Wednesday, June 20, 2012

ایک یاد ایک تجربہ ایک پیغام



السلام علیکم
:میرے اچھے بھائیوں اور پیاری بہنوں
 
بہت زیادہ کام کے بعد فرصت ہوتی ہے تو اپنےساتھ سستی اداسی  بے چینی اور خیالات کا ہجوم لےآتی ہے ۔

کسی بات پر میری بیٹی مجھ سے فرط محبت سےلپٹ گئی تو مجھی بھی اپنی امی کی یاد بے اختیار آنے لگی تو  آج وہی اپنی ایک پرانی یاد ،ایک تجربہ اور ایک پیغام آپ سب سے شیئر کرنا چاہتی ہوں۔




چونکہ میں پردیس میں رہتی ہوں تو اپنی دل کی باتیں کسی سے شئیر بھی نہیں کر سکتی تو خیال آیا کیوں نا اپنے ویب کے بہنوں بھائیوں سے باتیں کر کے اپنی اس باتونی عادت کو تسکین اور دل کو سکون کیوں نہ پہچایا جائے اور آپ سب  کو بھی شاید میری باتیں محظوظ کرے اور مجھے جاننے میں مدد کرے ۔۔ خیر توپندرہ بیس دن سے بہت مصروفیت تھی
بیٹی کا ایڈمیش اسکول میں کروانا تھا  اس سلسلے میں پہلی مرتبہ ٹکسی سے چار پانچ بار  جانے کا اتفاق ہوا تو میری امی کی ایک بہت پرانی بات یاد آئی ۔  وہ یہ کہ امی کی دوستی چار گھر نہیں چالیس گھر سے زیادہ ہوا گر تی تھی چند گھر کے بعد کی ایک خاتون آئی امی سے مشورے کے لئے ان کی بیوہ بہو جو ان کی ذمہ داری تھی انہیں اچھی نوکری ملی تھی مگر وہ حالات سے ڈر رہی تھی کہ کیاکرے نوکری کروایے تو دوسرے محلہ کےلڑکے اسے چھڑرہے ہیں نہ کرو تو مکان کا ایک حصہ کرایہ پر دیا تھا اس کی آمدنی نہ کافی تھی۔ کرے تو کیا کرے

بس یہ ہی پوچھنے آئے تھے۔ہم تو اندراگاندھی کےاِقتدار کے دور میں ہوش سنبھالےتھے کیسے عورت کو کمزور مان سکتے تھے ہم نے امی سے پہلے چھٹ خالہ سے کہا ، آپ پریشان نہ ہو آج کی عورت کمزور نہیں اس میں ہمت ہے وہ چاہے تو کچھ بھی کرسکتی ہےاسلام میں اتنی سختی بھی نہیں مجبوری میں سب جائز ہے ۔
ہم آئے دن کئی اخبار میں خواتین کی حمایت کے کالم روز پڑھتے پڑھتے ازبر ہو گئے تھے وہ سب بولنا چاہتے تھے مگر امی نے ہمیں بلند آواز سے ’’چپ کرو بی بی تم نے نہ کبھی باہرکی دنیا دیکھی ہے نہ باہر کے لوگوں کو جانتی ہو ،لگی دادی بننے‘‘ کہا۔
ہم چپ رہے مگر دل میں سوچتے رہے کہ باہر جانے سے کیا معلومات ہوتے ہیں ویسے امی بھی سارا دن ہمارےساتھ گھر پر ہی رہتی ہیں ہم تو بھی بچوں کا شمارہ کھلونا ،خواتین کا میگزین بانو ، ادبی ماہنامہ بیسویں صدی اورہما اسلامی ڈائجسٹ ھدیٰ اوردوسری کتابیں نصاب سے ہٹ کر پڑھتے ہیں پھر اخبار روز کا روز پابندی سے بابا کو سناتے ہیں ۔ ہر ملنے آنے والوں سے ہم بھی تو ملتے ہیں یہ اور بات ہے کہ امی کے ڈر سے بات نہیں کرتے مگر سنتے توسب ہی ہیں۔ ایک طرح سےہم خود کو امی سے زیادہ واقف کار محسوس کررہےتھے ۔ یہ دنیا کے معلومات تو گھر پربیٹھے بیٹھے ہمیں امی سے زیادہ لگ جاتےتھے امی خود بھی تو ہمیشہ ہم جیسا گھر پر ہوتی ہیں پھر کیوں کر ہم میں کمی ہے ۔ یہ بات سمجھ ہی نہیں آئی۔
امی سے بعد میں کہا بھی تو امی بولی میری بھولی شہزادی بڑے ہوجاو سب سمجھ آئے گا ۔ہم تو خود کو بہت بڑے ہی سمجھتے تھے مگراس بات نے بھی امی کی ہمارےدل کو عجیب لگی مگر امی ناراض نہ ہو سوچ کر چپ رہے

 
پھر امی نے محلہ کے ایک رکشہ ران لڑکا جو اپنی اماں کے گھر کے خرچہ کے ساتھ کالج کی پڑھئی بھی کرتا تھا اس زمانے میں غریب بچے چار کلاس بھی پڑھلے تو بڑھی بات سمجھی جاتی تھی ۔اس کو بلا کر خالہ کی بہو کو لانے لےجانے کی راتب لگوادی امی کا یہ فیصلہ بھی ہمیں لگا تھا کہ امی اس رکشہ ران کی خیر خواہ ہیں ہم مانگنے پرتو پیسے بڑی مشکل سے دیتی ہیں اور ُان کو سواری کرنے کے بعد بنا مانگ بقایا رکھنے کو کہتی تھی مجھے لگا تھا خالہ سے اس رکشہ والے کو پیسے دیلانا چاہتی ہیں۔


پھر امی نے ان کے جانے کے بعد بہت سمجھا یا منایا بڑوں کے بیچ میں نہیں بولنا چاہیے اور اپنے کئے فیصلہ پر خوش بھی تھی میں امی کو بہت چاہتی تھی ۔اس لئے دل میں کچھ نہ رکھتے ان کی خوشی ہمیں سب سے عزیز تھی اور جب کی بات ہمیں آج اتنے برسوں بعد اپنی بیٹی اور جوان بیٹے کو ساتھ لے کر باہر نکلے تو پتہ چلا ۔امی کے گھر کی پابندیوں سے نکل کر میاں کی قید میں آئے تھےکبھی بنا میاں کے کہی گئی ہی نہیں تھے۔ اللہ نے ہمیشہ الحمدللہ سرپرستوں کے حصار میں رکھا۔۔۔۔
بیٹے نےٹکسی بلائی پیسوں کی بات کی راستہ بتایا میرے لئے پیچھے کا ڈور کھولا اور خود سامنے ٹکسی میں بیٹھ گیا ۔ڈرئیور نےاب سامنے کے آئینہ سے پیچھے دیکھنے لگا میں نے محسوس کیا تو سہم کر ڈور کی طرف سرکی اور وہ آئینہ پھر درست کرنے لگا میں نےاور بھی سمٹ کر ڈور سے لگ گئی پھر بیٹے سے دوبارا سعودی ڈرئیوار کو لینے سےمنا کردیا ۔ واپسی ٹھیک رہی دوسرے دن بھی جاتے وقت بھلا مانس ہی بندہ تھا پاکستانی، مگرواپسی میں تیسری بار بھی پاکستانی رہنے کی وجہہ سے زیادہ پیسے مانگنے کے باوجود ہاں کہدی مگر وہ بھی پہلے سعودی ڈرائیوار جیسا ہی نکلا میں سارا وقت ڈور سے باہر دیکھتی ڈور سے چپکے رہی۔
مجھے امی کا وہ بھولا ہوا وہ قصّہ یاد آنے لگا اوراب پتہ چلا کہ خواتین گھر میں کتنی محفوظ ہوتی ہیں۔اللہ پاک مرد کو کفیل بنا کرہمیں گھر پر بیٹھا کر عزت دی ہےہم پر احسان کیاہے۔

 
مجبوری میں باہر جانے والی ان بہنوں کے لئےدل سے دعا نکلی کہ وہ کیسے ان نظروں کا سامنا کرتی ہوں گی اللہ ان کی حفاظت کرے۔


اللہ پاک خاتونِ جنتؓ کی حیا کا ایک حصّہ آجائے ہم میں تاکہ کامیاب خاتون بن سکے ہماری امی کہتی تھی کہ خاتون جنت شرم و حیا کا پیکر تھی جس کا اندازہ آپ کی وصیت سے لگایا جاسکتا ہے جس میں انہوں نے رات کے وقت جنازہ نکالنے اور اپنے جنازہ پر کھجور کی ٹھہنیاں رکھ کر چادر اڑھانے کی تلقین کی تھیں ۔ آپ کے جسم مبارک غیرمحرم پر وصال کے بعد بھی ظاہر نہیں ہونے کے لئے ۔
میں برقعہ پہنے رہنے پر یہ حال ہےتو خیال آیا کہ جو خواتین دفاتر اور کالج کو جارہی ہیں بعض کالج و دفتربرقعہ پہن کرجاتی ہیں،پھر پہچنے کے بعداتار دیتی ہیں اور بعض تو بغیر برقعہ گھوم رہی ہوتی ہیں ان پر کیا بیتی ہوگی۔
میں نے ایک بے پردہ بہن سے پوچھا کے تمہیں برا نہیں لگتا بے چینی نہیں ہوتی تو وہ کہنے لگی پہلے بے چینی بھی ہوتی تھی اور برا بھی لگتا تھا پر اب تو عادت ہوگئی میں نے حیرت سے عادت بھی ہوتی ہے کیا ؟ سوال کیا تو کہنے لگی کہ دیکھ کر کیا کرلے گا گناہ تو اسے لگے گا میرا دل تو صاف ہے۔ اس اچھی سوچ کی اڑ میں یوں ہم شرم و حیا کا جنازہ نکل رہی ہیں ۔


ایسا نہیں ہے ہر دو کو احتیاط کرنی چاہیے اللہ کا خوف دل میں رکھے ۔آج کے دن دل میں خود سے عہد کرے کہ ہم اپنی ماں کا نام اونچا کریگے ان کی طرح ہر عورت کی عزت و قدر دل سے کریگے ۔ ہم خود کو برائی سے بچانے کی کوشش کرینگے یہ ہر بیٹا بیٹی دونوں ہی سوچ لیے ۔


قرآن میں فرمانے الہیٰ ہے ۔۔۔۔۔
اےحبیب صلی اللہ علیہ و سلم ایمان والے مردوں سے فرمادیجئے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور شرمگاہوں کی حفاظت کریں(سورہ نور۔۳۰)۔ اور پھر خواتین کے لئے علیدہ ارشاد فرمایا ۔ اےحبیب صلی اللہ علیہ و سلم ایمان والی عورتوں سے فرمادیجئے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اورشرمگاہوں کی حفاظت کریں۔۔

پس ہم پر لازم ہے کہ اللہ اس کے رسول کی اطاعت کریں نہیں تو ارتکاب جرم کرنے پر اللہ پاک بندے کی باغیانہ جسارت پر سزا دیتا ہے
برائیوں کے راستے بہت لمبے ہوتے ہیں اگر ایک بار ان راستوں پر قدم اٹھ گئے تو واپسی کے راستے کھو جاتے ہیں۔۔۔۔۔جب نیکیاں راہوں کو روشن کرتی ہیں تو کوئی نیک عمل رائیگاں نہیں جاتا۔ نیکی کے راستے کشادہ ہوتے ہیں نہیں تو دیگر صورت میں ارتکابِ جرم کا احساس تک مفقود ہوجاتا ہے ایسا ہونے سے پہلے خود کو اللہ کے احکام کے پابندی کرنے کی کوشش ہم کو کرنی چاہیے۔ رسول کی اطاعت کے لئے تیاررہیے اور دین کی رہ پر گامزان ہوجانا ہے ہمیں ۔یہ چند ساعتوں کی لذت سے نظرپھیر کر آخرت کی ابدی لذت اور ایمان کی حلاوت اور توفیق عطا کرے اللہ پاک ہمیں۔ اللہ ہم خواتین کو پردہ کرنے اورمرد و عورتوں کو بد نظری سے بچاتا رکھے ۔آمین     
میرا یہ پیغام ہے ہر مسلمان فرد کے واسطے۔۔۔

بہت بہت شکریہ بلاگ پر تشریف لانے کے لئے۔

10 comments:

ڈاکٹر جواد احمد خان said...

عمدہ خیالات ہیں۔۔۔۔ بچوں کا ایڈمشن کرانا ایک نہایت الگ قسم کا تجربہ ہوتا ۔۔۔ بہترین اسکول کی تلاش، بار بار اسکول جانا ، اسکول انتظامیہ کو انٹرویو دینا، بچوں کو ہر وقت اچھی بات سکھانے کی کوشش کرنا ایک ایسا تجربہ ہے جو ایک طرف آپکو اپنی اولاد کی زندگی کا لازمی حصہ بناتا ہے تو دوسری طرف آپکو صحیح اور غلط کی بات کی درست طور پر پہچان کراتا ہے۔ میرا تو ماننا یہ ہے کہ جب تک آپ کسی دوسرے کی کردار سازی میں شامل نہیں ہوتے تب تک صحیح اور غلط کی درست طور پر پہچان نہیں کر پاتے۔

کوثر بیگ said...

ڈاکٹر صاحب ،آپ کو آج اپنے بلاگ پر پاکر بے حد خوشی ہورہی ہے ۔اللہ خوش رکھے آپ کو۔۔۔
پسند کرنے کے لئے دلی شکریہ ۔ جی آپ نے ٹھیک کہا جب تجربہ ہوا تو تب ہی صحیح کیا ہے اور اس کی اہمیت کا اندازہ ہوا ۔

shahidaakram said...

کوثر آپ کا بلاگ آج دیکھا بہُت پیاری اور دِل کو لگتی باتیں لِکھیں بہُت اچھا لگا پڑھ کر اور ماؤں کی باتیں تو غلط ہو ہی نہیں سکتیں کہ ماں باپ اپنے تجرُبے کی بُنیاد پر کہتے ہیں جبکہ بچے تو خُود کو عقلِ کُل سمجھتے ہیں وقت ہی تجرُبہ گاہ ہوتا ہے اور ہم وقت سے ہی سیکھتے ہیں بہُت اچھا لِکھتی ہو آپ اللہ کرے زورِقلم اور زیادہ،،،

کوثر بیگ said...

بہنا جی آپ کو اپنے بلاگ پر دیکھ کر بے انتہا خوشی کے ساتھ حیرت ہورہی ہے آپ تو بلاگ کی دنیا کا بہت زیادہ چمکتا تارہ ہو ۔ ان تعریفی الفاظ کا تہہ دل سے شکریہ جب کوئی ماہر کسی نو سیکھ کی تعریف کرتا ہے تو اس کی خوشی ، لگن اور حوصلہ آفزائی میں اضافہ ہوتا ہے آپ کے کمنٹ نے یہ ہی کام کیا ہے میرے لئے ۔بہت شکریہ آپ کی آمد ،کمنٹ اور دعا کے لئے ۔ جزاک اللہ خیر

noor said...

السلام علیکم بہن ۔

برا نہ نانو تو ایک بات عرض کرتا ہوں ۔۔۔

ممکن ہو تو آپ فونٹ تبدیل کر دیں۔۔۔۔ پڑھنے میں بہت دشواری ہوتی ہے ۔۔۔۔
اور بلاگ اسپاٹ کے متفرق اردو سانچے آپ یہاں سے ڈاونلوڈ کر سکتے ہیں ۔۔۔
http://www.yasirnama.com/search/label/%D8%A8%D9%84%D8%A7%DA%AF%20%D8%B3%D9%BE%D8%A7%D9%B9%20%DA%A9%DB%92%20%D8%A7%D8%B1%D8%AF%D9%88%20%D8%B3%D8%A7%D9%86%DA%86%DB%92

اور اس ناچیز کے بلاگ کا ایڈریس - راہ و ربط - میں شامل کرنے کے لئے بہت بہت ممنون ہوں


جزاک اللہ

کوثر بیگ said...

وعلیکم السلام و رحمتہ اللہ
خوش آمدید نور محمد بھائی
اس میں برا ماننے والی بات نہیں ہے یہ تو ٹھیک مشورہ دے کر شکریہ وصولنے والی بات ہے ۔۔میرے لئے ترتیب دینا مشکل تھا بیٹے سے کہنے پر تبدیل کر دیا ہے امید کہ اب بہتر لگ رہا ہو گا ۔آپ کو کیسا لگا بتایے گا اگر بہتر سمجھے تو بھائی
میں نے جو جو بلاگ تفصیل سے پڑھے اور پسند آیے ہیں انہیں شامل کیا ہے۔
ڈرتے ڈرتے ایڈ کیا تھا مگرآپ نے اعتراض نہیں کیا اور الٹا منظوری دینے پرمیں آپ کی ممنون ہوں ۔
اللہ آپ کوسدا خوش رکھے۔۔۔

افتخار اجمل بھوپال said...

پتہ نہیں کیوں ۔ آپ کے لکھنے کا انداز پسند آیا ہے ۔ لکھتی رہیئے ۔ اللہ اچھے سے اچھا لکھنے کی توفیق دے ۔ لکھنے میں سادگی عبارت کی معراج ہوتی ہے ۔

کوثر بیگ said...

اجمل بھائی آپ کو میری تحریر اچھی لگی بہت شکریہ میں لکھتی کہاں ہوں جو دل میں باتیں آتی جاتی ہیں وہ دل ہلکا کرنے کہتی جاتی ہوں نہ الفاظ کا جناو ہے نہ جملوں کی ترتیب بس من کی سنتی اورسناتی اور قلم چلاتی جاتی ہوں ہو سکتا ہے آپ دوسروں کے من اور جذبات کو محسوس کرنے کی حس رکھتے ہوں اور ایک بہن کی کہی بات سمجھ جاتے ہوں یہ آپ کی بڑائی ہے ۔۔۔۔جیتے رہیں بھائی دعاوں میں شامل رکھیے گا ۔۔۔

Unknown said...

آپ کے بلاگ پر نظر ڈالی تو یہاں اپنا پن سا لگ رہا ہے اللہ آپ کے اور اچھا لکھنے کی توفیق دے آمین

کوثر بیگ said...

بے حد شکریہ بھائی اس اپنائیت کے اظہار کے لئےاور بہہہہت بہت شکریہ دعا وں کا اللہ آپ کو دنیا جہاں کی نعمتوں سے مالامال کرے۔۔

Post a Comment

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔