Thursday, April 11, 2013

اطمینان ِقلب





السلام علیکم
میرے عزیز بھائیوں اور پیاری بہنوں

 میں آج آپ لوگوں سے ایک بہت پرانی اور یادگار بات شیئرکرنا چاھتی  ہوں ۔۔۔۔
یہ اس وقت کا واقعہ ہےجب میرا بیٹا صرف دو سال اور چند ماہ کا تھا۔

ہوا کچھ یوں تھاکہ میری کم عقلی و نا تجربہ کاری اور بچے کی ناسمجھی  و شرارتی طبعیت کی وجہہ سے مجھے نیند میں دیکھ کر تکیہ کے نیچے سے چابی نکال کر نگل لی۔ جب میں بیدار ہوئے  اور چابی تلاش کرتے دیکھنے پر اس نے بتایا کہ امی  وہ میں نے منہ میں رکھی تھی تو اندر چلی گئی  اس بات کا پتہ چلتے ہی پریشانی کے مارے ہماری سیٹی گم ہو گئی۔ بہتریے حلق میں انگلیاں ڈالی کہ شاید چابی اٹکی نکل جائے بہت کوشش کے بعد بھی  ناکامی کا منہ ہی دیکھنے کو ملا۔

پھر اسی پریشانی کے عالم میں بیٹے کو ہسپتال لے گئے۔ ڈاکٹر صاحب نے معاملہ سنتے ہی فوراً ایکسرے کی ہدایت کی۔ ایکسرے کا رزلٹ دیکھ کر ڈاکٹر نے کہا کہ چابی بچے کے معدے کے اندر چلی گئی ہے۔ تھوڑے دن انتظار کرکے دیکھتے ہیں کہ شاید خود ہی نکل آئے۔ بصورت دیگر آپریشن کے علاوہ اس چابی کو باہر نکالنے کا کوئی اور چارہ نہیں ہے۔انہوں نے وضاحت کی کہ زیادہ سے زیادہ دس دن تک انتظار کیا جاسکتا ہے۔اتنی مدت سے زیادہ انتظار نہیں جایا جاسکتا۔چابی نکالنا بہت ضروری تھا کیونکہ اگر اس میں زنگ لگ جاتا ہے تو صورتحال اور خطرناک ہو سکتی تھی۔

ڈاکٹر کی بات سن کر بجائے پریشانی کم ہونے کے مزید بڑھ گئی۔ اپنے بچے کے آپریشن کا سن کر کوئی بھی والدین پریشانی میں گھِر ہی سکتے ہیں۔ ساس محترمہ نے صحت یابی پر پچاس رکعت اسی وقت اور زندگی بھر دو رکعاتوں کی نمازکا نکلنے کی صورت میں وعدہ کرلیا اور جیٹھانیوں نےدو یا چار شکرانے کے روزے رکھنے کی منت مان لی۔ غرض یہ کہ گھر میں ہر کوئی کسی نہ کسی انداز میں بچے کی صحت یابی کے لیے اللہ تعالیٰ سے مدد مانگنے لگا۔

کوئی موز کہلانے کہتا تو کوئی کچھ اور ۔۔۔ امی نےبھی  مشورہ دیا کہ بچے کو نہار پیٹ ارنٹی کا تیل ایک چمچہ پلایا جائے' لیکن میری دماغی حالت کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ میں نے پریشانی میں ایک ہی دن میں بیٹے کو چار پانچ مرتبہ ارنٹی کا تیل پلا دیا۔

اس پریشانی میں دس دن گزر گئے اور اب آپریشن کے سواء کوئی راستہ نظر نہیں آ رہا تھا۔ مجھے اپنے بابا سے بہت محبت اور عقیدت تھیوہ میرے والد کے ساتھ ساتھ استاذی و مرشدی بھی ہیں ۔ میرا دل کہتا تھا کہ بابا کی دعا سے سب ٹھیک ہو جائے گا۔

میں نے اپنے بابا کو فون کیا اور روہانسی آواز میں کہا  "بابا! میری غلطی لاپرواہی کی سزا میرے معصوم بچے کو کیوں مل رہی ہے۔غلطی میری ہے تو تکلیف بھی مجھے ہی ملنی چاہیے اس معصوم کو نہیں۔اور آپ بھی تو دعا نہیں کر رہے ہیں۔ اگر آپ دعا کرتے تو پریشانی ابھی تک ٹل چکی ہوتی۔"

بابا نے کہا۔" اگر ساری شکایات کہہ چکی ہو تو میری بات سنو، جب کنجی بچے نے نگلی، تو تم نے نکالنے کی کوشش کی پھر اسے ڈاکٹر کے پاس بھی لے گئی۔ لیکن ڈاکٹر کی مدد سے کچھ فائدہ نہیں ہوا وہ بھی بے بس ہوگیا۔ تم اور سب نےنکلنے کی تدبیر بھی کی اور دعائیں بھی مانگی اب اگر روکر گڑگڑا کر کی جانے والی دعاؤں سے بھی یہ پریشانی نہیں ٹلی تواب اپنے ارادے کو اللہ کی رضا میں راضی کر لو۔

اب یہ اسکی مرضی پر منحصر ہے کہ بچے کوآپریش سے شفاء دے یا موت، تم تو بچے کو صرف تب سے چاہتی ہو جب وہ تمہیں عطا ہوا مگر اس اللہ کو تو اس روح سے اس سے بھی بہت پہلے سے محبت ہے۔

تو ابھی اس کی مرضی پر سرنڈر کر کے مطمئن ہو جاؤ۔اب اس اللہ کی مرضی جو چاہے وہ کرے۔ بس یہ ہی کامیابی کا راستہ ہے۔

رہی یہ بات کہ یہ مشکل آئی کیوں' تو جان لو کہ کبھی کبھی اللہ ہمارے درجات کی بلندی کےلئے آزمائش بھیجتا ہے۔" اس کے بعد میرے بابا نے سلام کر کے فون رکھ دیا۔

مجھے بابا کی باتوں پرپہلی بار بہت افسوس ہو رہا تھا۔ کبھی بابا کی باتیں زہن میں گھومتیں اور کبھی بچے کی موت کا تصور کر کے دل دہل جاتا۔

آپریشن کا نتیجہ کیا نکلے گا۔ ایک تلوار تھی جو سر پر لٹک رہی تھی۔دو دن پہلے بچے کے ساتھ میں ہاسپٹل میں رہنے آگئی۔۔

چونکہ معدے کا آپریشن تھا اس لیے ڈاکٹرہدایات دے رہا تھا کہ بچے کا معدہ خالی رکھنا ہے، آپریشن نو بجے شروع ہو گا اور یہ بھی بتا رہا تھا کہ کون کون سے ڈاکٹر آپریشن کے وقت موجود ہوں گے۔

ایک امید و بیم کی کیفت طاری تھی۔ پوری رات ڈاکٹر اور بابا کی باتیں زہن میں گھومتی رہیں۔ کبھی بچے پرنظر پڑتی تو دل کے اندر ایک ہوک سی اٹھتی۔

خدا خدا کرکے صبح ہوئی۔ نرس سے بات کرنے پر معلوم ہوا کہ اس آپریشن کے بعد بچہ تا عمر سخت اور محنت کا کام کرنے سے قاصر رہے گا۔ یہ بات سن کرمزید دکھ ہوا۔

مجھے بابا کی بات یاد آئی کہ ہم کتنے لاچار اور بے بس ہیں صرف اسی کا ارادہ اصل ہے اورہماری کامیابی اسی میں ہے کہ اس کے ارادے کو اصل مانا جائے۔ اس کی مرضی وہ نواز دے یا سزا دے۔ یا اللہ ،  تیرا ارادہ اصل اردہ ہے میرا اردہ محض بے معنی حسرت ۔ اپنی بے بسی پر آنکھیں بہنے لگی  اور دل سے بے اختیار آواز نکلی کہ "اے مولا! میں راضی ہوں تیرے ہر فیصلے پر چاہے اگر تیرا فیصلہ موت ہی ہے تو اس میں بھی میں راضی ہوں"

اس سوچ کے سہارے میں نے اپنے دل کو مضبوط کر لیا۔

بچے کو ایکسرے روم لے جایا گیا۔ ایکسرے ڈویلپ ہونے کے بعد ایکسرے آپریٹر بولا
" تم یہ ایکسرے لے کر فوراً ڈاکٹر کے پاس پہنچو"

"مگر نرس تو کہہ رہی تھی میں وارڈ میں آ کر یہ ایکسرے لے جاؤں گئی۔" میں نے جواب دیا۔

"نہیں کیس بدل چکا ہے تم ڈاکٹر کے پاس فوراً پہنچو۔" ایکسرے آپریٹر نے زور دے کر کہا تو پریشانی مزید بڑھ گئی۔

یا اللہ خیر اب کیا ہوگیا ؟ میں بھاگتی ہوئی ڈاکٹر کے کمرے میں پہنچ کر اس کو ایکسرے دکھایا۔

ڈاکٹر نے ایکسرے کو پکڑا اور غور سے دیکھتا ہوا بولا۔ "چابی کافی حد تک نکل گئی ہے۔ اب آپریشن کی ضرورت نہیں رہی۔ ایک دو گھنٹے میں وہ خود بخود نکل جائے گی اس کاچکلا حصہ(چوڑاحصّہ)معدہ سے باہر آگیا ہے۔

اطمیان کی ایک لہر میرے پورے جسم میں پھیل گئی۔مجھے اس وقت لگ رہا تھا کہ ہر جگہ ہر ایک میں اللہ کا وجود پنہا ہے ہر ایک پر اس کی حکومت ہے وہ سب کا مالک و مختار ہے۔ ہمارا وجود بھی اسی کے لئےہے ۔ اسی کی مرضی سے ہے ۔اس کا اردا اصل ہے ہمارا اردا محض بے معنی بات ۔ ہمارے وجود کا مقصد اس کے وجود کی گواہی دینا ہے اور بس


مجھے کیا سمجھ رکھا ہے میں نشان ِ بے نشان ہوں

 مجھے اپنے دادا کے اس مصرع اور بابا کی نصیحت کا مطلب سمجھنے آگیا تھا ۔الحمدللہ بہت بڑی پریشانی ختم ہوئی

بعد میں کوئی تیل سے تو کوئی روزوں کی منت سے اور کوئی نماز کی وجہہ کنجی نکلنے کا باعث سمجھے مگر میرا دل کہتا تھا کہ اللہ کی رضا پر راضی رہنے مصیبت پر صبر کرنے آزمایش میں پورے اترنے کی ہمت مجھے ملنے پر یہ مصیبت ٹل سکی۔ اگر بابا کی رہنمائی  مجھے نہ ملتی تو شائد مجھے اور کتنی آزمایشوں سے گزر نا پڑتا۔

اوراب جب بھی کوئی پریشانی آتی ہے میں اس پریشانی کو اللہ کے حوالے کرکے بے فکر ہوجاتی ہو۔ اور دوسرے سمجھتے ہیں کہ مجھے کوئی فکر نہیں میں بے حس ہو چکی ہوں۔اللہ کا ہی بھروسا اور آسرا ہمیں کافی ہےوہ ہم کو ہم سے بڑھکر چاھتا ہے ۔
۔۔۔۔

14 comments:

علی said...

اللہ کریم!

کوثر بیگ said...

بیشک۔۔۔۔شکریہ پڑھنے کے لئے علی بھائی

Jarar said...

:)
min kia, koi bhi is per tabsara nai kr skta Appa. kuch batin bas samjhnay ki hoti hin, sekhnay ki hoti hin. han share kerny ky ley shukreya zarur kahun ga. Alla hum sab ka iman mazbot rakhay Apni zaat per. or bayshak wo Musabbabul Asbab hy.

کوثر بیگ said...

ویلکم ویلکم جرار میاں آپ نے یہاں آکر مجھے تو بے انتہا خوش کردیا ہے ۔اللہ پاک آپ کو اس سے سو گنا خوش و خرم رکھے ۔ اور کمنٹ کے لئے تہہ دل سے شکریہ

میرا پاکستان said...

خدا کی طرف رجوع کرنا اچھی بات ہے مگر تدبیر ضرور کرتے رہنا چاہیے۔ یعنی خدا پر چھوڑیں ہر معاملہ مگر بچے کو ڈاکٹر کے پاس لے جانے جیسی تدبیریں کرتے رہنا چاہیے۔
ہم نے بچپن میں بخار والی گولی پنے سمیت نگل لی تھی جس نے سارے گلے کو رخمی کر دیا تھا۔ مگر خدا کا شکری ہے اس سے جلد ہی جان چھوٹ گئی۔ چونی دونی نگلنا پرانے وقتوں میں تو بہت عام تھا مگر سکے چھوٹے ہونے کی وجہ سے وہ جلد جسم سے خودبخود نکل جایا کرتے تھے۔

افتخار اجمل بھوپال said...

اللہ بخشے میرے دادا کو کہا کرتے تھے ”بیٹا ۔ اللہ بڑا کار ساز ہے“۔ 1947ء کے غدر میں میں اور میری دو بہنیں بزرگوں سے بچھڑ گئے تھے اور پونے تین بعد ہم پاکستان اُن کے پاس پہنچ گئے ۔ اسواقعہ نے مجھے ایک ہی سبق دیا کہ اللہ بڑا کار ساز اور مسبب الاسباب ہے“۔ اسلئے میں بعد کی زندگی میں کبھی پریشان نہیں ہوا کیونکہ میں جانتا ہوں کہ ہونا وہی ہے جو میرے اللہ نے کرنا ہے ۔ پھر کیوں نا سب کچھ اللہ پر چھوڑ کر میں فکر و غم سے بچ جاؤں

Anonymous said...

اللہ اکبر کبیرا......پوسٹ پڑھنے کے بعد کچھ بھی کہنے سے قاصر ماسوائے اس کے: اللہ اکبر کبیرا

سعید

کوثر بیگ said...

میرا پاکستان والے بھائی بے حد شکریہ آپ کا بلاگ پر آنے اور کمنٹ کرنے کے لئے۔۔۔۔۔ آپ نے ٹھیک کہا تقدیر کے ساتھ تدبیر بھی کرنی چاہیے ۔ افف اللہ کتنی تکلیف ہوئی ہوگی ، آپ نے اپنی اس وقت عمر کتنی تھی نہیں لکھی۔ ہاں میرے بھی بڑے بھائی نے ایک بارسکہ نگل لیا تھا تو امی کہتی تھی کہ انہیں الٹا لٹکا کر سکہ نکلا گیا تھا ۔ہمیں وہ واقعہ سنا سنا کر بچپن میں ڈرایاجاتا تھا۔ یہ بچپن کی باتیں بھی بڑی خوب ہوتی ہیں ،ہاہاہاہا

کوثر بیگ said...


اجمل بھائی اللہ ہمیشہ ااپ کے ساھ خیر کا معاملہ کرے آپ نے یہ نہیں بتا کہ پونے تین دن یا ماہ کس عمرط کے تھے آپ اور بہنیں ۔بحر حال جو بھی ہو اللہ کا شکر ہے کہ مل گئے ۔ اللہ ہم کو دکھ اور پریشانی کے بدلہ کوئی نہ کوئی نعمت عطا کر دیتا ہے ۔اب دیکھیے بھائی آپ کو بھی اللہ نے اس مشکل کے بدلہ توکلتُ علی اللہ جیسی نعمت دے دی ۔الحمدللہ

کوثر بیگ said...

انجان بھائی بہت شکریہ تشریف لانے اور کمنٹ و حوصلہ آفزائی کے لئے ۔اللہ جزائے خیر دے

Anonymous said...

Bht khoob, waqei kuch batein bht dair sy or bht mushkil sy samajh aati hein.

Sarwat AJ
Sarwataj.wordpress.com

کوثر بیگ said...

خوش آمدیدہ میرے بلاگ پر آنے اور اپنا قیمتی کمنٹ کرنے کے لئے ،اللہ جزائے خیر دے۔

DuFFeR - ڈفر said...

اللہ بڑا بے نیاز ہے

کوثر بیگ said...

بیشک

بہت شکریہ ڈی بھائی کمنٹ کے لئے

Post a Comment

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔