Tuesday, September 25, 2012

سب سے مشکل کام

السلام علیکم


آج مطالعہ کے دوران یہ نظم مجھے اچھی لگی تو سوچا کے آپ سب سے بھی شیئر کر لوں شاید آپ کو بھی اچھی لگے سادے سے انداز میں لکھی گئی یہ نظم

سب سے مشکل کام


خوف خود شناسی سے

اپنے آپ کو ہر شخص

اس طرح بچاتا ہے

جس طرح کوئی روگی

اپنے جسم کے ناسور

شرم سے چھپاتا ہے

میرا سب سے مشکل کام

اپنی ذات کی تہہ تک

اک شگاف کرنا ہے

اور جو ملے اس کا

اعتراف کرنا ہے


مصطفٰی شہاب


بہت شکریہ یہاں تشریف لانے کے لئے

Saturday, September 15, 2012

رنگ بدلتی دنیا




میرے عزیز بھائیوں و پیاری بہنوں

آج کل میں حیرانگی سے اس رنگ بدلتے دنیا و حالات کی تیز گامی دیکھ کر پریشان ہوں کہ کیسے اور کیوں کر اتنی جلدی ماحول میں تبدیلی آرہی ہے ایک طوفانِ ِ بد تمیزی و بد تہذیبی ہے جو ہر سمت سے نئی نسل کے فرد کو گھیر رہی ہے ۔ شاید اس میں ہمارا بھی قصور ہے کہ ہم اپنے بچوں کو بے جا لاڈو پیار اور ڈھیل دے رہے ہیں اور دینی علم کی کمی،عریاں فلم، ،نیٹ کا غلط استمعال ، مخلوط تعلیمی نظام ، میڈیا جس پر چھچھوری باتیں ،خاکہ ،ڈرامہ ،اشتہارات اور نیوز دیکھائی جاتی ہیں ۔ اگر اپنے تجربہ ، معلومات ، بڑے پن یا اپنائیت سے کوئی بات کہی جائے توسامنے سے فوراً انکار میں جواب آئے گا ۔ اگر سمجھانے کی مزید کوشش کی جائے توپھر بھی اپنی بات پر اڑیل بنے رہنگے اور اپنی بات چاھے غلط ہو تلے رہنے کو فخر سمجھے گے ۔ دوسروں کی بات ماننا تو دور کی بات سنا بھی پسند نہیں کیا جاتا ہے اکثر ۔۔۔۔۔

کل ہی کا ایک واقعہ میں شیئر کررہی ہوں اس سے آپ کو باخوبی اندازہ ہوجائے گا کہ کیسے ہماری قوم نشیب کے راستہ کی طرف رواں ہیں ۔۔ ایک صاحب کی بیوی کو کوئی پوشیدہ مرض لا حق ہوا۔ انہیں وہ بتانے کے لئے دواخانہ پہچی تو وہاں میل ڈاکٹر تھا جو دو گھنٹہ کے انتظار کے بعد آنے والا تھا ساتھ جانے والے جو تھے انہوں نے دوسرے دواخانے چلنے کہا جہاں لیڈی ڈاکٹر بھی موجود تھی اور انتظار کی زحمت بھی نہ اٹھانی پڑتی، تو مریضہ صاحبہ نے ناراضگی کا چہرہ بنایا اور بہت کہنے پر پس و پیش کرنے لگی یہ دیکھ کر مریضہ کے میاں نے بیوئی کا ساتھ دیا اور کہنے لگے۔مرد اور عورت ڈاکٹر میں کوئی فرق نہیں ہوتا انکی نظر میں پیشنٹ پیشنٹ ہوتا ہے۔ یہ سب سن کر میں تو حیران ہوگئی کہ کل کی ہونے والی ماں ،ماں بنے سے پہلے ایسی ہو تو ، ان کی زیر تربیت اولاد کا کیا ہوگا۔ وہ کیا تعلیم دے گی آنے والے نسل کو جب کہ پہلا مکتب ماں کے گود کو کہا جاتا ہے ۔ آج کی عورت اتنی بے حیا کیسے ہوگئی کیونکر ہو گئی اوروہ مرد کی غیرت کہاں چلی گئی آخر ۔ کیا خوب اکبر الہ آبادی نے ایسے ہی لوگوں کے لئے اپنا اظہار خیال کیا ہے ۔


بے پردہ کل جو آئیں نظر چند بیبیاں
اکبر زمیں میں غیرت قومی سے گڑگیا


پوچھا جو ان سے آپ کا پردہ وہ کیا ہوا
بولیں کہ جاکے عقل پہ مردوں کے پڑگیا



اللہ تعالیٰ سب سے زیادہ غیور ہے۔اور وہ شرم و حیا کا حکم ہمیں دیتا ہے ۔

جس کو آج کی عورتیں قید کہتی ہیں کاش انہیں معلوم ہوجائے کہ وہ حصار ہے جو ان کے لئے بہہہت ضروری ہے ۔ میرے بابا کہتے تھے "باندی بن کر بی بی بن جا "۔۔۔۔

شاید آپ میں سے چند لوگ میری باتوں کو سچ سمجھ رہے ہیں اور کچھ تو دقیانوسی بھی سوچ رہے ہوں مگر پلیز کل اور آج کے معاشی، معاشرتی حالات مد مقابل رکھکر دیکھ کر غور کرکے مجھے بتائے گا کہ کتنی ہماری قوم نشیب کی رہ پر گامزان ہے اوراس کی وجہہ کیا ہے؟

میری بلاگ پر آنے اور بے ترتیب باتیں پڑھنے کا شکریہ ۔اللہ پاک آپکو خوش رکھے۔۔۔



۔

Tuesday, September 04, 2012

رشتہء محبت





السلام علیکم


میرے عزیز بھائیوں و پیاری بہنوں


بہت دنوں سے بلاگ پر لکھنا ہی نہیں ہورہا تھا وجہہ تھی
عید کی چھٹیوں کے ساتھ اور دس دن چھٹیوں کا اضافہ کرکے بیٹے بہو اور پوتا پوتی ہمارے گھر آئے ہوئے تھے۔ وہ لوگ کیا آئے ایسا لگا جیسےگھر میں نورآگیا ہو، زندگی آگئی ہو ۔ ہر وقت گھر میں خوب گہما گہمی رہتی ۔ رات میں میرے میاں کو دیر تک جاگنا بالکل بھی پسند نہیں اورنہ اب ہم میاں بیوی سے زیادہ دیر بیدار رہا جاتا ہے عادت جو ہوگئی ہے۔ مگر پھر بھی بچوں کے آنے سے سب کو ملکر بیٹھے دیکھ کر ایک دو بجے تک ہم بھی بیٹھے رہ جاتے بہت منا کرنے پر بھی 
سب بچے تو فجر پڑھکر ہی سو رہے ہوتے۔



وقت بھلاکس کے لئے رکا ہے اور کیوں رکے گا ۔ اس کا کام تو چلتےہی رہنا ہے ۔اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے بچوں کے جانے کے دن بھی آگئے ۔ پھرہمیں لگنے لگا وہ کیا گئے اپنے ساتھ زندگی کے سارے رنگ و رونق بھی ساتھ لے گئے ۔ لمحہ بھر میں سب اداس اداس سے بجھے بجھے سے ہوگئے ۔ بچوں کے جاتے ہی میں نے بھی اپنے دل کو قابو میں رکھنے گھر میں موجود دوسرے بچوں سے ِادھر ُادھر کی باتیں نکال کر بہت دیر تک کرتی رہی مگرکب تک رات بہت ہوگئی تھی میاں بھی میری بے چینی کو محسوس کئے اوراکیلے ہی سونے چلے گئے تھے۔ میرا توغالب گمان تھا کہ وہ آفس کے خیال سے ہمیشہ کی طرح سو ہی گئی ہونگے ۔ بہت دیر بعد کمرے میں آئی تو یہ دیکھ کر حیران تھی کہ وہ اتنی رات کے باوجود جاگ رہے تھے ۔اندر داخل ہوتے ہی میری نگاہ ان پر پڑی اور انہیں دیکھ کرمیرے ذہن میں ایک گانے کا مصرع اچانک گونجنے لگا۔’’میں یہاں ٹکڑوں میں جئی رہا ہوں تو بھی ٹکڑوں میں جئی رہی ہے‘‘ میری سوالیہ نظر دیکھ کر میاں جی پیچھے ٹیک لگا کر کہنے لگے ۔ صبح آفس جانا ہے اور نیند ہے کہ آ نہیں رہی پھر مسکرا کر خیالوں میں گم کہنے لگے ۔ بی بی تمہیں یاد ہے کیسے میں شرٹ اتارنے پرزارا مجھے چہی چہی بوائے کہتی تھی ،اور ضیاء بابا ہمارے بیچ بیٹھکر کتنی پیاری پیاری باتیں کرتا اور کیسے اپنے باوا کی غیر موجود گی میں ہم سےکھلونوں کی فرمائش کرتا اور شاکر کے آتے ہی گھبرا جاتا اوراس کے پوچھنے پر بھی ہم بھی کیسے انجان ہوجاتے ۔ پھر سانس لے کر کہنے لگے ،دیکھا جب آپ کے بیٹے کیا کہہ رہے تھے ہمارے ساتھ آپ لوگ ایسے نہیں تھے ۔ پوتے پربہت مہربان ہیں ۔ مگروہ خراب ہوجائیے گا نا بابا۔ ہاہاہا کیا خراب ہوگا ؟ ہم بھی تو اس کے اپنے ہی ہیں نا وہ نہیں سمجھے گا ابھی ! پھر میں بھی کہنے لگی ہاں ہاں سب یاد ہےمجھے بھی۔ ہمارے اپنے ہی ہیں وہ اس کے کہنے سے کیا ہوگا ۔۔ پھر میں بھی میاں کے ساتھ خودبخود خیالوں کی دھارا میں بہنے لگی اوریوں گویا ہوئی۔ کیسے زارا گڑیا بار بار چپ،چپ کی چائے کھلونوں کی پیالیوں میں مجھے پلایا کرتی اور وہ ضیاء بابا جب بھی میں پیار سے قریب آنے کہوں تو پاس آنے کے بعد کچھ ہی دیر بعد کہے گا دادی میں آپ کے فون پرہائی گیلکسی کہوں اور پھر گیلکسی کو علاالدین کے جن کی طرح حکم پر حکم دینے لگتا ۔ ماں باپ سوتے رہتے اور دونوں بہن بھائی آکر آپ کے ہاتھوں ناشتہ خوشی خوشی کرلیتے ۔ایسا تو آپ نے اپنے بچوں کو بھی نہیں کھلایا تھا۔ میاں کہنے لگے سچ کہتے ہیں اصل سے سود پیارا ہوتا ہے ۔ نہیں جی مجھے سود کہنا اچھا نہیں لگتا اسے تو اولاد میں برکت کہنا چاہیے پہلے ایک بیٹا تھا پھر بہو آئی اس نے ہمیں پوتا اور پوتی کی شکل میں نعمت دی ہے ماشاءاللہ ۔۔یہ سب اللہ کا کرم ہے اس کی دی ہوئی برکت ہے آج ہم ہیں کل نہیں رہے گے ہماری جگہ ہماری اولاد رہے گی یہ ہی سلسلہ جاری رہے گا یہ ہی دنیا ہے ایسے ہی دنیا قائم رہتی ہے ۔ جب تک ہم رہنگے یہ اولاد اور ان کی اولاد کے لئے دل میں محبت بھی رہے گی ۔ اللہ پاک ہی نے ہمارے دل میں محبت ڈالی ہے پھر ہم کیوں اس کو نکالنے ادھر ادھر خود کو محو کریں۔ دیکھے ان کو یاد کرنے سے ہی دل کو کچھ تسلی ہوئی ہے ان کی یاد ہی ہمارے دردِدل کی دوا بنی ہے ۔ یہیں ہمارے دلوں میں قید ہیں پھر دوری 

کیسی ۔اللہ کی نعمت ہے تو پھر نعمت سے دکھ کیسا ۔



ہر محبت میں اللہ کی محبت پوشیدہ ہے ۔اگر وہ محبت نہ دیتا تو نہ یہ رشتوں کا
 احترام ہوتا نہ یوں ایک دوسرے کے دل کا سکون بنتے نہ آنکھوں کی ٹھنڈک ۔ یہ رشتہ انسانیت ہی قائم نہ ہوتی۔ وہ ہی دلوں کا پھیرنے والا ہے وہ ہی ہم پر محبت کی نگاہ کرے تو ہم محبت کے سزاوار ہوتے ہیں ۔ پھر کیوں نہ ہم اللہ کی دی ہوئی محبت اس کی خوشی کے لئے ہی کریں ۔وہ ہی اس محبت کا اصلی حقدار ہے ۔ جب تک جس کا ساتھ رکھا، الحمدللہ کہہ لیا اور جب کسی سے جدا ہوئے تو بھی مرضی مولا سوچ لیا۔اصل محبت تو اللہ ہی کی ہے اور اس کی محبت کے لئے اسکی مخلوق سے محبت کرنی چاہیے اسی خیال نے دل کو بہت سکون دیا ۔ ہر خیال سے افضل اللہ کا خیال ہر ذکر سے بہتر اللہ کا ذکر اسی سے دل کو قوت، 
راحت اور سکون بھی ملتا ہے ۔۔۔۔



ہر شئے کو تیری جلوہ گیری سے ثبات ہے

تیرا یہ سوز و ساز سراپا حیات ہے



اللہ تعالٰی سے دعا ہے اے اللہ ہمارے دلوں میں کسی کے لئے بھی محبت ہو یا نفرت صرف تیری راضا کے لئے ہو۔ تو ہم سے دونوں جہاں میں راضی رہے۔۔

آپ سے اظہار ِحال کرکے بہت دل کو سکون ملا ۔

میری عجیب باتیں پڑھنے اور بلاگ پر تشریف لانے کا بے حد شکریہ ۔اللہ تعالٰی آپ سب کو شاد و آباد رکھے ۔۔۔۔۔


۔