Tuesday, August 07, 2012

رزق کی فریاد


السلام علیکم

میری پیاری بہنوں ومعزز بھائیوں

امید کے آپ سب رمضان کے خیر وبرکت سے مالامال ہورہے ہونگے اس دعاوں کی محتاج بہن کو بھی اپنی دعاوں میں شامل رکھیے گا ۔ کچھ خود پر گزرے واقعات سے متاثر ہوکر ایک مضمون لکھا ہے امید کہ آپ لوگ بھی میرے خیال سے متفق ہوگے۔


رمضان کا مہینہ برکتوں ،رحمتوں کا مہینہ ہے۔ الحمد للہ اس میں خوب رزق میں کشادگی اور فراخی ہوتی ہے ہر گھر میں کئی کئی ڈش بنتی ہیں بازار میں بھی کھانے پینے کی اشیاء خوب فروخت ہوتی ہیں۔ عزیز و احباب سے ملاقات کی جاتی ہیں۔دعوتیں ہوتی ہیں اور اکثر دعوتوں میں یہ دیکھ کر سخت الجھن ہوتی ہےکہ محفل و تقریب میں جتنا پکایا جاتا ہے اتنا کھایا نہیں جاتا اور مہمان پلیٹ میں بھر بھر کر ڈال لیا کرتے ہیں اور نتیجہ کھا نہیں سکتے اور باقی بچا کر چھوڑ دیتے ہیں پھر وہ ضائع کردیا جاتا ہے جب کہ ہمارے پیارےنبی محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں کیا اچھا جینے کا طریقہ سکھایا ہے۔


بیان کیا ابن عباسؓ نے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم میں کوئی کھائے تو ہاتھ نہ پونچھے جب تک انگلیوں کو چاٹ نہ لے یا کسی دوسرے کو چٹا نہ دے ۔
(صحیح بخاری)

امام احمد، ترمذی اور ابن ماجہ نے نبیشۃ الخیر الہذلی سے روایت کی کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے کسی پیالہ میں کھایا پھر اس کو چاٹا تو وہ پیالہ اس کیلئے استغفار کرے گا۔


دیکھیے ہم رکابیوں میں کھانا بچا چھوڑ کر اللہ رسول کی نافرمانی کے موجب بن رہے ہیں اور پھرہم اپنا کتنا بڑا نقصان کررہے ہیں ۔ اس کے برخلاف اگر ہم ایسا نہ کرے تو اللہ رسول کے اطاعت گذار بنے رہےگے یہاں تک کے استمعال کیا ہوا وہ برتن تک ہمارے لئے استغفار کرے گا اور ہمیں خیرو برکت بھی حاصل ہوگی۔
ذیل کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف ایک نوالہ گرنے پر ہمیں حکم دیا جارہا ہے نا قدری نہ کرنے کا توسوچوں تب کتنا زیادہ گناہ ہوگا جب اتنا سارے رزق کو ضائع کردیا جاتاہوگا ۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم جب کھانا تناول فرمالیتے تو تینوں انگلیوں کو چاٹ لیا کرتے اور فرمایا کہ جب تم میں سے کسی کا نوالہ گر جائے تو اُسے صاف کرکے کھالینا چاہیے اور اُسے شیطان کے لئے نہ چھوڑے اور ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ پیالے کو صاف کر دیا کریں کیونکہ تم میں سے کوئی نہیں جانتا کہ اس کے لئے کھانے کے کون سے حصّے میں برکت رکھی گئی
(سنن ابوداؤد)


ایک نوالہ تک گرجائے تو اٹھا کر کھانے کا حکم ہے تو پھر اکثر دعوتوں میں اتنا اتنا کھانا پھیکا جاتا ہے جو بہت ہی غلط ہوتا ہے ۔انسان کو اللہ نے آزمائش و امتحان کے لئے پیدا فرمایا ہے۔یہ دنیا تو فانی ہے اصلی دنیا تو آخرت ہے ہم کو چاہیے کہ خیر کو اختیار کرکےشر سے اجتناب برتے اور آزمائش میں پورے اترنے کی کوشش کرے اللہ پاک سورہ آل عمران(200) میں فرماتا ہے واتقوا اللہ لعکم تفلحون یعنی جب تقوی آئے گا (گناہوں سے بچنا)تب علم کا نور آئے گا۔آج کل شادی ولیمہ و دیگر تقاریب ہی نہیں روزمرہ گھروں میں بھی رزق کی بے حرمتی ہوا کرتی ہے ہمیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ

حضرت عا ئشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ فرما تی ہیں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں تشریف لائے اور ایک روٹی کا ٹکڑا زمین پر پڑا ہو ادیکھا آپ نے اس کو اٹھا یا ، صاف کیا اور کھالیا ۔حضور مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کو فرمایا اچھی چیز کا احترام کیا کرو ، روٹی جب کسی سے بھا گتی ہے تو لو ٹ کر نہیں آتی ۔ ( اچھی چیز سے یہ بھی مرا د ہے کہ اللہ کی دی ہو ئی دوسر ی اشیا ءکی بھی قدر کیا کرو ) ۔اگر بچ جائے تو کوئی غریب ہی کو دے دیا جائے ایک غریب کی اعانت ہوگی ضائع ہونے سے بچ جائے گا آپ کو دعا بھی ملے گی نیکی بھی ۔

غفلت و تکبر سے جو اللہ کےرزق جیسے نعمت کی ناقدری کرتے ہیں جو گناہ میں شامل ہے
گناہ کی وجہہ سے اللہ کی امداد بندہوجاتی ہےکیونکہ اللہ تعالٰی فرماتا ہے ﴿یایہاالذین آمنوا إن تنصروا اللہ ینصرکم﴾․ اے ایمان والو! اگرتم اللہ کی مددیعنی اطاعت کروگے تواللہ تمہاری مددکرے گا۔ (سورہٴ محمد:7)


یہ ہی وجہہ ہے کے دنیا میں بہت سارے ممالک میں لوگ بھوکے مررہے ہیں اناج کو ترس رہے ہیں دانہ دانہ کے محتاج ہوگئے ہیں جب بھی ایسے نیوز پڑھے جاتے ہیں تو دلی تکلیف ہوتی ہے مگر پھربھی اگلا گرا تو پیچھلا ہوشیار نہیں ہوتا۔

اقوام متحدہ کے خوراک کے ادارے ایف اے او کا کہنا ہے کہ دنیا میں ایک ارب سے زیادہ افراد بھوک میں مبتلا ہیں تو دوسری طرف اقوام متحدہ ہی کی جانب سے کرائی جانے والی ایک تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ دنیا میں ہر سال تیار کی جانی والی ایک تہائی خوراک ضائع ہوجاتی ہے۔ ہر سال ضائع ہونے والی خوراک کا وزن تقریباً ایک ارب ٹن ہوتا ہے۔یورپ اور شمالی امریکہ میں اوسطاً ایک شخض سالانہ ایک سو کلو گرام قابل استمعال خوراک ضائع کردیتا ہے۔


جب اللہ پاک آپ کو نعمتیں عطا کی ہیں تو اسے ضائع نہ کرے اس کا صحیح استمعال کرے حقدار و غریب محتاج کو دے وہ آپ کے آخرت میں کام آئے گا۔کسی بھی چیز کو ضائع کرنے سے پہلے آپ اس کے بارے میں سوچے کہ جو رزق ہم کو ملا ہے وہ آپ تک پہچتے پہچتے کتنے لوگوں کی محنت ،وقت ذرئعہ اور مرحلوں سے ہوتے ہوئے آپ تک آیا ہے۔ یاد رکھیں جو زرق کا صحیح استمعال کرنا اور اس کو ضائع جانے سے بچانا بھی رزق کا شکر ادا کرنا ہے اور جو لوگ شکر نہیں کرتے ان سے نعمت سلب کرلی جاتی ہے اور واپس نہیں دی جاتی ۔واقعی اللہ تعالٰی کسی قوم کی حالت میں تغیر نہیں کرتا جب تک وہ لوگ خود ہی اپنی حالت نہیں بدل دیتے۔


بعض اللہ کے بندے غریبوں کو اس وقت دیتے ہیں جب وہ خراب ہونے لگے توتب انہیں خیال آتا ہے کہ غریب کو دے دینا چاہئے۔ہمیں چاہیے کہ دوسروں کے لئے بھی ویسا ہی پسند کرے جو خود کے لئے ہو۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا تم ہرگز نیکی میں کمال حاصل نہ کرسکو گے جب تک اپنی پسندیدہ چیز سے کچھ خرچ نہ کرو۔ اور جو چیزخرچ کرو گے سو اللہ کو معلوم ہے۔(سورہ آل عمرا92)۔


۔بچوں کو والدین بچپن سے تھوڑا تھوڑا کھانالینے کی ترغیب دینا اور بچا کر چھوڑنے سے روکنا چاہیے۔ اگر دعوتوں میں زیادہ بچ جائے تو غربا میں تقسیم فوراً کردینا چاہیے تاکہ اچھی حالات میں انہیں ملے ۔
ہمیں چاہیے کہ اللہ کی اطاعت اور پیارے حبیب کی سنت پر قائم رہنے کی کوشش کرنی چاہیے پھران شا ءاللہ ٓاہستہ آہستہ ہم میں تغیر آجائے گا اور ہمیں اللہ پاک سچا شکر گزار بنا دے گا، ان شاء اللہ۔


اللہ پاک! رزق کے ضائع کرنے اور کفرانِ نعمت سے ہمیں بچائےاسراف اور کنجوسی سے بچا کر درمیانی راستہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

بلاگ پر تشریف لانے کا دلی شکریہ

4 comments:

Anonymous said...

جزاک اللہ اسی طرح کی احادیث لکھ کر پڑھنے والوں کو ثواب میں شریک کریں اور اپنے لیے بھی ثواب۔۔

کوثر بیگ said...

بلاگ پر خوش آمدید

اللہ تعالٰی آپ کو بھی جزائے خیر دے اس حوصلہ آفزائی اور تشریف آوری کے لئے شکریہ ،سدا شاد رہیں۔

Anonymous said...

پیاری بہن بہُت بہُت شُکریہ اِتنی پیاری احادیثِ مُبارکہ شیئر کرنے کا ،،،واقعی جب کھانا دعوتوں ،، شادیوں اور اِفطاریوں میں ضائع ہوتا ہے تو اِنتہائ تکلیف ہوتی ہے مُجھے تو باوجُود اِس کے کہ امّی کی تاکید تھی روٹیاں گِن کر نا بنایا کرو برکت نہیں رہتی بھرا پُرا گھر ماشاءاللہ ہمیشہ پکاتے وقت گِنتی تھی تو امّی سے شاندار ڈانٹ کھانے کو مُفت میں مِلتی تھی اب یہاں تو بِالکُل بھی وُہ سِلسِلہ نہیں کہ بچ گئ تو کام والی کو دے دی یا کوئ فقیر آگیا تو اُس کے لِئے بھی بنا لی تو جب بھی گِن کر روٹی بناتی ہُوں تو امّی کی ڈانٹ بھی یاد آتی ہے اور ضائع ہو جانے کے خیال سے بھی ہاتھ رُک جاتا ہے اور یہ بات بھی تکلیف دیتی ہے کہ ہمیں رِزق کی نا قدری کرتے ہُوئے ڈر کیُوں نہیں لگتا ہمارے گھروں میں تو لگے بندھے فقیروں تک کے لِئے کھانا ضرُور بنتا تھا لیکِن یُوں رِزق کی نا قدری برداشت نہیں ہوتی اللہ تعالیٰ ہمیں عقل عطا کرے کہ کل
کو ہمیں اِس سب کے لئے جواب بھی دینا ہوگا
شاہدہ اکرم

کوثر بیگ said...

محترمہ اچھی شاہدہ اکرم صاحبہ اللہ تعالٰی ااپ کو شاد وآباد رکھے بہت اچھی باتیں شیئر کی ہیں پردیس میں رہنے والوں کےلئے یادیں ہی اثاثہ ہوتی ہیں۔اور باہر ہونے رہنے والوں کے ساتھ سچ میں یہ مسئلہ ہے کہ یہاں گھر پر بیٹھے بیٹھے فقیر نہیں آتے اور نہ بچا کھانا چاہیے وہ تازہ ہی کیوں نہ ہو کسی کو دے نہیں سکتے اس لئے لامحلا دوسرے دن کھانا پڑھتا ہے اس طرح باہر رہنے والے بے نفس ہوجاتے ہیں۔یہ جواب دینے کا احساس ہی وہ نعمت ہے جو اللہ ہم کو عطا کردے ۔بہت شکریہ بہنا آپ کا کمنٹ میرے لئے بہت انمول ہے ۔

Post a Comment

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔