Monday, June 11, 2012

ایک شخصیّت ۔۔ ایم ایف حسین


السلام علیکم
  یم ایف حسین کے انتقال پر لکھا ایک پرانا مصمون اپنے دوسرے بلاگ پر پوسٹ کیا تھا جو دس جون کے آنے پر پھر یاد آنے لگا جو ان کی یاد میں یہاں بھی آپ سب کے ساتھ  شیئر کر رہی ہوں

بڑی مشکل سے ہوتا ہے
چمن میں دیدہ ور پیدا

ایم ایف حسین کا پورا نام مقبول فدا حسین تھاان کا اپنا نام مقبول تھا لیکن وہ اپنے والد فدا حسین کے نام کو اپنے نام سے منسلک رکھتے تھےریاست مہارشٹرا میں۱۹۱۵میں ایک غریب خاندان میں پیدا ہوئےجب یہ دو سال کے تھے ان کی ماں چل بسی۔ یہ اپنا ابتدائی دور۱۹۳۰میں ہندی فلموں کے پوسٹر بنانےوالے معمولی پینٹر کی طور سےشروع کیا۔ان کی لگن ، تخلیقی صلاحیتوں اور مہارت کی وجہہ سے وہ بہت جلد عالمی شہرت کو پالیے۔ آرٹ سے بے پناہ رغبت نے ان کے فن کو چار چاند لگائے اور وہ بلندیوں کو چھوتے ہی چلے گئے یہاں تک کہ وہ دنیا کے عظیم اور مہنگے فن کاروں میں شمار ہونے لگے ۔انگریزی میکزین فوربس نے انہیں بندوستان کا پکاسوِ کے خطاب سے نوازا تھا ۔ ۲۰۰۸ میں ان کی پینٹینگ نے سب سے مہنگی قیمت حاصل کرنے کا عالمی ریکارڈ قائم کیا تھا۔ یہ پینٹنگ ۲۰لاکھ امریکی ڈالر میں فروخت ہوئی تھی۔ اس عظیم فن کار پر کچھ تنظیموں نے مذہبی جذبات سے کھلواڑ کا الزام عائد کر کے ان پر مختلف عدالتوں میں سینکڑوں مقدمات قائم کردیے  ممبئی میں ان کے مکان پر حملہ کرکےتہس نہس کردیا گیا کروڑوں
روپوں کے قیمتی شہ پارےبرباد کردیےگئے کسی فن کار کے لئےاس سے دردناک منظر کیا ہوسکتا ہے کہ خونِ جگر سے بنائی ہوئی پنٹنگز کو  پیروں تلے روندڈالیں۔ شاید اسی واقعہ نے حسین کا دل ٹوڑدیا۔ وہ اپنی جڑیں اور تہذیب و تمدن سے محبت کے باوجود ۔۲۰۰۷ سے وہ خود ساختہ جلا وطنی اختیارکئے ہوے تھے۔افسوس جس نے فن مصوری میں ملک کا نام روشن کیا اسی کی ناقدری کی گئی۔ ممبئ حیدرآباد کے بعد دبئی کے ڈیرہ علاقے میں واقع امارات میں نہایت وسیع اسٹوڈیوبنایا تھا یہی ان کی آخری یاد گار ہےگذشتہ سال فروری میں حسین نے قطر کی شہریت قبول کرکے اپنا ہندوستانی پاسپورٹ واپس کردیا تھا۔

مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض چکائے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے

ان کو حیدرآباد شہر سے گہرا جذباتی لگاو تھا۔ یوں بھی وہ حیدرآباد کے داماد تھےاکثر جاننے والوں نے انہیں کئی بار ننگے پاوں چل کر ایک عام ریستوران میں چائے پیتے اردو اخبار پڑھتے دیکھا ہے۔ وہ اپنی عظمتوں کو حاصل کرنے کے باوجود زمین سے وابستہ رہے۔ وہ بے لوث سادہ دل بے حد مخلص سرتاپا منکسرالمزاج مگر حوصلہ مند اور خوددار فنکارتھےان جیسے عظیم فنکار کی شخصیت کو نہ تو لفظوں میں جکڑا جاسکتا ہے اور نہ رنگوں میں قید کیا جاسکتاہے
بالآخر ہندوستان کے مایہ نازسپوت ۹ جون کو لندن میں شدیدہارٹ اٹیک سے انتقال فرماگئے۔اپنے پیچھے چار فرزدان اور دو دحتران چھوڑگئےان افراد نے حکومتِ ہندکی اس پیشکش کو مسترد کردیا کہ نامور مصور کے جسدخاکی کو بذریعہ طیارہ ہند منتقل کرکےیہاں انھیں مکمل عزاز کے ساتھ دفنایا جائے۔ حسین کے فرزندوں نے بتایا کی ان کی آخری خواہش یہی تھی کہ جہاں انتقال ہوجائے وہیں انھیں سپرد لحد کیا جائے۔ فن کار کی موت کبھی بھی واقعی ہو کہی بھی ہو، جب تک اسکا فن پارے رہیگے وہ بھی زندہ رہتا ہے۔عالمی فنکار سارے عالم ہی کا اثاثہ ہوتا ہے۔

دوگز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آخر آنکھیں بند ہی کرلیں

آزادی سے آسمان میں اڑنے والا ایک پرند خیال کا
آخر زخمی ہوکر سرحد پار مرا
جس کو رنگوں کی دنیا نےپالاتھا
ُاس کو رنگوں کی دنیا نے ماردیا
ُاس کو کتنا شوق۔ ۔ ۔ ۔
سلگتی راہ گذرپر سچ کی پیدل چلنے کا۔ ننگے پاوں
شوق ُسے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
صاف صاف سے کنولیس پر
زخمی دلوں کےزخمی منظر خونِ جگر سے رنگنےکا
جیسے دستِ غیب سےٹپکے سچ کا رنگ
شوقِ فداہو جانے کا
شوق حسینی کیلانے کا
اور قبول بارگاہ ہوجانے کا
رنگوں سےمایوس نہیں تھا
بکھرے منظر دیکھ کے لیکن خوں روتاتھا
اپنے تخیل کے رنگوں سے عالم رنگیں کرجاتا
دن کے اجالوں میں دکھلا تا داغ کئی
رات کو اپنی سوچ کے چاند عطا کرتا
شکلیں دیتا دِل میں نہاں اک اک حسرت کو
اور انسانی شکل میں پنہاں حیواں کو
عریاں کرتا
رنگوں کو بکھرا دیتا
کیسے دیکھتا منظر خونیں
آخر آنکھیں بند ہی کرلیں

میرافضل شولا پور

بشکریہ اعتماد (اس نثری نظم کے لئے)۔

بہت بہت شکریہ آپ کا میرے بلاگ پر آنے کے لئے۔

6 comments:

افتخار اجمل بھوپال said...

آپ کا میرے بلاگ پر تبصرہ پڑھ کر حسبِ معمول مزید جاننے کی جستجو یہاں لے آئی اور آپ کو باذوق پایا ۔ آپ کی اس تحریر پر میں صرف اتنا کہوں گا
یہاں قدر کیا دل کی ہو گی
یہ دنیا ہے شیشہ گروں کی

کوثر بیگ said...

بہت بہت شکریہ تشریف آوری کے لئے،ذرہ نوزی ہے
ایک مصرع میں آپ نے ایک مضمون کہدیا ۔ بہت خوب

Anonymous said...

ﺍﻓﺘﺨﺎﺭ ﺍﺟﻤﻞ ﺻﺎﺣﺐﮐﮯ ﺑﻼﮒ ﭘﮧ ﺳﮯ ﻳﮩﺎﮞ ﺁﻳﺎ ﺍﻭﺭ ﻳﮧ ﺩﻳﮑﮫ ﮐﺮ ﺩﻝ ﺧﻮﺷﯽ ﺳﮯ ﺑﮭﺮ ﮔﻴﺎ ﮐﮧ ﺁﭖ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﮨﻢ ﻭﻃﻦ ﮨﻴﮟ -ﺍﺑﮭﯽ ﺗﻮ ﺁﭖ ﮐﺴﯽ ﺍﻳﮕﺮﻳﮑﻴﭩﺮ ﭘﮧ ﻧﮩﻴﮟ ﮨﻮﻧﮕﻴﮟﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﻳﻮ ﺁﺭ ﺍﻳﻞ ﺁﭖ ﮐﺎ ﺳﻴﻮ ﮐﺌﮯ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﻮﮞ
ﺳﻌﻴﺪ

کوثر بیگ said...

خوش آمدید ،خوش آمدید مجھے بھی بڑی خوشی محسوس ہورہی ہے آپ اورمیں ، ہم وطنی ہیں جان کر ۔آپ نے بتایا نہیں کہ کس شہر سے تعلق رکھتے ہے ۔ میں جونکہ پردیس میں بہت زیادہ عرصہ سے رہتی ہوں اس لئے میرے سے زیادہ وطن اور ہم وطن کی قدر اور کون جان سکتا ہے ۔ اللہ پاک آپ کو ہمیشہ خوش رکھے ۔
ابھی آہستہ آہستہ بلاگنگ کی دنیا کو سمجھنے کی کوشش کر رہی ہوں ۔۔۔۔
میرے بلاگ کو سیو کرنے اور آمد کا بے حد شکریہ ۔۔امید کرتی ہوں کہ آپ کی آگے بھی حوصلہ آفزائی میرے ساتھ رہے گی ۔۔۔۔

Anonymous said...

ﭘﺎﻟﻦ ﭘﻮﺭ ﮔﺠﺮﺍﺕ ﺳﮯ ﺗﻌﻠﻖ ﺭﮐﮭﺘﺎ ﮨﻮﮞ
ﺳﻌﻴﺪ

کوثر بیگ said...

بہت شکریہ سعید بھائی پھر ایک بار تشریف لانے اور کمنٹ کے لئے اللہ جزائے خیر دیے تو جناب آپ کا تعلق گجرات سے ہے ۔ نیوز میں تو بہت نام پڑھا ہے مگر کبھی وہاں جانے کا کبھی اتفاق نہیں ہوا ۔۔اللہ خوش رکھے آپ کو

Post a Comment

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔