Monday, February 18, 2013

حال احوال

 
 
 


السلام علیکم
 
میرے عزیز بھائیوں اور پیاری بہنوں
 
 
ایک لمبی چھٹی کے بعد پھر ایک بار آپ سب سے ملنے کی تمنا بلاگ پر کھیچ لائی ہے ۔ آپ لوگ  تو شاید مجھے بھول بھال گئے مگر میں اپنے مصروفیت میں بھی آپ سب کو بھولا نہیں سکی جیسے ہی کچھ وقت ملتا بلاگرز کی تحریروں کا جائزہ لینے لگتی تو کبھی فیس بک کے دوستوں کی  پوسٹ پر نگاہیں دوڑانے لگتی مگر پھر کوئی بیچ میں حائل ہو کر یاد کروا ہی دیتا کہ یہ سب تو فرصت کے کام ہیں پھر کبھی کئے جاسکتے ہیں ۔ دنیا تمہارے لئے ہے تم دنیا کے لئے نہیں ۔ اب اپنوں میں ہو تو اپنوں کے ہو کر رہو  اور میں چاھتے ہوئے بھی نہ سمجھا سکتی کہ جب کوئی میرے مونس و ہمدرد قریب نہ ہوتے تو یہ ہی سب دل کا چین ہوا کرتے تھے ۔ وقت تو کسی کے لئے نہ روکا ہے نہ روکے گا مگر  کبھی کبھی وقت  سے تنگی کی شکایت ضرور ہونے لگتی ہے تو تب وہ اور اپنی قدر و قیمت کا احساس دیلانے لگتا ہے۔ جمرات کی صبح پھر ایک بار اپنے حیدرآباد شہر اور اقارِب کو چھوڑ کر ایک پرندے کی طرح دانہ پانی اور اپنے جیون ساتھی کے ہمقدم رہنے کی خاطر میں ہوا میں اڑان کرنے لگی ۔ انسان جہاں کہی بھی ہو وہ کچھ نیا دیکھتا ہے نیاسیکھتا ہے کچھ یادیں دماغ میں ہمیشہ جمع ہوتی رہتی ہیں تو کچھ لوگ اپنے اچھے اور برے تاثرات چھوڑتے جاتے ہیں ۔ میں یہاں ایک  سال گھر میں رہ کرجو نہ دیکھ پاتی وہ سب مجھے قریب ایک ماہ کچھ یوم میں اس کا کئی گنا زیادہ دیکھنے کو ملا ۔ میں نے دیکھا کہ ایک مسلمان کس طرح اپنے زورِ بازو سے دوسرے مسلمان بھائی کو ناموس کے نقصان پہچانے کا خوف دیلا کر مال لوٹ لے جاتا ہے۔ میں  یہ سن کر بھی حیران رہ گئی کہ ایک حافظہ قرآن اپنی من کی چلانے  کے لئے  ایک بے بنیاد تہمت لگانے سے بھی پیچھے نہیں رہے ۔اور بھی ایسی بہت ساری باتیں میں نے دیکھی ہیں جس کا موقعہ بموقعہ آگے ذکر کرتی  رہونگی ان شاءاللہ ۔
 
ہم بچپن سے سنتے تھے کہ حق کی ہمیشہ جیت ہوتی ہے نیکیوں کا صلہ ہمیشہ اچھا ملتا ہے ۔ مسلمان مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔اور بھی کئی اس طرح کے جملہ میرے دماغ کی تہہ میں محفوظ تھے وہ سب ایک ساتھ چیخ چیخ کر مجھ سے سوال کرنے لگے تھے کہ اس میں سچائی کتنی ہے اگر ہے تو پھر گناہگار کا پلڑا بھاری کیوں ہے ان باتوں پر یقین کرنے والے پس کیوں رہے ہیں۔ رہنا تو میں وہاں اور چاھتی تھی مگر دل اور دماغ کےان سوالات نے مجھے رہنے نہ دیا اور میں اس گوشِہء عافیت میں چلی آئی۔
 
جہاں کچھ بری یادیں ملی ہیں تو کچھ اچھی یادیں بھی پائی ہیں جیسے اللہ کے کرم سے میری بیٹی کی رسمِ منگنی انجام دی گئی ۔ پہلی بار اپنی سب سے چھوٹی نومولود پوتی کو دیکھا ۔  بھتیجے کی شادی  اور تمام رسومات میں تفصیلی شرکت رہی اور بہت سارے مہربانوں سے ہمیں دعوتیں بھی ملی تھی اور کئی نئے پرانے حضرات سے پر خلوص ملاقاتیں بھی ہوئیں تھی۔
 

 
کچھ کتابوں کی خریداری کی گئی ، کچھ کپڑے خریدے گئے اور کچھ ٹھیلے والے کی وہ چیزیں کھائی جن کے بارے میں یہاں بیٹھ کر بار بار کھانے کے بارے میں سوچا کرتے اور بنانے کی نا کام کوشش کیا کرتے تھے جیسے
پانی پوری ، آئس فروٹ ،برف کا گولا، چاٹ ،بوٹ (ہرا چنا )بھٹا یعنی مکئی ، بھیل پوری اور بہت ساری پسندیدہ مزیدار چیزیں اپنے پیاروں کے ساتھ اللہ پاک نے اس عرصہ میں کھلا دی۔ میں نے بہت بار وہاں کی تصویر لینے کی کوشش کی مگر ہر بار ناکام ہوگئی کبھی ساتھ رہنے والوں نے شوآف کہنے لگے تو ارادا ملتوی کرلیا اورکبھی دوسروں کی ناراضگی کا ڈر دیلایا گیا تو کبھی کسی کی رفاقت نے تصویر لینا ہی بھولا دیا چند ایک تصویر ڈھونڈنے پر پوسٹ کے قابل مل ہی گئی ہیں شئیر کئے دیتی ہوں امید کہ پسند فرماینگے 
 
 
میری اس بکواس کو پڑھنے  اور برداشت کرنے کا  بے حد شکریہ ان شاءاللہ بہت جلد پھر ملاقات ہوگی۔۔۔اللہ پاک سب کو خوش و خرم رکھے ۔             















 

17 comments:

فضل دین said...

زبردست۔
آپ نے تو ہمیں بیٹھ بٹھائے بھارت کے بازار دکھا دیئے :)
تصاویر کے کیپشن ہوجاتے تو زیادہ بہتر ہوتا :)

افتخار اجمل بھوپال said...

ماشاء اللہ بچہ بہت پیارا ہے ۔ اللہ خوش نصیب کرے اور نظرِ بد سے بچائے
اس میں شُبہ نہیں کہ اللہ سچ و حق کا ساتھ دینے والے کو ہمیشہ سرخرو کرتا ہے اور اس کی حفاظت بھی کرتا ہے لیکن بات ہے سمجھ کی ۔
پانی پوری اور بھیل پوری کیا ہوتی ہیں ۔ ایک پوری کاغذ کے کٹورے پر اور ایک وسم کی اس سے اوپر والی تصویر میں طشتری میں پڑی ہیں ۔ یہ کونی والی ہیں ؟

افتخار اجمل بھوپال said...

یاد نہیں کہ میں نے آپ سے ذکر کیا تھا یا نہیں ۔ میرے والدین اور دادا دادی کسی زمانہ میں حیدآباد میں رہتے تھے ۔ مجھ سے بڑی بہن سکندر آباد میں پیدا ہوئیں ۔ میری پیدائش سے کچھ ماہ پیشتر حیدر آباد کو خیر باد کہہ دیا تھا

نکتہ ور said...

بہت عمدہ
حذف کاری(پروف ریڈنگ)ہو جائے تو مزید بہتر ہو جائے گا

MAniFani said...

جو مزہ اپنے چوبارے ، نہ بلخ نہ بخارے

اور
خار وطن از سنبل و ریحان خوشتر

کوثر بیگ said...

فضل بھائی پسند فرمانے کا بے حد شکریہ ابھی انڈیا سے آئی ہوں

تو گھر کی صاف صفائی اوردوسرےکاموں کے لوڈ کی وجہ سے زیادہ

تفصیل میں نہ جاسکی ویسے کچھ کچھ پوسٹ ہی میں لکھ دیا

ہے آگے سے آپ کے مشورے کا خیال رکھا کرونگی ان شاءاللہ۔

ہمیشہ خوش رہیں

کوثر بیگ said...



آمین ! اجمل بھائی دعاؤں کا تہہ دل سے شکریہ
آپ نے سچ کہا مگر کبھی کسی پر زیادتی ہوتے دیکھکر بے صبرے

بندہ کی زبان پر شکوہ آہی جاتا ہے ۔ مجھے امی کی ایسے ہی

موقعہ پر کہی ہوئی بات یاد آگئی ، ہو سکتا ہو مظلوم کی

آزمائش ہو یا مظلوم کے درجات بلند کرنا مقصد ہو یا ظالم کی

سزا میں اضافہ کے لئے کیا جارہا ہو اور کبھی اللہ جس کو پسند

فرماتا ہے اس کا دل دنیا سے توڑ کر خود سے جوڑ لیتا ہے انسان

کوبرداشت سے زیادہ تکلیف نہیں دی جاتی وہ ستر ماں کے برابر

چاھتا ہے ۔اللہ ہمیں سمجھ عطا کرے ۔آپ نے بھولی باتیں یاد

کروا کر دل سے ملال نکل دیا۔ جزاک اللہ خیر۔
کاغذ کے کٹورے جس کو ہم حیدرآبادی پڑی یا پڑیا کہتے ہیں

اس میں ہے بھیل پوری بن جانے کے بعد تیار ہے یہ بنتی ہے

مرمرے، تلے ہوئے سیو ،ابلی ہوئ پھلی چنے اور کھٹے میٹھے

مسالہ کو ایک برتن میں ملا کر بنایا جاتا ہے پھر پوری ملا کر

کھاتے جاتے ہیں ۔اوپر کی تصویر میں ساری چیزیں نظر آرہی ہیں۔۔
پانی پوری الگ چیز ہے اسے کہیں گول گپے کہتے ہیں تو کہیں

خپ چپ بھی کہتے ہیں ۔ ہاں بھائی آپ نے بتایا تھا اورمیں نے

جواب میں آپ کے بارے میں پوچھا تھا شاید آپ نے وہ مسیج

نہیں دیکھا تھا اور آج خودآپ نے ہی اتفاقً جواب دے دیا ۔

کمنٹ کا بے حد شکریہ بھائی

کوثر بیگ said...

نقطہ وار بھائی (اگر نام غلط لکھی ہوں تو سوری آپ ایک بار لکھ کر بتائیں تو پھر کبھی بھول نہیں ہوگی ,وعدہ)حوصلہ آفزائی کا شکریہ پروف ریڈنگ کرنے میں اگر آپ ہی میری مدد کرسکے تو کردیجئے گا نوازش ہوگی نہیں تو پھر ایویں پڑھنا ہوگا۔ آپ پہلی بار میرے بلاگ پر تشریف لائے ہیں بے حد شکریہ بھائی ۔ اللہ شاد رکھے

کوثر بیگ said...


خوش آمدید، خوش آمدید ۔ کمنٹ کا دلی شکریہ
بھائی میرے تھوڑی بہت فارسی میں بھی سمجھ لیتی ہوں ۔
آپ ٹھیک کہتے ہیں اپنا وطن اپنا ہی ہوتا ہے ۔ جب میں ٹھیلوں کی تصاویر لینے کہا تو بچوں نے مجھ سے کہا کہ آپ ان نئی نئی اونچی اونچی عمارات کی بڑی بڑی شاپ کی تصویر کشی کیجئے گا۔ میں ان کو جواب دیا کہ یہ سب تو سعودیہ میں موجود ہے مجھے مگر ٹھیلے ،کنجان سڑکیں وغیرہ وہاں کہاں جب بھی مجھے یہ سب یاد آینگے دیکھ لیاکرونگی ۔

کائنات بشیر said...

ویلکم بیک کوثر جی، اپنا گھر دنیا کے جس کونے میں بھی ہو اک مدار کی حیثیت رکھتا ہے۔ اور اپنی جانب کھینچتا ہے۔ یقینا حیدرآباد میں گھر کی یاد بھی آتی ہو گی۔ پودوں کو پانی دینا، صفائی ستھرائی اور نہ جانے کتنے گمان بھی ساتھ رہتے ہوں گے۔ لیکن یہ بہت اچھی اور خوشی کی بات ہوئی بیٹی کی منگنی،بہت مبارکباد قبول کیجئے۔پھر اپنوں سے ملنا، پوتی کو پیار سے گود میں لینا۔ ہمیں تو حیدرآباد کے مناظر نے خوب لطف دیا۔ چار مینار، ساڑھیاں، بھیل پوری، میں لاہور پاکستان سے ہو کر بھی حیدرآباد میں آپ کے مزے جان گئی۔ بس جلدی سے اپنی کتابوں کو ہوا لگوا دیجئے۔ مطلب ان کے نام وغیرہ؟ ان میں سے اقتباسات بعد میں چلیں گے۔ اور کیا کسی انڈین ایکٹرز سے ملاقات ہوئی۔ جیسے دلیپ کمار، دھرمیندر، شاہ رخ خان، عامر خان وغیرہ،ہاہاہا
چلیے اپنی تھکاوٹ دور کیجئے اور گھر کو دوبارہ سنوارئیے، پھر ان شاءاللہ رابطے میں رہیں گے۔ اس خوبصورت پوسٹ کے لیے شکریہ اور خوش رہیں۔ آمین

ڈاکٹر جواد احمد خان said...

بہت عمدہ۔۔۔۔ فرسٹ ہینڈ انفارمیشن میرے لیے ہمیشہ سے زبردست دلچسپی کا باعث رہی ہیں۔کیونکہ جو معلومات ذاتی تجربہ اور مشاہدہ سے ملتی ہیں انکی درستگی کا امکان زیادہ ہوتا ہے حقیقت تو یہ ہے کہ تجربہ اور ذاتی مشاہدہ کا کوئی مول نہیں ہے اگر مشاہدہ بغیر کسی ملاوٹ کے شیئر کیا جائے۔ آپکا مشاہدہ اور تصاویر بہت دلچسپی کا باعث ہیں۔
معلوم ہوا کہ معاشرتی اور دینی اور اخلاقی اقدار کا زوال اب امت کا نصیب بن چکا ہے۔

کوثر بیگ said...


بہت شکریہ کائنات جی بالکل بہنا آپ ٹھیک کہتی ہیں مجھے سچ میں گھر کی دوری کا بہت احساس تھا جیسے کوئی راجا ،راج دہانی سے دور نہیں رہ سکتا ویسے ہی ہم خواتین گھر سے دورنہیں رہ سکتی ۔بہت سارےمٹی والے پودے تو مر گئے صرف پانی میں رکھے پودے ہی زندہ ہیں اور مچھلیوں تین چار ہی کم تھے باقی سب الحمدللہ ہیں
مبارک باد کا بے حد شکریہ آپ کی مبارک باد پڑھنے کے بعد مجھے ون اردو کی یاد شدید آنے لگی ہے ۔۔۔بہت شکریہ اس پوسٹ کو پسند کرنے کے لئے ۔ اب کی بار میں خود کتابوں کی دوکان کو نہ جاسکی بس خاندان کے رائٹرز کے کچھ کتابیں چھاپی تھی تو وہ خرید لائی ہوں یا پھر کسی سے نام دے کر منگوالیا تھا یہاں کے دن گزارنے کچھ نیا تو چاھیے ہی چاھیے ہم بھی آپ کی بہن جو ہیں ،ہاہاہا۔ جب سے حیدرآباد کو سیدھا پلین جانے لگا ہے تب سے ایکٹرز سے ملنے کے چانس بھی ختم ہوگئے ہیں ۔ پیاری بہن اللہ آپ کو بھی ہمیشہ ہمیشہ خوش و خرم رکھے ۔ انشاءاللہ ضرور پھر بات ہوگی بہت اچھا لگا آپ سے بات کرکے۔۔۔۔

کوثر بیگ said...

ڈاکٹر جواد بھائ آپ یقین کریئے میں نے بہت ہاتھ روک کر لکھا اور مرچ مسالہ کا استمعال تو بالکل بھی نہیں کیا ۔اب کیا بتاؤ آپ کو علم،خاندانی شرافت ،دولت ، طاقت ،ہنرمندی ، بیکاری تک اپنے سامنے والے کو اپنی ٖغربت ،علم ،شرافت ہنر وغیرہ کو کیش کرکےالو بنادیتے ہیں۔ اور اسپر نادم بھی نہیں رہتے خود کی سمجھداری پر اتراتے ہیں ۔ قریبی رشتوں میں وہ محبت نہیں بڑوں کا احترام نہیں بیمار کا خیال نہیں بچوں کی تربیت کی اہمیت نہیں ہر ایک جدوجہد میں ہیں کہ بنا کچھ کرے کہ دولت عزت شہرت سب مفت میں اچھا اچھا مل جائے مگر یہ نہیں جانتے کہ محنت کرنے سے دولت ملتی ہے نیک کاموں اور دوسروں کوعزت دینے سے انسان عزت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ آپ نے ایسی بات چھیڑ دی جس کی چبن سے میں بہت بے چین رہتی ہوں مجھ یہ دیکھکر حیرت ہوتی ہے کہ کتنی تیزی سے ہماری قدریں زوال پزیر ہورہی ہیں اگر اس مسلہ پر زبان کھولے تو نہ پہلے کی طرح بچے سر جھکا کر سنتے ہیں نہ آج کے بڑے شرمندہ ہوتے ہیں بس ناپسندیدہ چہرے ہی دیکھنے کو ملتے ہیں خیر بھائی بہت شکریہ آپ کے کمنٹ اور اظہارِ خیال کا خوش رہیں

کاشف said...

حق کی ھمہشہ جیت، مسلمان بھائی بھائی،نیکی کا صلہ نیکی والی باتوں کے بارے الجھن میرے دماغ میں بھی آتی ھے۔ لیکن بات یہ ھے کہ ایک ھوتی ھے آئڈیل دنیا اور دوسری اصلی دنیا۔ لیکن ضروری نہیں کہ دو لوگوں کی آئڈیل دنیا ایک جیسی ہی ھو!! چونکہ ھم اس بات کو تسلیم نہیں کرتے، اس لیے اکثر الجھن اور ٹینشن ھو جاتی ھے۔
سب کے ساتھ آئڈیل رویہ اختیار کریں لیکن کسی سے امید نہ رکھیں کہ وہ آئڈیل رویہ رکھے گا۔

Anonymous said...

ماشاءاللہ سیر تو کرائ آپ نے وطن کی......بہت اچھا لگا پڑھ کے

سعید

کوثر بیگ said...

بہت بہت شکریہ بھائی بلاگ پر تشریف لانے کے لئے اللہ جزائے خیر دے۔
آئیڈیل دنیا کی بات نہیں ہے میرے بحاءی ،اصول عمل،اخلاق اورجائز ناجائز کی بات ہے اگر سیدھی رہ پر چلے تو ہی آئیڈیل زندگی خود بخود بن جائے گی ۔آپ دیکحیے کیا مسلمان کا اب پہلے جیسا وقار اور مقام ہے ۔ جب خاص بنوگے تو ہی خاص کہلاوگے ۔
عمر کا لحاظمال و دولت کا فرق، علم و ہنر کے تجربہ کا خیال تو ہم رکھ لینگے مگر وہ خود پر اور دوسروں پرظلم کرتے ہیں تو دیکھا نہیں جاتا اور کبحی کبھی دل کی بات زبان پر آہی جاتی ہے

کوثر بیگ said...

بہت شکریہ خوصلہ آفزائی کا سعید بھائی ، اللہ شاد و آباد رکھے

Post a Comment

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔