Saturday, April 27, 2013

خدا داد




السلام علیکم
حیدرآباد کے ممتاز شاعر عبدالغفار خدا داد کاجمعہ کی شب 2سمتبر2011 کوحیدرآباد میں منعقدہ ایک بڑے مشاعرے میں اپنا کلام سنا رہے تھے کہ قلب پر شدید حملہ کے سبب سےاپنے چاھنے والوں کوداغ مفارقت دے گئے یہ سانحہ اس وقت پیش آیاجب ان کے ایک دوست ہر سال جدہ سے چھٹی پر آتے تو اپنے احباب کے لے پر تکلف عشائیہ کے ساتھ محفل شعر کا بھی اہتمام کرتے جس میں شہر کے معرف شعراء کے علاوں اضلا ع و بیرونی ریاستوں کے چند شاعروں کو مدعو کرتے ۔اسی محفل میں اپنی باری آنے پر جب خدا داداسٹیج پر اپنی غزل سنارہے تھے تو چوتھے شعر پر اچانک لڑکھڑانے لگے۔ سامنے نشستوں پر بیٹھے ان کےدو قریبی دوستوں نے تیزی سے دوڑ کر ان کو تھام لیا ۔ محفل میں شریک ایک ڈاکٹر نے نبض دیکھکر ان کی موت کی تصدیق کردی ۔ ساری محفل پر سکتہ طاری ہوگیا ۔ان کی وفات اہل ِخاندان،دوستوں اور حیدرآباد کے ادبی حلقوں کے لئے سانحہ ہے۔اس سانحے سے تادیر سنبھل نہ سکیں گے۔
 
تمام مرحلے صوت وبیاں کے ختم ہوئے
اب اس کے بعد ہماری نوا ہے خاموشی
 
عبدالقفار کی زندگی میں بڑے نشیب و فراز آئے ۔ بعض مرتبہ بڑی سخت آزمائشوں سے گزرے لیکن انہوں نے بڑی پامردی سے اور بڑے صبرو سکوں کے ساتھ حالات کا مقابلہ کیا اور وہ ُان طوفان سے بچ کر صحیح سلامت نکلے ۔ انتہائی نامساعد حالات میں بھی یہ شخص ہمیشہ کی طرح احباب کے جھرمٹ میں اپنائیت ،خلوص اور ایثار کی متاع بے بہا لٹاتا رہا اور قہقہے بکھیرتے رہا۔ان کے اخلاق ، شرافت اورانکساری کے سب ہی قائل تھے جو ایک باران سے مل لیتا ان کی سراپا پُرخلاص شخصیت کا اسیر ہو جاتا ۔ بارہ سال قبل اہلیہ کے انتقال کے بعد وہ تنہا رہ گئےتھے ۔انہیں اولاد نہیں تھی ۔وہ اپنی ضعیف والدہ اور ایک بیوہ بہن کے ساتھ اپنے ذاتی مکان محمدی لائن(ٹولی چوکی)میں رہا کرتے تھے۔وہ ساری عمرپیشہ تدریس سے وابستہ رہے ۔ ریاضی کے بہیت اچھے استاد مانے جاتے تھے ۔ مختلف خانگی مدارس میں انہوں نے خدمات انجام دیں۔جہاں بھی کام کیا وہاں اپنی محنت،ایمانداری اور شرافت کے نقوش چھوڑے ۔ سادگی ،قناعت اور بے نیازی کا یہ عالم کہ کبھی تنخواہ کی کمی کی فکرنہ کی ۔ سادہ لباس ، سادہ غذا ،اور سادہ زندگی میں خوش ومگن رہا کرتے تھے ۔ خود داری بھی ایسی کہ بر سہا برس کی رفاقت میں کبھی ان کو اپنی کسی ضرورت واحتیا ج کا ذکر کرتے نہیں پایا ۔وہ اپنے اس شعر کی عملی تفسیر تھے
 
اس سے بہتر ہے زہر کھا لینا
ایک لقمہ حرام کمانے سے
 
اکثر وہ اپنے قریبی احباب سے حج پر جانے کی شدید خواہش کا اظہار کیا کرتے تھے ۔ایک ایک پیسہ جوڑانہوں نے بالآخر رقم جمع کی اور دو سال قبل حج کا فریضہ ادا کیا ۔
 
زمانہ طالب علمی ہی سے عبدالغفارخداداد شعروادب کا نکھراستھرا ذوق رکھتے تھے اپنے محدود وسائل کے باوجو اچھی کتا بیں اورمعیاری جرائد اور رسائل خرید کر پڑھناان کامحبوب مشغلہ تھا ۔ ان کی ذاتی لائبریری میں کتابوں کا اچھا خاصا ذخیرہ موجود ہے ۔ وہ مشاعروں میں اپنا کلام بہت کم کم سناتے تھے مخصوص محفلوں میں بے حداصرار کرنے پر کلام سنایا کرتے تھے ۔ویسے شہر کی کم وبیش سبھی اہم شعری ونثری تقریبات میں ان کی شرکت لازمی ہوتی تھی ۔ ہمارے بعض جدید شعراءجہاں امیجری اور نئے پن کی تلاش میں مہمل تر کیبیں تراش رہے ہیں وہاں خدا داد کے فن میں سادگی جھلکتی ہے ۔اپنی بات کو نہایت عام فیم، سادہ،سلیس اورسلجھے ہوئے انداز میں پیش کرتے ۔انہوں نے جدت پسندی کا مظاہرہ کیا اور نہ دوسروں کو چونکا دینے کی کوشش کی ۔ اس کے علاوہ انہوں نے اپنی غزلوں میں علامتی ،رمزیہ اور استعاراتی نظام سے بھی گریز کیا۔ صاف واضح اور سادہ زبان میں عصر حاضرکے مسائل ومعاملات کو با مقصد شاعری کے روپ میں پیش کرکے انہوں نے محفلوں میں انفرادیت کا نقش چھوڑا اور سامعین سےداد و تحسین حاصل کی ۔ مذہبی حسیت وتصوف اور ملت کے دکھ درد کی آئینہ داران کی شاعری نطر آتی ہے انہوں نے باضابطہ ترتیب وار اپنےکلام کو محفوظ نہیں رکھا ۔ چیدہ چیدہ کاغذات پر وہ لکھتے رہے بنیادی طور پر وہ غزل کے شاعر ہیں لیکن انہوں نے چند نظمیں بھی لکھیں جن میں سب سے مشہور نظم تاج محل جو ساٹھ بند پر مشتمل ہے ۔ یہ طویل نظم اعتماد کے ادبی صفحہ پر پوری کی پوری شائع ہوئی تھی۔ اس نظم کو دہلی سے تاج محل کے عنوان پر شائع ہونے والی ایک کتاب کے لئے بھی منتخب کرلیا گیا تھا خداداد صاحب اس کی تو سیع کرکے دوسو بند کی نظم میں تبدیل کرنے اور کتابی صورت میں شائع کرنے کا ارادہ رکھتے تھےاس نظم کی ادبی حلقوں میں بڑی پزیرائی ہوئی تھی ۔ بابری مسجد کے انہدام اور فرقہ وارانہ فسادات کے موضوعات پر ان کے قلم میں اضطراب کی لہریں دیکھنے کو ملتی ہیں کلا سیکی طرز کی ان کی شاعری میں زبان و بیان کا حسن اور کردار کی عظمتیں واضح طور پر محسوس کی جاتی ہیں درج ِذیل چند اشعار سے ان کی شاعری کی خصوصیات کو سمجھنے میں مددملے گی ۔
 
سپردِ خاک میت کررہے ہیں
یہی اردو کی خدمت کر رہے ہیں
 
تا باں تاباں بڑھ کر سورج سر پر آپہچا
چڑھتا سورج پوجنے والو ،سورج چڑھ کر ڈھلتا ہے
 
مومن کبھی اللہ سے کرتا نہیں شکویٰ
اللہ کی مرضی ہی فقط اس کی رضا ہے
 
 
کس بات پہ نازاں ہے خدا داد بتا تو
یہ جسم ترا قبر کے کیڑوں کی غذا ہے
 
 
رزق چل کر کبھی نہیں آتا
اڑنا پڑتا ہے آشیانے سے

ساری تسبیح بے عدد ٹہری
ایک دھاگے کے ٹوٹ جانے سے
 
 
ماں کو دیکھا جو پیار سے میں نے
اس کا اب تک ثواب جاری ہے


 
خدا داد اس طرح اپنے چاہنے والوں سوگوار اور اشکبار چھوڑ کر اس دنیا سے رخصت ہوجا ئیں گےوہم وگمان میں نہ تھا حقیقتاً وہ دلوں کی بستی اور یادوں کی دنیامیں شرافت نفسی،ملنساری اور اخلاص کی وجہ سے ہمیشہ رکھےجائیں گے ۔
 
 
ممتاز شاعر جناب عبدالغفار خداداد کے سانحہ پریوسف روش کا لکھا تعزیتی قطعہ
 
حبیب حق تعالٰی ہیں محمد
وسیلہ بن کے سب کے سہارے
 
 
ہیں زندہ شاعری کے ساتھ بے شک
خداداد آج بھی دل میں ہمارے

آپ سب کی مشکور ہو ں کہ میرے بلاگ پر تشریف لے لائے

2 comments:

MAniFani said...

مرحوم کی ادبی خدمات گنوانے اور ان کی شاعری سے تعارف کروانے کا بہت شکریہ

کوثر بیگ said...

ایک اچھے انسان اور شاعر تھے وہ ایک حیدرآبادی ہونے کے ناطہ اتناکرنا تو حق بنتا ہے ان شاءاللہ اور بھی حیدرآبادی حضرات سے تعارف کروانے کی کوشش کرونگی ۔آپ نے کمنٹ کرکے میری حوصلہ آفزائی کی ہے جس کا بے حد شکریہ

Post a Comment

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔