہر جگہ ناطقہ بند کیا جا رہا ہے۔۔۔ اللہ ہماری مدد فرمائے۔۔۔ آمین۔۔

ڈاکٹر جواد احمد خان said...

بہت ہمت اور بہادری سے کام لیکر آپ نے جذبات کو صفحہ قرطاس پر منتل کیا ہے۔ ورنہ مصلحتوں کی ماری امت کے لیے سچ کہنے کا بھی حوصلہ نہیں

MAniFani said...

کوثر آپا بہت دلدوز۔ بہت اچھے سے پینٹ کیے ہیں وہ حالات جن سے وہاں کا ایک عام مسلمان نبرد آزما ہے۔ اللہ رحم فرمائے

کوثر بیگ said...

عمران اقبال بھائی میں نے بھی ٹی وی اور اخبار ہی میں دیکھا اور پڑھا ہے شکر ہے کہ اانکھوں سے نہیں دیکھا جب ٹی وی پر بتایا جارہا تھا ایک بیوہ ماں جو اپنے بیٹے کو اعلٰی تعلیم دیلا رہی تھی اس کے بے وقصور بیٹے نے پہلے جیل پھرلوگوں کی باتوں سے تنگ آکر خود کشی کرلی تو وہ سنکر اس ماں کے آنسو میری آنکھوں میں آکر رک گئے اور میں نے افسانہ لکھکر حسب منشا بیوہ کے بیٹے کو بچا لیا اصل کہانی تو اس سے بھی زیادہ درد ناک ہے بھائی۔

آپ دنیا کے کسی بھی خطہ میں دیکھ لیجئے ہم انڈیا پاکستان کے بندوں کو کہی بھی وہ عزت و سکون نہیں جو ہمارا حق ہے۔ اللہ پاک ہی مدد درکار ہے بیشک ہم اس کی رحم کے محتاج ہیں ۔۔

کوثر بیگ said...

بہت شکریہ ڈاکٹر جواد بھائی حوصلہ آفزائی کا ۔ جب کسی کے درد کو دل سے محسوس کرا جاتا ہے تو آواز بلند کرنے کی ہمت خودبخود آہی جاتی ہے ۔ اور ہر لکھنے والا اپنے عصر کی عکاسی ہی تو کرتا ہے ۔اللہ آپ کو خوش رکھے۔

کوثر بیگ said...

آمین
ہمیں یہ سب سنکر اتنی تکلیف ہوتی ہے.MAniFani
بھائی تو ان پر کیا گزرتی ہوگی اور سونے پر سہاگہ کہ ہمارے اپنے بھی برے حالات میں ساتھ نہیں ٹہرتے معاشرے کے جور و ستم بھی تو ہر پل مارتے رہتے ہیں ہم ایسا کیوں کرتے ہیں آخر

Post a Comment

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔