Thursday, January 03, 2013

وطنِ عزیز کو روانگی


2013-01-01 11.14.02
السلام علیکم

میرے عزیز بھائیوں اور پیاری بہنوں :۔ 31ڈسسمبر کو ہم ریاض کنگ خالد ائیر پورٹ سے حیدرآباد کے راجیو گاندھی ائیر پورٹ کے لئے روانہ ہوئے ۔ دو دن  مسلسل جانے کی  تیاری کے بعد تھکی ہاری ہوائی جہاز میں بیٹھی آرام سے سوناچاہتی تھی مگر نیند تھی کہ آنکھوں سے کوسوں دور تھی اسکی جگہ آنکھوں میں اپنے کئی پشتوں سے آباد شہر اپنی خود کی جائے پیدائش  جہاں بچپن سے شادی تک کا ایک لمبا عرصہ گزرا تھا جہاں زیادہ تر رشتہ دار جو ہم سے ملنے بے چین رہتے ہیں اور ہم بھی ان کے لئے بیقرار رہتے ہیں اپنے وطن جانے کی خوشی اپنوں سے ملنے کی تمنا اور غریب الوطنی کے دنوں  میں کچھ کی ابدی جدائی کی یاد کرتی رہی تو کچھ نئی مہمانوں کی آمد کا حساب کرنے میں دل مصروف رہا ۔۔۔ بالاخر وہ وقت آہی گیا جب ہم حیدرآباد کی سر زمین پر قدم رکھے ۔ بے چینی کی  جگہ مانوس چیزوں اور نظاروں کی جستجو میں آنکھیں مصروف ہوگئی ۔ائیر پورٹ میں داخل ہوتے ہی بوڈھی کے گھر تک جانے والے گیم کی طرح لائن بنی تھی جس کے درمیان میں ہم بھی اپنے باری کا انتظار کررہے تھے ۔۔۔۔۔۔ افف اللہ اب ریاض کی طرح یہاں بھی نا جانے کتنی دیر ٹھرنا پڑے مگر  یہ کیا میں تو حیران رہ گئی دیکھتے ہی دیکھتے ہماری باری اتنی جلدی آگئی  ، قریب جانے پر پتہ چلا کہ ایک وقت میں بیس کاونٹر لگے ہیں اور اس پر بہت ہی پھرتی سے کام کرنے والے  برجمان تھے فیملی والوں کو خاص توجہ بھی دیی جا رہی تھی ۔ ہم بہت جلد ہی سامان وغیرہ لے کر باہر آگئے جہاں پر اپنوں کی متلاشی نظریں ہمارا انتظار کررہی تھی جب میں نے سب سے ملاقات کے دوران دوسروں کی  طرف  بھی نظریں دوڑائی تو  دیکھا کہ ہر طرف ایک عجیب  پر کیف مناظرمنتظر  تھے ۔ کوئی چھپٹ کر کسی سے ہم آغوش ہورہے تھے تو کوئی مسرت کی تاب نہ لاکر خوشی کے آنسو بہا رہے تھے اور کوئی کھڑے گھور گھور کر آنے والے کو تکے جارہے تھے جیسے یقین ہی نہیں آرہا ہو کہ ان کے عزیز ان کے سامنے موجود ہیں اور کوئی تو ملتے ہی ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ باتوں کا شروع کر دیا تھا جیسے آگلا پچھلا حساب پورہ کرنا ہے ۔۔۔۔ میں نے اپنے برقعے میں جی بھر کر مسکرا کر یہ نظارے دیکھتے پھر خود سے ہی پوچھ رہی تھی کہ کون کہتے ہیں کہ  دنیا میں اب محبت ختم ہوگئی  ۔۔ کوئی یہاں آکر میری آنکھوں سے دیکھے تو جانے کہ محبت کس کو کہتے ہیں اس کا اظہار کیسے  کیا جاتا ہے ۔۔
ہماری گاڑی تیار تھی سامان زیادہ ہونے سے ایک اور گاڑی کرایہ  پر لی اور گھر کے لئے روانہ ہوئے راستہ بھر میں کبھی حسین چہرے تو کبھی بلیک بیوٹی کا بے حجاب دیدار کرتے تو کبھی بسوں میں دروازے سے لٹکتے بے بس لوگوں کو دیکھتی تو کبھی ٹکسی میں بھر پور زندگیوں کو محسوس کرتی  تھی تو کبھی آٹو کی الہڑ چل کے باوجود تین کی جگہ چھ لوگوں کو سوار دیکھ کر خود کی سانس کو روکتے پاتی اور پھر راستہ کی اونچ نیچ بار بار توجہ اپنی جانب کھچتی اور میرے زبان پر اھد ناالصرط المستقیم ۔ دعا کی طور پر نکل جاتا ۔ وہاں پیسے لے کر نکلو تو سونے کی چوڑیوں ،نئی برقعہ زیب تن کئے خواتین جن کو خیرات دینے سے دل کو اطمینان ہی نصیب نہیں ہوتا تھا اور یہاں ہماری جیب چھوٹی اور ثواپ کا موقعہ  فراہم کرنے والے زیاددہ نظر آتے  اور ہم تنگِ دامنی کی شکایت کرنے مجبور ہو جاتے۔ ہر موڈ پر آثار قدیمہ کی عمارتیں کھڑی اس بات کی گواہی دیتی کہ یہاں ابھی تک اپنے کلچر کو سینہ سے لگا ئے رکھے ہوئے  ہیں ۔ حیدرآباددکن  اب  پرانا شہر کہلائے جاتا ہے تو اس کا دوسرا حصہ جو نو آباد ہے اس کو نیا شہر کہتے ہیں میرا تعلق پرانے شہر سے ہے جہاں  کی سڑکیں  پتلی ہوتی ہے اوریہاں کے لوگوں کے دل کشادہ ہوا کرتے ہے یہاں کے گھر خستہ ہوتے ہیں مگر محبتیں لا زوال ہوتی ہیں ۔   یہ اور اس جیسی کتنی ساری باتوں ہیں جس  کی وجہہ سے میرے لئے کتنی اپنائیت  اور کتنا انس چھلکتا ہے  میں آپ سے  نہیں بتا سکتی ان جیسی کتنی باتوں کو میں وہاں رہ کر مس کیا کرتی تھی شاید وہ لکھنا ممکن ہی نہیں۔ ۔۔۔۔۔ میں سمجھتی ہوں آج کے لئے اتنا ہی کافی ہے 
میں نے آپ سب کا بہت سارا وقت لے لیا ہے سوری  اگر مجھے پھر وقت ملا  تو  ان شاء اللہ اپنی باتیں شیئر کرونگی تب تک کے لئے فی امان اللہ
2013-01-01 11.16.392013-01-01 11.15.05

    -

19 comments:

افتخار اجمل بھوپال said...

بہت خُوب نقشہ کھینچا ہے ۔ لگتا ہے کئی سالوں بعد حدرآباد کی زیارت ہوئی ہے ۔ میرے دادا بچپن میں مجھے حیدرآباد کی باتیں سنایا کرتے تھے ۔ اور ہاں یہ بتایئے گا کہ اسکندر آباد پرانے حیدر آباد شہر سے کتنی دور ہے اور کس سمت میں ہے اور کیا ابھی موجود ہے اسی نام کے ساتھ ؟

Anonymous said...

بہت اچھا لگا وطن کی دوداد پڑھ کر......سلسلہ جاری رکھیے گا

سعید

کوثر بیگ said...

بہت شکریہ بھائی پسندفرمانے کے لئے ۔ پورے دو سال بھی نہیں ہوئے مگر وہاں گھر میں رہتے رہتے دل بے زار سا ہوجاتا تھا یہاں اپنوں کے ساتھ اپنے وطن کی بات ہی کچھ اور ہوتی ہے ۔۔
سکندر آباد چارمینار سے سکندرآباد ریلوے اسٹیشن تک بارہ کیلو میٹر کے قریب ہے ان دونوں شہروں کو جڑواں شہر بھی کہتے ہیں سکندرآباد اب پہلے سے زیادہ آباد اور ترقی پذیر شہر بن گیا ہے۔میرےا غالب خیال ہے کہ یہ حیدرآباد کے شمال کی جانب ہے۔

کوثر بیگ said...

بہت شکریہ سعید بھائی اللہ آپ کو خوش رکھے ۔
اور ہمیں بھی آپ کے کمنٹ سے بہت حوصلہ آفزائی ہوئی ہے ۔ان شاءاللہ کوشش کرونگی جوں ہی فرصت کے لمحہ ملنے پر

فضل دین said...

ماشاء اللہ جی۔ کیا خوب دن منتخب کیا دیس واپسی کا۔۔..۔ ہوائی اڈوں کے معاملے میں دونوں ممالک ایک دوسرے کی فوٹو کاپی ہی سمجھئے :ڈ تصاویر اور تحریر۔۔۔زبردست۔

ڈاکٹر جواد احمد خان said...

بہت خوب!
آپ نے ابتدا تو کردی ہے لیکن اگر آتے ہوئے کیمرہ سے راستے اور شہر کے قابل دید مناظر بھی شامل کردیتیں تو نہایت پر لطف تحریر ہوتی۔
امید ہے کہ قیام کے دوران وہاں کی معاشرت کھانوں رسومات اور دیگر موضوعات کو قلمبند کرنے کی کوشش کریں گی۔

کوثر بیگ said...

فضل دین بھائی جی ہم 2012 کو نکل کر 2013 کو یہاں پہچے سب یہ ہی بات کرتے رہے ہمارے ملنے پر

شمس آباد میں یہ نئی ائیر پورٹ بنا ہے جو بہت اچھا ہے دو سال پہلے تک بھی نظام کی عمارت ہی میں تھا ان شاء اللہ کبھی اس پر تفصیل سے لکھو گی ۔۔اور بھائی میں کراچی اپنے بہنوں سے ملاقات کے لئے جا چکی ہوں۔

کوثر بیگ said...

جواد بھائی یہاں ہوں نا ابھی تو ان شاءاللہ ضرور تصاویر لے کر شیئر کرونگی ۔آجکل یہاں نمائش چل رہی ہے سب وہاں کا پروگرام بنانے کا سوچ رہے ہیں وہاں گئی تو پھر پہلی فرصت پر شیئر کرتی رہونگی ۔۔بہت شکریہ بھائی کمنٹ کے لئے

افتخار اجمل بھوپال said...

آپ نے درست لکھا ہے اپنا اپنا ہی ہوتا ہے ۔ میرے کئی رشتہ دار پچاس ساٹھ سال ملک سے باہر رہے مگر ریٹائر ہو کر واپس ملک میں آ کر بہت خوش ہوئے
میری مجھ سے ڈھائی سال بڑی بہن اسکندآباد میں پیدا ہوئی تھیں

SHUAIB said...

Sikendarabad is north zone
Sikendarabad & Hyderabad both are twins :)

رضوان خان said...

حیدرآباد کے بارے میں مزید جاننے کا خواہشمند ہوں۔امید کرتا کہ ہوں کہ آپ کے توسط سے ہمارے ناقص علم کو کچھ فائدہ ہوگا۔

Anonymous said...

AOA,sister bohat acha laga ap ka blog, Mian be mughal belong to pakistan se,Allah ap ko sehat aur zindige dy ameen

کاشف said...

بہت خوب جی۔
اب تو غالباحیدرآباد دو ٹکڑوں میں بٹ گیا نا؟

کوثر بیگ said...

اجمل بھائی آپ کے کمنٹ سے پتہ چل رہا ہے کہ آپ کے والدین یہاں بھی رہے ہیں اور آپ نے یہ نہیں بتایا کہ کسی بھی زمانہ میں کبھی نہ کبھی آپ حیدرآباد آئے یا نہیں ۔
شعیب بھائی آپ کا بہت شکریہ میرے بلاگ پر آنے اور کمنٹ کرنے کےلئے۔

رضوان بھائی ،ابھی یہاں مصروف ہوں سعودی عربیہ جانے کے بعد زندہ رہی تو ضرور لکھونگی یہ ایسا موضوع ہے جس پر میں جتنا چاہے لکھ سکتی ہوں بس وقت درگار ہے اور میں کوشش کرونگی ۔آپ کی دلچسپی کے لئے بے حد شکریہ
وعلیکم السلام انجان بھائی آپ نے پتہ نہیں تو کم سے کم اپنا نام ہی لکھ دیا ہوتا مغل بھائی تاکہ ہم جانتے کہ کس نے ہمارے بلاگ کو پسند کیا ہے ۔ بے حد شکریہ دعا اور پسندیدگی کے لئے۔۔۔

بہت شکریہ کاشف بھائی آپ کا
نہیں حیدرآباد نہیں بٹا مگر اس نے پھیل کر بہت دور دور تک خود کو آباد کر لیا ہے ۔
آپ سب کو جواب دینے میں دیر کردی معذرت خواہ ہوں

noor said...

بہت عمدہ ۔ ۔ ۔ مختصر مگر بہت خوبصورت تصویر کھینچی ہے آپ نے وطن واپسی کی ۔ ۔ ۔

مگر ۔ ۔ کاؤنٹر والی بات پر اب تک یقین نہیں ہو رہا ہے ۔ ۔ ۔ مگر جب آپ کہہ رہی یقین کرنا ہو ہوگا ۔ ۔ ۔

خیر۔۔۔ ہند میں آپ کا استقبال کرتے ہیں ۔ ۔ (ہمیشہ کی طرح ۔ ۔ دیر سے - - - ہی ہی ہی) ۔ ۔ اور کتنے دن قیام ہے آپ کا۔۔

والسلام

کائنات بشیر said...

وعلیکم السلام،
ارے واہ خوب کوثر سس، آپ تو ان دنوں حیدرآباد انڈیا گئی ہیں۔ جانے کا احوال اور وہاں کے بارے میں اور پکس خوب اچھی لگیں۔ اپنا وقت یہ قیمتی گھڑیاں اپنوں کے بیچ بہت اچھے سے گزارئیے۔ اور واپس آ کر ضرور چھوٹا سا سفری نامہ ہمارے لیے بھی تحریر کیجئے گا۔۔ آخر وہاں کے بارے میں جاننا ہمیں بھی تو اچھا لگتا ہے۔ ویسے کتنے دنوں یا ماہ کا قیام وہاں رہے گا۔ مطلب فرصت سے گئی ہیں یا گنی چنی گھڑیوں کے مطابق ۔۔۔۔

کوثر بیگ said...

نور محمد بھائی اور کائنات جی بہت بہت شکریہ آپ لوگوں کا اتنے پر خلوص کمنٹ کے لئے اللہ آپ کو خوش و خرم رکھے ۔۴۵ دن کے قیام کا اردہ ہے۔ہوسکتا ہے بڑھ بھی جائے گا ۔ابھی تو بہت مصروف ہو ملاقاتوں ، باتوں اور تقاریب میں جیسے ہی فرصت ہوگی پھر آپ سب سے ملاقات کے لئے بھاگ کر آؤنگی ان شاءاللہ پھر ایک بار شکریہ کی آمد کا

Mohammad said...

بہت خوب لکھتے ہیں بھائی جان ۔اتنا خوبصورت بلاگ دیکھ کر طبیعت خوش ہوئی ۔لیکن کافی بریک یعنی کافی دنوں بعد مضمون پوسٹ کرتے ہیں ۔سلسلہ جاری رہنا چاہئے ۔میں آپ کا ای میل ایڈریس ڈھونڈ رہا تھا مگر نہیں ملا خیر کوئی بات
یہ ناچیز کا بلاگ ہے ۔آپ کے کی رائے اور تبصرے کا انتظار رہے گا ۔اس سے یقینا مجھے مدد ملے گی ۔امید کہ آرا سے نوازیں گے۔
والسلام
علم

کوثر بیگ said...

خوش آمدید۔۔۔

بہت شکریہ بلاگ پر آنے اور کمنٹ کرنے کے لئے ۔ اللہ پاک جزائے خیر دے۔

بس مصروفیت کی وجہہ سے زیادہ بلاگ پت ٹائم نہیں دے پاتی باتیں تو بہت ہوتی ہیں شیئر کرنے مگر اپنے فراٗض کی ادائیگی بھی ضروری ہے نا بھائی۔

بہت اچھا لگا آپ کےبلاگ پر جاکر مگر آپ کے بلاگ پر کمنٹ کی آپشن بند ہونے سے میسج نہیں کرسکی ۔ امید کہ آپ اس طرف توجہ فرمائنگے۔۔

Post a Comment

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔